مکاتیب

ادارہ

(۱)

لندن، ۷ اپریل ۲۰۰۷ء 

محترم مولیٰنا راشدی دام لطفہ، 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

پچھلے چار مہینے ہندوستان میں گزرے۔ گزشتہ ہفتے واپسی ہوئی تو یہاں مارچ کا الشریعہ دیکھا۔ ’’اسلام کے نام پر انتہا پسندی‘‘کا جو قصہ ’’ کلمۂ حق ‘‘میں رقم کیا گیا ہے، اس سے بہ صد رنج تصدیق ہوئی کہ روزنامہ جنگ وغیرہ سے جو صورت اور نوعیت اس قصہ کی سامنے آر ہی ہے، وہ ٹھیک ہی ہے۔مگر معاملہ کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اور اس کے بارے میں آپ کا جو شدید احساس و اضطراب تحریر میں نمایاں ہے، اس کو دیکھتے ہوئے’’ کلمۂ حق‘‘ کا حق ادا ہوتا نظر نہیں آیا۔ یہ اگر واقعۃً ’’افسوسناک انتہا پسندی‘‘ ہے تو پھر صرف ’’افسوسناک‘‘ کہہ کے چھوڑ دینے سے تو ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے قلم انتہا پسندی کے دباؤ میں آیا ہواہے اور پورے اظہارِحق کا یارا نہیں ہورہا۔ کیا اسے مایوس کن علامت کہنے کی اجازت دیں گے؟ اگر ’الشریعہ‘ اور شریعہ کونسل کا سکریٹری جنرل بھی صاف یہ نہ کہے گا کہ یہ شریعت کے نام پراٹھائے جانے والا قدم شرعی ہے یاغیر شرعی، توپھر اور کون اپنے ذمہ اس اظہارِ حق کا حق سمجھے گا؟

آپ نے وفاق المدارس کی پوری قیادت کے اسلام آباد آنے اور بھر پور کوشش کے بعد ناکام لوٹ جانے کا بھی ذکر فرمایا ہے جس کا مطلب یہ کہ اس قیادتِ علیا نے اپنے لئے بے بسی کی حیثیت کو قبول کرلیا۔ یہ اور زیادہ اضطراب انگیز بات ہے۔ آخر یہ لا ل مسجد کے خطیب کون بزرگ ہیں جو شریعت کی بابت اپنے فہم کے مقابلہ میں کسی اور کی بات سننے کو تیار نہیں؟ مگر وہ شاید زیادہ قابلِ الزام نہ ہوں اس لئے کہ ان کا جومطالبہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذکاہے، اس سے بقول آپ کے ’’ ملک بھر کے دینی حلقوں نے اصولی طور پر اتفاق کا اظہار کیا ہے۔‘‘ اس اصولی اتفاق کی سند ملنے کے بعد وہ اگر سمجھیں کہ وہ جو کر رہے ہیں، ٹھیک ہی کر رہے ہیں، تو کچھ ز یادہ دوش انھیں کیوں کر دیا جاسکتا ہے ؟ مولانا، کیا واقعی آپ بھی سمجھتے ہیں کہ جس سیاق و سباق میں یہ مطالبہ کیا جارہا تھا، اُس سیاق و سباق میں بھی اسے اصولی اتفاق کی سند مل جانی چاہئے تھی؟ سیاق و سباق سے میرا مطلب، حکومت کے خلاف غصہ میں بچوں کی ایک لائبریری پر قبضہ (جسے پتہ نہیں کون سی اسلامی شریعت جائز رکھتی ہے؟) اور اس قبضہ سے دستبرداری کے لئے مطالبہ کہ اسلامی نظامِ شریعت کا نافذ کیا جائے، جیساکہ آپ کی تحریر بتا رہی ہے۔ایک غیر اسلامی فعل سے باز آنے کے لئے رکھی گئی اسلامی نظام نافذ کئے جا نے کی شرط کو بھی اگر ملک بھر کے دینی حلقے ’’اصولی طورپر ‘‘اتفاق کی حقدار مان سکتے ہیں توپھر لال مسجد کے خطیب صاحب کا شکوہ عبث ہے۔ ’’اسلامی نظام‘‘ کے آوازہ کا ایسا ماحول لوگوں نے پاکستان میں بنادیا ہے کہ صحیح یا غلط جس اندازسے بھی یہ آواز کوئی اٹھادے نمائندگانِ دین کو صحیح اور بجا کہتے ہی بنتی ہے۔

