امہات المومنینؓ کے لیے حجاب کے خصوصی احکام

ڈاکٹر عبد الباری عتیقی

’’الشریعہ ‘‘کے اگست ۲۰۰۷ء کے شمارے میں جناب ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی کا مضمون ’’امہات المومنینؓ کے لیے حجاب کے خصوصی احکام ‘‘اورستمبر ۲۰۰۷ء کے شمارے میں اس مضمون پر محمد رفیق چودھری صاحب کی تنقید بعنوان ’’امہات المومنین اورآیت حجاب کاحکم ‘‘نظر سے گزرے۔اس سلسلے میں سورۃ احزاب کی آیت ۳۳کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں ،اس آیت کا ترجمہ حسب ذیل ہے :

’’اوراپنے گھروں میں ٹک کر رہو،دور جاہلیت کی عورتوں کی طرح اپنی زینت کی نمائش کرتی نہ پھرو،نماز قائم کرو، زکوٰۃ اداکرو ،اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو،اللہ چاہتاہے یہ کہ تم اہل بیت سے آلودگی کو دوررکھے اورتمہیں اچھی طرح پاک کردے ۔‘‘(احزاب :۳۳)

اس آیت کے حوالے سے سب سے پہلے یہ سوال پید اہوتاہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے عام عورتوں کے لیے بے شمار احکامات دیے ہیں اوران میں سے بہت سے احکامات توخالص نسوانی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں، پھر کسی ایک جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے یہ اسلوب کیوں اختیار نہیں کیا جومذکورہ آیت میں اختیار کیا ہے کہ مخاطب تو امہات المومنین کوکیا جائے مگر حکم میں شامل ہو ں تما م خواتین؟آخرصرف اس آیت میں یہ منفرد اسلوب اختیار کرنے میں کیا حکمت ہے ؟خاص طورپر ایک سورت کے اندر جس میں کئی احکامات تو انتہائی واضح اور غیر مبہم انداز میں رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم اورامہات المومنینؓ کے لیے خاص ہیں ۔مثلاًرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خصوصی ازدواجی قوانین، تخییرکے بعد آپ پر اپنی ازواج کو طلاق دینے پر پابندی، ازواج رسول کے لیے امت کی مائیں ہونے کاشرف اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد ان کے کسی اورسے نکاح پر پابندی وغیرہ ۔اپنے سیا ق وسباق میں ایسا منفرد ا نداز بیان اختیار کرنے میں کوئی مضبوط حکمت اوررعلت ہونی چاہیے ۔صرف یہ وجہ کہ چونکہ امہات المومنینؓ عام عورتوں کے لیے ،خاص طورپر نسوانی معاملات میں اسوہ حسنہ اورنمونہ عمل ہیں ،اس لیے ان کومخاطب کرکے دیے جانے والے احکامات خواتین کے لیے عام ہیں ،کوئی مضبوط وجہ نظر نہیں آتی کیوں کہ پھردوسرے مقامات پر بھی ،یاکم ازکم کسی ایک دومقامات پر تو ،یہی اسلوب اختیار کیا جاناچاہیے تھا ۔

جہاں تک اس دلیل کاتعلق ہے کہ چونکہ اس آیت میں مثلاًنماز ،زکوٰۃ اوراللہ اوررسول کی اطاعت کے احکامات بھی دیے گئے ہیں اوروہ بالبداہت تمام عورتوں کے لیے ہیں اس لیے’’وقرن فی بیوتکن‘‘ کا حکم بھی تمام عورتوں کے لیے ہوناچاہیے ،توا س سلسلے میں گزارش ہے کہ نماز ،زکوٰۃ اوراللہ اوررسول کی اطاعت عام عورتوں پر محض اس آیت میں بیان ہونے کے نتیجے میں لازم نہیں ہوئے بلکہ ان پر یہ احکامات قرآن میں دوسرے بے شمار مقامات پر ان ہی کو مخاطب کر کے دیے جانے کی وجہ سے لازم ہوئے ہیں ۔ یعنی اگر نماز ،زکوٰۃ اوراللہ ورسول کی اطاعت کا ذکر صرف اس آیت میں ہوتاتو ہم پورے اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے تھے کہ یہ احکامات بھی صرف امہات المومنین کے لیے ہیں لیکن چونکہ ایسانہیں ہے اس وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ احکامات دوسری جگہوں پر بیان ہونے کی وجہ سے تمام عورتوں کے لیے خاص ہیں اور ’’وقرن فی بیوتکن‘‘ کاحکم صرف اس آیت میں بیان ہونے کی وجہ سے امہات المومنینؓ کے لیے خاص ہے ۔

