علامہ اقبالؔ نے مدراس مسلم ایسوسی ایشن کی دعوت پر ۳۰۔۱۹۲۹ء میں اِلٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیلِ جدید کے سلسلے کے چھہ خطبے تحریر کِیے، جن میں سے تین مدراس اور تین علی گڑھ میں پڑھے۔ میسور اور حیدرآباد دکن میں بھی بعض خطبات کا اعادہ کیا۔ پہلی بار یہ خطبے ۱۹۳۰ء میں لاہور سے شائع ہوئے۔ دوبارہ یہ خطبات بعض لفظی ترامیم اور ایک مزید خطبے کے اضافے کے ساتھ ۱۹۳۴ء میں انگلستان میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے ’’Reconstruction of Religious Thought in Islam‘‘ کے عنوان سے چھپے۔ یہ ساتواں خطبہ حضرت علامہ نے ارسطو سوسائٹی لندن (Aristotelian Society) کی دعوت پر ۱۹۳۲ء میں پڑھا۔
علامہ اقبالؔ کے یہ خطبات اسلامی حکمت اور مغربی فلسفہ کا نچوڑ ہیں۔ اِن خطبات میں حضرت علامہ نے موجودہ زمانے کے فکری مسائل اور فلسفیانہ موضوعات پر اسلامی حکمت کے حوالے سے تنقید بھی کی ہے اور مغرب کے جدید علوم کی روشنی میں حکمتِ اسلامیہ کے بعض اہم مسائل کی تشریح کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اور اپنے یقین کی حد تک حضرت علامہ نے کامیاب کوشش کی ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ کسی سوال کا قطعی جواب دینا فلسفہ کی حدود سے خارج اور اُس کی روح کے منافی ہے، البتہ فلسفہ موجود سوالات کو زیادہ قابلِ فہم انداز میں پیش کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے، اور مسائل کی تفہیم میں نئے ربط اور نئی ترتیب کے ذریعے اُن کے نئے رخ اور نئی جہات کی تلاش اس کے منصب میں داخل ہے۔ چناں چہ حضرت علامہ نے خطبات کے مقدمے میں فلسفے کی حدود اور طریقِ کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
’..... فلسفیانہ افکار میں کوئی قطعیّت موجود نہیں ہوتی..... میرے پیش کردہ نظریات سے ممکن ہے بہتر اور مناسب نظریات پیش کِیے جائیں۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم فکرِانسانی کی روزافزوں ترقی کا بنظرِغائر مطالعہ کرتے ہوئے آزادانہ تنقید کا طریقِ کار اختیار کریں۔‘
حضرت علامہ نے اِن خطبات کی تیاری میں یہی طریقِ کار اختیار کرتے ہوئے انسانی فکر کا جو سرمایہ اُن تک پہنچا، اُس کی تنقید اور تنقیح کرکے مختلف فلسفیانہ مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، اور ایک مرتَّب نظامِ فکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو اسلامی اِلٰہیات کی جدید تعبیر پر مبنی ہے۔ علومِ جدیدہ کی اصطلاحات کی روشنی میں مذہبی واردات کے حوالے سے اسلامی اِلٰہیات کی یہ تشریح بذاتِ خود بہت مشکل کام تھا۔ مزید برآں یہ کہ حضرت علامہ نے اِس کام کے لیے نہایت ادَق اسلوب اختیار کیا۔ اِن خطبات کے اِس قدر مشکل انگریزی زبان میں تحریر کرنے کا سبب جب حضرت علامہ سے دریافت کیا گیا تو ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب کی روایت کے مطابق حضرت علامہ نے فرمایا:
’مسلمانوں میں دین والا آدمی جب فلسفے کی اصطلاحوں میں بات کرتا ہے تو اُس کی بات میں وقار اور وزن پیدا ہوجاتا ہے۔ مگر محض فلسفے والا آدمی جب دین کی بات کرتا ہے تو اُس کی نہ فلسفیانہ حیثیت ہوتی ہے اور نہ دینی لحاظ سے اُس میں وزن۔‘