من ازبیگانگاں ہر گز نہ نالم
کہ بامن آنچہ کرد آں آشنا کرد 

اس بے تکلفی اور گستاخی کی معافی۔ مارچ کے شمارے میں آپ کے یہاں کی تازہ مطبوعات میں ’’ایک علمی و فکری مکالمہ‘‘ کا اشتہار ہے۔کیا میں اس سے مستفید ہو سکتا ہوں؟ 

والسلام

(مولانا) عتیق الرحمن سنبھلی 

(۲)

لندن ۹ ۔اپریل ۲۰۰۷ء

بخدمتِ محترم مولیٰنا سمیع الحق صاحب زید مجدہم ۔جامعہ حقانیہ ۔اکوڑہ خٹک ۔پاکستان

مولانائے محترم،السلام علیکم ورحمۃ اللہ،

خداکرے مزاج بعافیت ہو۔میں گزشتہ ہفتہ تک کئی ماہ سے انڈیا میں تھا۔ یہاں آتے ہی لال مسجد کی کہانی جنگ سے معلوم ہونا شروع ہوئی ۔جس کی تصدیق کی ضرورت تھی تو وہ ،بصد رنج، مولانا زاہدالراشدی کے الشریعہ سے حاصل ہوگئی۔ کل اس پر ایک عریضہ مولانا راشدی کو ای میل کیاہے۔ الشریعہ میں وفاق المدارس کی اعلیٰ قیادت کے اسلام آباد جانے کا بھی ذکر تھا اور اسمائے گرامی میں حقانیہ کے دوبزرگوں کا بھی نام نظر آرہا تھا۔اس حوالہ سے خیال ہو رہا تھا کہ وہ ای میل کیوں نہ آپ کی سمت بھی بڑھادیا جائے۔ابھی فیصلہ نہ کرپایا تھا کہ آج کے جنگ میں مولاناسلیم اللہ خاں صاحب مد ظلہٗ کا بیان پڑھا جس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وفد کے شرکا میں مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مولوی عبد العزیز صاحب کے شیخ بھی ہوتے تھے۔ پر وہ محترم اس رشتہ کا لحاظ و پاس دکھانے کو بھی تیار نہ ہوئے۔یہ پڑھ کر ضروری معلوم ہوا کہ اپناعریضہ بلا تأخیر آپ حضرات کی خدمت میں پیش کروں۔اس اضافہ کے ساتھ کہ امام لال مسجد کے اس رویہ کے بعد تومحض اتنا بیان بھی، جو مولانا سلیم اللہ خاں صاحب کے نام سے آیا ہے، کافی نہیں سمجھاجانا چاہئے ۔ اس کے بعد تو آپ حضرات کی پوری قیادت کی طرف سے ان صاحب کا بالکل واضح الفاظ میں ’’برادری باہر‘‘((Ex-communicate کیا جانا چاہئے۔ورنہ ان کے خودسرانہ رویّہ کے ان اثرات سے بچاؤ ممکن نہیں ہوگا جن اثرات کا اشارہ مولانا سلیم اللہ خاں صاحب نے دیا ہے۔ 

والسلام 

عتیق

(۳)

محترم ومکرم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

عرض گزارش یہ کہ بندہ اپنے مقام پر بخیر عافیت ہے، اور امید ہے کہ حضرت والا بھی خیرو عافیت سے ہوں گے۔ میں تقریباً ڈیڑھ سال سے مجلہ ’’الشریعہ ‘‘ کا پابندی سے مطالعہ کررہاہوں۔ واقعتا آپ فارسی کی اس کہاوت کے مصداق ہیں جس میں کہاگیاہے :’’ پسر نمونہ پدراست‘‘۔ ......

ویسے تو میرے پاس ہندو پاک کے علاوہ سعودیہ ،کویت وغیرہ سے بھی بے شمار رسائل اردو ، عربی انگریزی وگجراتی میں موصول ہوتے ہیں، مگر ان تمام میں سب سے زیادہ دلچسپ ومعلومات افزا بندہ کو ’’الشریعہ ‘ ’لگا۔ ’’الشریعہ‘‘ کا ہر ماہ بڑی شدت سے انتظارہوتاہے، مگر مجھے بہت دیر سے ملتاہے۔ کبھی بے تاب ہوجاتاہوں تو وقت نکال پر انٹر نیٹ پر بیٹھ جاتاہوں او ر alsharia.org پر جاکر اہم مضامین کا مطالعہ کرلیتاہوں۔ .....

