سنت کی دستوری اور آئینی حیثیت

ڈاکٹر محمد سعد صدیقی

(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں فکری نشست سے خطاب۔)


الحمد للہ وکفیٰ وسلام علی ٰعبادہ الذین اصطفیٰ اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلو علیھم اٰیاتک ویعلمھم الکتب والحکمۃ ویزکیھم انک انت العزیز الحکیم۔ صدق اللہ العظیم

جناب صدر محترم! میرے بہت عزیز بھائی اور ساتھی ڈاکٹر عبد اللہ صاحب، برادر عزیز جناب اکرم ورک صاحب، اساتذہ کرام و معزز حاضرین!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرے لیے یہ بڑی خوش قسمتی اور سعادت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر مجھے اس علمی ادارے میں حاضری کا شرف بخشااور آپ حضرات سے ملنے اور آپ حضرات کی زیارت کاموقع مرحمت فرمایا۔ لیکچراور گفتگو تو ایک بہانہ ہوتا ہے، اصل مقصد تو کسی علمی ادارے میں آنا، کسی علمی ادارے کو دیکھنا اور احباب سے ملاقات و گفتگو کرنا ہوتا ہے، اس لیے کہ احباب سے ملاقات اور علمی احباب سے ملاقات بجائے خود ایک علمی مجلس ہوتی ہے اور بجائے خود ایک ثواب کا اور ایک عبادت کا کام ہے۔ باقی یہ کہ میں کیا گفتگو کروں گا؟ میں جو گفتگو کروں گا، وہ یقیناًپہلے سے آپ حضرات کے علم میں ہوگی۔ شاید ہی کوئی ایسی بات ہو جو آپ حضرات کے لیے نئی ہو یا شاید ہی کوئی ایسی بات ہو جو آپ حضرات کے علم میں اضافے کا باعث ہو۔ جہاں تک موضوع کا تعلق ہے، تو سنت کی دستوری اور آئینی حیثیت پر گفتگو ہو گی، اس کے ضمن میں سنت سے استنباط اور استخراج مسائل کے فقہا کے جو اسالیب ہیں، اس پر بھی تھوڑی سی گفتگو ہو گی ۔

سنت کے حوالے سے اس طرح کی گفتگو اور اس طرح کا مواد آپ کو بے شمار کتابوں میں ملے گااور وہ یقیناًآپ حضرات نے پڑھ رکھا ہو گااور آپ کے علم میں ہوگا، لیکن اس وقت جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اور جن حالات کا ہمیں سامنا ہے، ایک علمی ادارے سے وابستگی اور دین سے وابستگی کی وجہ سے ان حالات میں ہماری ذمہ داریاں کچھ بڑھ گئی ہیں۔ تہذیبی، ثقافتی اور تمدنی اعتبار سے جس طریقے سے دین اسلام کو اور دین اسلام کی اقدار وروایات کو جس طرح تباہ وبرباد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور گلوبلائزیشن کی شکل میں پوری دنیا کی سطح پر ایک فتنہ جو ہمارے سامنے موجود ہے، ہمیں اس فتنے کا احساس، ادراک اور علم بھی ہونا چاہیے اور اس فتنے کے تدارک کے لیے بھی ہمیں کچھ سوچنا چاہیے۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ اورمشکل یہی ہے ۔

ابھی پچھلے دنوں ریڈیو کے ایک سیمینار میں شریک تھا۔ اس میں، میں نے یہ بات کہی کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس وقت جاگتے ہیں جب کوئی فتنہ پوری امت مسلمہ کے اندر جڑ پکڑ چکاہو اور وہ فتنہ امت مسلمہ کو، اس کے ایک طبقے کویا ایک جگہ کے لوگوں کو ایسی جگہ پر پہنچا چکا ہو جہاں سے واپسی بڑی مشکل نظر آتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بروقت فتنے کا ادراک نہیں کر سکتے اور اس کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ اس کا احساس ہمیں تب ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ اس وقت جو سب سے بڑا فتنہ ہمارے سامنے ہے، اس فتنے کا ادراک ہمیں ہونا چاہیے اور اس کے ادراک کے ساتھ ساتھ اس کے تدارک کی جو تدابیر ہیں، ان سے بھی ہمیں آگاہ ہونا چاہیے ۔ وہ فتنہ کیا ہے ؟وہ فتنہ یہ ہے کہ مذہب پرستی اور مذہبی بنیادوں پر انسانوں کی شناخت اور ان کا امتیاز ختم ہو جائے۔ کسی کا کوئی مذہب نہ ہو۔ نہ کوئی مسلمان ہو ،نہ عیسائی ہو ،نہ سکھ ہو، نہ ہندو ہو۔ کسی کا کوئی مذہب نہ ہو اور کوئی انسان اس قسم کا ٹائیٹل اپنے اوپر چسپاں کر نے والا نہ ہو،بلکہ انسانیت کی بنیادوں پر سب ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے والے اور ایک دوسرے کے نظریات اور عقائدوافکار کا احترام کر نے والے اور رواداری کاسبق پڑھنے والے ہوں۔