اس بات کو بلاتشبیہ اس طرح سمجھیں کہ مثلاًایک فٹ بال ٹیم کاکوچ اپنے کھلاڑیوں کو مخاطب کرکے یہ ہدایات دے کہ : ’’تم عام نوجوانوں کی طرح نہیں ہو، تمہیں چاہیے کہ را ت میں جلد ی سو،صبح جلد ی اٹھو ،پانچ وقت نماز اداکرو،اچھی خوراک لواورکم از کم پانچ گھنٹے کھیل کی پریکٹس کرو۔‘‘ تواگرچہ کہ پہلی چار ہدایات تو عام نوجوانوں کے لیے بھی اسی طرح ہیں لیکن کیاآخری ہدایت کوبھی ان عام ہدایات کے ساتھ بیان ہونے کی وجہ سے تمام نوجوانوں کے لیے لازمی سمجھنا چاہیے؟ظاہر ہے کہ جواب نفی میں ہوگا کیوں کہ آخری ہدایت انتہائی غیر مبہم طورپر صرف کھلاڑیوں کے ساتھ خاص ہے ۔

پھر ایک سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر’’وقرن فی بیوتکن‘‘ کے حکم کو نماز ،زکوٰۃ اوراللہ ورسول کی اطاعت کے احکامات کے ساتھ بیان ہونے کی وجہ سے تمام عورتوں کے لیے عام مانا جائے کیونکہ موخرالذکر احکامات تمام عورتوں کے لیے عام ہیں تویہ موخرالذکر احکامات تومردوں کے لیے بھی عام ہیں ،توتمام مردوں کو ’’وقرن فی بیوتکن ‘‘کے حکم میں بھی داخل کیوں نہ سمجھا جائے؟ جب نماز ،زکوٰۃ اوراللہ ورسول کی اطاعت کے احکامات مردوں کے لیے بھی ہیں تو ’’وقرن فی بیوتکن‘‘ کاحکم ان کے لیے کیوں نہ ہو؟کیا اس آیت کا مطلب یہ لیاجائے گا کہ صرف عورتیں ہی گندگی سے پاک ہوں اوراللہ تعالیٰ مردوں کوگندگی سے پاک نہیں کرناچاہتا؟کیا صرف عورتوں کے لیے حکم ہے کہ وہ جاہلیت کے طورطریقوں سے پرہیز کریں اور مردوں کواس بات کی اجازت ہے؟کیا صرف عورتوں کے لیے نماز اور زکوٰۃ کاحکم ہے اورمرد اس سے مستثنیٰ ہیں؟کیا صرف عورتوں کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کریں اورمردوں کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اللہ اوررسول کی نافرمانی کیا کریں؟ ’’وقرن فی بیوتکن ‘‘کے حکم سے مرد وں کے استثنا کی آخر کیا دلیل ہے؟ اگر اس کے جواب میںیہ کہاجائے کہ اس میں مخاطب ہی عورتوں کو کیاگیا ہے اس لیے یہ حکم عورتوں تک محدود ہوگا تویہی توبات ہو رہی ہے کہ جب مخاطب عورتوں کے بھی ایک خاص طبقے ’’امہات المومنین‘‘ کو کیاجارہاہے،توحکم بھی انہی تک خاص رہنا چاہیے۔

جہاں تک بات عام مردو ں اورعورتوں کے تعلقات کے موقع پر ان کے دلوں کی پاکیزگی کی ہے تواس کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور کی آیات ۳۰ ۔۳۱ میں انتہائی واضح طورپر بتادیاہے، اس لیے یہ طریقہ بھی امہات المومنین کے لیے مخصوص احکامات کی آیات سے اخذکرنے کے بجائے سورۃ نور کی مذکورہ آیات سے اخذکرناچاہیے ۔ ہم یہ بات سمجھنے سے قاصرہیں کہ آخر اس میں پریشان ہونے یانہ سمجھ میں آنے والی کون سی بات ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی فرد، گروہ یاطبقہ کوکوئی مخصوص ذمہ داری اورمنصب عطاکرے تواس ذمہ داری کی مناسبت سے کچھ مخصوص احکامات، کچھ اضافی پابندیاں اورکچھ حدود وقیود کا اضافہ بھی کردے۔ عقل تو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایسا ہوناچاہیے اورسورۃ احزاب میں ایسا ہی ہوا ہے۔

قرآن / علوم القرآن

(دسمبر ۲۰۰۷ء)

تلاش

Flag Counter