آج بتاریخ ۲۹؍ جمادی الاخریٰ ۴۴۷ا ھ بروز چہار شنبہ بعد صلوٰۃ ظہر کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا تاکہ باوجود اپنی کم علمی مائیگی کے اعتراف کہ’’الشریعہ‘‘ کے بارے میں اولاً کچھ گزارشات وآرا تحریر کروں اور ثانیاً برصغیر میں موجود امت مسلمہ علما وعوام کو درپیش فکری وفقہی وعلمی مسائل کے بارے میں چند تجاویز پیش کروں ۔......

(الف )’’الشریعہ ‘‘کے سلسلے میں چند تجاویز:

(۱) الشریعہ ایک علمی معیاری رسالہ ہے مگر ضروری نہیں کہ ا س کے قارئین علما ومحققین ہی ہوں بلکہ طلبا اور عوام بھی ضرور اس کو پڑھتے ہوں گے، لہٰذا ہر مضمون نگار کا مختصر تعارف او ر کس مکتبہ فکر سے اس کا تعلق ہے، مضمون کے شروع ہی میں دے دیا جائے تاکہ طلبا وعوام یا جدید تعلیم یافتہ کا وہ طبقہ جو ’’دینی اور اسلامی علوم‘‘ میں پختگی نہیں رکھتے، متاثر نہ ہونے پاوے، اس لیے کہ جس طرح لان یھدی اللہ بک رجلا خیر لک من حمر النعمجہاں ذکر کیاگیا، وہاں یہ بھی کہا ’’ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ‘‘ ....

(۲) الشریعہ میں خطوط تو ماشاء اللہ آزاد انہ شائع ہوتے رہے ہیں، چاہے مرسلِ نے تنقید کی ہو یا تحسین ،مگر کچھ خطوط جواب طلب ہوتے ہیں، لہٰذا ان کے جوابات بھی شامل اشاعت ہونے چاہییں۔

(۳) علما نے محققانہ انداز میں انگریزی ماہ کے اسما کو شرکیہ قراردیاہے لہٰذا یا تو انگریزی مہینوں کے نام سرے سے نہ ہوں اور اگر ہوں تب بھی ضمناً سرِ ورق پر اسلامی مہینوں ہی کے نام ہونے چاہیے۔ ہم ایک مجلہ اپنے ادارے سے شائع کرتے ہیں، اس میں صرف اسلامی مہینوں کے نام پر اکتفا کرتے ہیں۔یہ چند تجاویز جو ذہن میں گردش کررہی تھی، اس کو ’’الدین النصیحۃ‘‘ کے پیش نظر صفحہ قرطاس پر بکھیر دی گئی امید ہے کہ توجہ فرمائیں گے ۔

(ب) برصغیر میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل :

(۱) مسلمان کے لیے اس کا دین سب سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا دور حاضر میں دشمنان اسلام نے اسلام کے مقابلہ میں ’’الغزو السلاحی‘‘ میں شکست کھانے کے بعد ’’الغزو الفکری ‘‘ کا آغاز کیا جس میں وہ بڑی حد تک اپنے آپ کو کامیاب سمجھ رہاہے۔ اس کے لیے اس نے اسلامی ممالک میں کہیں بعث پارٹی ،کہیں ’’القومیۃ العربیۃ‘‘ وغیرہ کوقائم کیا۔ برصغیر میں بھی جب اس نے دیکھا کہ شاہ عبد العزیز صاحب کے فتواے جہاد کی وجہ سے مسلمانوں میں جہاد کی روح بیدار ہوچکی ہے اور پھر ۱۸۵۷ء تک تو اس نے جہا دکی ایک منظم صورت اختیار کرلی ہے، تب ہی اس کو اپنی شکست کے آثار محسوس ہونے لگے تھے، لہٰذا اس نے کچھ مسلمانوں کو اپنے اعتماد میں لے کر اسلام متصادم عقائد کی دعوت کے لیے کھڑا کیا۔ کسی کو دولت کی لالچ دے کر، کسی کو بڑے بڑے القاب دے کر کھڑا کیا اور یوں بے شمار باطل فرقے کھڑے کرنے میں کامیاب ہوا، مثلاً نیچر یت، قادیانیت، بریلویت، غیر مقلدیت، پرویزیت۔ اس کے لیے اس نے برصغیر میں انگریز ی اور عصری علوم کے کالجز بنائے۔ مسلمان طلبا اس میں گئے جبکہ ان کے پاس دین کا ذرا برابر بھی شعور نہ تھا۔ نتیجتاً وہ انہی کے رنگ میں رنگ گئے اور الحاد اور زندقہ کا بازار گرم ہوگیا او ردیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کا کافی بڑا طبقہ صحیح اسلامی فکرو عقائد سے محروم ہوگیا۔ لہٰذا آپ کی نگرانی میں مرتب ومہذب سلسلہ وار ایک ایسا مضمون شائع ہو جس میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں عقائد اہل سنت والجماعت اعتدال کے ساتھ شامل ہوں اور انداز مثبت ہو۔

