اجتہاد کی عام فہم تعریف کریں تو اسے ’’ماہرین قانون و شرع کی، متعینہ اصولوں کی روشنی میں، مسائل اور احکام معلوم کرنے کی پر خلوص اور انتہائی کاوش کا نتیجہ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح یہ منصب یقینی طور پر علماے کبار اور ماہرین کا ہے۔ اس پر ہمیں ان کا منصب ہر لحاظ سے تسلیم ہے۔ وہ اس بارے میں کسی اجارہ داری کا دعویٰ کریں یا نہ کریں، ہم ان کی یہ حیثیت بلا شرکت غیرے مانتے ہیں۔ اس تسلیم و رضا کے ساتھ ساتھ سوال، بحث اور جائزے کا حق بھی اہل حق تسلیم کریں گے۔ اس طرح اجتہادی مسائل کی دو سطحیں ہیں: علمی اور طالبانہ۔ علمی سطح پر یہ حق اہل علم و فن آپس میں استعمال کر سکتے ہیں، لیکن طالب علمانہ سطح پر یہ حق ہر پڑھے لکھے شخص کو حاصل ہے۔ فرق یہ ہے کہ اس میں طالب علمانہ جستجو کی حدوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ اس مضمون میں میرے پیش نظر طالب علمانہ جستجو کے سوا کچھ نہیں۔
’الشریعہ‘ کے اپریل ۲۰۰۷ء کا کلمہ حق دیکھا۔ چند سطور کا خلاصہ درج کرتا ہوں:
’’اصولی طور پر کسی غیر مسلم کا ملک کی عدالت عظمیٰ کا سربراہ بننا بہر حال محل نظر ہے۔ خاص طور پر اس پہلو سے کہ چیف کو شریعت کورٹ اپیلٹ بنچ کی سربراہی بھی کرنا ہوتی ہے۔ اس حیثیت سے قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر کا اختیار ایک غیر مسلم جج کے ہاتھ میں دے دینا شرعی اصولوں کے مطابق درست نظر نہیں آتا۔‘‘
مولانا زاہد الراشدی صاحب کے اس کلمہ حق کی تائید سینیٹر مولانا سمیع الحق، ممبر قومی اسمبلی قاضی حسین احمد کے بیانات میں پائی جاتی ہے۔ ’’امیر شریعہ‘‘ کے یہ جملے میرے لیے خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ کلمہ حق پر میرے کلمات نا حق سہی کہ میرے پیش نظر تو صرف یہ ہے کہ انصاف کی روشنی دور دور تک پھیل جائے۔ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ یہ کار خیر مسلم جج کے ہاتھوں سے ہو یا غیر مسلم سے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جرات و استقامت کے پیش نظر حسبہ بل کا حشر کرنے اور وردی پوش کے گناہوں کی توثیق کے تمام گناہ معاف۔ ا ن کی جرات کو پوری وکلا برادری سلام و نیاز پیش کر رہی ہے۔ اس موقع پر ایک اصولی بحث کا حوالہ بے وقت کی راگنی معلوم ہوتا ہے۔
مسلمان ججوں نے جو کارنامے انجام دیے ہیں، وہ ہماری تاریخ میں ’’سنہری الفاظ ‘‘سے لکھے جاتے ہیں۔ پاکستان کو آئینی انحراف کے راستے پر ڈالنے کا تمام تر اعزاز جسٹس منیر کو ہی دینا پڑے گا۔ یہ ہلال پاکستان یا نشان حیدر سے کسی طرح کم نہیں ہو گا۔ مزید برآں یہ بھی واضح ہے کہ نظریاتی انحراف بلکہ (بقول ارشاد احمد قریشی، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، سابق صدر اسلامی جمعیت وکلا، پاکستان) ارتداد کی فرد جرم ڈاکٹر سید نسیم حسن شاہ پر عائد ہو گی۔ یہ ارتداد انہوں نے حاکم خان کیس کے فیصلہ میں پوری صراحت سے کیا ہے۔ اگر اس ارتداد کو دیکھنا ہو تو نسیم حسن شاہ کے فیصلہ کا سرسری طور پر پڑھ لینا ہی کافی ہے۔ یہ دونوں ما شاء اللہ مسلمان تھے۔ ان سے مسلمانی چھیننے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں ہو سکتا۔ اگر کبھی دستور کے آرٹیکل ۶ کو پامال کرنے کا سوال اٹھا اور کوئی جرنیل اس کی زد میں آیا تو جرنیلوں کے ساتھ ساتھ اس کی وردی تلے کابینہ میں بیٹھنے والے پی این اے کے منسٹرز کو بھی کٹہرے میں لانا انصاف کا تقاضا ہو گا۔ ان میں سے بعض اب بھی زندہ ہیں۔ زندہ حضرات میں پروفیسر غفور احمد، پروفیسر خورشید احمد، چوہدری رحمت الہٰی جماعتی مناصب پر فائز ہیں۔ یہ تینوں حضرات نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ہیں۔ چوہدری رحمت الہٰی صاحب کا تو مجھے اچھی طرح علم ہے کہ وزارت سے باہر آ کر انہوں مرکزی شوریٰ کو درخواست دی کہ اب ان کے اخراجات میں اضافہ ہو چکا ہے، لہٰذا ان کی تنخواہ میں اضافہ کیا جائے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ وزیر کے طور پر ان کی کار کردگی قیم یا نائب امیر جتنی بھی نہیں تھی، اس لحاظ سے وزارت سے واپس آکر تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ بر حق تھا۔ وجہ یہ ہے کہ جماعت کے امیر اگر وردی پہن لیں تو پوری شوریٰ گھر بھیجی جا سکتی ہے۔ سید مودودی مرحوم و مغفور نے بھی تو انکوائری کمیٹی کو گھر بھجوانے کے لیے بلڈوزر چلایا تھا۔ اسی روایت کی پیروی میں قاضی حسین احمد نے بھی اپنے خلاف جماعت کے بزرگوں کی جانب سے لگائے گئے الزامات کا اسی طرح سامنا کیا تھا۔ الزامات میں دستور اور شوریٰ کے فیصلوں کی بار بار خلاف کا الزام شامل تھا۔ مرکزی مجلس شوری نے الزامات کی تحقیق کے لیے کمیٹی قائم کی مگر محترم قاضی حسین احمد امارت سے استعفا دے کر نئے انتخاب کروا کر دوبارہ منتخب ہو گئے۔ یہ بنیادی سوال ہے کہ الزامات پر فیصلہ انکوائری رپورٹ پر مرکزی شوریٰ نے کرنا ہے یا نئے انتخابات میں رائے دہندگان نے کرنا ہے؟ ایک اخباری رپورٹ ہے کہ ایک ڈیڑھ ماہ پہلے بھی قاضی حسین احمد کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک راجہ ظہیر نے پیش کی، مگر وہ ’’وردی اور سوٹے‘‘کی مدد سے واپس کروا دی گئی۔
بات ہو رہی تھی وردی تلے کابینہ میں بیٹھنے والوں میں سے جو اللہ کے حضور پہنچے ہوئے ہیں، ان کی تصویر یا لاشوں کو پھانسی دینے میں کچھ حرج نہیں ہوگا۔ کم از کم ان کی قبروں پر پھانسی کا نشان ہی نصب کر دیا جائے۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ انصاف نہ صرف کیا جائے بلکہ انصاف ہوتا نظر بھی آنا لازم ہے۔ اسی طرح ایسے سیاست دان جنہوں نے جرنیلوں کو آؤٹ آو ٹرن ترقیاں دے کر فوجی تسلط کی راہ ہموار کی، وہ بھی گردن زدنی ہیں۔ میرا منشا یہ ہے کہ آئین سے انحراف کی راہیں بنا کردینے کو بھی تعبیری انحراف اور وائیولیشن قرار دیے بغیر انصاف ہوتا نظر نہیں آئے گا۔اس طرح جسٹس منیر اور نسیم حسن شاہ پر آرٹیکل ۶ کی وائیولیشن کی فرد جرم عائد کرنا پڑے گی۔ جب تک اسی طرح کا دو ٹوک انصاف نہیں ہو گا، ہماری تاریخ کی سمت درست نہیں ہوگی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی صاحب کردار غیر مسلم، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چیف سیکریٹری ہوتا تو کیا ہمای تاریخ اسی رخ پر جاتی؟ اسی طرح جسٹس منیر کی جگہ کارنیلیس یا کوئی اور غیر مسلم جج ہوتا تو ہماری آئینی تاریخ مختلف نہ ہوتی؟ مسلم اور غیر مسلم کی بحث سے زیادہ اہمیت کردار کی ہے۔ فقہی اور اصولی مباحث کی کوئی حد اور موقع بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ بے موقع فقہی بحث عملی زندگی سے دوری اختیار کرنے والے علماے کرام کے لیے علمی تفریح تو ہو سکتی ہے مگر موقع کی نزاکت کا تقاضا کچھ اور ہی ہو گا۔ یہ کہنا بجا کہ اصولی طور پر اسلامی مملکت کا چیف جسٹس غیر مسلم نہیں ہو سکتا، مگر میری یہ آرزو ہے کہ ۱۹۵۵ء میں منیر کی جگہ، فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس کارنیلیس ہوتے۔ میرا منشا مسلمان کو گرانا نہیں۔ مسلمان کو گرانے کے لیے اس کے کرتوت ہی کافی ہیں، تاہم اچھے مسلمان ججوں کی مثالیں بھی ہماری عدلیہ میں ہمیشہ موجود رہی ہیں۔ مملکت خداد پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر عبدالرشید کے وقار کا حلف دیا جا سکتا ہے۔ جسٹس محمد رستم کیانی کا لاہور ہائیکورٹ کی سربراہی کا دور بھلایا نہیں جا سکتا۔ مگر اس طرح کے لوگ تو گنے چنے ہیں۔ غیر مسلموں میں جتنے بھی ہوں گے، وہ اقلیت سے متعلق ہونے کی وجہ سے اپنے تشخص اور وقار کا تحفظ کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ویسے بھی دور حاضر میں اعلیٰ منصبی روایات کا سرچشمہ تو بہر حال مغرب ہی ہے۔ کسی مسلم جج کے کم عیار ہونے کی مثال میرے علم میں نہیں، مگر بہت سے مسلمان ججوں کے کرتوت بھی دنیا جانتی ہے۔ ہماری تاریخ بھی بڑی عجیب ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے چیف جسٹس بننے سے انکار کر دیا اور حکمرانوں کے عتاب کا نشانہ بنے، مگر یہ ستم ظریفی بھی ہماری ہی تاریخ کا حصہ ہے کہ ان کے شاگرد اول امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے چیف جسٹس کا عہدہ قبول کر لیا۔
کردار کو چھوڑ کر ایمان اور عقیدے، مسلم اور غیر مسلم کی بحث، مجتہدین کا شغل بیکار اور تفریح بے لذت یا پر لذت تو ہو سکتی ہے، مگر یہ مباحث اپنی افادیت کے لحاظ سے قابل غور ہیں۔ ایمان و عمل جدا جدا نہیں ہو سکتے۔ یہ inseparable ہیں۔ علما نے ان کو سخت اجتہادی کاوشوں سے الگ الگ کر کےseparable بنا یا ہے۔ مروان بن حکم کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک بدر فرمایا تھا۔ جب اہل علم سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مروان بن حکم کے کردار کے محاسن و معائب واضح فرمائیں تو علماے کرام ان کو عزیمت و رخصت کے درمیان کھڑا کر دیتے ہیں۔ جب یہ سوال کیا جائے کہ رخصت و عزیمت کے مابین کوئی حد فاصل بھی تو قائم کی جائے تو جواب ارشاد ہوتا ہے کہ یہ ہمت کی بات ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ گدھے اور گھوڑے میں فرق نہ کیا جائے۔
کیا ہمارے مسلمان جرنیلوں اور ججوں نے سیناریٹی کے خلاف اپنی تقرری کو کبھی ٹھکرایا؟ اس کی بھی ہماری عدالتی تاریخ میں صرف ایک مثال ہے اور وہ ڈاکٹر جاوید اقبال کی ہے۔ ان کے بارے میں صرف ایک حوالے سے میری منفی رائے مثبت ہو گئی۔ اپنی خود نوشت’’اپنا گریباں چاک‘‘ میں انہوں نے اس کی پوری تفصیل درج کی ہے۔ آج تک کسی نے اس کی تردید نہیں کی۔ مگر یہ اکلوتی مثال ہے۔ وگرنہ جسٹس اسلم ریاض جیسے لوگ چیف بن گئے اور وکلا برادری ان کو مجسٹریٹ درجہ سوئم کے طور پر یاد کرتی رہی۔ ککے زئی برادری کے ججوں کی کرپشن کی وجہ سے بوبا کمپنی مشہور ہوئی۔ پلاٹ کیس میں جسٹس ٹوانہ نے تمام ججوں کے کردار کو عیاں کر دیا ہے۔ جسٹس ٹوانہ نے پلاٹ کیس کی سماعت کے دوران ، پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا ریکارڈ طلب کیا۔ ریکارڈ ملاحظہ کرتے ہوئے جب ریٹائرڈ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے پلاٹ والی فائل سامنے آئی تو اسے دیکھ کر ایک طرف رکھتے ہوئے طنز اور حسرت بھرے لہجے میں کہا، ’’یہ تو شاہ صاحب کی فائل ہے‘‘۔
جسٹس ٹوانہ کے ساتھ ان کے برادر ججوں نے کیا کیا؟ وہی جو پنجاب کے اعلیٰ ترین سیشن جج ملک کاظم علی کے ساتھ مجاہد ختم نبوت جناب نوید انور کی قیادت میں ، ہم نے کیا۔ ایک مرحلے پر ان سے سوال کیا گیا کہ اگر وہ کسی دیگر ضلع میں سیشن جج تعینات کیے جائیں تو ان کا طرز عمل اتنا ہی معیاری ہو گا جتنا کہ گوجرانوالہ میں تعیناتی کے دوران رہا، تو ان کا بر جستہ جواب تھا: کبھی نہیں۔ وہ دیانت داری کے معیار کو قائم رکھنے کی روش پر مایوس ہو گئے ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے نوید انور نوید اور اس کے ساتھیوں سے کوئی شکایت نہیں، مگر جماعت کے ارکان وکلا، جو بار کونسل تک میں موجود اور موثر ہیں، ان کے بارے میں مجھے ہمیشہ گلہ رہے گا کہ وہ مشنری ہونے کے دعوے دار ہیں، انہوں نے آزمائش کے اس دور میں نوید انور نوید کا ساتھ کیوں دیا۔
