۳۱ مارچ ۲۰۰۷ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں مولانا زاہد الراشدی کے مضامین کے دو مجموعوں کی اشاعت کے موقع پر ان کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی۔ مضامین کے یہ دو مجموعے ’’جناب جاوید احمد غامدی کے حلقہ فکر کے ساتھ ایک علمی وفکری مکالمہ‘‘ اور ’’حدود آرڈیننس اور تحفظ نسواں بل‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے ہیں۔ تقریب رونمائی سے پروفیسر غلام رسول عدیم، مولانا زاہد الراشدی، پروفیسر محمد شریف چودھری، پروفیسر محمد اکرم ورک اور مولانا مشتاق احمد چنیوٹی کے علاوہ جناب جاوید احمد غامدی کے حلقہ فکر سے تعلق رکھنے والے دانش ور جناب نادر عقیل انصاری نے بھی خطاب کیا۔
پروفیسر غلام رسول عدیم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا زاہد الراشدی کی تحریر میں منفرد قسم کی شستگی اور شائستگی پائی جاتی ہے اور علماے کرام کو ان کے اسلوب نگارش کی پیروی کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ان مضامین میں مناظرانہ اسلوب سے ہٹ کر افہام وتفہیم کا علمی انداز اختیار کیا گیا ہے جو مخاطب کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
جناب نادر عقیل انصاری نے مضامین کے ان مجموعوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان میں مولانا راشدی نے مخالف فریق کے احترام کے ساتھ خالص علمی انداز میں تنقید وتبصرہ کر کے اختلاف رکھنے والوں کو بھی بہت سے امور میں اپنے موقف پر نظر ثانی پر آمادہ کیا ہے اور آج اس نوعیت کے مکالموں کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اسی طریقہ سے ہم متنازعہ امور میں حق کا راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔
پروفیسر محمد شریف چودھری نے کہا کہ مولانا راشدی نے ان مضامین میں مغربی فکر وفلسفہ کو ہدف تنقید بنایا ہے اور مسلم اصحاب فکر ودانش کو توجہ دلائی ہے کہ وہ مغرب کی فکری یلغار سے آگاہی حاصل کریں اور سنجیدگی کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتے ہوئے نئی نسل کو فکری گمراہی سے بچانے کی کوشش کریں۔
پروفیسر محمد اکرم ورک نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ مولانا زاہد الراشدی نے جس متانت اور سنجیدگی کے ساتھ طعن وتشنیع اور تحقیر واستہزا سے ہٹ کر مخالف فریق سے افہام وتفہیم کے لہجے میں بات کی ہے، اس ر وایت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
مولانا زاہد الراشدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں اپنے جدید دانش وروں کی اس مجبوری کو بخوبی سمجھتا ہوں کہ وہ مغرب سے متاثر پود سے مخاطب ہیں اور انھیں مغرب کے پیدا کردہ شکوک وشبہات کا جواب دینے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، لیکن میری ان سے ایک ہی گزارش ہے کہ وہ نئی نسل کو مغرب کی مرعوبیت سے بچانے کی فکر کریں اور مغرب کے فکری اور علمی اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے خود اپنے علمی ڈھانچے اور مسلمات کو سبوتاژ کرنے سے گریز کریں۔
تقریب میں بتایا گیا کہ مولانا زاہد الراشدی گزشتہ پینتالیس سال سے مسلسل مختلف اخبارات وجرائد میں لکھ رہے ہیں اور ان کے کم وبیش ایک ہزار مضامین کو جمع کیا جا چکا ہے جو آج کے دور کے اہم مسائل اور مشکلات کے حوالے سے ہیں اور ان مضامین کو مختلف عنوانات کے تحت کتابی شکل میں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی طرف سے شائع کرنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ تقریب میں علماے کرام، اساتذہ، پروفیسر صاحبان اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مدرسہ طیبہ تحفیظ القرآن میں حفظ قرآن کی کلاس کا افتتاح
واپڈا ٹاؤن کینال ویو گوجرانوالہ کے عقب میں باقر کوٹ کے قریب الشریعہ اکادمی کے نئے تعمیر کردہ مدرسہ طیبہ تحفیظ القرآن میں حفظ قرآن کریم کی کلاس کا آغاز ہو گیا ہے جس میں قرآن کریم حفظ کے ساتھ مڈل تک اسکول کی تعلیم بھی دی جائے گی۔ کلاس کی افتتاحی تقریب میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے اور اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم کی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ اسکول کی تعلیم بھی ضروری ہے جس کی طرف دینی مدارس کو بطور خاص توجہ دینی چاہیے۔
دینی مدارس کے طلبہ کے لیے انگلش لینگویج کورس
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ نے شہر کے دینی مدارس کے طلبہ کے لیے جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں چالیس روزہ انگلش لینگویج کورس کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ کلاس روزانہ نماز عصر کے بعد ہوتی ہے جس میں اکادمی کے ناظم مولانا حافظ محمد یوسف دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کو انگریزی زبان کی بنیادی تعلیم دے رہے ہیں۔ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے جسے سیکھنا دعوت اور تعلیم کے دینی مقاصد کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
حضرت قاری محمد انور کے اعزاز میں استقبالیہ
حفظ قرآن کریم کے بزرگ استاذ حضرت قاری محمد انور صاحب، جو ایک عرصہ تک گکھڑ میں حفظ قرآن کریم کی تعلیم دیتے رہے ہیں اور گزشتہ اٹھائیس برس سے مدینہ منورہ میں تحفیظ القرآن کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں، ۲؍ مئی ۲۰۰۷ بروز بدھ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں تشریف لا رہے ہیں جہاں شام پانچ بجے ان کے شاگرد مولانا زاہد الراشدی کی طرف سے ان کے اعزاز میں استقبالیہ کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ مولانا راشدی نے ۱۹۶۰ء میں گکھڑ میں حضرت قاری محمد انور صاحب سے قرآن کریم حفظ مکمل کیا تھا۔