(۲) اسی طرح ایک ایسا مضمون شائع ہو جس میں عقائد سے متعلق مروجہ باطل نظریات کی تردید ہو،مثلاً نظریہ ارتقا کا بطال، نظریہ وحدۃ ادیان کا ابطال، نظریہ انکار حدیث کا ابطال ، نظریہ تجدد دین کا صحیح مفہوم اور اس کی حدود اور اس سے متعلق منفی پہلو وں کے نقصانا ت، الحاد کے اسباب ومضمرات اور اس کا ابطال، استعمار اور عالمگیریت کے منفی پہلو کا اثبات، مغربیت پسندی کا ابطال وغیرہ وغیرہ۔

(۳) برصغیر کے مدارس کے طلبا وعلما کے لیے ’’الغزو الفکری‘‘ کا مکمل تعارف، اس کا تاریخی پس منظر اور اس کی صحیح ترتیب مثلاً الغزو الفکری عہد نبوی صلی اللہ علیہ السلام میں، الغزو الفکری بصورت ارتداد عہد صدیقی میں، الغزو الفکری عہد فارقی میں، الغزو الفکری بصورت خوارج عہد عثمانی میں، الغزو الفکری بصورت روافض وخوارج عہد مرتضوی میں، الغزو الفکری عہد بنو امیہ میں بصورت قدریہ وجبریہ وغیرہ، الغزو الفکری عہد بنی عباس میں بصورت اعتزال، الغزو الفکری عہد عثمانیہ میں بصورت تنصیر (یعنی نصرانی بنانے کی سازش ) اور بصورت تغریب وقومیت عربیہ وترکیہ اور استشراق، الغزو الفکری دو ر حاضر میں بعد سقوط خلافت اسلامیہ بصورت الکٹرانک وپرنٹ میڈیا اور بصورت تجدد اور اباحیت پسندی اور قیام فرق باطلہ اور بصورت انٹر نیٹ وکثرت فلم سازی وغیرہ ۔

(۴) اسی طرح برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اردو زبان میں ’’نوازل فقہیہ معاصرہ ‘‘ یعنی جدید مسائل کو ایک عمدہ ترتیب کے ساتھ یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو عوام الناس کے لیے جس میں صرف جائز وناجائز بغیر دلیل بتایا جائے۔ ایک علما کے لیے دلائل کے ساتھ۔ سرزمین عر ب پر اس سلسلہ میں کافی کام ہو چکاہے، مگر برصغیر میں ابھی کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔ اس کے لیے اولاً پیش آمدہ مسائل کو جمع کرکیاجائے، مثلاً طہارت ،صلوٰۃ، زکوٰۃ ،حج ،قربانی، نکاح، معاملات وغیرہ ابواب قائم کیے جائیں اور پھر پوری گہرائی سے اس کا مطالعہ کیاجائے یاپھر اس کے جوابات تیار کیے جائیں اورمعتبر فقہا کی طرف اس سلسلے میں رجوع کیاجائے ۔.....

(مولانا) محمد حذیفہ وستانوی

Madrasa Isha'atul Uloom, Akkalkuwa

Distt. Nandurbar (M.S) INDIA

(۴)

