بھارت کے معروف دانش ور ڈاکٹر یوگندر سکند گزشتہ دنوں پاکستان آئے۔ چند روز لاہور میں قیام کیا۔ حیدر آباد اور دیگر مقامات پر بھی گئے۔ دو دن ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں قیام کیا، الشریعہ اکادمی کی ایک نشست میں سرکردہ علماے کرام اور اساتذہ وطلبہ سے بھارت کی مجموعی صورت حال، خاص طور پر مسلمانوں کے حالات پر گفتگو کی اور مختلف حضرات سے ملاقاتوں کے بعد بھارت واپس چلے گئے۔ ڈاکٹر یوگندر سکند کے والد سکھ تھے اور والد ہ کا تعلق ہندو خاندان سے ہے۔ خود اپنے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ خدا کی ذات پر یقین رکھتے ہیں اور انسانی سوسائٹی کے لیے مذہب کے رفاہی پہلووں کے قائل ہیں، مگر خود کو کسی خا ص مذہب کے دائرے میں پابند نہیں سمجھتے، البتہ ان کے مطالعہ وتحقیق اور تحریروں کا سب سے زیادہ موضوع مسلمان ہیں اور انھوں نے اب تک جو کچھ لکھا ہے، زیادہ تر اسی حوالے سے لکھا ہے۔ تبلیغی جماعت کے آغاز وارتقا اور اس کے سماجی اثرات ، ہندوستان میں بین المذاہب مکالمہ، اسلام، ذات پات اور مسلم دلت تعلقات، اور بھارت کے دینی مدارس کے عنوانات پر انھوں نے مستقل کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ ڈاکٹر یوگندر سکند نے اسلام انٹرفیتھ کے عنوان سے ایک ویب سائٹ بھی بنا رکھی ہے جس پر ’’قلندر‘‘ کے نام سے ان کا ویب میگزین شائع ہوتا ہے ۔
عزیزم محمد عمار خان ناصر کا انٹر نیٹ کے ذریعے سے ڈاکٹر یوگندر سکند سے کافی عرصے سے رابطہ ہے اور ’الشریعہ‘ میں ان کی بعض تحریروں کا ترجمہ شائع ہوتا رہتا ہے۔ اسی حوالے سے وہ پاکستان آمدکے موقع پر گوجرانوالہ بھی آئے اور دو روز ہمارے مہمان رہے۔ میں نے اس دوران میں ایک نشست میں کچھ امور پر گفتگو کی جس کی روشنی میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں۔
یونیورسٹی کی تعلیم کے زمانے میں ڈاکٹر یوگندر سکند لیفٹ کے فکری حلقے سے وابستہ ہو گئے اور انھوں نے ان کے ساتھ سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ ا ن کا کہنا ہے کہ بھارت میں لیفٹ کی پارٹیاں ہمیشہ فرقہ واریت کے خلاف فعال اور متحرک رہی ہیں اور اسی کے زیر اثر انھوں نے فرقہ واریت، خاص طور پر ہندو فاشزم کے خلاف لکھنا شروع کیا۔ ان کے خیالات، فکری ترجیحات اور تجزیوں میں بائیں بازو کی چھاپ صاف نمایاں ہے۔
مذہب کے بارے میں لیفٹ کے دیگر دانش وروں کی طر ح ان کا خیال ہے کہ یہ سماج کی پیداوار ہے اور اس کے صرف وہ پہلو قابل استفادہ ہیں جو انسانیت کی فلاح وبہبود سے تعلق رکھتے ہیں اور جو حقو ق العباد کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مذہب کی ایسی تشریح نہیں ہونی چاہیے جو لوگوں کے درمیان منافرت کا باعث بنتی ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی تگ ودو زیادہ تر دو پہلووں پر ہے۔ ایک یہ کہ بھارت میں مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان مفاہمت کو کس طرح فروغ دیا جا سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ مذہب کی انسانیت مخالف تشریح کا راستہ کیسے روکا جا سکتا ہے۔ بھارت کے تناظر میں ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان برداشت اور مفاہمت کے فروغ میں جمعیت العلماء ہند کا کردار ہمیشہ سے نمایاں چلا آ رہا ہے، جماعت اسلامی بھی اب اس رخ پر آگے بڑھ رہی ہے ، جبکہ مسلم بزرگان دین کی وہ درگاہیں اس سلسلے میں بہت نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں جہاں حاضر ہونے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کی بھی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم صوفیا کا خانقاہی نظام اب خانقاہی نہیں رہا بلکہ درگاہی بن گیا ہے، لیکن مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان میل جول میں ان کا کردار بہت نمایاں ہے۔
