اس مقام پر اصولی طور پر یہ بحث بھلی معلوم ہوتی ہے کہ مخالفت حدیث کا مفہوم کیا ہوتا ہے؟ کیا ہر مقام پر مخالفت سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی مخالفت مراد ہوتی ہے یا ان الفاظ کے اندر جو معنی اور مدلول پنہاں ہوتا ہے، اس کی مخالفت بھی مراد ہوتی ہے؟ اور اگر کوئی شخص آپ کے ظاہری الفاظ کی تو مخالفت کرتا ہے لیکن ان کے اندر جو معنی مستنبط ہوتا ہے، ا س کی اطاعت کرتا ہے جو بظاہر لفظوں سے متبادر نہیں ہوتا تو کیا اس شخص کو مخالفت حدیث کاملزم قرار دیا جا سکتا ہے؟ اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز سے منع فرمایا ہے تو کیا ہر مقام پر اس منع اور نہی سے حرمت اور کراہت تحریمی ہی مراد ہوگی یا یا ا س سے ترک اولیٰ اور کراہت تنزیہی بھی مراد ہو سکتی ہے؟ اور اگر آپ نے کوئی حکم ارشاد فرمایا ہے تو کیا ہر مقام پر وہ امر وجوب ہی کے لیے ہوگا یا کہیں محض ارشاد اور مشورہ کے لیے بھی ہو سکتا ہے جس کا نہ ماننے والا عاصی اور نافرمان نہیں کہلایا جا سکتا؟
ہم نہایت اختصار کے ساتھ ان امور پر روشنی ڈالتے ہیں۔ غور فرمائیں:
- حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ احزاب کے موقع پر (جب کہ یہود بنی قریظہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف انتہائی ریشہ دوانی کرنے کے بعد مدینہ طیبہ سے چند میل دور قلعہ بند ہو گئے تھے) یہ ارشاد فرمایا کہ فوراً بنو قریظہ کے پاس پہنچو اور تم میں سے کوئی شخص بھی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنو قریظہ میں جا کر۔ چنانچہ راستے میں ان میں سے بعض پر عصر کی نماز کا وقت آ گیا۔ ان میں سے کچھ حضرات نے کہا کہ ہم تو بنو قریظہ ہی میں جا کر نماز پڑھیں گے اور بعض دیگر نے کہا کہ ہم تو نماز یہاں ہی پڑھیں گے، کیونکہ ہم سے یہ تو طلب نہیں کیا گیا کہ ہم نماز نہ پڑھیں۔ انھوں نے نماز پڑھ لی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے کسی کو ملامت نہ کی۔ (بخاری۲/۵۹۱)
ان میں سے ایک گروہ نے معنی مراد کو ملحوظ رکھ کر عصر کے وقت نماز پڑھ لی اور دوسرے گروہ نے ظاہری الفاظ کو دیکھا اور نماز عصر، عشا کے بعد بنو قریظہ پہنچ کر پڑھی۔ حافظ ابن القیمؒ لکھتے ہیں کہ پہلا گروہ فقیہ تھا اور وہ دوہرے اجر کا مستحق ہوا اور دوسرا گروہ معذور بلکہ ماجور تھا مگر ایک اجر کا وہ بھی مستحق ہوا۔ (زاد المعاد ۲/۷۲)
تعجب ہے کہ حضرات صحابہ کرام کا ایک گروہ ظاہری الفاظ کے خلاف عمل کرتا ہے اور وہ پھر بھی قابل ملامت نہیں ٹھہرتا بلکہ ماجور ہوتا ہے اور اجر بھی دوہرا۔ اور مفہوم کو وہ لفظوں کے اندر چھپا ہوا پاتا ہے، ظاہری الفاظ میں تو اس کی کہیں بو تک محسوس نہیں ہوتی۔ اگر مخالفت حدیث کا یہ مطلب ہوتا کہ ظاہری الفاظ کی مخالفت ہو اور معنی مستنبط کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہ ضرور مخالفت ہوگی، ورنہ یہ عمل بالحدیث ہی ہوگا جو کسی طرح قابل ملامت نہیں ہے۔ - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی حضرت ماریہؓ کو منافقین کے ایک گروہ نے ان کے چچازاد بھائی حضرت مابور سے متہم کر دیا۔ یہ خبر اس انداز سے پھیلی کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس خبر کا یقین آ گیا اور کچھ قرائن اور شواہد بھی ایسے تھے جن کی وجہ سے آپ کا یہ یقین بے جا نہ تھا۔ آپ نے غیرت میں آکر حضرت علی سے فرمایا کہ مابور کو جہاں ملے، جا کر قتل کر دو۔ آپ کے الفاظ یہ ہیں: ’اذہب فاضرب عنقہ‘ (مسلم ۲/۳۶۸) ’’جا اور جا کر اس کی گردن اڑا دے۔‘‘