جناب زاہد الراشدی صاحب

السلام علیکم! امید ہے بخیریت ہوں گے۔

’الشریعہ‘ کا فروری کا شمارہ ملا۔ یقیناًبہت سے موضوعات دلچسپی اور علم میں اضافے کا موجب ہوتے ہیں، لیکن ایک ایسا جریدہ جو مذہبی خیالات کا حامل ہو، اس میں یکایک پیپلز پارٹی کے متعلق (بلکہ اس کے خلاف) مواد شامل کر دیا جائے تو کوئی بھی شخص یہ سمجھنے میں دیر نہیں کرے گا کہ ایجنسیاں گویا ’الشریعہ‘ میں بھی آ ٹپکی ہیں۔ آج کے دور میں کوئی بھی مسئلہ کلر بلائنڈ ہو کر نہیں دیکھا جا سکتا اور نہ اس پر لکھا جا سکتا ہے، اس لیے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک عام آدمی کی بھی رسائی ہے۔ اس کے علاوہ بھٹو کی جاں نثار ٹیم ابھی باقی ہے جنھوں نے صرف مشاہدہ ہی نہیں، عملی کام بھی کیا ہے۔ یاد ہوگا کہ آپ نے ضیاء الحق کو ’شہید‘ لکھا تھا جس پر میں نے احتجاج کیا تھا۔ اب مجھے سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی کہ آپ بھی ضیا کی باقیات میں سے ہیں جس نے ایک عام مولوی کو بھی خاص بنا دیا اور ماشاء اللہ نام نہاد ملا دین کی ترویج کے نام پر سیاسی فوائد سے خوب بہرہ ور ہو رہے ہیں۔

ذو الفقار علی بھٹو بھی یقیناًایک انسان تھا جو خوبیوں اور خامیوں کاحامل تھا، لیکن یہ امر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس قوم کے لیے اس کی بے شمار خدمات ہیں جن میں چیدہ چیدہ یہ ہیں: ۱۹۷۳ء کا آئین، مزدوروں کے لیے سوشل سکیورٹی سسٹم، متعدد میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کا قیام، کامرہ کمپلیکس، کرپشن سے پاک حکومت، ۹۰ ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی، ایٹم بم کے حصول کے لیے کام کا آغاز، صوبائی ونسلی منافرت سے پاک معاشرہ، بلکہ حنیف رامے کے بقول زیڈ اے بھٹو کا یہی کارنامہ سب کارناموں پر بھاری ہے کہ اس نے عام آدمی کو شعور دیا۔ ’الشریعہ‘ کے مضمون نگار کا یہ کہنا کہ لوگ بھٹو کی موت کے بے حد tragic ہونے کے سبب سے اس کے گرویدہ ہو گئے، درست نہیں۔ موت تو ضیاء الحق کو بھی آئی، لیکن آج اس کا نام لیوا کوئی نہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ’الشریعہ‘ جیسے خوبصورت میگزین کو سیاسی معاملات بالکل ڈسکس نہیں کرنے چاہییں، اس کے لیے متعدد دوسرے سیاسی میگزین موجود ہیں۔ اگر ایسا ضروری بھی ہو تو غیر جانبدارانہ رپورٹنگ ہونی چاہیے۔ موضوع کوئی بھی شخصیت ہو، اس کا خوب صورت تجزیہ کر کے نتیجہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے۔ بے نظیر بھٹو کا ذو الفقار علی بھٹو سے کوئی موازنہ نہیں۔ بے نظیر عہدے داران کی لیڈر ہے جبکہ بھٹو قائد عوام تھے۔

آپ نے اداریے میں یورپ کی روشن خیالی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو میر ے خیال میں جانبدارانہ ہے۔ یورپ کی روشن خیالی صرف فری سیکس تک محدود نہیں۔ تعلیمی، سماجی اور سیاسی حوالوں سے اس کی ترقی اور روشن خیالی قابل تعریف ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمیں اپنے کلچر اور اقدار کے مطابق روشن خیالی کو فروغ دینا چاہیے۔اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔

محمد سعید اعوان

اروپ۔ گوجرانوالہ

(۵)

واجب الاحترام جناب مدیر ماہنامہ الشریعہ 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کے موقر رسالہ میں رنگ رنگ کے آرا وافکار کے حامل مضامین سے محظوظ ہونے کا موقع ملتارہتاہے۔ مارچ ۲۰۰۷ ؁ ء میں حافظ محمد ابراہیم شیخ صاحب، حافظ محمد زبیر کے مضمون شائع شدہ ماہ فروری۰۷ ؁۲۰ء پر غیر مودبانہ ہونے کا لیبل لگا کر خود بھی بے اعتدالی کا شکار ہوئے ہیں۔ حافظ محمد زبیر صاحب نے محترم غامدی صاحب پر اپنے تنقیدی جائزہ میں کوئی خلاف حقیقت بات نہیں لکھی ہے، بلکہ جابجا اقتباسات وحوالہ جات دیے ہیں۔ اگر غامدی صاحب کے کرم فرماؤں کو ان تنقیدوں پر اعتراض ہے تو اپنے ممدوح سے ہاتھ جوڑ کر التجا کریں کہ براہ کرم دین اسلام مکمل ہوچکاہے، اس کے لیے مزید نئے اصول وقوانین وضع نہ کیجیے جس سے امت محمدیہ ؑ میں وحدت کے بجائے انتشار واضطراب کو فروغ ملے۔