جسٹس کار نیلیس کا چند سالہ دور ایک طرف، پاکستان کی پوری عدالتی تاریخ دوسری طرف رکھ دی جائے تو کارنیلیس کا پلڑا بھاری رہے گا۔ مولانا تقی عثمانی اور پیر کرم شاہ کے شریعت کورٹ کے فیصلوں کو میں نے دیکھا ہے۔ وہ سب ایک طرف اور کار نیلیس کا کنٹری بیوشن دوسری طرف۔ ان دونوں میں معیار کے لحاظ سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ مسلمانوں کو اسلامی قانون و شریعت کی تعبیر و تشریح کی اجارہ داری کا استحقاق جتلانا بجا مگر محض اس کے لیے کسی صلاحیت کا بھی کوئی معیار لازم ہے یا نہیں؟ کلمہ حق میں کبھی علما ججوں کی تعبیری کجیوں پر بھی بات ہونی چاہیے۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں دو نام ایسے سیاہ ہوئے ہیں کہ ہماری برادری اورپروفیشن ان کو مرفوع الذکر خیال کرتے ہیں۔ پہلا نام تو اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ دوسرا نام سید جسٹس نسیم حسن شاہ کا ہے۔ انہوں نے حاکم خان کیس میں فیصلہ کر کے بقول دوسرے آئینی ارتداد کا ارتکاب کیا ہے۔ انہوں نے دستور پاکستان کے بنیادی اصولوں (قرار داد مقاصد، آرٹیکل 2-A ) کو زیرو کر دیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کو اس کا اختیار تھا، جیسے تخلیق آدم کے وقت سے آدم و ابلیس کو نیکی و فساد کا اختیار دیا گیا۔ اختیار کا بے جا اور غلط استعمال ہے جس سے عزت و ذلت، فرازی و رسوائی نصیب ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ عزت و ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مولوی تمیز الدیں کیس میں جسٹس منیر کے ایک فیصلے سے ہماری سیاسی تاریخ بر باد ہو کر رہ گئی ہے۔ کلمہ حق میں جسٹس منیر کے فیصلے کا ذکر ہے، مگر امیر شریعہ جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب کو علم ہونا چاہیے کہ مولوی تمیز الدین کیس میں فیصلہ دینے والا فل بنچ تھا۔ بنچ کے دیگر ارکان کی سیناریٹی کے لحاظ سے تشکیل اس طرح تھی:
محمد منیر، چیف جسٹس
اے ایس ایم اکرم
اے آر کار نیلیس
محمد شریف
ایس اے رحمان۔
اس بنچ میں چیف جسٹس سمیت تمام جج مسلمان تھے۔ ایک ہی جج، اے آر کار نیلیس غیر مسلم تھے۔ یہ اعزاز مسلم چیف جسٹس کو ہی حاصل ہوا کہ آئین کی عمارت منہدم کر دینے والا فیصلہ صادر کرے۔ تمام مسلمان ججوں نے چیف کے لکھے فیصلے کی تائید کی۔ اختلافی فیصلہ واحد غیر مسلم جج کو نصیب ہوا۔ کار نیلیس کے اختلافی فیصلے کی شروعات کو ایک غیر مسلم کے کلمہ ناحق کے طور پر ہی ملاحظہ فرما لیں۔فیصلہ کی رپورٹ پی ایل ڈی ۱۹۵۵ء فیڈرل کورٹ ۲۴۰ بر صفحہ نمبر ۳۱۹ پر موجود ہے۔
It is proper that, realizing the grave issues which are involved in this case, I should commence with an expression of my sincere regret at being unable to agree with the view on one part of the case, which has commended itself to my Lord the Chief Justice and my learned brothers, in consequence of which the appeal has been allowed. It will be my principle concern in this judgement to indicate with such clarity and brevity as may be possible to me, the reasons which compelled me to come to a different conclusion. The resolution of a question affecting the interpretation of important provisions of the interim constitution of Pakistan in relation to very high matters which are involved, entails a responsibility going directly to oath of office which the constitution requires of a Judge, namely to bear true faith and allegiance to the constitution of Pakistan of as by law established and faithfully to perform the duties of the office to the best of the incumbent's ability, knowledge and judgment."
