لال مسجدکا سانحہ، علماءِ عظام اور صدر مشرف

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

اسلام آباد کی لال مسجد کا نام مہینوں سے ہر اُس آدمی کو ذہنی پریشانی میں ڈالے ہوئے تھا جو اسلام اور اسلامی شعائر سے نام کا بھی جذباتی تعلق رکھتا ہو۔ دعائیں تھیں کہ اللہ کوئی بہتر حل کی صورت نکال دے۔مگردعاؤں پر تو مدت سے ہماری بد اعمالیوں نے درِ اجابت بند سا کر رکھا ہے۔سو، ۱۱ ؍جولائی کو ساری دعاؤں کے علیٰ الرغم یہ پریشانی ایک اتھاہ رنج و الم میں جابدلی ۔ افہام و تفہیم کی کوششیں نہ صرف حکومت کی طرف سے ہوا کیں، پاکستان کے مؤقّرترین علماء کی طرف سے بھی مسجد اور اس سے وابستہ جامعۂ حفصہؓ کے ذ مہ دار برادران(عبدالعزیز صاحب اور عبدا لرشید صاحب) سے پیہم کہا جاتا رہا کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیکر اسلام نافذ کرنے کی راہ سے واپس آجائیں۔ ورنہ اس کے نتائج تنہا ان کو نہیں،کم و بیش سب ہی اہلِ مدارس و مساجد کو خدا نہ کردہ بھگتنا پڑیں گے۔مگر نہ دعاؤں سے کچھ ہونا تھا نہ کوششوں سے۔

اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا 

حکومت ایکشن میں آئی ،اور وہ ہوا کہ اپنے تو اپنے وہ غیر بھی رو ئے جو حکومت پر لعنت برسارہے تھے کہ لال مسجد والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا ،جبکہ انھوں نے حکومت اندرونِ حکومت قائم کر رکھی ہے اور سرِ عام لوگوں کے انسانی حقوق پامال کر رہے ہیں۔اور تو اور ،حقوقِ انسانی کی ایک عالمی شہرت یافتہ چیمپین خاتون عاصمہ جہانگیرجو وہاں ہوتی ہیں، اور بھر پور تنقید کرنے والوں میں شامل تھیں وہ بھی کہہ اُٹھیں ہیں کہ لوگ بیشک غلط تھے مگر مارے بھی غلط طریقے سے گئے ۔ الغرض، مشکل ہی سے کوئی ا س روشن خیال قبیلے میں نکل رہا ہے جو ایکشن کے بعد کہہ رہا ہو کہ ہاں ٹھیک ہوا۔حد یہ ہے کہ پاکستان کی عدالتِ عالیہ (سپریم کورٹ) ازخود اس معاملہ کا نوٹس لیکر حکام کو پے بہ پے ہدایات جاری کر نا اپنی ذمہ داری سمجھ رہی ہے کہ اس سلسلہ کے معامالات میں کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے۔


لال مسجد برادران حکومتی ایکشن(یا آپریشن) سے پہلے تک پوری سوسائٹی میں بالکل یکہ و تنہا(Isolate (تھے۔ کوئی قابلِ ذکر آدمی ان کی حمایت کو تیار نہ تھا۔اور علماءِ دیوبند، جن سے ان برادران کا مسلکی رشتہ تھا ا ن کے اکابر نے تو اپنا سمجھانا کارگر نہ ہوتا پاکر ان سے بالکل قطع تعلق و براء ت کا اظہار اس حد تک کیا کہ اپنے مدارس کی تنظیم ’’وفاق المدارس‘‘ سے ان کے مدرسوں(جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ) کا الحاق بالاعلان ختم کردیا ۔اس سے زیادہ کسی دلیل کی ضرورت اس بات کے لیے نہ تھی کہ یہ دونوں برادران جو کچھ کر رہے اور اپنے طلباء و طالبات سے کرا رہے ہیں یہ ان کی ایک ایسی سوچ ہے جس کی تائید کی کوئی گنجائش ان کے اپنے علما بھی اپنے علم میں نہیں پاتے۔اور ان مؤقّر علماء کرام کے اس موقف کی روشنی میں بجا طور پر سمجھا جا سکتا تھا کہ بالفرض حکومت اُن کے ہاتھ میں ہوتی توحکومت کی طاقت سے بھی وہ سب کچھ کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے جس سے ان برادران کے خلافِ قانون اقدامات پر روک لگائی جا سکے۔ اور کوئی جائز استغاثہ ان کے اقدامات کے سلسلہ میں پیش ہوتا تو اس کو بھی قابلِ شنوائی جانا جاتا۔