میں ایک دفعہ ایک مجلس میں تھا تو وہاں یہ بات سامنے آئی، بعض لوگوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ اس وقت اتحاد امت کے حوالے سے جو فکر امت میں پیدا ہو رہی ہے، یہ بڑی مستحسن چیز ہے تو میں نے اس پر یہ عرض کیا کہ معاف کیجئے گا، جو چیز آپ کو مستحسن نظر آرہی ہے، مجھے تو اس میں سے فتنے کی بو آرہی ہے۔ ہمارے ایک دوست کہنے لگے !صاحب آپ کیا کسی فتنے کی بو میں پڑ گئے ہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ میں نے پھر وہی عرض کیا کہ جناب مجھے تو اس سے فتنے کی بو آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کس فتنے کی بو آرہی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس فتنے کی بو آرہی ہے کہ جب ہم اتفاق و اتحادکا سبق پڑھ لیں گے تو اس کے معنی یہ ہو ں گے کہ کوئی بھی شخص آپ کے سامنے بیٹھ کر جیسے چاہے دین کا حلیہ بگاڑے، آپ نہیں بولیں گے، کیونکہ آپ نے اتحاد واتفا ق کا سبق سیکھا ہوا ہے۔آج وہ بات ہمارے سامنے موجود ہے۔ آج اگر آپ کے سامنے کوئی دین کا حلیہ بگاڑتاہے اور آپ بولتے ہیں تو فوراً آپ پر فرقہ پر ستی ، دہشت گردی ،انتہاپسندی اور فرقہ وارانہ فسادات کے پھیلانے کا الزام لگ جاتا ہے۔ یہ فتنہ آج ہمارے درمیان موجود ہے اور پنپ رہا ہے کہ مذہبی بنیادوں پر انسانوں کی جوشناخت ہے، مذہبی بنیادوں پرانسانوں کی جو تہذیب ہے اور مذہب کی بنیادوں پر انسانوں کی جو ثقافت تعمیر ہوتی ہے، اسے ختم کیا جائے اور انسان کی کوئی بھی ثقافت، کوئی بھی تمدن، کوئی بھی معاشرت مذہب کی بنیادوں پر قائم نہ ہو۔

یہ فتنہ ہے۔ اس فتنے کے ادراک اور تدارک کا معاملہ جب آتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کے تدارک میں سنت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔آپ اسلام کی بنیاد پر اپنے آپ کو دوسری قوموں سے ممتاز اور نمایاں کرنا چاہتے ہیں، آپ اگر اسلامی ثقافت وتہذیب کو رائج کرنا چاہتے ہیں، اسلام کے تمدن اور اسلامی معاشرت کو رائج کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو سنت کا سہارا لینا پڑے گا۔ سنت کا سہارا لیے بغیر نہ آپ اسلام کی شناخت پیدا کر سکتے ہیں نہ اسلامی تہذیب وتمدن پیدا کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسلامی معاشرت پیدا کر سکتے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے ہمیں سنت کی عظمت اور سنت کی اہمیت کا ادراک ہونا چاہیے۔ اس وقت اس حوالے سے جو فتنہ ہمارے سامنے آرہا ہے، اس میںیہی بات ہمارے سامنے آرہی ہے کہ سنت کی حیثیت اور سنت کی عظمت کم کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ نعرہ لگایا جا رہا ہے کہ قرآن ایک مکمل کتاب ہے ، ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور حیات ہے۔ہمیں اس قرآن سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اوراس قرآن کو دیکھنا چاہیے۔ اس حوالے سے سنت کے متعلق آپ کی معلومات کو تازہ کر نا ہے اور اس پر پڑی ہوئی گرد کو ہٹانا ہے تاکہ سنت کے حوالے سے ہمارے اندر صحیح فکر پیدا ہو۔ 

سنت کی جو تعریف علماے اصولیین، ماہرین اصول فقہ نے کی ہے، ان میں سے علامہ آامدی ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں سنت کی تعریف یہ بیا ن فرماتے ہیں کہ ’’سنت کا اطلاق ان تمام امور پر ہوتا ہے جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں یا وہ تمام دلائل جو آپ سے قولاًیا عملًا ثابت ہیں، لیکن وہ قرآن نہیں ہیں۔‘‘ یہ بات ذرا قابل غور ہے۔ تعریف کا آخری جز یہ بتلاتا ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً اورعملًا ثابت ہیں، لیکن وہ قرآ ن نہیں ہیں۔اس کا معنی یہ ہوئے کہ ہم اسے ا س واسطے چھوڑ نہیں سکتے کہ یہ آپ سے ثابت تو ہیں آپ کا قول اور عمل تو ہیں، لیکن چونکہ قرآن نہیں ہیں، اس لیے ہمیں اس کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہمیں اس کی عظمت اور اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ علامہ آمدی کی تعریف کا یہ جز اسی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔

اسی بات کی طرف اشارہ ہمیں ایک اور تعریف میں ملتا ہے جو علامہ خضری بک نے کی ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ سنت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کا نام ہے اور اس کے آخر میں انہوں نے ایک بہت اچھی، نمایا ں اور ممتاز بات کہی: ’ویقابلہ البدعۃ‘ کہ اس کے مقابلہ میں جو لفظ آتاہے، وہ بدعت کا لفظ ہے ۔بعض اوقات ’تعرف الاشیاء باضدادھا‘ چیز کو اس کی ضد اور الٹ سے سمجھا جاتا ہے۔علامہ خضری بک کے ا س جملہ سے سنت کی اہمیت واضح ہو رہی ہے کہ دین کا حصہ وہ چیز بن سکتی ہے جو جنا ب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً، عملًا یا فعلاً ثابت ہو۔ اگر ان تینو ں میں سے کسی طرح سے بھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے تووہ دین کا حصہ نہیں بن سکتی۔ اگر بنے گی تو بدعت کہلائے گی۔ اس کے معنی یہ کہ دین کا حصہ بننے میں یا دین کی تدوین میں سنت کی کتنی اہمیت ہے ۔

یہاں میں ایک اور بات واضح کر دوں کہ آج کے دورکے جدید مفکرین اپنی ربع صدی کی تحقیقا ت کا جو نتیجہ بیان کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنتیں ہیں، ان کی تین نوعیتیں ہیں ۔ایک آپ کے وہ اعمال و افعال اور اقوال ہیں جو آپ نے بحیثیت ایک انسان کے سر انجام دیے۔ آپ کی ذاتی عادتیں ہیں مثلاًآپ اس طرح چلتے تھے، اس طرح کھاتے تھے، اس طرح پیتے تھے، اس طرح مسکراتے تھے۔ اور کچھ چیزیں وہ ہیں جو ملت ابراہیمی کا تسلسل تھیں اوراس دور کی تہذیب وثقافت اور تمدن و معاشرت میں موجود تھیں یا ملت ابراہیمی کے تسلسل کے طور پر آپ کو القا کی گئیں اور وحی الٰہی کے ذریعے بتلائی گئیں۔ اور کچھ چیزیں وہ ہیں جو آپ نے بحیثیت ایک نبی ہو نے کے اپنی نبوی اور رسالت کی زندگی میں سر انجام دیں۔ بقول ان کے میری ربع صدی کی تحقیقات کے مطابق کل بیالیس (۴۲) سنتیں ہیں جن کو آپ نے بحیثیت نبی ہونے کے سرانجام دیا اور صرف ان سنتوں کی اقتدا اور پیروی ہمارے لیے ضروری ہے، باقی کسی چیز کی پیروی ہمارے لیے ضروری نہیں ہے۔ یہ ایک جدید فکرہے۔ اس فکر جدید کا اگر آپ کہیں سلسلہ ملانا چاہیں اور اس کی جڑتلاش کرنا چاہیں تو مجھے یوں محسوس ہوتاہے کہ علامہ اقبال ؒ نے اپنے چھٹے خطبے میں ایک بات کہی ہے کہ اصل میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنت ہے، وہ بعض مخصوص تہذیبی روایا ت و اقدار کا مظاہرہ ہے۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خاص تہذیب اور خاص ثقافت کے اندر رہے، لہٰذا آپ نے وہ کام کیے۔ ہم چونکہ اس تہذیب سے باہر ہیں، لہٰذا ہمارے لیے ان چیزوں میںآپ کی اقتدا اور پیروی ضروری نہیں ہے۔ یہ کچھ اشارہ ہے جو ان کے چھٹے خطبے میں ہے ۔غالباً اسی اشارے سے یہ فکر پیدا ہوئی۔ بہرحال اس پر تحقیق کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلے یہ بات سمجھیں کہ کیا وہ تہذیب وثقافت اور تمدن جس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر مبارک کے تریسٹھ برس گزارے ہیں، جس دن آپ اس دنیا میں تشریف لائے تھے، جیسی تہذیب اس دن تھی، ویسی ہی تہذیب تریسٹھ برس کے بعد اس دن بھی تھی جس دن آپ اس دنیا سے پردہ فرما گئے؟ ایسا ہر گز نہیں بلکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے نے جو انقلاب انسانیت کے اندر برپا کیا ہے، اس انقلاب کی مثال تاریخ انسانیت کے اندر ملناممکن نہیں، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی زمانے میں اور نہ ہی آپ کے بعد۔چودہ سو برس سے زائد توگزر چکے ہیں، آئندہ پتہ نہیں کتنے گزریں گے ۔