حضرت علی گئے تو دیکھا کہ وہ ایک کنویں میں پاؤں لٹکائے ہوئے بیٹھا ہے اور اس کو جو وہاں سے کھینچا تو اس کشمکش میں ا س کا تہ بند کھل گیا۔ حضرت علی نے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ مجبوب ونامرد تھا اور اس کا سرے سے آلہ تناسل ہی نہ تھا۔ (مسلم) حضرت علی نے جب یہ محسوس کیا کہ اس شخص میں قتل کرنے کی وہ علت ہی نہیں پائی جاتی جس کی بنا پر مجھے دربار رسالت سے حکم ملا تھا تو انھوں نے آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اس ظاہری حکم کی تعمیل نہ کی اور واپس جا کر آپ سے یہ ماجرا بیان کیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’الشاہد یری ما لا یری الغائب‘ (مسند احمد) ’’حاضر وہ کچھ دیکھ سکتا ہے جو غائب نہیں دیکھ سکتا۔‘‘
آپ جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح اور بالمشافہہ حکم اور وہ بھی تعزیر وحد کی مد کا جس میں بحکم خداوندی کسی نرم اور رافت کی کوئی گنجایش ہی نہیں، کیا درجہ رکھتا ہے! مگر حضرت علی اس حکم کی تعمیل کرنے سے اپنے آپ کو قاصر پاتے ہیں اور دربار نبوت سے بجائے ملامت اور سرزنش کے وہ اس ترک حکم پر داد تحسین حاصل رتے ہیں۔ اب کیا کہا جائے کہ حضرت علی آپ کے اس حکم اور حدیث کی مخالفت کی وجہ سے منکر اور مخالف حدیث ہیں؟ حاشا وکلا کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ - o حضرت علی ہی کی ایک روایت میں ہے، وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نوکرانی نے زنا کیا۔ مجھے آپ نے فرمایا کہ جا کر اس کو کوڑے لگا دو۔ میں گیا تو دیکھا کہ اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے۔ مجھے خوف ہوا کہ اگر میں نے اس کو سزا دی تو کہیں وہ مر ہی نہ جائے۔ میں بغیر سزا دیے واپس آپ کی خدمت میں پہنچا اور سارا قصہ سنا دیا۔ آپ نے فرمایا : تو نے اچھا کیا ہے۔ (مسلم ۲/۷۱)
غور فرمائیے کہ آپ کا ظاہری حکم مقید اور مشروط نہ تھا، لیکن حضرت علی نے جو فقہاے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں، اپنے تفقہ واجتہاد سے یہ سمجھا کہ آپ کا حکم درحقیقت مشروط ومقید ہے بایں شرط کہ وہ لونڈی ہلاک نہ ہو جائے، اور زچگی کی حالت میں سزا دینا ہو سکتا ہے کہ اس کی موت پر منتج ہو، اس لیے انھوں نے کوئی سزا نہ دی اور واپس چلے آئے۔ آپ نے یہ سن کر بجائے اس کے کہ ان کو عصیاں اور رو گردانی کے داغ سے داغدار کرتے، الٹا ان کی تائید وتصویب اور تحسین فرمائی: احسنت، کہ تو نے اچھا کیا۔ برعکس اس کے اگر اس حالت میں حضرت علی اس کو کوڑے لگا دیتے تو آپ کے ظاہری حکم کی تعمیل کی وجہ سے بہت ممکن ہے کہ وہ معتوب ٹھہرتے۔ اس ایک ہی واقعہ سے بہت سے اجتہادی، قیاسی اور فروعی مسائل جو بظاہر بعض احادیث کے ظاہری الفاظ کے مخالف نظر آتے ہیں، خود بخود حل ہو جاتے ہیں۔ ہاں، مگر مجتہد میں تفقہ واجتہاد کا ملکہ ہونا ضروری ہے۔ - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خصال فطرت بیان فرماتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’ونتف الابط‘ (بخاری ۲/۸۷۵۔ مسلم ۱/۱۲۸۔ ابو عوانہ ۱/۱۹۰) ’’زیر بغل بال اکھاڑے جائیں۔‘‘ لغت عربی میں نتف کے معنی موچنے کے ساتھ بالوں کے اکھاڑنے کے آتے ہیں۔ کسی صحیح اور مرفوع روایت میں حلق الابط (استرے کے ساتھ زیر بغل بالوں کا منڈانا) نہیں آتا، مگر جمہور امت نتف پر عمل نہیں کرتے۔ امام نووی اور قاضی شوکانی نتف الابط کی شرح میں لکھتے یں کہ زیر بغل بالوں کا اکھاڑنا بالاتفاق سنت ہے اور افضل اس میں جو ا س پر قوی ہو، اکھاڑنا ہی ہے اور منڈوانے اور چونہ سے زائل کرنے سے بھی یہ مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔ یونس بن عبد الاعلیٰ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں امام شافعی کے پاس گیا تو ان کے پاس حجام تھا جو ان کی بغلوں کے بال استرے سے صاف کر رہا تھا۔ حضرت امام شافعی نے ازخود ہی یہ فرمایا کہ میں اس کو جانتا ہوں کہ سنت بالوں کا اکھاڑنا ہی ہے مگر میں اس تکلیف کو برداشت نہیں کرسکتا۔ (شرح مسلم ۱/۱۲۹۔ نیل الاوطار ۲/۱۲۴)
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث میں بصراحت کوئی ایسی قید ثابت نہیں کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو اکھاڑنے پر قوی ہو مگر شراح حدیث اس کو اس قید سے مقید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ استرے اور چونے سے بھی یہ مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امام اہل سنت حضرت امام شافعیؒ بھی فرماتے ہیں کہ نتف الابط کی حدیث پر باوجود اس کو سنت کہنے کے عمل نہیں کر سکے اور معذرت کر گئے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو حضرات روح شریعت سے واقف ہیں اور صرف پوست پر ہی اکتفا نہیں کرتے، وہ ازروے تفقہ یہ سمجھتے ہیں کہ مقصود بالذات تو بالوں کا دور کرنا ہے، خواہ وہ کسی بھی صورت سے حاصل ہو جائے۔ - حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’لا یتمنین احدکم الموت من ضر اصابہ فان کان لابد فاعلا فلیقل اللہم احینی ما کانت الحیوۃ خیرا لی وتوفنی اذا کانت الوفاۃ خیرا لی‘ (بخاری ۲/۸۴۷) ’’تم میں سے کوئی شخص بھی ہرگز کسی دکھ کی وجہ سے جو اسے پہنچا ہو، موت کی تمنا مت کرے۔ سو اگر خواہ مخواہ یہ تمنا کرنی ہی ہے تو یوں کہے: اے اللہ، تو مجھے زندہ رکھ اگر میرے لیے زندگی بہتر ہے اور تو مجھے وفات دے دے اگر میرے حق میں وفات بہتر ہے۔‘‘
اس حدیث میں لفظ ’ضر‘ مطلق ہے، عام اس سے کہ یہ ضرر دینی ہو یا دنیوی، مگر شراح حدیث اس مقام میں اسے دنیوی ضرر سے مقید کرتے ہیں چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے موت کی آرزو کی تھی جب کہ معاملات بہت پیچیدہ ہو گئے اور فتنے بڑھ گئے اور قتل وقتال کا بازار گرم ہو گیا ور قیل وقال بہت کثرت سے شروع ہو گئی تھی۔ اسی طرح جب امام بخاری کی حالت سخت ہو گئی اور اپنے مخالفین سے پریشانیوں کا سامنا ہوا تو انھوں نے بھی موت کی آرزو کی تھی۔ ابن کثیرؒ نہی عن الموت کی حدیث کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ’ضر‘ سے مراد اس حدیث میں ایسا ضرر جو آدمی کو بدنی طور پر پیش ائے مثلاً بیماری وغیرہ۔ اس سے دینی ضرر مراد نہیں ہے۔ (البدایہ والنہایہ ۱/۲۱۹)