حضرت علامہ بلاشبہہ دین والے آدمی تھے۔ وہ مغربی فلسفیانہ افکار، جدید نظریات اور سائنسی انکشافات سے قطعاً مرعوب نہ تھے، اور وہ دنیا کے تمام نظام ہائے حیات پر دینِ اسلام کی فوقیت کا یقینِ کامل رکھتے تھے۔ اور وہ دانشِ برہانی کے ذریعے ہی دانشِ قرآنی کی عظمت، فوقیت اور قطعی صداقت کے صدقِ دل سے قائل ہوئے۔ حضرت علامہ کے ارشاد کے مطابق اِن خطبات کا ترجَمہ ’تشکیلِ جدید اِلٰہیاتِ اسلامیہ‘ کے نام سے کیا گیا۔ اِس نام کی وضاحت کرتے ہوئے سید نذیر نیازی لکھتے ہیں کہ:
’’..... ’تشکیل‘ ایک نئی فکر کی تشکیل ہے۔ ’اِلٰہیات‘ عقل اور ایمان کا وہ نقطۂ اتصال ہے جس کی بناء، علم پر ہے۔ اور ’اسلام‘ محسوس حقائق کی اِس دنیا میں زندگی کا راستہ ہے۔‘‘
عنوان کی اِس تشریح سے علامہ کے اِن خطبات کے موضوع پر روشنی پڑتی ہے۔ فکر کی اِس نئی تشکیل کے مَباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ عقل کی بنیاد علم باالحواس ہے اور ایمان کی بنیاد علم بالوحی ہے۔ اور اسلام انسان کے فکری اِرتقا میں استقرائی عقل کا ظہور ہے۔ اقبالؔ عقل و فکر اور وجدان و ایمان کو ایک دوسرے کا معاون قرار دیتے ہیں۔
اسلامی فلسفے کی دنیا میں اِن خطبات کے مقام کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر اینماری شمل (Dr Annemarie Schimmel) نے Gabrial's Wing میں اور ڈاکٹر سید حسین نصر نے خطبات کے فارسی ترجَمے کے مقدمے میں اِن خطبات کو دوسری احیائے علوم الدین کہا ہے۔ یعنی جس طرح حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ نے احیائے علوم الدین میں اپنے زمانے کے تمام فلسفوں کا جائزہ لیتے ہوئے عقلی اور فلسفیانہ بنیادوں پر اسلام کی برتری ثابت کی تھی، وہی کام اِس دور میں حضرت علامہ نے کیا ہے۔ مذہب کو چند غیر عقلی اعتقادات و تبرکات کا مجموعہ سمجھنے کی جس غلطی میں مادہ پرست فکر کے حامل فلسفی اکثر گرفتار ہوجاتے ہیں، علامہ نے اُن کے افکار پر کڑی تنقید کی ہے اور بتایا ہے کہ دین یا اسلام ایک فعال تمدنی قوت کا نام ہے، جو انسانی زندگی کی تمام عملی و فکری ضروریات میں اُس کی رہنمائی کا فرض ادا کرتا ہے۔ اور اِسی بحث کے دوران میں وہ وسیع پیمانے پر فلسفہ، مابعدالطبیعیات، تاریخ، نفسیات، طبیعیات اور ریاضیاتی سائنس کے مشہور نظریات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اِن مَباحث میں اُن کا رویہ آزادانہ تنقید کا ہے۔ اِن علوم کے معلوم کی نفی کرنا اُن کا مقصود نہیں بلکہ معقول تفہیم و تشریح کے ذریعے اُس کی حدود کا تعین ہے۔ تلاشِ حقیقت کے سفر میں جدید علوم کا یہ معلوم جب فکرِانسانی کو خلاؤں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے تو علم بِالوحی انسان کی رہنمائی کے لیے آتا ہے۔ اِس طرح حضرت علامہ ذات و کائنات کے مسائل کے حل کے لیے روحانی واردات، مذہبی تجربہ اور وجدانی حقائق سے بحث کرتے ہیں، اور مختلف عنوانات کے تحت اِن مَباحث کو اپنے ساتوں خطبوں پر پھیلاکر نوعِ انسانی کی فکری رہنمائی کی کوشش کرتے ہیں،جس کے لیے ۱۹۰۸ء میں یورپ سے واپسی کے بعد سے ۱۹۳۸ء میں انتقال تک کے پورے عرصے میں وہ مسلسل بے تاب رہتے ہیں۔ اردو شاعری، پھر فارسی شاعری، اور پھر انگریزی کے یہ خطبات-- سب اُسی حکیمانہ شعور کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش ہیں جو اقبالؔ کو مسلسل غور و تدبر اور فکر و ذکر سے حاصل ہوا۔ اِن خیالات کی ترتیب و اظہار میں حضرت علامہ نے کس قدر دکھ اُٹھایا اور کیسے کیسے یاس انگیز لمحات میں اُنھوں نے اپنے دل میں جلنے والے اِس الاؤ کو سرد ہونے سے بچانے کے لیے جدوجہد جاری رکھی، اِس کا کچھ اندازہ ۱۹۰۹ء سے ۱۹۲۰ء تک کے اُن خطوط سے ہوسکتا ہے جو اُنھوں نے اِس عرصے میں اپنے دوستوں کو لکھے۔ ۱۹۰۹ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں:
’..... وہ خیالات جو میری روح کی گہرائیوں میں ایک طوفان بپا کِیے ہوئے ہیں، عوام پر ظاہر ہوں توپھر مجھے یقینِ واثق ہے کہ میری موت کے بعد میری پرستش ہوگی۔ دنیا میرے گناہوں کی پردہ پوشی کرے گی اور مجھے اپنے آنسوؤں کا خراجِ عقیدت پیش کرے گی۔‘
خیالات کے اظہار کی یہ تڑپ بالآخر ۳۰۔۱۹۲۹ء میں اِن خطبات کے لکھنے کا سبب بنی۔
اب اِن خطبات کے مَباحث کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔
پہلے خطبے ’’علم اور مذہبی مشاہدات‘‘ میں کائنات کی حقیقت، اور کائنات کی تغیرپذیری میں انسان کا منصب، کائنات اور خدا، کائنات اور انسان، انسان اور خدا کے باہمی رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے اقبالؔ کائنات کے بارے میں فلسفہ اور مذہب کے رویہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ فلسفہ اور مذہب کے مشترک اور غیرمشترک امور سے بحث کرتے ہیں۔ پھر ظاہر اور باطن یعنی مرئی اور غیرمرئی حقائق یا عالمِ محسوسات اور عالمِ اَقدار و اَرواح کے بارے میں مختلف مذاہب کا طرزِعمل بیان کرکے بتاتے ہیں کہ قرآن مطالعۂ انفس و آفاق پر کیوں زور دیتا ہے۔ پھر حقیقت تک رسائی کے ذرائع کی حیثیت سے عقل و وجدان پر بحث کرتے ہیں۔ اِن مَباحث کے ذیل میں وہ بتاتے ہیں کہ ایمان محض جذبے یا تأثر ہی کا نام نہیں بلکہ اِس میں عقل کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مذہبی اصولوں کا انحصار معقولیت پسندی پر ہے۔ لیکن دین و ایمان کو عقل کی روشنی میں دیکھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اُن پر فلسفے اور عقل کے تفوق کو تسلیم کرلیا جائے۔ فکر اور وجدان ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک ہی سرچشمے سے فیض یاب ہیں۔ برگساں (Bergson) کا یہ کہنا درست ہے کہ وجدان عقل ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سقراط اور افلاطون محسوسات کے علم کو غیرحقیقی خیال کرتے ہیں، اِس لیے اعیانِ نامشہود (Invisible ideas) پرستار ہیں، جب کہ اسلام باطن کے ساتھ ساتھ ظاہر کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ اشاعرہ ۱ (Asharite Thinkers) کا نصب العین اسلام کے معتقدات اور اصولوں کی یونانی جدلیات (Dialectics) کی مدد سے حمایت کرنا تھا۔ کانٹ (Kant) نے انسانی عقل کی حدود واضح کیں، جب کہ غزالی عقلیت کی بھول بھلیوں سے نکل کر صوفیانہ واردات تک پہنچتے ہیں، جن سے عقل و فکر کی محدودیت اُن پر واضح ہوئی۔ البتہ وہ اِس حقیقت کو نہ پاسکے کہ عقل و وجدان آپس میں مربوط ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسلام کے اساسی تصورات کو فلسفیانہ انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگر انسان ترقی پذیر زندگی کی حرکت کو محسوس نہ کرے تو اُس کی روح پتھر کی مانند سخت ہوجاتی ہے، اور انجامِ کار انسان بے جان مادے کی سطح پر آجاتا ہے۔ اِس لیے حقیقتِ مطلَقہ کے کلّی اِدراک کے لیے ہمیں حسّی علم کے علاوہ علمِ باطن بھی سیکھنا چاہیے۔ اگرچہ ہمارے پاس کوئی ایسا مؤثر سائنسی طریقِ کار نہیں ہے جس کی وساطت سے ہم صوفیانہ شعور کے عناصرِترکیبی کا تجزیہ کرسکیں۔ جب کہ صوفیانہ مشاہدہ ہی حقیقت کے کلّی علم کے حصول کا باعث بنتا ہے۔
دوسرے خطبے کا عنوان ’’مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‘‘ ہے۔ اِس میں اُنھوں نے ہستی کے تین مدارج یعنی مادہ، حیات اور شعور پر مفصل بحث کی ہے۔ مادیت کی بحث میں اُنھوں نے نیوٹن (Newton)، زینو (Zeno)، اشاعرہ، ابنِ حزم، برٹرینڈ رسل (Bertrand Russell)، برگساں (Bergson)، آئن سٹائن (Einstein)، اور اوس پنسکی (Ouspensky) کے تصوراتِ زمان و مکان کا ذکر کیا ہے، اور پھر قرآنی تصورِزمان و مکان کا موازنہ ارسطو، آئن سٹائن اور میک ٹیگرٹ (McTaggart) کے نظریات سے کیا ہے۔ خدا کے وجود کے بارے میں کائناتی استدلال، غائتی استدلال اور وجودی استدلال کا جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ ہستیِ مطلق کے یہ تینوں ثبوت لائق تنقید ہیں۔ صرف قرآنِ حکیم ظاہر و باطن کی خلیج کو پاٹ کر اور وجود کی ثَنَویت (Dualism) کو ختم کرکے اُس حقیقتِ کاملہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بیک وقت ظاہر بھی ہے باطن بھی، اوّل بھی ہے آخر بھی۔
مادے کے قدیم نظریے یعنی زمان و مکان میں اُس کے مستقل بالذات ہونے کو آئن سٹائن نے باطل ٹھہرادیا۔ اقبالؔ وہائٹ ہیڈ (Whitehead) کے اِس نظریے سے اتفاق کرتے ہیں کہ فطرت کوئی جامد حقیقت نہیں بلکہ واقعات و حوادث کا ایسا مجموعہ ہے جو مسلسل تخلیقی رو کا مالک ہے۔ جب کہ نیوٹن کا نقطۂ نظر خالص مادی تھا۔ وہ مکان کو ایک آزاد خلا قرار دیتا ہے جس میں چیزیں معلق ہیں۔ زینو مکان کو لاتعداد ناقابلِ تقسیم نقاط پر مشتمل سمجھتا تھا۔ وہ حرکتِ مکانی کو ناممکن قرار دیتے ہوئے تیر کی مثال دیتا ہے کہ تیر حرکت کے دوران میں بھی جگہ کے کسی نہ کسی نقطے پر ٹھہرا ہوا ہوتا ہے۔ برگساں، ابنِ حزم، برٹرینڈرسل اور کینٹر (Cantor) وغیرہ نے زینو کے دلائل کو رد کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اقبالؔ اُن کی کوششوں کو کامیاب تصور نہیں کرتے بلکہ آئن سٹائن کے نظریۂ زمان کی وضاحت کرتے ہوئے اُس کے مکان کو حقیقی تصور کرنے کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن وہ اُسے دیکھنے والے کے مطابق اضافی خیال کرتا تھا۔ اِن پیچیدہ بحثوں کے بعد وہ شعور کی تعریف کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ شعور کا کام ایک ایسا نقطۂ نوری مہیّا کرنا ہے جو زندگی کی آگے بڑھنے والی حرکت کو منور کرسکے۔ شعور زندگی کے روحانی تنوع کا نام ہے۔ یہ مادہ نہیں بلکہ ایک تنظیمی اصول اور طریقِ عمل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سائنس حقیقتِ مطلَقہ کے جزئی اِدراک میں سرکھپاتی ہے جب کہ مذہب کلّی حقیقت کا مطالبہ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ زمان و مکان کی اِن نہایت مشکل بحثوں میں وہ بتاتے ہیں کہ شعوری زندگی حیات فی الزمان ہے۔ اور مکانی زمان میں بسر ہونے والی زندگی غیر حقیقی زندگی ہے۔ وہ اِن بحثوں میں کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شأن اور اَنَا الدَّھر کے حوالوں سے اسلامی تصورِزمان و مکان کی وضاحت کرتے ہیں، اور فطرت کو سُنَّتُ اللّٰہ قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اِس کی نشوونما کی کوئی حد نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ فطرت کا علم دراصل خدا کے طریقِ عمل کا علم ہے۔ وہ مسئلۂ زمان و مکان پر مفصل بحث کرتے ہوئے آخر میں کہتے ہیں کہ وقت کے رازِسربستہ کو حل کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ خطبے کے اختتام پر وہ فلسفے کو پستی سے نکالنے کے لیے ذکر اور قربِ الٰہی کی ضرورت بیان کرتے ہیں، جسے مذہب کی اصطلاح میں دعا کہا جاتا ہے۔ وہ فکر و ذکر کے امتزاج پر زور دیتے ہیں۔
تیسرے خطبے ’’ذاتِ الٰہیہ کا تصور اور حقیقتِ دعا‘‘ میں وہ فرد کی تعریف اور انائے مطلق کی صفات پر بحث کرتے ہوئے سورۂ اخلاص اور سورۂ نور کا حوالہ دیتے ہوئے نورِایزدی کی مطلقیت کا ذکر کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ارادۂ تکوین اور فعلِ آفرینش ایک ہی ہیں۔ اس طرح وہ ثابت کرتے ہیں کہ کائنات کی اصل روحانی ہے۔ پھر زمان و مکان کے بارے میں وہ ملا جلال الدین دَوّانی، عین القضاۃ الھمدانی عراقی، برگساں اور پروفیسررائس (Royce) وغیرہ کے تصورات کا جائزہ لیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ زمانِ ایزدی زمانِ متسلسل سے بہتر ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مذہبی واردات عقلی معیار پر پوری اترتی ہے۔ اِس واردات کی اساس ایک تخلیقی مشیئیت ہے، جسے انائے مطلق کہا جاسکتا ہے۔ اور قرآن اِس انائے مطلق کی انفِرادیت ظاہر کرنے کے لیے اِسے ’اللہ‘ کا خاص نام دیتا ہے۔ توالد کا رجحان انفِرادیت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ چوں کہ انسانوں کے لیے توالد و تناسل ضروری ہے اِس لیے وہ افرادِکامل نہیں بن سکتے۔ فردِکامل صرف خدا ہی ہے۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ زمان و مکان، انائے مطلق کی تخلیقی سرگرمی کی فکری تعبیرات ہیں اور ہم انائے مطلق کے امکانات کو اپنے ریاضیاتی زمان و مکان کی شکل میں جزوی طور پر محسوس کرسکتے ہیں۔ خدا کے لیے کائنات کوئی ایسا واقعہ نہیں جو ماقبل اور مابعد پر مشتمل ہو۔ یعنی ارادۂ تخلیق اور فعلِ تخلیق دو مختلف چیزیں نہیں۔ وہ اشاعرہ کے اِس خیال کا جائزہ لیتے ہیں کہ لاتعداد جواہر مل کر مکان کی وسعت اور تخلیق کا باعث بنتے ہیں، اور جوہری اعمال کے مجموعے کا نام شے ہے۔ مکان میں سے جوہر کے گزر کو حرکت کہا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اشاعرہ ابتدا اور انتہا کے درمیان واقع ہونے والے نقاط میں سے کسی چیز کے مرور کو اچھی طرح واضح نہیں کرسکے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جوہر صفتِ حیات کے حصول کے بعد مکانی نظر آتا ہے۔ اِس کی ماہیت روحانی ہے۔ نفس عملِ خالص ہے لیکن جسم ایک دیدنی اور پیمایش پذیر عمل ہے۔ زمانِ الٰہی مرور، تغیر، تواتر اور تقسیم پذیری سے عاری ہے۔ اِس ساری بحث کے آخر میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ جہاں تک وقت کی ماہیت اور اصلیت کا تعلق ہے، میں کوئی قطعی اور درست بات دریافت نہیں کرسکا۔
پھر وہ خیر و شر کا ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ ہستی جس کی حرکات و سکنات مکمل طور پر مشین کی طرح ہوں، نیکی کے کام نہیں کرسکتی۔ نیکی کے لیے آزادی شرط ہے۔ خدا نے انسانی خودی کو آزادیِ عمل کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ اِس کے بعد وہ دعا کی وضاحت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خارجی دنیا سے بے زار ہوکر باطن میں پناہ لیتے ہوئے ہستیِ مطلق کا قرب حاصل کرنا دعا ہے۔ دعا کی بدولت ہماری شخصیت کا چھوٹا سا جزیرہ ایک دم بحرِبے کراں بن جاتا ہے۔ تلاشِ حقیقت میں فلسفہ بہت سست رفتار ہے جب کہ دعا برق خرام ہے۔
چوتھے خطبے ’’خودی، جبروقدر، حیات بعد الموت‘‘ میں حضرت علامہ خودی کی بحث کرتے ہیں اور انسان کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن کے مطالعے سے تین باتیں بالکل واضح دکھائی دیتی ہیں۔ پہلی یہ کہ انسان خدائی برگُزیدہ مخلوق ہے۔ دوسری یہ کہ انسان اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود زمین پر خدا کا نائب ہے۔ تیسری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان آزاد شخصیت کا امین ہے جسے اُس نے خطرہ مول لے کر قبول کیا تھا۔ اِس خطبے میں وہ ماضی سے رشتہ منقطع کِیے بغیر اسلامی تعلیمات کو جدید علوم کی روشنی میں بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، اور پھر خودی کی وضاحت کی طرف آجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خودی وابَستۂ مکان نہیں ہے۔ مثلاً یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ تاج محل کے حسن و جمال کے بارے میں میرا جذبۂ تحسین آگرہ سے مَسافت کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ اِسی طرح زمان بھی خارجی دنیا میں ماضی، حال اور مستقبل کی صورت اختیار کرنے کے باوجود اندرونی دنیا میں ناقابلِ تقسیم ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ خلوت پسندی خودی کی یکتائی کا اظہار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شعوری تجربہ خودی کے روحانی جوہر کا صحیح سراغ نہیں دے سکتا لیکن اِس کے باوجود شعوری تجربے کی تعبیر ہی وہ شاہراہ ہے جس پر چل کر ہم خودی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ نماز یا دعا دراصل خودی کا میکانیت یا جبر سے آزادی کی طرف گریز ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ تکرارِعمل مشین کا خاصہ ہے نہ کہ انسان کا۔ اگر ہر واقعہ نیا نہیں تو ہمارے لیے زندگی میں کوئی جاذبیّت باقی نہیں رہتی۔ بقائے ذات ہمارا پیدایشی حق نہیں بلکہ ہمیں اپنی ذاتی کوششوں سے اِسے حاصل کرنا پڑے گا۔ انسان صرف اِس کے لیے امیدوار ہے۔