ہم تو بحیثیت مسلمان ہونے کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے ان چیزوں کو مانتے ہی ہیں ۔ ایک ایسا شخص جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی نہیں ہے، انسانی تہذیب وثقافت میں تبدیلی کرنے والی شخصیتوں کے تذکرے لکھتا ہے، وہ کہتا ہے کہ انسانی تاریخ میں سو آدمی ایسے ہیں جنہوں نے انسانی تہذیب وثقافت میں نمایاں تبدیلیاں کی ہیں اور ان سو آدمیوں میں پہلا نمبر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتا ہے، حالانکہ وہ خودعیسائی ہے لیکن اس نے حضرت عیسیٰ ؑ کو پانچویں نمبر پر رکھا ہے۔ ’’The Hundred‘‘ کے نام سے اس نے جو کتاب لکھی ہے، اس میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا نمبر ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ یہ بات تو بالکل خلاف واقعہ، جھوٹ اور غلط ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس تہذیب میں آنکھ کھولی تھی، وہ اس دن بھی ویسی ہی تھی جس دن آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔یہ بات سراسر بہتان ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تہذیب وثقافت میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ وہ تبدیلیاں کیسے کی ہیں؟ وہ تبدیلیاں آپ نے اپنے قول وعمل سے کی ہیں۔ آپ کا وہی قول وعمل آج ہمارے لیے حجت ہے اور ہمارے لیے ایک آئینی اور دستوری حیثیت رکھتا ہے ۔

سیدنامعاذبن جبلؓ کا واقعہ تو مشہور ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجاتو پوچھاکہ تم فیصلہ کیسے کرو گے؟ حضرت معاذبن جبلؓ ؓنے کہا کہ کتاب اللہ سے کروں گا۔آپ نے پوچھا: ’فان لم تجد‘، اگر تم کتاب اللہ میں نہ پاؤ؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ پھر سنت سے کروں گا۔آپ ذرا غور فرمائیں کہ یہاں مسئلہ زیر بحث کیا ہے۔ کیا صرف معاذبن جبلؓ کی زندگی گزارنے کا معاملہ زیر بحث ہے کہ معاذ، تم زندگی کیسے گزاروگے؟ بات زندگی گزارنے کی نہیں ہو رہی تھی، بلکہ آئینی حیثیت کی ہو رہی تھی، بات قضا اور عدالت کی ہو رہی تھی، بات دستور وقانو ن کی تدوین کی ہو رہی تھی، بات قانونی نظائر بنانے اور مہیا کرنے کی ہو رہی تھی۔ ’بم تقضی‘ پوچھا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، ’بم تحیی‘ نہیں پوچھا تھا ۔ اس لیے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں طے ہو چکا تھا کہ قانون بنانے، اس کی تدوین کر نے، اس کے مطابق فیصلہ کرنے کے لیے کوئی قاضی، کوئی عدالت، کوئی قانون ساز ادارہ اگر کام کرے گا تو اس کا پہلا ماخذ کتاب اللہ ہو گا اور دوسرا ماخذ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو گی ۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ نے ایسا کر کے دکھایا ۔