چیف جسٹس منیر کا فیصلہ صفحہ نمبر ۲۴۰ سے شروع ہو کر ۹ا۳ کے نصف پر ختم ہو جاتا ہے۔ اس طرح یہ ۸۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ جسٹس کار نیلیس کا اختلاف صفحہ ۳۱۹ سے صفحہ ۳۷۲ تک پھیلا ہوا ہے۔ کار نیلیس کا اختلافی فیصلہ ۵۳ صفحات کا ہے، جب کہ دیگر مسلمان ججوں نے چیف سے اتفاق کیا ہے۔ سب سے زیادہ مختصر اتفاق جسٹس محمد شریف کا ہے ۔ اس تقدس مآب اتفاق کے الفاظ یہاں درج کر دینا چاہتا ہوں۔ یہ الفاظ بھی آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں:
Muhammad Sharif, J -- I agree with my Lord the Chief Justice.
اس طرح فل بنچ کا یہ فیصلہ چیف کا لکھا ہوا، چار اور ایک کی اکثریت سے کیس طے کیا گیا بلکہ تہ کر دیا گیا۔ جسٹس منیر کا نام پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ کے ماتھے کے سیاہ داغ کے طور پر ریکارڈ ہو چکا ہے۔ اس سے اتفاق کرنے والے کا ذکر میں نے کر دیا ہے۔ تاریخ سے بڑا منصف کون ہے؟ فیڈرل کورٹ کا یہ فیصلہ سندھ چیف کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل میں کیا گیا۔ سندھ چیف کورٹ میں مولوی تمیزالدین خان نے رٹ دائر کی تھی۔ مولوی تمیزالدین خان ۲۴ اکتوبر ۱۹۵۴ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے سپیکر تھے۔ گورنر جنرل نے اسمبلی توڑنے کا اعلان جاری فرمایا۔ اس اعلان کو مولوی صاحب نے سندھ چیف کورٹ میں کالعدم قرار دلوانے کے لیے رٹ درخواست پیش کی۔ رٹ دائر کرنے کے لیے مولوی تمیز الدین رکشے میں برقعہ پہن کر عدالت میں گئے۔ یہ رٹ درخواست فل بنچ نے سماعت کے بعد منظور کی۔ بنچ میں درج ذیل جج شامل تھے:
کونسٹینٹائن، چیف جسٹس
ویلانی،
محمد باچل
محمد بخش جج ۔
شعبہ قانون سے متعلقین جانتے ہیں کہ کسی بھی بنچ میں عام طور پر چیف جسٹس کی موجودگی بڑی اہم ہوتی ہے۔ چیف کا ذہن ہی غالب آتا ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ چیف سے ہٹ کر باقی جج کوئی فیصلہ کریں۔ سندھ چیف کورٹ کے چیف جسٹس غیر مسلم تھے۔ ان کے ساتھ ایک اور سینئر جج بھی غیر مسلم تھے ۔ اس طرح سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ متفقہ تھا۔ کورٹ نے مولوی تمیزالدین کی درخواست منظور کرتے ہوئے گورنر جنرل کے دستور ساز اسمبلی کو توڑنے کا حکم غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کر دیا۔ سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کے آخری الفاظ تبرک کے طور پر درج کرتا ہوں، البتہ یہ ایک فقہی مسئلہ ہو گا کہ ایک غیر مسلم چیف جسٹس کے الفاظ، خواہ وہ کتنے ہی صائب ہوں، تبرک قرار دیے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ بہر حال میں ان کے انگریزی الفاظ بطور تاریخ کی امانت کے یہاں نقل کرنا اپنے لیے اعزاز خیال کرتا ہوں:
''In view of all these reasons, I allow the petition. A writ of mandamus as prayed will be issued against all the respondents. The appointment of respondents 4-5-7-8 and 10 being illegal, a writ of quo warrant will be issued against them. I further direct that the respondents do bear the petitions costs.''