غور فرمائیے کہ جو شخص ضرر کی دینی اور دنیوی تقسیم نہیں کرے گا اور حدیث میں نہی کو عام سمجھے گا تو اس کے خیال میں حضرت علی اور حضرت امام بخاری وغیرہ اس صحیح حدیث کے مخالف نظر آئیں گے۔ اور اگر وہ اس حدیث کے اندر یہ تقسیم تلاش کرے گا تو اس کو ناکامی ہوگی، مگر شراح حدیث اور فقہاے امت کے تفقہ سے یہ گتھی سلجھے گی اور ان اکابر کے خلاف مخالف حدیث ہونے کا ادنیٰ وہم بھی نہیں ہو سکے گا۔ - کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے نہی فرماتے ہیں، لیکن الفاظ اس تفصیل اور تشریح سے خاموش ہوتے ہیں کہ اس میں نہی کا درجہ کیا ہے؟ حرام ہے یا خلاف اولیٰ؟ مگر تاڑنے والی نگاہیں اپنی خدادا فراست وبصیرت اور تفقہ سے اس کا مقام متعین کر لیتی ہیں۔ مثلاً حضرت ام عطیہ کی حدیث میں آتا ہے کہ ’نہینا عن اتباع الجنائز ولم یعزم علینا‘ (بخاری ۱/۱۷۰) ’’ہم عورتوں کو جنازوں میں شریک ہونے سے منع کیا گیا ہے لیکن ہم پر اس کی تاکید نہیں کی گئی۔‘‘
امام نووی اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازوں میں شریک ہونے سے منع کیا ہے، لیکن یہ نہی تنزیہی کے درجہ کی ہے، نہی تاکیدی اور تحریمی کے مرتبہ کی نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ام عطیہ نے اپنی بصیرت اور تفقہ سے آپ کی اس نہی کا درجہ قائم کیا ہے، حالانکہ حدیث میں صرف نہی کے الفاظ ہیں اور اس میں یہ تقسیم مذکور وموجود نہیں ہے مگر ا س کے اندر کی حقیقت اور تہہ کو سمجھنا بڑا اہم اور ضروری کام ہے اور اسی کو پا لینے کا نام تفقہ ہے۔ - بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی حکم صادر فرماتے ہیں مگر وہ حکم صرف مشورہ کی حد تک ہوتا ہے اور اس کا ماننا نہ ماننا دونوں جائز ہوتے ہیں اور آپ کے ایسے حکم کا انکار (معاذ اللہ) آپ کی نافرمانی تصور نہیں ہوتی۔ مثلاً جب حضرت بریرہ کو آزادی حاصل ہوئی تو شرعی مسئلے کے تحت ان کو اپنے خاوند حضرت مغیث کے پاس رہنے یانکاح فسخ کرانے کی اجازت ملی۔ انھوں نے حضرت مغیث سے رستگاری کو ترجیح دی اور وہ بے چارے گلیوں میں حضرت بریرہ کے پیچھے رو رو کر یہ التجا کرتے رہے کہ تو مجھ سے الگ نہ ہو، مگر وہ نہ مانیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بریرہ، تو مغیث کے پاس ہی رہے تو کیا اچھا ہے۔ وہ کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ! کیا آپ مجھ کو اس کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ حکم تو نہیں دیتا، صر ف سفارش کرتا ہوں۔ بریرہ نے کہا تو پھر مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ (بخاری ۲/۷۹۵۔ مشکوٰۃ ۲/۲۷۶)
دیکھیے کہ حضرت بریرہ اپنے تفقہ فی الدین کی وجہ سے آپ کے حکم وارشاد کا درجہ خود آپ ہی سے متعین کرانا چاہتی ہیں کہ اگر یہ حکم اور امر ہے تو مجھے اس کے تسلیم کرنے سے کیا چارہ ہے! اور اگر صرف مشورہ ہے تو مجھے قبول کرنے یا نہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ چنانچہ آپ کے ارشاد کے بعد حضرت بریرہ نے وہی کچھ کیا جو ان کو پسند تھا اور حضرت مغیث سے رہائی حاصل کر لی۔ - کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ خداوند عزیز کے حکم کی حقیقت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے مجتہد کو حکم خداوندی سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے اجتہادی حکم پر عمل کرنا پڑے گا اور اس طریق سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل ہوگی۔ چنانچہ ایک طویل حدیث میں یہ آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب لشکر کو جہاد کے لیے روانہ فرماتے تو امراے لشکر کو نہایت ضروری اور مفید وصایا اور نصائح فرماتے اور ان میں یہ بھی مذکور ہے کہ جب تم اہل قلعہ کا محاصرہ کر لو اور وہ تم سے مصالحت کرتے ہوئے یہ ارادہ کریں کہ تم ان کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر اتارو تو تم ان کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر پناہ نہ دو، بلکہ ان کو اپنے حکم پر پناہ دو کیونکہ تم یہ نہیں جانتے کہ کیا تم ان کے حق میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو پا سکو گے یا نہیں۔ (مسلم ۲/۸۲۔ ابو داؤد ۱/۳۵۲۔ ترمذی ۱/۱۹۷۔ ابن ماجہ ص ۲۱۰)