سنت کے حوالے سے جب ہم فقہا کی تعلیما ت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں امام ابوحنیفہ ؒ کے ہاں ایک بڑی خوب صورت تقسیم ملتی ہے۔ ایک کو وہ سنت ہدیٰ کہتے ہیں اور ایک کو سنت ز وائد۔اس سے ہمیں مسئلہ حل ہوتا ہوا ملتا ہے کہ دیکھیے، ایک معاملہ ہے سنت کی اتباع اور پیروی کا،اور ایک معاملہ ہے قانو ن سازی کا۔ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ معاملات ہیں ۔میری اور آپ کی انفرادی زندگی گزارنے کا طریقہ یا سنت کی اتباع اور پیروی، یہ علیحدہ معاملہ ہے اور قانون سازی علیحدہ معاملہ ہے۔ بعض حضرات فقہا نے جب سنت کی تعریف کی ہے تو اس میں آپ کی عادات واوصاف کو بھی شامل کیا ہے ۔ بلاشبہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اور عادتیں قانون سازی کے حوالے سے وہ درجہ اور حجت نہیں رکھتیں اور اس کی وجہ بھی یہ نہیں کہ خدانخواستہ اس کی عظمت کم ہوئی ہے بلکہ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بنیادی اصول بتلایا اور وہ یہ ہے کہ لولا ان اشق علیٰ امتی لامرت بالسواک عند کل صلوٰۃ ’’اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں مبتلاہونے کا خوف نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دے دیتا۔‘‘ یہ ایک بنیادی اصول ہے جو ہمیں سنت سے مل رہا ہے اور قانون سازی میں استعمال ہوتا ہے۔اگر آپ ان چیزوں کو قانون سازی کے دائرے میں لے آئیں اور کہیں کہ صاحب، ہمارے ملک میں وہی لباس پہنا جائے گا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پہنا کرتے تھے، اگر کوئی اس کے علاوہ لباس پہنے گا تو ہم اسے سزا دیں گے،اور ہمارے ملک میں وہی چیز کھائی جائی گی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے تھے، اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کوئی چیز کھائے گا تو ہم اسے سزا دیں گے تو یہ قانون سازی انسانوں کو مشقت اور تکلیف میں مبتلا کر د ے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو مشقت میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ اس حوالے سے یہ قانون کے دائرے میں نہیں آتا۔ لیکن قانون کی تشکیل کے دائرہ میں نہ آنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔اس کی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے اور اس کی پیروی اور اتباع کی فضیلت بہرحال طے شدہ ہے۔ یہ ہمارے لیے زندگی گزارنے کا ایک طریقہ اورزندگی گزارنے کے لیے ایک ماخذاور مصدر کی حیثیت بہرحال رکھتا ہے۔ اس لیے یہ بات کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں سے کچھ چیزیں وہ ہیں جو تہذیبی روایات کے نتیجے میں ہمارے سامنے آئی ہیں، کچھ وہ ہیں جو آپ کی عادات مبارکہ ہیں، ان کو بھی نکال دو،ا ن کو بھی نکال دو۔ باقی رہ گئیں بیالیس سنتیں، ان کو لے کر بیٹھے رہو۔کیوں ؟اس لیے تاکہ ہمیں تہذیبی آزادی مل جائے، تاکہ ہمیں تمدنی آزادی مل جائے، تاکہ ہمیں معاشرتی آزادی مل جائے، ہم تہذیب وتمدن اور معاشرت کو جس انداز سے چاہیں، آگے لے کرچلنا شروع ہو جائیں۔

چنانچہ جب ہم سنت کے حوالے سے اس بات کو سنتے ہیں تو ہمیں ایک اور بحث سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ وہ یہ کہ جب ہم سنت کی آئینی اور دستوری حیثیت کو سمجھنا چاہیں گے تو ہمیں قرآن اور سنت کا باہمی تعلق بیان کرنا، سوچنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ سنت کتاب اللہ کے لیے مؤید ہے۔ جو قرآن بیا ن کرتا ہے، سنت اس کی تائید کر تی ہے۔ یہ عام اور سلیس سی بات ہے۔ دوسرایہ کہ سنت بیان قرآن ہے۔سنت کے بیا ن قرآن ہونے کے دو پہلو ہیں۔ایک یہ کہ سنت نے بعض اوقات ایسا حکم دیا جو سرے سے کتاب اللہ میں موجو د نہیں ہے۔ہمارے لیے اس حکم کی پابندی بھی لازمی اور ضروری ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ یہ بات قرآن میں موجو د نہیں ہے، لہٰذااس حکم کو ہم نہیں مانتے ۔

حضرت عمران بن حصینؓ کے پاس ایک آدمی آیا۔ کہنے لگا کہ جناب ہمارے سامنے صرف کتاب اللہ کی بات کریں، سنت کی بات نہ کریں۔ ہم صرف کتاب اللہ کو مانتے ہیں اور کتاب اللہ ہی سننا چاہتے ہیں۔ حضر ت عمران بن حصینؓ نے کہا کہ تم بڑے احمق شخص ہو۔ ہم تو ایسے آدمی کو بہت بڑا اسکالر سمجھتے ہیں جو اس طرح کی بات کرے۔ حضرت عمران بن حصینؓ نے اس کا صحیح علاج کیا۔ وہ ایک دم پریشان ہو گیا کہ میں نے تو بڑی علمی، تحقیقی اور اسکالروں والی بات کی ہے اور عمران بن حصینؓ مجھے احمق کہہ رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ میں احمق کیسے ہو ں؟ حضرت عمران بن حصینؓ نے کہا کہ فجر کے دو فرض پڑھتے ہو؟ اس نے کہا کہ پڑھتا ہوں۔ فرمایا، ظہر وعصر کے چار فرض پڑھتے ہو؟ اس نے کہا کہ جی پڑھتا ہوں۔ فرمایا دکھلاؤ کہاں آیاہے کتاب اللہ میں کہ فجر کے وقت دو فرض پڑھنا اور ظہر و عصر میں چار فرض پڑھنا۔ یہ یقیناًحماقت کی بات ہو گی کہ ہم یہ نعرہ لگائیں کہ ہم تو صرف کتاب اللہ کو پڑھیں گے اور کتاب اللہ پر عمل کریں گے، کیونکہ سنت کے بغیر کتاب اللہ کے کسی حکم پر تو درکنار، حکم کی کسی جزئی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ سنت بیا ن قرآن ہوتی ہے۔سنت اس اجمال کی تفصیل کرتی ہے جو کہ قرآن نے بیان کیا ہے۔مثلاًقرآن نے کہا کہ ’اقیموا الصلوٰۃ، نماز قائم کرو۔ کیسے کریں ؟سنت نے کر کے دکھلا دیا کہ ایسے۔ اس لیے ایک تابعی یا صحابی کہا کرتے تھے کہ قرآن کے تو کسی حکم پرتو ’لم‘ اور ’کیف‘ کا سوال ہو سکتا ہے، لیکن سنت کے کسی حکم پر یہ سوال نہیں ہو سکتا۔