کارنیلیس کا چیف جسٹس منیر سے اختلافی نوٹ بھی تاریخ میں محفوظ ہے۔ کارنیلیس عیسائی ہوتے ہوئے پاکستان کی عدالتی تاریخ کے ہاں محبوب ومحمود ہیں۔ اہل مدرسہ اور ارباب شریعہ کچھ ہی کہتے رہیں، مجھے تو کارنیلیس کے لیے حدی خوانی بھی کرنا پڑے تو گریز نہیں کروں گا۔رہا کارنیلیس کے لیے مغفرت کی دعا کا سوال تو میرے دل سے دعا تو نکلتی رہے گی۔ اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں مجھے کچھ کہنے کا منصب حاصل نہیں۔ اس کے بر عکس جسٹس منیر کے مسلمان کے ہونے کے باوجود اس پر سہ حرف بھیجتا رہوں گا۔ منیر کے نام کے ساتھ لفظ جسٹس لکھنا میرے نزدیک اس لفظ کی توہین ہے۔ کارنیلیس کا یہ فیصلہ ’’افضل الجہاد کلمۃ حق‘‘ کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ مولانا زاہد الراشدی کی روایت کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے صدر مشرف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں ویمن پروٹیکشن ایکٹ کی حمایت پر مستعفی شدہ رکن جناب محترم جاوید غامدی صاحب نے صدر جناب سید مشرف کے سامنے سکوت اختیار کیا۔ یہ سکوت ’’تفقہ کی معراج ‘‘ہو سکتا ہے۔ تقی عثمانی اور پیر کرم شاہ کے فیصلوں کو میں دیکھا ہے۔ ان کے تمام فیصلوں پر کار نیلیس کی سڈنی کانفرنس کی ایک تقریر بھاری ہے۔ میں کار نیلیس کے فیصلوں کا ’’ڈائجسٹ ‘‘تیار کرنے کا عزم رکھتا ہوں۔
میں دوبارہ کہہ دوں تو کچھ مضائقہ نظر نہیں آتا کہ کیا ہم اپنی تاریخ کو خود اپنے ہاتھوں سے برباد کرنے پر اجارہ چاہتے ہیں؟ ویسے دیکھا جائے تو اسلامی مملکت میں اعلیٰ عدالتی منصب پر پہنچ کر کسی غیر مسلم نے شاید ہی کبھی تعبیر و تشریح کی ڈنڈی ماری ہو۔ یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ غیر مسلموں نے اسلامی مملکت کے بڑے مناصب پر زبر دست خدمات انجام دی ہیں۔ ایسے میں بات کردار، وفاداری، کنوکشن اور کنٹری بیوشن کی ہے۔ جسٹس کارنیلیس کے درجن سے زاید فیصلے اجتہادی درجے کے ہیں۔ تقی عثمانی اور پیر کرم شاہ کے فیصلوں میں اجتہادی روح بے جان سی نظر آتی ہے۔ اتنی بے جان کہ کار نیلیس کے سامنے طفل مکتب کی سی بات ہو۔ میرے نقطہ نظر سے اس پہلو سے فنی اہلیت کو اہمیت دینے میں ہماری جانب سے بخل اور تعصب ہو رہا ہے۔ یقینی طور پر میری یہ رائے طالب علمانہ درجے میں ہے۔ میں مانتا ہوں کہ کلمہ حق میں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ کلمہ حق ہی ہو گا مگر صورت حال کے تناظر میں بے موقع اور بے جوڑ ہے۔
عملی دانش کی مثال کے طور پر ایک کیس کا حوالہ بر موقع ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس محمد افضل ظلہ رہے ہیں۔ ان کی قانونی مہارت، نظریاتی یکسوئی، دیانت و امانت، غرض کچھ بھی متنازعہ نہیں۔ شہرت بھی بہت اچھی رہی۔ نظام احمد کیس میں انہوں نے ایک صدی کے عدالتی فیصلوں کو ٹریس کرتے ہوئے، الہٰ آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محمود کے ایک دیرینہ فیصلے پر انحصار کیا اور ’’تکمیل خلا کا اصول‘‘ اختیار کیا۔ انہوں نے اس اصول کا اطلاق کرتے ہوئے یہ قرار دیا کہ جن امور میں قانون موجود نہیں، ان میں شریعت موثر و نافذ ہے۔ میرے نزدیک یہ بہت بڑا اجتہادی فیصلہ ہے۔ ہماری عدالتی تاریخ کا یہ سب سے پہلا بڑا اجتہادی فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر حاکم خان کیس میں، جناب ظلہ صاحب نے خود کو بنچ سے باہر رکھ کر کمزوری کا اظہار کیا اور ایک سید زادے کی سربراہی میں بنچ تشکیل دے کر آئینی ارتداد کی راہ ہموار کر دی، حالانکہ کیس کی آئینی اہمیت کے پیش نظر چیف جسٹس خود کو باہر رکھ کر بنچ تشکیل نہیں دے سکتے تھے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دستور پر قرار داد مقاصد میں درج اصولوں کی بالا دستی کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ قرار داد مقاصد کے دستور پر بالا دست دستاویز کی حیثیت کے خاتمے کے بعد پاکستان کو دار الاسلام تسلیم کرنے میں تحفظات کا جواز ہے، مگر کسی کو اس کی پروا نہیں۔