اندازہ فرمائیے کہ ایک مقام وہ بھی نکل آیا جہاں مجتہد بحکم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے حکم سے بایں وجہ صرف نظر کرتے ہوئے کہ وہ شاید اس تک نہ پہنچ سکے، اپنے حکم پر فیصلہ پر مامور ہے۔ علاوہ ازیں آپ کی اس ممانعت اور نہی میں تحریم وتنزیہ کی کوئی قید موجود نہیں، مگر امام نووی وغیرہ اس کو نہی تنزیہی پر حمل کرتے ہیں۔ غور فرمائیے کہ ان دقیق اور عمیق علمی باریکیوں کو بھلا درایت وفراست کی بصیرت وفہم اور فقہ واجتہاد کے بغیر کس طرح حل کیا جا سکتا ہے؟ - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ہدی‘ یعنی حج کے موقع پر قربانی کے لیے مکہ مکرمہ لے جائے جانے والے جانور کا ’اشعار‘ کرنے یعنی ان کے جسم پر ایک زخم لگا دینے کا حکم دیا ہے، مگر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی دیگر صحیح اور صریح روایات جانوروں پر تعدی سے منع کرتی ہیں۔ اہل عرب کے پاس اونٹ بھی فراواں تھے اور وہ سنت کے مطابق اشعار کا طریقہ بھی بخوبی جانتے تھے، بخلاف اکثر اہل عجم کے جو ایسے طریقے پر اشعار کرتے جس سے زخم جسم میں سرایت کر جاتا اور اس سے قربانی کے جانوروں کے ہلاک ہونے کا خطرہ ہوتا تھا۔ چنانچہ امام ابو حنیفہ نے سد ذرائع کے طور پر اس سے منع کر دیا کیونکہ عوام اس کی رعایت نہیں رکھ سکتے تھے۔ (فتح الملہم ۳/۳۱۰)
یہ ایسے ہی ہے جیسے حضرت عبد اللہ بن عمر سے لوگوں کے مسجد میں صلوٰۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) پڑھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ بدعت ہے۔ (بخاری ۱/۲۳۸۔ مسلم ۱/۴۰۹) امام نووی اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کی مراد یہ ہے کہ چاشت کی نماز کو مسجد میں ظاہر کر کے پڑھنا اور اس کے لیے اجتماع کرنا یہ بدعت ہے، نہ یہ کہ نفس صلوٰۃ الضحیٰ ہی بدعت ہے۔ (شرح مسلم ۱/۴۰۹) اور اہل علم پر یہ بات مخفی نہیں کہ بعض چیزیں باوجود سنت ہونے کے جب ان کے ساتھ مزید غیر شرعی قیود شامل ہو جائیں تو وہ بدعت ہو جاتی ہیں۔
ان مثالوں سے ہر منصف مزاج بآسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ حدیث کے ظاہری الفاظ کے علاوہ اس کے اندر اور اس کی تہہ میں کہیں شرط خفتہ ہوتی ہے اور کہیں قید پوشیدہ ہوتی ہے، کہیں کوئی علت اور لم پنہاں ہوتی ہے اور کہیں برعکس ظاہری الفاظ کے ادب مستحب مضمر ہوتا ہے، کہیں امر میں استحباب واباحت کے مراتب مخفی ہوتے ہیں اور کہیں نہی میں احتیاط وتنزیہ کارفرما ہوتے ہیں، کہیں ترفق وترحم سبب قرار پاتے ہیں اور کہیں مشورہ وسہولت کا مقام ہویدا ہوتا ہے، اور کہیں صاف الفاظ تو کچھ کہتے ہیں مگر ان کے اندر معنئ مستنبط کچھ اور ہی جھلکتا ہے جس کو صرف فقیہ اور مجتہد کی نظربصیرت اور فراست علمی ہی تاڑ سکتی ہے، اور باقی پوست کے دل دادہ مغز کی لطف اندوزی سے یکسر محروم اور حرماں نصیب ہی رہتے ہیں۔
(ماخوذ از ’’مقام ابی حنیفہ‘‘۔ ترتیب وتدوین: عمار ناصر)