یہاں پر ایک اور بات کا سمجھنا بھی ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ایک جدید فکر ہمارے ہاں رائج ہو رہی ہے اور اس کا پرچار بھی کیا جارہا ہے کہ قرآن پاک کو اس پس منظرمیں سمجھا جائے جس پس منظر میں وہ نازل ہوا ہے۔ جس کو ہم شان نزول کہتے ہیں، وہ اس پر پس منظر کا اطلاق کرتے ہیں اس لیے کہ اگر وہ شان نزول کہیں تو پکڑے جاتے ہیں۔ مثال کے طوریہ کہ ایک مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے اوردلیل اس کی یہ ہے کہ قرآن کریم نے کہا: ’فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنیٰ وثلٰث وربٰع‘ حالانکہ اگراس آیت کو اس کے پس منظر میں دیکھاجائے جس میں یہ نازل ہوئی ہے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ چار شادیوں کی اجازت ہر قسم کے حالات کے لیے نہیں ہے۔ او ر وہ مخصوص حالات کیا ہیں؟ جی یہ آیت تو غزوہ احد کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔ غزوہ احد میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شہید ہو گئی تھی، اس لیے یہ حکم آیا تھا۔ عورتیں بیوہ ہو گئی تھیں، لہٰذایہ حکم آیا کہ ایک ایک مرد چار چارشادیاں کر لے۔ اگر اس وقت بھی وہ حالات پیدا ہو جاتے ہیں تو ٹھیک ہے، چار نکاح کی اجازت ہے اوراگر وہ حالات پیدا نہیں ہوتے تو پھر چار نکاح کی اجازت نہیں ہے۔

یہ بات یا د رکھیں کہ شان نزول کسی آیت مبارکہ کے حکم کو سمجھنے میں مددگار تو ہو سکتا ہے، لیکن وہ حکم کی علت نہیں ہوتا۔ اگر آپ شان نزول کے ساتھ حکم کو مقید کر دیں اور آپ کہیں کہ آیت کا یہ حکم اس پس منظر کے ساتھ مخصوص ہے جس میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو پھر یہ دعویٰ کہاں گیاکہ قرآن ایک عالمگیر کتاب ہے، قرآن قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے دستور حیا ت ہے؟ یہ دعویٰ تو ختم ہو گیا۔ اس لیے قرآن کا بیان شان نزو ل نہیں ہوا کر تابلکہ قرآن کا بیا ن سنت ہوا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم فقہا کے اسالیب اجتہاد کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ چارچیزیں ہیں جن پر سب فقہا کا اتفاق ہے۔ بعض حضرات اور تذکرہ نگار امام شافعی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ اجماع کے قائل نہیں تھے، لیکن یہ بات درست نہیں۔ وہ اجماع کے قائل تھے، یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اجماع کے لیے جو شرائط عائد کی ہیں، وہ بڑی کڑی اور سخت ہیں جیسا کہ اجتہاد کے لیے بڑی کڑی اور سخت شرائط ہیں۔ مثلاً علما یہ کہتے ہیں کہ اجتہاد کے لیے یہ بھی شرط ہے، یہ بھی شرط ہے۔ اس پر بعض پڑھے لکھے حضرات کہہ دیتے ہیں کہ مولویوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا ہے، حالانکہ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ یہی بات امام شافعی ؒ کے ہاں نظر آتی ہے کہ وہ بھی اجماع کے قائل تھے، لیکن جیسی کڑی شرائط انہوں نے اجماع کے لیے عائد کی ہیں، ان شرائط کا سامنے آنا اور پید ا ہونا بڑا مشکل ہو گیا ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ چار چیزیں تو بالکل متفق علیہ ہیں۔ کتاب اللہ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اجماع اور قیاس۔ کتاب اللہ سے بھی اخذ مسائل اور استنباط مسائل کے کچھ اصول ہیں۔ یوں نہیں کہ آپ کے سامنے کتاب اللہ کی کوئی بھی آیت آجائے اور آپ اس سے جو جی چاہیں، اخذ کر لیں۔ اسی طرح سنت سے بھی احکام کے استنباط کے کچھ اصول ہیں اور ان میں قرآن سے استنباط مسائل کی بہ نسبت زیادہ توسع اور زیادہ تحقیق ہے۔ 