یہ ایک ایسی صورتِ حال رونما ہورہی تھی جسے کہا جا سکتا تھا کہ ایک شر سے خیر کا ظہور ہوا چاہتا ہے۔مدارس اور علماءِ مدارس جو تقریباً چھ سال سے اس شک و شبہے اورالزام کا نشانہ بنے ہوئے تھے ( اور یہ زیادہ تر دیوبندی مدارس کے بارے میں تھا) کہ ان میں دہشت گردی کی بھی تربیت ہوتی یا اسکے جراثیم پیداکئے جاتے ہیں،اس صورتِ حال سے بہت کچھ مدد یہ ثابت ہونے میں مل سکتی تھی کہ اس شک وشبہے کو عمومی نوعیت میں مدارس پر پھیلانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ایک اور بڑا مسئلہ مدارس اور علماء کے حوالہ سے اسلامی حکومت کے’’ طالبانی تصور‘‘ کا بنا ہوا تھا،وہ تصور جس کی ایک عملی نمائندگی لال مسجد برادران کرنے لگ گئے تھے، سواس پرعلماء عظام کی متفقہ اور بالاعلان نکیر نے کوئی گنجائش کسی کے لیے نہیں رہنے دی تھی کہ آئندہ اس کو علماءِ پاکستان کے حوالے سے زبان پر لایا جائے ۔ مگر صدر مشرف صاحب کی حکومت، جو چھ ماہ سے یہ تأثر دینے میں لگی ہوئی تھی کہ وہ طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہتی ،اس نے ایک دم سے طاقت کا وہ استعمال کر کے کہ جیسے ساری تأخیر و احتیاط کی تلافی کردینا چاہتی ہو، اس( شر سے خیر نکلتی ہوئی) صورتِ حال کا قصہ آناً فاناً تمام کردیا اور بھرپور توپ و تفنگ سے چڑھائی کرکے یکسروہ ایک نئی فضا اس کے برعکس پیدا کرڈالی کہ ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز۔‘‘ ٹھیک ہے کہ ان برادران کا دستِ اصلاح وانکار اپنے لوگوں سے بڑھ کر غیر ملکی لوگوں (اور وہ بھی چینیوں) تک جا پہنچا تھا اور چینی حکومت اس پر فوراً اپنے سفیر کے ذریعہ حرکت میں آئی تھی، مگر پاکستان میں تو اب تک کتنے ہی چینی انجینئر قتل ہو چکے ہیں۔ یہاں تو قتل جیسا کوئی کیس بھی نہ تھا کہ ایک دم سے فوج کو حکمِ بزن دے دیا جائے، حتیٰ کہ اپنے بندے مرجانے کی بھی پروا نہ کی جائے! 

