مولانا محمد بشیر سیالکوٹی
کل مضامین:
3
اسلامی درس گاہوں میں تعلیم قرآن کا طریقہ
یہ امر کسی صاحب علم سے مخفی نہیں ہے کہ ہمارے ملک بلکہ برصغیر پاک وہند کے پورے علاقے کی اسلامی درسگاہوں بلکہ سرکاری سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی، قرآن کریم کی تعلیم وتدریس کا جو طریقہ عرصہ دراز سے رائج چلا آ رہا ہے، وہ ’ترجمہ قرآن کریم‘ کے نام سے معروف ہے۔ یہ بچوں کی ابتدائی تعلیم کے مرحلے میں تین چار سال تک جاری رہتا ہے اور اس کی تدریس یوں ہوتی ہے کہ درس کے آغاز پر ایک طالبعلم مقررہ آیات تلاوت کرتا ہے، پھر معلم ان آیات کریمہ کا اپنی مقامی زبان اردو، پشتو یا سندھی وغیرہ میں ترجمہ سکھاتا ہے۔ وہ ان کا ترجمہ کرتے ہوئے ان میں مذکور مشکل...
ہماری درس گاہوں میں عربی زبان و ادب کی پس ماندگی
میں آج کی نشست میں وطن عزیز کی سرکاری اور غیرسرکاری درسگاہوں میں، جن میں ہمارے قابل قدر دینی مدارس یا عربی مدارس سرفہرست ہیں، عربی زبان و ادب کی تعلیم و تدریس کی پسماندگی اور اس کے اسباب اور اس سے پیدا ہونے والے متنوع نتائج پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ تدریس عربی میں پس ماندگی سے کیا مراد ہے؟ اولاً میں اس امر کا اعتراف کرتا ہوں کہ خصوصا ہماری دینی درسگاہوں میں عربی زبان وادب کی نہایت وقیع اور معیاری کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، نیز عربی گرامر کے دونوں شعبوں یعنی علم صرف اور علم نحو میں مستند اور مفصل کتابوں کی تدریس ہوتی ہے اور ان کی تعلیم وتدریس کئی...
دینی مدارس میں عربی زبان کی تعلیم کا منہج
معزز حاضرین! مجھ سے قبل میرے بزرگ دوست مولانا زاہد الراشدی ہمارے فکری اور مسلکی رویوں کے حوالے سے نہایت اہم گفتگو فرما رہے تھے۔ مولانا کی گفتگو مجھے بھی جرات سخن عطا کرتی ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی گفتگو میں بعض باتیں ایسی فرمائی ہیں جو عام طور پر لوگ نہیں کہتے۔ ۱۹۶۵ء میں، میں کراچی میں حاضر ہوا تو حضرت مولانا یوسف بنوری صاحبؒ کے ہاں ٹھہرا۔ ہفتہ عشرہ مولانا مفتی محمد شفیعؒ کے ہاں بھی گزارا۔ مفتی صاحبؒ نے اپنی وہ معروف تقریر جو اب ’’وحدت امت‘‘ کے نام سے چھپی ہوئی ہے، ہمارے ہی ادارے ’’جامعہ تعلیمات اسلامیہ‘‘ میں فرمائی تھی۔ مولانا عبد الرحیم...
1-3 (3) |