ڈاکٹر یوگندر سکند چونکہ لیفٹ کے فکری حلقے سے متاثر ہیں، اس لیے معاشرے کی مذہبی تقسیم یا کلچر کے حوالے سے تقسیم سے زیادہ طبقاتی تقسیم پر یقین رکھتے ہیں۔ ہندوستان کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اصل تقسیم طبقاتی ہے، کیونکہ اعلیٰ ذات کے مسلمانوں کا طرز عمل نچلی ذاتوں کے مسلمانوں کے ساتھ وہی ہے جو ہندووں کی اعلیٰ ذات کے لوگوں کا نچلی ذاتوں کے ہندووں کے ساتھ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح ہندووں میں برہمن ذات کے لوگ نچلی ذات کے ہندووں کے ساتھ رشتے ناتے نہیں کرتے، اسی طرح مسلمانوں میں مغل، سید، پٹھان اور شیخ برادریوں کے لوگ دوسری ذاتوں کے مسلمانوں کے ساتھ رشتے ناتے سے گریز کرتے ہیں۔ اسی طر ح اعلیٰ ذات اور طبقے کے ہندووں اور اعلیٰ ذات اور طبقے کے مسلمانوں کے سماجی مسائل ملتے جلتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس نچلی ذاتو ں کے ہندووں اور نچلی ذاتوں کے مسلمانوں کے مسائل بھی آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ ڈاکٹر یوگندر سکند کا خیال ہے کہ بھارت میں ۱۵ فی صد مسلمان ہیں اور ۱۵ فیصد ہی دلت (اچھوت) ہندو ہیں۔ ان دونوں طبقوں کی مشکلات، مسائل اور پریشانیاں ایک جیسی ہیں، لیکن جس طرح برہمن ہندو مسلمانوں اور دلتوں کے درمیان میل جول اور اشتراک واتحاد میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں، اسی طرح اعلیٰ طبقے کے مسلمانوں کو بھی عام مسلمانوں اور دلتوں کا میل جول اچھا نہیں لگتا۔ بالادست طبقہ اس تفریق اور تضاد کو قائم رکھنا چاہتا ہے کیونکہ اس کا مفاد اسی میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دلتوں یعنی نچلی ذاتوں کے ہندووں کو اب یہ سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ ان کی پس ماندگی اور تحقیر کے اصل ذمہ دار مسلمان ہیں کیونکہ وہ بہادر لوگ تھے، انھوں نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا تھا، اس لیے مسلمانوں نے اپنے دور اقتدار میں انھیں اچھوت بنا دیا اور جان بوجھ کر پس ماندہ رکھا۔ اس طرح برہمن ہندو دلتوں کو مسلمانوں سے متنفر کرنے کے لیے پوری تاریخ تبدیل کر رہا ہے۔
عالمی سطح بھی ڈاکٹر یوگندر سکند تہذیبی کشمکش اور سولائزیشن وار کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل کشمکش امیر اقوام اور غریب اقوام کے درمیان ہے۔ دولت مند اقوام وممالک ڈبلیو ٹی او اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے سے پوری دنیا کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرتے جا رہے ہیں اور گلوبل اجارہ داری کی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن دنیا کو انھوں نے اسلام اور مسیحیت کی کشمکش اور سولائزیشن وار کے تصورات میں الجھا رکھا ہے۔
مسلمانوں کے دینی مدارس کے بارے میں یوگندر کا کہنا ہے کہ ایک عرصے سے ان مدارس کے خلاف عالمی سطح پر الزامات عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے جس میں نائن الیون کے بعد بہت تیزی آئی ہے، اس لیے انھوں نے ایک مستقل کتاب میں اس صورت حال کا جائزہ لیا ہے اور بھارت کے مختلف مکاتب فکر کے دینی مدارس کے نظام ونصاب کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کر کے یہ بات واضح کی ہے کہ بھارت میں پائے جانے والے دینی مدارس کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ ان میں دہشت گردی یا منافرت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ انھوں نے اس سلسلے میں بھارت کے مسلم دینی مدارس ہی کا جائزہ لیا تھا، اس لیے اپنی کتاب میں انھی کے حوالے سے بات کی ہے اور سوسائٹی پر دینی مدارس کے مثبت اثرات کو بھی اجاگر کیا ہے۔
اپنے دورۂ پاکستان کے تاثرات کو بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ یہاں آتے ہوئے ڈر رہے تھے کہ خدا جانے انھیں کس قسم کے طرز عمل کا سامنا کرنا پڑے، لیکن پاکستان میں انھیں جس محبت اور مہمان نوازی کے ساتھ ڈیل کیا جا رہا ہے، وہ یوں سمجھ رہے ہیں جیسے اپنے ہی ملک میں ہوں اور انھیں کسی قسم کی اجنبیت کا قطعاً احساس نہیں ہو رہا، البتہ یہاں کا سسٹم اورنظام دیکھ کر انھیں افسوس ہو رہا ہے کہ اقتصادیات، تعلیم، قانون کی عمل داری اور کسی منظم سسٹم کے حوالے سے کوئی ترقی نہیں ہو رہی اور عام لوگوں کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔
ڈاکٹر یوگندر سکند جنوبی ایشیا کی نئی نسل کے دانش ور ہیں اور آج کی دنیا سے پوری طرح باخبر ہیں۔ وہ صرف حالات معلوم کر کے ان کے بارے میں رائے قائم نہیں کرتے، بلکہ اپنی رائے عالمی سطح پر لوگوں تک پہنچا کر انھیں متاثر بھی کرتے ہیں۔ ان کے خیالات اور مختلف امور پر ان کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں، مگر آج کے ان ملٹی نیشنل دانش وروں کے خیالات سے آگاہی بہت ضروری ہے، بالخصوص ان علماے کرام اور ارباب دانش کے لیے تو یہ آگاہی ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ رکھتی ہے جو آج کے گلوبل ماحول میں مسلم امہ کی راہنمائی کا دعویٰ رکھتے ہیں اور اس کے لیے کسی بھی درجے میں محنت اور کوشش کر رہے ہیں۔