حکومت کے اس بے ہنگم وغیر متناسب (Inappropriate) اقدام نے خود اس کو تو ملزمین کے کٹہرے میں کھڑا کرہی دیا ہے ،اور اس کو وہی بھگتے گی، مگر یہاں سے علماء کرام کا جو یو ٹرن سامنے آیا ہے کہ وہ سانحہ کے سلسلہ میں مسجد برادران کا حصہ بھلا کر ساری ذمہ داری حکومت پر ڈال رہے ہیں، وہ ہم جیسوں کے لیے تو لال مسجد قصہ کے انجام سے کم المیہ نہیں ہے، اس لیے کہ وہ تمام بہتر صورتِ حال جو گزشتہ چھ ماہ میں اِن حضرات کے ،یعنی دین کے مستند نمائندوں اور اداروں کے حق میں، ان کے ایک قدرے جرأت مندانہ موقف کی بنا پر پیدا ہونا شروع ہوئی تھی، ا س کا قصہ بھی ان کی پوزیشن کی اس تبدیلی کے ساتھ یقیناًختم ہوگیا۔ اور جتنی اطلاعات اب تک سامنے ہیں،جن میں کوئی تضاد بھی نہیں ہے،ان کے مطابق کوئی معقول وجہ بھی نہیں بنتی کہ ۱۰؍۱۱جولائی کی رات میں جو کچھ ہوا، اس کی ذمہ داری میں لال مسجد برادران کا حصہ پسِ پشت ڈال کر محض حکومت کی مذمت کی جائے۔ پہلے دن (۱۱جولائی) سے آج دمِ تحریر(۲۳جولائی) تک کی اطلاعات کے مطابق اس یو ٹرن کی وجہ فقط یہ سامنے آرہی ہے کہ اس رات میں سمجھوتے کا ایک ڈرافٹ (مسودہ) حکومت کے نمائندوں اور علماء کے نمائندوں کے اشتراک سے،بہ منظوری عبدالرشید غازی صاحب، تحریر ہوا۔ پھر وہ ڈرافٹ صدر مملکت کے پاس منظوری کے لیے گیا تو وہاں سے ترمیم کے ساتھ واپس آیا جس پر ’’ہاں یا ناں‘‘ کے لیے آدھا گھنٹہ یا (ایک روایت کے مطابق) بس پندرہ منٹ دیے گئے،کیونکہ فوج نے فائنل آپریشن کے آغاز کے لیے جو گھڑی مقرر کر رکھی تھی، اس کا وقت نکل رہا تھا۔ علماء کے نزدیک ترمیم پر فیصلہ کے لیے یہ وقت ناکافی تھا، اس لیے انھیں سمجھوتے کا کردار چھوڑ کر اُٹھ آنا پڑا، اور پھر ہوا جو ہوا۔


پاکستان کے علماء کرام اپنے معاملات کو سمجھنے میں یقیناًہم سے بہتر پوزیشن میں ہیں، اور یوں بھی یہ معاملہ ایسی جذباتی نوعیت کا ہے کہ اس نوعیت کے معاملات میں باہر سے کوئی رائے زنی ناخوشگواری کا باعث ہو سکتی ہے۔ مگر حالات کے اس جبرکو کیا کہیے کہ پاکستانی مدارسِ عربیہ کے خلاف پروپیگنڈہ مہم نے وہاں سے لے کرافغانستان ہی نہیں، ہندوستان اور برطانیہ تک کے واقعات کو ان مدارس سے جوڑ دیا ہے۔ اس لیے پاکستانی مدارس کا مسئلہ اب سب کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اس لیے ہم نے ایک اطمینان کا سانس لیا تھا کہ لال مسجد اورجامعہ حفصہ کے معاملے میں پاکستان کے اکابر اہلِ مدارس نے جو موقف اختیارفرمایا ہے، وہ ان شاء اللہ مخالف پروپیگنڈے کی طاقت توڑے گا اور مطلع کچھ صاف ہوگا۔ مگراب ۱۱جولائی کے بعد موقف میں جو تبدیلی یکایک آئی ہے، ہمارا خیال ہے وہ بجائے خود ہی اس پروپیگنڈے کو بے حد تقویت نہ دے گی جس کا سحر ٹوٹنے کی امید ہم کر رہے تھے، بلکہ حکومتی آپریشن کے بے ہنگم پن نے جو حکومت مخالف انتقامی تشدُّد کی ایک اندھی لہر پاکستان میں دوڑائی ہے، اسے بھی اخلاقی تائیدعلما کے اس موقف سے ملے گی۔ اور مولانا عبد العزیز صاحب جنھوں نے برقع میں نکل بھاگنے کا ننگ مجاہد علما کے نام کو لگایا (اور پھر وہی برقع پہن کر انٹر ویو دینے کا دباؤ بھی قبول کر لیا) وہ جس طرح کی ’’مجاہدانہ‘‘ تقریر اپنے بھائی کی تدفین کے موقع پر کرتے سنے گئے، اس کا حوصلہ انھیں کہاں سے دستیاب ہوا مانا جائے گا؟ اور اس سب سے بڑھ کر وہ ہزاروں طلبہ و طالبات جن کے ذہن میں اسلام، جہاد اور شہادت کا ایک سفیہانہ اور گمراہانہ تصور ان برادران نے بٹھا دیا تھا اور اس کے المناک و یاس انگیز انجام سے امیدہو سکتی تھی کہ سمجھائے جانے پر یہ نوعمر سمجھ کی راہ پالیں اور پاکستان اور اسلامیانِ عالم کے لیے مزید مسئلہ نہ بنیں، یہ امیدکیسے قائم رکھنا ممکن ہوگی اگر ان کے کان میں وہی آوازیں جائیں گی جو یہ سننا چاہ رہے ہوں گے؟

