ماہ رمضان اور قرآن مجید

مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

قرآن پاک کے رمضان المبارک میں نزول کے متعلق حضرات عبد اللہ بن عباسؓ، سعید بن جبیرؒ ، امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قران پاک کو ماہ رمضان کی ایک رات، لیلۃ القدر میں لو ح محفوظ سے بیت العزت میں اتارا اور پھر وہاں سے پورے تئیس برس میں تھوڑا تھوڑا کر کے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا۔ نزول قرآن کی اس رات کے متعلق خود رب العزت نے فرمایا: ’لیلۃ القدر خیر من الف شہر‘، یہ تو ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اگر یہ میسر آ جائے تو اس ایک رات کی عبادت ۸۳ سال کی عبادت سے زیادہ افضل ہے۔ یہ بڑی فضیلت والی رات ہے۔

دیگر آسمانی کتابوں کی فضیلت کے متعلق بھی بہت سی روایات آتی ہیں۔ مثلاً طبرانی شریف کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو نازل ہوئے، تورات ۶ رمضان کو اور انجیل ۱۳ رمضان کو نازل ہوئی جبکہ قرآن کریم ۲۴ رمضان کو نازل ہوا۔ یہ تفسیری روایات سے معلوم ہوا ہے۔ بہرحال رمضان المبارک کا قرآن پاک کے ساتھ خصوصی تعلق ہے۔ یہ وہ ماہ مبارک ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت بڑی نعمت عطا فرمائی۔

اس ماہ مبارک کو قرآن پاک کے ساتھ بطور یادگار خصوصی لگاؤ ہے، اسی لیے حکم ہے کہ اس مہینے میں قرآن پاک کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کی جائے۔ اگرچہ محض تلاوت منتہائے مقصود نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس سے نصیحت پکڑی جائے، اس کے بتلائے ہوئے اصولوں کی پیروی کی جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔ اسی لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ ’’مقصد از نزول قرآن محض تلفظ نیست‘‘۔ اگرچہ اس زمانے میں محض تلاوت بھی غنیمت ہے، کیونکہ حضور علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے کہ قرآن پاک کا ایک ایک حرف پڑھنے سے دس دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔ جب کوئی شخص خلوص دل کے ساتھ تین حرف ’الم‘ پڑھتا ہے تو تیس نیکیوں کا مستحق ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کی اس قدر برکت ہے کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نے مکتوبات میں لکھا ہے کہ قرآن پاک کے علاوہ جو بھی کلام یا اوراد ہیں، انھیں بغیر سمجھے پڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں، صرف کلام پاک ہی ایک ایسا کلام ہے جسے سمجھ کر یا بے سمجھے ہر حالت میں پڑھنے سے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اس کے لیے صرف ایمان اور نیت صالحہ کی ضرورت ہے۔

قرآن / علوم القرآن

(اکتوبر ۲۰۰۷ء)

تلاش

Flag Counter