پانچویں خطبے ’’اسلامی ثقافت کی روح‘‘ میں حضرت علامہ اسلامی کلچر کی روح کا ذکر کرتے ہیں ، اور نبوت اور ولایت کا فرق واضح کرتے ہیں۔ ولی کا منتہائے مقصود صرف ذاتِ ربّانی سے وصال ہے لیکن نبی اِس صعود کے بعد ہدایتِ عامہ کے لیے نزول کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پیغمبرِاسلام دنیائے قدیم اور دنیائے جدید کے درمیان کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے اِلہام کے سرچشمے کی بدولت عالمِ قدیم سے متعلق ہیں، لیکن اپنی اِلہامی سپرٹ کی وجہ سے عصرِحاضر سے مربوط ہیں۔ اُن کی بدولت زندگی نے اپنی نئی سمتوں کے مناسب علوم اور نئے سرچشمے دریافت کِیے۔ دراصل اسلام کا ظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے۔ وہ فقہ کو اسلام کا اصولِ حرکت قرار دیتے ہیں جو اُسے سب زمانوں کے لیے کافی بنادیتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ قرآن کی رو سے حصولِ علم کے تین ذرائع ہیں: باطنی مشاہدہ، مطالعۂ فطرت اور تاریخ۔ وہ بتاتے ہیں کہ جس ثقافت کا نقطۂ نظر یہ ہو، زمان و مکان اُس کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابنِ خلدون نے سب سے پہلے اسلام کی ثقافتی تحریک کی روح کو شدت کے ساتھ محسوس کرکے اُسے منظم طور پر بیان کیا ہے۔
خطبۂ ششم ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں حضرت علامہ اسلام کے اصولِ حرکت یعنی فقہ کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ملتِ اسلامیہ ہی کو قیادتِ عالم سزاوار ہے۔ اسلام اپنے حرکی نظریۂ حیات اور تصورِتوحید کی وجہ سے تمام زمانوں کو محیط اور بنی نوعِ انسان کی وحدت کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے، اِس لیے اسلام ہی کسی قوم کو قیادتِ اقوام کا اہل بناتا ہے۔ وہ فقہی جمود کا جائزہ لیتے ہیں اور اِس کے اسباب میں عقل پرستی کی تحریکوں، راہبانہ تصوف اور سیاسی انتشار کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دین اور سیاست دو مختلف حقیقتیں نہیں بلکہ اسلام کی واحد حقیقت کے شُءُون ہیں۔ وہ عقیدۂ توحید کو بنی نوعِ انسانی کی وحدت کا ذریعہ قرار دیتے ہیں، جو مصنوعی امتیازاتِ رنگ و نسل وغیرہ کو مٹاکر ساری انسانیت کو ملتِ واحدہ بناسکتا ہے۔ پھر وہ قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس-- یعنی اَدِلّہ شرعیہ پر بحث کرتے ہیں، جن کی وجہ سے اسلام کا ہر زمانے اور کل انسانیت کے لیے منبعِ ہدایت ہونا ممکن ہے۔
آخری خطبے ’’کیا مذہب کا امکان ہے؟‘‘ میں حضرت علامہ مشرق و مغرب کی اقوام کی زبوں حالی کا تذکرہ کرتے ہوئے مذہب کو اِس تمام تشتت و افتراق سے نکلنے کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہیں اور خودی کا نصب العین واضح کرتے ہوئے خودی کی حامل جماعت کا نائبِ حق ہونا ظاہر کرتے ہیں، اور فرسودہ تصوف اور لادین اشتراکیت و قومیت کی بے سوادی اور ناکامی کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ خودی کا مقصد اثباتِ ذات قرار دیتے ہیں اور نائبِ حق جماعت کا فریضہ اور زمانی نصب العین یہ بتاتے ہیں کہ وہ خدا کی وحدانیت و حاکمیت کی ترجُمانی کرتی رہے۔