یہودیوں ،عیسائیوں اور دیگر کفار کو قرآن کریم پر محض اس لیے ناراضگی اور شکایت ہے کہ اس میں ان کے اعمال اور کرتوتوں کی قلعی کھول دی گئی ہے ۔بھلا اس اظہار حقیقت پر ناراضگی کیوں؟ وہ خود ،قرآن کا شکریہ ادا کرکے اپنی اصلاح کریں۔ محمد زبیر صاحب نے بھی غامدی صاحب کی اپنی تحریروں اورکتابوں کا حوالہ دیا ہے ۔کیا حافظ ابراہیم صاحب یہ کہہ کر جھوٹ کا ارتکاب کریں گے کہ غامدی صاحب نے ایسا نہیں کہاہے ؟

قاری محترم، آپ خود انصاف کیجیے کہ حافظ محمد زبیر نے غامدی صاحب کی طرف صرف چار مآخذ دین کی نسبت کتاب ’میزان‘ کی فصل ’اصول ومبادی‘ صفحہ ۴۷ تاصفحہ ۵۲ کی روشنی میں کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بقول آپ کے علمائے اسلام کے بیان کردہ ماخذ دین سے اتفاق بھی صفحہ ۹ تا ص ۱۱ میں بیان ہواہے ۔یہ بات تو غامدی صاحب کی غیر مستقل مزاجی یا فکری انتشار واضطراب کی مظہر ہے۔ ماہنامہ الشریعہ ستمبر ۲۰۰۶ء ؁ میں بھی غامدی صاحب کے تصور سنت کے تنقیدی جائزہ میں ان کے، اپنے وضع کردہ اصولوں سے انحراف کی باحوالہ مثالیں دی گئی ہیں۔ اس پر حافظ محمد ابراہیم صاحب نے کسی برہمی کااظہار نہیں کیا۔گویا انہیں بھی حافظ محمد زبیر صاحب کی تنقیدوں سے اتفاق ہے، ورنہ اختلاف کا موقع ضائع نہ جانے دیتے۔

آخر میں حافظ محمد زبیر کو خداخوفی کی تلقین کی گئی ہے۔ بے شک یہ ایک اچھی نصیحت ہے جسے بصد شکریہ قبول کرنا چاہیے۔ قرآنی تعلیم بھی یہی ہے۔ ہم سب کو ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی شخص بھی اس سے بے نیاز نہیں۔ خصوصاً قرآن وحدیث کے ابدی وزریں اصولوں سے انحراف کرنا، جمہور علمائے اسلام سے ہٹ کر اور انہیں ناسمجھ وکم وفہم ٹھہرا کر آئے دن اسلامی تعلیمات کی حیرت انگیز تشریح کرنا کوئی ترنوالہ نہیں جسے نگلنا آسان ہو۔ سب کو خوف الٰہی دامن گیر رہناچاہیے ۔ فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنۃ اویصیبھم عذاب الیم۔

اللہ تعالیٰ ہمیں عجب اورتکبر سے محفوظ رکھے اورراہ حق پر گامزن رہنے کی توفیق دے۔

رحیم اللہ وارثی

غواڑی، بلتستان، پاکستان

مکاتیب

(مئی ۲۰۰۷ء)

مئی ۲۰۰۷ء

جلد ۱۸ ۔ شمارہ ۵

امت مسلمہ اور مغرب کے علوم و افکار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام کی آفاقیت اور عالمگیریت
مفتی ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی

قائد اعظم اور فوج کا سیاسی کردار
پروفیسر شیخ عبد الرشید

سنت کی دستوری اور آئینی حیثیت
ڈاکٹر محمد سعد صدیقی

غیر مسلم جج کی بحث اور مسلمان ججوں کا کردار
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

مکاتیب
ادارہ

’دشتِ وصال‘ پر ایک نظر
پروفیسر میاں انعام الرحمن

تعارف و تبصرہ
ادارہ

الشریعہ اکادمی کی مطبوعات کی تقریب رونمائی
ادارہ

تلاش

Flag Counter