میرا منشا یہ ہے کہ اس صورت حال میں مسلم اور غیر مسلم کی بحث غلط ہے، موقع کی نزاکت کے خلاف ہے۔ یہاں شریعت کورٹ کے کیسوں پر اپیل کا سوال بھی نہیں۔ اصل میں عدلیہ کا وجود، آزادی اور خود مختاری خطرے میں ہے۔ اس موقعہ پر قائم مقامی کے حوالے سے اسلامی مملکت میں چیف کے تقرر کا سوال بے وقت کی راگنی ہے۔ آپ میرے نقطہ نظر کو کلمہ حق پر کلمہ نا حق کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ سوال بھی ہے کہ پارلیمنٹ میں عشروں سے بیٹھے ہوئے مجتہدین اسلام، آج یہ سوال اٹھا رہے ہیں۔ کیا اس پہلو سے انہوں نے کبھی دستور میں کوئی ترمیم پیش کی؟ تیسری بار وزیر اعظم بننے پر پابندی لگوانی بڑی اچھی بات ہے۔ میں اسے ایم ایم اے اور موجودہ حکومت کا کارنامہ خیال کروں گا۔ یہ اجتہادی بصیرت و بصارت کی معراج ہے، مگر فکر میں جامعیت، بے لاگ اصولیت اور تواتر لازم ہیں۔ کیا اس تکرار منصبی کا اطلاق ہر پہلو پر ہو گا؟ ۱۹۸۵ء اور اس سے بھی پہلے سے سینیٹ میں بیٹھے ہوئے مجتہدین کیا اس مسئلے پر کسی معاملے میں خود پر اطلاق کریں گے؟
اس مرحلے میں ڈاکٹر حمید اللہ کے ایک اور حوالے پر انحصار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خطبات بہاولپور کے صفحہ نمبر ۱۱۶ پر ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ اسلام میں کسی معین طرز حکومت کو لازم قرار نہیں دیا گیا بلکہ عدل و انصاف کو لازم قرار دیا گیا ہے، چاہے اس کو کوئی بھی انجام دے۔ اگر آج حضرت ابو بکر، حضرت عمر یا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہم زندہ ہوں تو میں بخوشی انہیں سارے آمرانہ اختیارات سونپنے کے لیے آمادہ ہوں، کیونکہ مجھے ان کی خدا ترسی پر پورا اعتماد ہے۔ اس کے برخلاف اگر آج یزید زندہ ہو تو میں اس کو انگلستان کے مہر لگانے والے بادشاہ کے برابر بھی اپنا حکمران بنانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ کیریکٹر کی اہمیت کو الگ رکھ کر محض فنی مباحث علمی تفریح تو ہو سکتی ہے مگر دین سے اس کا کوئی تعلق جوڑنا دور کی کوڑی لانے والی بات ہے۔ میں اسے نہیں جانتا، نہ ہی مانتاہوں۔ سر حقتل سے حبیب جالب مرحوم،
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو
میں نہیں جانتامیں نہیں مانتا
اوپر جسٹس کار نیلیس کا حوالہ آ گیا ہے تو ذکر کر تا چلوں کہ وہ پاکستان کے چیف جسٹس رہے مگر ان کی پورے ملک میں کوئی جائداد نہیں تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یحییٰ خان کے دور میں وفاقی وزیر قانون بھی رہے مگر پھر بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں زندگی گزاری۔ فروری ۱۹۶۸ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ کافی طویل العمر ہوئے۔ یکم مئی ۱۹۰۳ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ۲۱ دسمبر ۱۹۹۱ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ آخری ایام میں علالت کی خبریں باہر آئیں تو ان کے اونچے کردار کے حوالے سے وکلا برادری میں محض ان کی قدر دانی کے طور پر یہ مطالبہ ہونے لگا کہ کم از کم ایسے شخص کے بیماری کے اس مرحلہ میں علاج ہی حکومت کو کرانا چاہیے۔ چنانچہ حکومتی ذمہ داروں نے وکلا طبقے کے اس مطالبے کے پیش نظر جسٹس کارنیلیس کو سرکاری طور پر علاج کی پیش کش کی تو انہوں نے کہا کہ پنشن میں جس قدر علاج کرانا ممکن ہے، وہ کرا رہے ہیں۔ اس سے زاید کے وہ مکلف ہیں اور نہ ہی خواہش مند۔ قومی خزانے سے علاج پر خرچ کروانے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔ اس طرح کی عزیمت کوئی کہاں سے لائے گا؟ یہاں پلاٹ کیس میں کون سا جج ہے جس نے بہتی گنگا سے ہاتھ نہیں دھوئے؟ جسٹس عبد المجید ٹوانہ کا فیصلہ دیکھا جا سکتا ہے۔ یقینی طور پر جسٹس ٹوانہ جیسا جج کوئی دوسرا نہیں ہو گا۔ ہماری عدلیہ میں ذرا یہ بھی بتائیے کہ جسٹس ٹوانہ کے ساتھ اس کے ہم نشین ججوں نے کیا کیا؟
بات طویل ہو رہی ہے۔ میں نے اپنے چھتیس سالہ وکالت کے کیریر میں بیسیوں سیشن ججوں کو دیکھا ہے، مگر میں انتہائی دکھ کے ساتھ اعتراف کرتا ہوں کہ ان میں سے اچھی شہرت کے پانچ سات ہی جج دیکھے ہیں۔ وہ سب کے سب ہمارے ہاں کی دستوری اقلیت سے متعلق تھے۔ البتہ ایک مسلمان سیشن جج دیکھا ہے جو ایک استثنا ہے۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اس جیسا جامع الصفات سیشن جج پنجاب کی سر زمین نے نہیں دیکھا ہو گا۔ مگر اس کو بھی کبھی مرزائی قرار دیا گیا اور کبھی شیعہ۔ اس کو اپنے تئیں رسوا کرنے کا کارنامہ انجام دینے والے ہمارے دوست انٹی قادیانی تحریک اور تحریک مسجد نور کے ایک سرخیل تھے۔ وہ اب شہر کے بڑے قبرستان میں آسودۂ خواب ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو معاف کرے۔ ملک کاظم علی ان دنوں کہا کرتے تھے کہ مجھے نوید انور نوید سے کوئی گلہ نہیں، مگر اسلامی جمعیت وکلا کے ان دوستوں سے گلہ ہے جو حق و صداقت کا پرچم لہرائے رکھتے ہیں مگر اس موقعہ پر بار کے ساتھ یکجہتی کرتے نہیں تھکتے تھے۔ اس موقع پر ہماری بار کے جملہ راست ذہن سینئیرز، دل سے ملک کاظم علی سے اندرون کھاتہ ہمدردی کا اظہار کرتے تھے مگر حالات کے جبر کے سامنے بے بس تھے۔ میں ان کے نام ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں۔ ان میں جناب چوہدری محمود بشیر، ملک عبدالباسط شامل تھے۔
اس گفتگو سے میرا منشا یہ نہیں کہ جسٹس کارنیلیس کو میں مسلمان کہہ رہا ہوں یا مسلمان قرار دے رہا ہوں۔ میرے اختیار میں ہوتا تو میں مسلمان کو کافر بنانے کا فریضہ انجام دے کر اپنی نجات کو یقینی بنا لیتا۔ جسٹس کارنیلیس سے اکثر سوال کیا جاتا تھا کہ وہ اسلامی حدود اور اسلامی اقدار کو اس قدر مستحسن جانتے ہیں تو مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے؟ وہ جواب میں کہا کرتے تھے کہ وہ آئینی مسلمان ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں حلف اٹھانے کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے؟ یہ ایک الگ موضوع ہے۔
حدود اللہ کے تحفظ کا مسئلہ کھڑا کرنے والوں نے بھی دستور کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ کیا ان کا حلف کارنیلیس کے حلف کے برابر ہو سکتا ہے؟ جسٹس کا لفظ کارنیلیس کا سابقہ ہو گیا ہے۔ وہ جسٹس کی علامت بن گئے ہیں۔ وہ سرا پا جسٹس تھے۔ رہا اجر اور بخشش کا سوال تو یہ عقیدے کے مسائل ہیں۔ ان کے ساتھ کردار کی بلندی ہو تو کیا بات ہے۔ کردار کی بات ہو تو عقیدے اور مسلک کو بیچ میں لانے سے کمزور کرداروں کو تقویت دینا بھی اچھی تفریح ہو سکتی ہے۔ یہ علمی اشغال ہیں۔ اس درجے اور میدان کے لوگوں کی دانست کی بات ہے۔ میں ایسے پہلوؤں پر کچھ کہنے کا مجاز ہی نہیں ہوں۔