لال مسجد اور حکومت کے درمیان سمجھوتہ ڈرافٹ کی وہ آخری شکل جو صدر مشرف کی ترمیمات سے بنی اور جس کے نتیجہ میں علماے کرام سمجھوتے کی کوشش سے باہر آگئے، وہ حسنِ اتفاق سے آج (۲۳ جولائی) کے اخبار جنگ کے ایک کالم کے ذریعہ ہمارے سامنے آگئی ہے۔ اسے دیکھ کر تو صرف اپنی بد قسمتی ہی اس کی ذمہ دار نظر آتی ہے کہ سمجھوتہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ جنگ کے اس کالم کے مطابق، جو پاکستان کے معروف صحافی حامد میر صاحب کا ہے، صدر کے منظور کردہ سمجھوتہ ڈرافٹ کی آخری اور حتمی شکل یہ بن گئی تھی کہ (۱) عبدالرشید غازی کو ان کے گھر میں رکھا جائے گا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، (۲) لال مسجد سے باہر آنے والے تمام لوگوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی، (۳) جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کا مستقبل محکمۂ اوقاف، وفاق المدارس اور دیگر حکومتی اداروں کے مشورہ سے طے کیا جائے گا۔ حامد میر صاحب نے ڈرافٹ کی یہ آخری شکل اپنے نام جناب مفتی محمد رفیع صاحب عثمانی کے ایک خط کے حوالہ سے، جو سمجھوتے کی اس کوشش میں علماے کرام کے سربراہ تھے، درج کی ہے۔ ہمارے سامنے سمجھوتے کا ابتدائی مسودہ نہیں ہے، تاہم یہ سمجھنے سے ہم خود کو بالکل قاصر پاتے ہیں کہ مسوّدے کی یہ آخری شکل سابق سے کتنی بھی بدلی ہوئی رہی ہو، پھر بھی اس میں کا کون سا نکتہ ایسا تھا کہ اس کی بنیاد پر سمجھوتے کے کردار سے دستبرداری دے دی جائے؟ 

چھ مہینے جو کچھ لال مسجد سے ہوتا رہا اور خود حضراتِ علما اسے ناقابلِ قبول قرار دیتے رہے، اس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سمجھوتے کی یہ دفعات کسی طرح بھی غیر منصفانہ اور کسی زیادتی پر مبنی کہے جانے کے قابل نظر نہیں آتیں۔ اس ڈرافٹ کے رد کیے جانے سے اندازہ ہوتا ہے، اور یاد آتا ہے کہ خبریں بھی اس طرح کی آئیں تھیں، کہ عبدالرشید غازی نے سیف پیسیج (Safe Passage) دیے جانے(یعنی جہاں اورجس طرح چاہیں، چلے جانے دیے جائیں) کی شرط پر ہتھیار ڈالنے کے لیے آمادگی ظاہر کی تھی۔ پہلے مسودہ کی سب سے اہم بات غالباً یہی رہی ہوگی مگر ایسی حالت میں کہ فوج کے کئی آدمی کام آ چکے تھے جس میں لیفٹیننٹ کرنل کے رتبہ کا افسر بھی تھا، کیا سربراہِ فوج صدر سے امید کی جانی چاہیے تھی کہ وہ اس سے زیادہ رعایت غازی صاحب کو دے دے کہ وہ (جیل میں نہیں) اپنے گھر میں نظر بند کیے جائیں گے؟ ہر چند کہ یہ تأثر و تبصرہ صدر مشرف صاحب کے حق میں جا رہا ہے، جبکہ ہم خود بھی ان کے طرزِ حکومت کے سلسلہ میں، بالخصوص دین کے حوالے سے، کلمۂ خیر کہنے کی گنجائش نہیں پاتے ،مگردین ہی کا کہنا ہے کہ:

یٰآ اَیُّھا الّذِینَ اٰمَنوا کُونُوا قَوّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْط وَلا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنئانُ قَوْمِِ عَلیٰ اَلّا تَعْدِلُوا (المائدہ:۸)
’’اے ایمان والو کھڑے ہو اللہ کے لیے، گواہی دینے والے بن کر انصاف کی۔اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس پر نہ آمادہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔‘‘

اور اس حکمِ الٰہی سے اگر اس راقم کے جیسے لوگ بھی اعراض کرنے لگ جائیں جن کو سال بھر تک آیۃُٗ مِن آیاتِ اللہ حضرت مدنی علیہ الرحمہ(م۱۹۵۷) کے حضور قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردان کی عزت ملی ہے، پھر کس کی شکایت کی جاسکے گی کہ وہ اس فرمان سے آنکھ چرارہا ہے؟ (اللہ جانتا ہے، میں اپنے اس شرف کا اظہاربالکل مجبوراً کر رہا ہوں)

کیسے کہا جائے اور کیسے نہ کہا جائے کہ حکومتی آپریشن کے آثار سامنے آتے ہی غازی صاحب اور ان کے برادر بزرگ کو اوّلاً تو مسجد کے تقدّس اورطلباء و طالبات کے تحفظ کی خاطر خود کو حکومت کے حوالے کردینا تھا کہ پھر جو کچھ بِیتے ان پر بِیتے، مسجد اور طلباء و طالبات پرگولہ بارود کا عذاب نہ آئے۔ دوسرے، وہ جب لڑنے اور جان دینے کو تیار ہو سکتے تھے تو جیل جانا اور عدالت کا سامنا کرنا کیا اس سے بھی کوئی مشکل بات تھی؟ وہ خود کو جب اس قدر برسرِ حق سمجھتے تھے کہ اپنے شیوخ واکابر کی بھی نہ سنیں، تب تو اس حق کے اظہاراور اثبات کے لیے سب سے بہتر ممکن جگہ عدالت کا کٹہرا ہی تھا۔ اور ہمارے بزرگوں نے تواظہارِ حق کے اس پلیٹ فارم کی آواز کو ہمیشہ لبیک کہا اور بھر پور استعمال کیاہے ، اس سے گریز کرکے سیف پیسیج مانگنا یہ تو کسی بھی طرح قابلِ حمایت کردار نہیں بنتا۔


افسوس ،جو نہ ہونا تھا وہ ہوا، اور اس میں صدر مشرف صاحب کے کردار کو بھی یقیناًنظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسٹر محمد علی جناح سوٹ بوٹ کے آدمی تھے، مگر جب وہ قائدِ اعظم اور گورجنرل پاکستان بنے تو اس خطے کی روایات کا پاس کرتے ہوئے کوٹ پتلون کو شلوار اور شیروانی سے بدلا اور سرپہ ٹوپی لگائی۔ مشرف صاحب نے ا س خطے کی روایات کا احساس وپاس رکھنے والوں کے اور اپنے بیچ میں پہلے ہی دن نفرت کی دیوار کھینچ دینے کو دو کتّے بغل میں سنبھالنا اس وقت ضروری سمجھا جب وہ بیرونی صحافیوں کو انٹرویو دے رہے تھے، اور اپنے لیے آئیڈیل بھی علی الاعلان ٹرکی کے روایت شکن مصطفی کمال کو ٹھیرایا۔ یہ پاکستان کی جڑوں میں پلائی ہوئی دینی روایا ت کے خلاف اعلانِ جنگ کی زبان تھی، اور پھر زیادہ دیر نہیں لگی کہ وہ جو قرآن نے کہہ رکھا تھا کہ:

’’ جس کسی نے’’ سبیلَ الْمؤمنین‘‘ چھوڑ کرکوئی دوسرا راستہ اپنایا تو ہم اس کو اسی راستے پہ چلائیں گے جس پر وہ چل دیا۔ ‘‘(النسآء :۱۱۵) 

موصوف کے اسی راہ پر چلتے چلے جانے کا سامان ستمبر ۲۰۰۱ کی ۱۱ کے بعد امریکہ کے دھمکی لپٹے اس سوال سے ہوگیا کہ ’’ہمارے ساتھ یا ہمارے خلاف‘‘؟ مشرف صاحب کا جواب تھا کہ ’’آپ کے ساتھ!‘‘ اور اس امریکہ کے ساتھ میں انھیں پیہم اپنوں سے نبرد آزمائی کی راہ پہ چلنا پڑا۔ لیکن اب یکایک یہ صورت رونما ہو ئی ہے کہ چھ برس سرد و گرم کا ساتھ نبھانے کے باوجود امریکہ خود مشرف صاحب ہی کی سلطنت میں ان کی مرضی کے خلاف کارروائی کو پر تول رہا ہے۔ وہ اس سے جس قدر بھی پریشانی کے عالم میں نہ ہوں، کم ہے۔ان کے ارد گرد کے لوگوں کے بیانات اس صورتِ حال کی صاف تصدیق کر رہے ہیں۔ وقت ہے کہ مشرف صاحب اپنی اپنائی ہوئی راہ (غیرَ سبیلِ المؤمنین) سے تائب ہوکر راہِ مؤمنین کی طرف واپس آئیں اور اللہ سے مدد کے طالب ہوں، کہ اس کی مدد کے سامنے امریکہ یا غیرِ امریکہ کی طاقت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ہماری تاریخ میں اس کی نظیریں موجود ہیں کہ حکمراں نے تائب ہوکر اللہ کے سامنے قوم کی حفاظت و عزت کے لئے زمین پہ ماتھا رگڑا تومعرکہ کے نتائج بڑی طاقت کے حق میں نہیں اس کے حق میں نکلے۔ مشرف صاحب ماشاء اللہ حج سے بھی مشرف ہو چکے ہیں،عمرے بھی شاید کئی کر لیے ہیں اورکعبۂ مقدسہ میں قدم رکھ پانے کی سعادت سے بھی بہرہ ور ہوئے ہیں۔ان کے لیے رجوع اِلیٰ اللہ مشکل نہ ہونا چاہیے۔ اور یہ ان کا وہ قدم ہوگا کہ قوم سے ان کی بگڑی ہوئی بھی بن جائے ۔

مشرف صاحب ابھی کچھ دن پہلے اسی لندن میں، جہاں یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کے ’’ہاں یا ناں‘‘ والے سوال کے جواب میں ان کی’’ ہاں‘‘ محض قوم کی خاطر ڈر سے تھی، ورنہ ان کی تربیت ڈرنے کی نہیں لڑنے کی ہے۔ یہ بات موصوف نے اس سوال کے جواب میں کہی تھی کہ لال مسجد کے خلاف ایکشن لینے سے وہ کیوں ڈر رہے ہیں اور ان الفاظ میں کہی تھی کہ ’’ہاں، صرف ایک دفعہ ڈرا ہوں، اور یقین جانو صرف قوم کی خاطر‘‘۔ اور اس ایک دفعہ کا مطلب صاف ظاہر تھا۔ تو بسم اللہ، اب وہ اس نئی آزمائش کو ’’ڈرجانے‘‘ کی عار سے دامن صاف کرنے کا موقع سمجھیں اور رجوع الیٰ اللہ کی طاقت پہ ایمان لائیں۔ اللہ ان کے لیے آسان کرے۔ 

حالات و واقعات

(اکتوبر ۲۰۰۷ء)

تلاش

Flag Counter