سنت کے معاملے میں امام ابو حنیفہ ؒ اور امام مالک ؒ اس کے قائل ہیں کہ جب آپ کے سامنے سنت آئے تو پہلے آپ اس کا نص دیکھیں گے، پھر ظاہر دیکھیں گے، اور اگر ظاہر اور نص ایک دوسرے کے مقابل آرہے ہوں تو نص کو ترجیح ہو گی، ظاہر کو ترجیح نہیں ہو گی۔ ظاہر وہ ہے جو مراد کلام سے فوری طور پر ظاہر ہو جائے۔ ’ما ظھر المراد بہ للسامع بنفس السماع‘۔ یہ ظاہر ہے اور ’ما سیق الکلام لاجلہ‘، فحوائے کلام اور مقصود کلام کو نص کہتے ہیں ۔لیکن امام شافعیؒ اورامام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک ظاہر کلام کو نص کلام پر ترجیح ہو گی۔ ان کے نزدیک پہلا مرتبہ ظاہر کلام کاہے، پھر نص کلام کا۔ 

اسی طرح سنت سے استنباط مسائل کے حوالے سے ایک مسئلہ تطبیق بین الروایتین کا آتا ہے۔ یہ بھی ایک بہت بڑا موضوع ہے اور مستقل نشست کا مقتضی ہے، کہ ایک ہی مضمون کی دو روایتیں ہیں اور دونوں مختلف صورت حال بتلا رہی ہیں، اس کا حکم کیا ہو گا اور ان میں کیسے ترجیح دی جائے گی۔ امام شافعی ؒ نے اس کے لیے جو اصول بنایا ہے، وہ یہ ہے کہ جو روایت سند کے اعتبار سے اصح ہے، وہ راجح ہو گی اور جو روایت سند کے اعتبار سے کم تر ہے، وہ مرجوح ہو گی ۔امام مالک ؒ کا اصول یہ ہے کہ پہلے تو ان میں تطبیق کی کوشش کی جائے گی، اور اگر تطبیق ممکن نہ ہو تو اس روایت کو ترجیح ہو گی جس پر اہل مدینہ کا تعامل ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کی رائے اس سے ذرا مختلف ہے۔ امام ابوحنیفہ تطبیق بین الروایتین کے قائل تو ہیں ہی، اور اگر تطبیق ممکن نہ ہو تو ان کے نزدیک ترجیح کا اصول یہ ہے کہ جس مضمون سے متعلق وہ روایت ہے، اس مضمون کو پہلے وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے گا۔ اگروسیع تر تناظر سے ہمیں کوئی ہدایت مل رہی ہے تو وسیع تر تناظر جس روایت کو ترجیح دے رہا ہو، اس کو ترجیح دی جائے گی۔ مثال کے طور پر نماز میں رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع یدین کرنا۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع یدین کرنا بھی ثابت ہے اور نہ کرنا بھی ثابت ہے۔ امام شافعی ؒ نے اپنے اصول کے مطابق جو روایت سند کے اعتبار سے اصح ملی، اس کو انہوں نے ترجیح دے دی اور اس کے مطابق عمل کیا۔اب سوا ل یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے ایسا اصول کیوں نہ بنایاکہ وہ بھی سنداً اصح روایت کو راجح قرار دیتے؟ امام ابوحنیفہ ؒ نے یہ اصول اس لیے نہیں بنایا کہ ان کے اور امام شافعیؒ کے زمانے میں بڑا فرق ہے۔ امام ابو حنیفہ بعض حضرات کے نزدیک تابعی ہیں، لیکن ان کے تبع تابعی ہونے پر تو سب کا اتفاق ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جن اساتذہ سے انہوں نے استفادہ کیا، وہ تابعی تھے اور اس سے یہ بھی پتہ چلاکہ امام ابو حنیفہ ؒ اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف دو واسطے تھے، ایک تابعی کا اور ایک صحابی کا ۔لہٰذا صحت سند کا معاملہ وہا ں زیادہ زیر بحث نہیں آتا، کیونکہ واسطے ہی صرف دو ہیں۔ ظاہر ہے کہ ’الصحابۃ کلھم عدول‘ صحابہ پر تو آپ جرح وتعدیل چلا نہیں سکتے، یہ تو میری اور آپ کی مجال نہیں۔ جن کو اللہ اور  اس کے رسول نے عدول قرار دے دیا، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ’لقد رضی اللہ عن المؤمنین ‘ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم‘ فرمادیا، میں اور آپ کون ہوتے ہیں جرح و تعدیل کرنے والے؟ صرف تابعین ہی باقی رہ گئے، لہٰذا امام صاحب کے ہاں صحت سند کا معاملہ اتنانازک نہیں۔ اسی لیے جب وہ اس عبادت (نماز) کو وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہیں تو وہ نماز کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ نماز کا تدرج ہمیں بتلا رہا ہے کہ اس میں حرکات آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہیں۔ شروع میں نماز میں چلنا بھی جائز تھا، شروع میں گفتگو بھی جائز تھی، شروع میں نماز میں ہنسنا بھی جائز تھا، پھر یہ سب کچھ منع ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیاکہ جو نماز میں ہنسے ہیں، وہ جائیں، وضو بھی کریں اورنماز بھی دوبارہ پڑھیں۔ اس سے یہ محسوس ہوتاہے کہ رکوع میں جاتے ہوئے اور اٹھتے ہوئے رفع یدین کرنے کا معاملہ پہلے کا ہے اور نہ کرنے کا معاملہ بعد کا ہے، اس لیے کہ جوں جوں نماز میں وقت گزرتا گیا، احکام نازل ہوتے گئے، توں توں نماز میں سکون آتاگیا۔ یہ وہ وسیع تر تناظرہے۔ 

اسی طرح مثلاً اس مسئلے میں کہ امام کے پیچھے قراء ت فاتحہ کرنی چاہیے یا نہیں، امام صاحب نے کہا کہ نہیں کرنی چاہیے، اس لیے کہ یہ دین کے وسیع تر تناظر کے خلاف ہے۔ دین کا وسیع تر تناظر امام کی اتباع کا حکم دیتا ہے اور امام کی اتباع اس میں ہے کہ ’لا تحرک لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقراٰنہ فاذا قرانہ فاتبع قراٰنہ ثم ان علینا بیانہ‘ تو اتباع قرآن ’’تحریک لسان‘‘ کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ اتباع قرآن ’لاتحرک بہ لسانک‘ کے ساتھ ہے۔ اس لیے دین کے وسیع تر تناظر میں اتباع امام سورۃ فاتحہ کے پڑھنے میں نہیں ہے بلکہ سورۃفاتحہ کے نہ پڑھنے میں ہے۔ 

لیکن ایک اصولی اوربنیادی بات طے شدہ ہے اور اس کو معاشرے میں پھیلاناہے کہ اسلام کی تہذیب وتمدن اور اسلام کی ثقافت کو زندہ کرنا اور زندہ رکھنا، یہ آج ہم سب کی بڑی اور اہم ذمہ داری ہے اور اگر آج ہم نے اس ذمہ داری کو ادا نہ کیا تو یقین جانیے، روزقیامت میں اور آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی جواب دینے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اس ذمہ داری کو ہم بذریعہ سنت ادا کر سکتے ہیں۔سنت کی اہمیت ، سنت کی عظمت ،سنت کی دستوری اور آئینی حیثیت کو جتنا بھی آپ اجاگر کر سکتے ہیں، کریں ۔یہ نہ سوچیں کہ یہ باتیں تو بہت کہی گئی ہیں، بہت سنی گئی ہیں ،بہت پڑھی اور لکھی گئی ہیں۔ کوئی بات نہیں، قرآن پاک نے بھی تو ایک بات کو بار بار بیان کیا ہے۔ آپ بھی اس بات کو بار باربیان اور واضح کیجیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ہمیں اپنی زندگیوں کے اندر بھی زندہ کرنا ہے اوراپنی قانون سازیوں میں بھی زندہ کرنا ہے۔حق تعالیٰ شانہ سنت کی اہمیت اورسنت کی عظمت کو سمجھنے کی ہمت اور توفیق نصیب فرمادے۔ آمین

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(مئی ۲۰۰۷ء)

مئی ۲۰۰۷ء

جلد ۱۸ ۔ شمارہ ۵

امت مسلمہ اور مغرب کے علوم و افکار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام کی آفاقیت اور عالمگیریت
مفتی ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی

قائد اعظم اور فوج کا سیاسی کردار
پروفیسر شیخ عبد الرشید

سنت کی دستوری اور آئینی حیثیت
ڈاکٹر محمد سعد صدیقی

غیر مسلم جج کی بحث اور مسلمان ججوں کا کردار
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

مکاتیب
ادارہ

’دشتِ وصال‘ پر ایک نظر
پروفیسر میاں انعام الرحمن

تعارف و تبصرہ
ادارہ

الشریعہ اکادمی کی مطبوعات کی تقریب رونمائی
ادارہ

تلاش

Flag Counter