کم ہی لوگوں کو اس بات سے اختلاف ہو گا کہ اسلام کے ظہور کی صدی تاریخی ادوار کی تقسیم کے لحاظ سے زرعی دور میں شامل کی جا سکتی ہے۔ یہ ساتویں صدی کے بہت عرصہ بعد ہوا کہ صنعتی انقلاب جیسے طاقتور خارجی مظہر سے نوعِ انسانی کا واسطہ پڑا۔ اس انقلاب نے جہاں معاشی اعتبار سے ترقی کا راستہ ہموار کیا، وہاں انسانی زندگی کی ان قدروں کو بھی اتھل پتھل کر دیا جن کی بنیادیں زرعی دور کے انسانی رویوں میں پوشیدہ تھیں۔ اقدار کی تبدیلی سے طرزِ زندگی میں تبدیلی رونما ہوئی اور پھر نئے طرزِ زندگی نے انسانی رویوں کی ایک ایسی صورت کو جنم دیا جس سے آج ہمارا اپنا عہد (اکیسویں صدی ) نبردآزما ہے۔ قرآن مجید کو ناسخِ کتب الٰہیہ اور محمد رسول اللہ ﷺ کو نبی خاتم تسلیم کرتے ہوئے اگر ہم کتاب و سنت سے اس سلسلے میں راہنمائی لینے کی کوشش کریں تو یہ بنیادی سوال جنم لیتا ہے کہ بعثتِ نبوی ﷺ کے لیے خدائے ذوالجلال نے انسانی تاریخ کے زرعی دور اور خطہ عرب کو کیوں منتخب کیا؟ خدا غیب کا علم رکھنے والا ہے، مستقبل اس کی آنکھ سے پوشیدہ نہیں۔ آخر تاریخ کے زرعی دور میں ایسی کیا بنیادی خصوصیت ہے کہ ربِ کائنات نے آخری نبی مبعوث کرنے کے لیے صنعتی و اطلاعاتی انقلاب کے ادوار پر اسے ترجیح دی؟ نبی خاتم ﷺ کی بعثت اٹھارہویں یا اکیسویں صدی کے بجائے آخر ساتویں صدی میں اور خطہ عرب ہی میں کیوں ہوئی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ آج نوعِ انسانی جن مسائل کے سامنے مضطرب اور حیران و پریشان کھڑی ہے، ان کے دیرپا اور جامع و سنجیدہ حل کی اساس ، مذکورہ سوالات کے جوابات میں پوشیدہ ہے ۔
جہاں تک زرعی دور کا تعلق ہے، اس کی ایک خصوصیت، زمین سے وابستگی اور آسمان سے شکستگی میں پنہاں ہے ۔ اس دور کا انسان کسی زرخیز خطہ زمین سے اپنے تعلق کی مضبوطی کا خواہاں رہتا تھا۔ آسمان سے شکستگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے ایسی دیو مالا تخلیق کر ڈالی جس میں اپنی کمزوری اور آسمان کی قدرت کا فراخدلانہ اعتراف تھا ۔ دیو مالائی مظاہر کی انواع سے قطع نظر ، زرعی معاشروں کی مجموعی نفسیات آج بھی اسی صورت حال کی عکاسی کرتی ہے۔ بہر حال! زمین سے وابستگی کے آفاقی مظہر نے طرزِ معاشرت میں خاندان سے پیوستگی کو لائف سٹائل کی بنیادی قدر کے طور پر ابھارا ۔ خاندانی اقدار کی پیروی کیے بغیر کسی فرد کے لیے بھی خوشگوار بقا کا تصور محال تھا۔ کھیتوں میں محنت و مشقت کرتے پسینے میں شرابور ماں، باپ، بیٹے، بیٹیاں ، خاندان کی معاشی طاقت کی علامت سمجھے جاتے اور معاشرتی بود و باش میں خاندان کے اعلیٰ سماجی رتبے کا سبب بھی بنتے۔ یوں خاندان کی یکجائی زرعی دور کے طرزِ زندگی کا نمایاں وصف بنتی چلی گئی ۔ معاشی تگ و دو کے لیے کسی اور آپشن کی عدم موجودگی یا کمی کے باعث اولاد کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ ایسے طرزِ زندگی کی بابت سوچ بھی سکے جو والدین سے جدائی ، دوری اور معاشی خود کفالت جیسی اقدار پر مبنی ہو۔ لہٰذا یہ خاندانی نظام انتہاپسندانہ رجحانات رکھتا تھا اور اس میں باپ کی حیثیت ڈکٹیٹر کی سی تھی۔ خطہ عرب میں صورتِ حال قدرے مختلف تھی۔ یہاں کی صحرائی آب وہوا نے اپنے باشندوں کی زندگی میں زراعت کے ساتھ ساتھ ایک اہم ذریعہ معاش کے طور پر تجارت کو بھی داخل کر دیا تھی ۔ زراعت و تجارت کے امتزاج نے عرب معاشرت میں خاندانی نظام کو اس طرح پنپنے کا موقع نہیں دیا کہ باپ ڈکٹیٹر بن سکے ، اگرچہ زرعی عنصر نے اپنی فطری طاقت کے باعث خاندان کو ہی طرزِ زندگی کی بنیادی قدر قرار دلوایا۔ غالباً اسی معتدل و میانہ رو خاندانی نظام سے پھوٹنی والی معاشرتی نفسیات نے صحابہ کرامؓ کے لیے شاید آسانی پیدا کی کہ وہ خاندان سے بغاوت کر کے دینِ اسلام قبول کریں اور اپنے بھائی بندوں اور خاندان کے مقابل کھڑے ہوسکیں۔ اس کے برعکس ہندوستان میں انتہاپسندانہ خاندانی نظام نے مقامی باشندوں کے قبولِ اسلام کی راہ میں معاشرتی و نفسیاتی رکاوٹیں کھڑی کیں۔شاید اسی لیے اس علاقے کی اکثریت ابھی تک مشرف بہ اسلام نہیں ہو سکی۔ مسلمانوں کے ہاں، بالخصوص برِ صغیر میں، حالیہ جمود کی ایک بڑی وجہ بھی خاندانی نظام کے تحفظ اور بقا کے نام پر بے لچک ’والدینی‘ رویہ ہے ، جس نے فکرِ نو کی تمام راہیں مسدود کر رکھی ہیں۔ بہر حال ! خدائے ذوالجلال نے بعثتِ نبی خاتم ﷺ کے لیے جہاں زرعی دور کا انتخاب کیا، وہاں زمین کا بھی ایک ایسا ٹکڑا چنا جس میں زرخیزی کی قدرتی کمی کے باعث، ارضی وابستگی کی وہ انتہاپسندانہ روش نہیں پنپ سکتی تھی جو آسمان سے شکستگی پر ختم ہوتی تھی۔ مذکورہ الٰہیاتی حکمت کے مطابق خاتم النبیےین محمد مصطفی ﷺ نے ہجرت کا نہایت معنی خیز سفر اختیار کیا۔ ہجرت کے عمل نے جہاں واقعاتی حوالے سے زمین اور خاندان سے نسبت کی اس منفی رمق کا بھی قلع قمع کر دیا جو اسلام قبول کرنے والوں کے اذہان کے کونوں کدروں میں کہیں چھپی بیٹھی تھی، وہاں فکری لحاظ سے ایک نئے معاشرتی رویے کی بنیاد بھی رکھی کہ زمین اور خاندان سے وابستگی، انسانی زندگی کا محور نہیں ہے۔ لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ بعثتِ نبی خاتم ﷺ کے لیے تاریخ کے زرعی دور اور خطہ عرب کا انتخاب اپنے اندر یہ الہٰیاتی پیغام رکھتا ہے کہ انسانی زندگی کی معاشرتی بود و باش میں ( غیر ارضی اساس کے ساتھ) متوازن خاندانی نظام ، شجرِ سایہ دار کی مانند ہمیشہ موجود رہے۔
چونکہ قرآن مجید نے رسالت مآب ﷺ کو رحمت للمسلمین کے بجائے رحمت للعالمین ﷺ کی انتہائی جامع صفت سے موصوف کیا ہے، اس لیے اسی صفت کی واقعاتی و مکانی تصریح کی خاطر آپ کی بعثت ایک ایسے علاقے میں کی گئی جو اسلام کی عالمگیریت میں نہ صرف رکاوٹ نہ بن سکے بلکہ اسلامی عالمگیریت کے پھیلاؤ کے چند ناگزیر تقاضوں کی طرف واضح اشارہ بھی کر سکے۔ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ اسلام کے ظہور کے وقت خطہ عرب کی کوئی نمایاں سیاسی حیثیت نہیں تھی۔ یہاں بت پرستوں کی اکثریت تھی، لیکن یہودی اور عیسائی وغیرہ بھی آباد تھے ۔ روم اور ایران اس دور کی سپر پاورز تھیں۔ رومی، عیسائی تھے اور اہلِ فارس، مجوسی و آتش پرست تھے ۔ اب ذرا غور فرمائیے کہ اسلام کا ظہور اگر ایران یا روم میں سے کسی ایک خطے میں ہوتا تو دوسرا خطہ اسلام کو سیاسی حریف کے طور پر لیتا اور اسلام کی دعوت ایک خطے تک ہی محدود رہتی ۔ اگر اسلام اپنی داخلی خصوصیات کے بل بوتے پر دوسرے خطے میں سرایت کر بھی جاتا تو بھی اس خطے کے لوگوں کی نفسیات میں یہ تحفظات لازماً موجود رہتے کہ اسلام کی علاقائی توسیع کے پیچھے سامراجی عزائم کارفرما ہیں۔ اس کے بعد اس خطے کی لوک داستانوں میں اسلام کو حملہ آور اور مخالف فریق کے طور پر بیان کیا جاتا، جبکہ دوسری طرف جس خطے میں اسلام کا ظہور ہوا ہوتا، اس خطے کی سلطنت مذہبی تقدس کا لبادہ اوڑھ کر نہ صرف اپنے لوگوں کا جینا حرام کر دیتی بلکہ ساری دنیا کی نا م نہاد اصلاح کا بیڑہ اٹھا کر اقوام عالم کو اپنی چیرہ دستیوں اور ریشہ دوانیوں سے تباہ حال کر دیتی ( جیسا کہ آج کل امریکہ ، انسانی حقوق اور جمہوریت کے نام پر پوری دنیا میں فساد برپا کیے ہوئے ہے) مدینے کے یہودیوں میں آپ ﷺ کی بعثت کی صورت میں اسلام کی حیثیت نسلی مذہب کی سی ہوتی۔ اس طرح اندازہ ہوتا ہے کہ رب العالمین نے رحمت للعالمین ﷺ کو کسی خاص حکمت کے تحت ہی خطہ عرب میں مبعوث فرمایا ۔ اس سلسلے میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ اسلام اپنے ظہور کے فوراً بعد اہلِ کتاب کے بجائے بت پرستوں کے مقابلے میں ’’ فریق ‘‘ کے طور پر سامنے آتا ہے اور کچھ عرصہ کے بعد یہو د و نصاریٰ کے ساتھ اس کا ’’ تقابل و موازنہ ‘‘ شروع ہو جاتا ہے ۔ اب اگر اسلام کی ان دو حیثیتوں کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ اسلام ’ فریق ‘ ہے اور اسلام کا ’ تقابل و موازنہ ‘ کیا جارہا ہے تو ہر دو کی بابت اسلام کا داخلی جواب کافی چونکا دینے والا معلوم ہوتا ہے۔ یہ جواب ’’ اقرا ‘‘ سے شروع ہوتا ہے ۔ جوں جوں اس جواب کی تفصیلات عرش سے نازل ہوتی رہیں ، توں توں اس وقت کی مسلم سوسائٹی میں ایک رویے کی آبیاری بھی ہوتی رہی۔ اس لیے جب نزولِ وحی کا سلسلہ ختم ہوا، اس وقت تک مسلم سوسائٹی کے بدن میں ایک خاص سماجی رویہ خون کی طرح سرایت کر چکا تھا ۔
اب مذکورہ نکات کے ایک پہلو پر ذرا گہری نظر ڈالیے کہ اسلام کا ظہور ایسے خطے میں ہوا جہاں وہ نہ صرف ’فریق‘ بنا بلکہ اس نے تقابل و موازنے کی راہ بھی ہموار کی ۔ روم و ایران میں سے کسی ایک خطے میں اسلام کے ظہور کی صورت میں اسلام صرف ’فریق‘ کے طور پر سامنے آتا اور اس کے لیے تقابل و موازنے کی علمی روایت قائم کرنا قطعی طور پر نا ممکن ہوتا۔ جو بھی نام نہاد علمی روایت قائم ہوتی، اس کی بنیادوں میں الزام تراشی، قومی عصبیت اور دوسروں پر لعن طعن جیسی خصوصیات لازماً شامل ہوتیں ۔ اور اگر اسلام کا ظہور کسی ایسے خطے میں ہوتا جہاں یہ کسی بھی قوم یا فکر کا فریق بن کر سامنے نہ آتا تو پھر اسلام، محرف عیسائیت کی مانند محض چند اخلاقی تعلیمات کا عنوان ہوتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خطہ عرب میں اس وقت کی واقعاتی صورتِ حال اس امتزاج کو مہمیز دینے والی تھی جو اسلام کو مطلوب و مقصود تھا ۔ یہ امتزاج ’’ مجادلہ اور مکالمہ ‘‘ جیسی خصوصیات سے عبارت تھا اور اس کا محور ’’ اقرا ‘‘ یعنی علم تھا ۔ یوں خطہ عرب میں ، ایک خاص زمانے میں، اسلام کے ظہور کی صورت میں ایک ایسی علمی روایت کی بنیاداستوار ہوئی جو امتزاجی خصوصیات سے مالا مال تھی۔ بت پرستوں کے مقابل میں ’اقرا‘ صرف ایک لفظ نہیں، بلکہ ان کے جہل کا حریف ایک ’ فریق ‘ ہے۔ یہ اقرا اسی طرح اپنی لفظی حیثیت سے ماورا ہوتے ہوئے ، اہلِ کتاب کی تحریفات کو رد کر کے ، تقابل و موازنے کی خالص علمی روایت کی بنیادیں استوار کرتا ہے ۔ اقرا بت پرستوں سے مجادلہ و محاکمہ کرتا ہے اور اہلِ کتاب سے مکالمہ کرتا ہے۔ یہی اقرا بدر و احد میں تلوار سونت کر میدان میں آ جاتا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ جہاد بذاتِ خود مقصود نہیں، بلکہ حقیقت میں ایک ذریعہ ہے جسے ’ اقرا ‘ کی روشنی میں ہی اختیار کیا جاتا ہے ۔ یوں اقرا کبھی مجادلہ کی راہ دکھاتا ہے، کبھی محاکمہ کا طرز اپنانے کا درس دیتا ہے، اور کبھی مکالمہ کی طرف اشارہ کرتا ہے، وعلیٰ ہذا القیاس ۔
اسلام کے ظہور میں ’زمانی انتخاب ‘میں کیا حکمت پوشیدہ تھی ؟ اس حکمت کے بعض عظیم پہلو اور مظاہر ، اسماء الرجال اور علم حدیث میں موجود ’’علمی اپروچ ‘‘میں تلاش کیے جا سکتے ہیں ۔ کون نہیں جانتا کہ مسلم معاشرے کے اجتماعی ضمیرنے خاص سماجی رویے سے شہ پا کر قرونِ اولیٰ میں ہی ، مذکورہ بالا علمی روایت کی تطبیق میں ایک ایسے علم کی بنیاد رکھی جس کے دو بڑے ستون ’حافظہ‘ اور ’تحقیق‘ تھے ۔ ان دونوں ستونوں کے پیچھے نبی خاتم ﷺ کے مبارک زمانے میں تشکیل پانے والا سماجی رویہ پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھا ، کیونکہ ایک خاص سماجی رویے کے بغیر ، محض آلاتِ کار کے بل بوتے پر کسی ٹھوس علمی روایت کی بنیادیں استوار ہی نہیں کی جا سکتیں۔ بہرحال حافظہ انسان کی داخلی خوبی ہے اور تحقیق کا تعلق خارجی مظاہر کی بابت انسانی رویے میں پوشیدہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تحقیقی انسانی رویہ، انسان کی داخلی خوبی یعنی حافظہ پر ہی انحصار کرتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ جس انسان کا حافظہ ہی نہ ہو ، کیا وہ تحقیقی کام کر سکتا ہے، بالخصوص ایسے دور میں جب حافظے کے متبادل ذرائع مثلاً پرنٹنگ پریس، سی ڈی وغیرہ بھی موجود نہ ہوں؟اس طرح معلوم ہو تا ہے کہ ربِ کائنات نے زمان کی وسعتوں میں سے ایک خاص زمانے کا انتخاب شاید اس لیے کیا کہ انسانی دنیا میں’’حافظہ و تحقیق پر مبنی علمی روایت‘‘ کی بنیاد جڑ پکڑ سکے۔ اگر نبی خاتم ﷺ کی بعثت ساتویں صدی کے بجائے بعد کی صدیوں میں ہوئی ہوتی تو حافظے کے متبادل ذرائع کی ایجادات کے باعث ایسی علمی روایت پروان نہیں چڑھ سکتی تھی جو ایک طرف انسان کی داخلی خوبی کی مرہونِ منت ہوتی اور دوسری طرف اس خوبی کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ تحقیق کو اپنا شعار قرار دیتی۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ قبل از اسلام کے عربی ادب میں شاعری پربہت زیادہ زور تھا ، جبکہ بعد از اسلام کے عربی ادب میں علم حدیث کے طفیل ہی صنف نثر کو پذیرائی ملی۔ اہل علم جانتے ہیں کہ شاعری ، تحقیقی صنف نہیں ہے بلکہ عقل و منطق کے اسالیب اور تحقیقی رویے نثر میں ہی پنپ سکتے ہیں۔ ( اقبال کی شاعری کو اقبالی فکر کا محور سمجھنے والے بھی اس نکتے کو پیشِ نظر رکھیں) صنفِ شاعری میں البتہ یہ خوبی ضرور موجود ہے کہ یہ انسانی حافظے سے خاص لگاؤ رکھتی ہے۔ دیوان کے دیوان لوگوں کو ازبر ہوتے ہیں ۔ صنفِ شاعری کی یہی خاصیت انسانی حافظے کو تقویت پہنچانے کا سبب بنتی ہے۔ اللہ رب العزت نے انسانی حافظے کی حفاظت کا اہتمام شاعری کے بجائے ’’ حفظِ قرآن ‘‘ کی روایت سے فرمایا اور اسی روایت کو علمی اسلوب عطا کرتے ہوئے علم حدیث کے لیے کشادہ راہ ہموار کر دی۔ حفظِ قرآن، بنفسہ علمی رویہ نہیں ہے لیکن یہ ایک عظیم علمی رویے کی اساس ضرور بنتا ہے ۔اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ قرآنی متن کا فہم شانِ نزول کی تفہیم سے مشروط نہیں ہے، لیکن اس کے بر عکس کسی حدیثِ رسول ﷺ کے متن کے فہم میں ، اس کے سیاق و سباق سے آگاہی کافی اہم اور ناگزیر ہو جاتی ہے ۔
اس بحث کا ایک قابلِ اعتنا پہلو یہ ہے کہ ربِ کائنات نے نبی خاتم ﷺ کی بعثت کے لیے جہاں ایک خاص زمانے کو باقی ادوار پر اور ایک خاص خطے کو دیگر خطوں پر ترجیح دی، وہاں ایک خاص زبان کا انتخاب کر کے اسے بھی دائمیت سے نوازا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عربی زبان میں داخلی لحاظ سے وہ کیا خوبی ہے جو اس کے انتخاب کا سبب بنی ؟ ہماری رائے میں وہ بنیادی سبب ’’ خاص ماحول ‘‘ ہے جس میں یہ زبان پلی بڑھی اور پھلی پھولی ۔ ذرا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے صحرائی خطہ میں خارجی مظاہر کی نہ تو کثرت ہے اور نہ تنوع۔ خارجی مظاہر کی یہی قلت اور کم یابی اس امر کا سبب بنی کہ اس زمین کے باسی اپنی توجہ کا مرکز سوسائٹی اور انسان کو بنا سکیں۔ اگرچہ جھلستا ہوا ریگستان ان کی توجہ منتشر کرنے کو موجود تھا لیکن یہ اتنا بڑا چیلنج بن کر ان کے سامنے نہیں آیا تھا کہ وہ اسے exclusively توجہ کا مرکز و محور بنا ڈالتے ۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ ریگستان کے باسیوں نے انسانی زندگی میں پانی کی قدرو قیمت کی اہمیت کا بخوبی اندازہ کر لیا ۔ یوں خارجی ماحول سے ایک حد تک بے اعتنائی نے ، لسانی ارتقا کے دوران میں زبان کی بنیادی ساخت میں انسان ، سوسائٹی اور پانی کو قابلِ اعتنا بنا دیا ۔ اس لیے عربی زبان میں داخلی اعتبار سے اس خصوصیت نے جنم لیا کہ اس میں انسان، سوسائٹی اور پانی سے متعلق امور دیگر زبانوں کی بہ نسبت زیادہ فصاحت اور معنویت کے ساتھ بیان ہو سکیں ۔ چونکہ قرآن مجید کاموضوع انسان ہے اور انسان سوسائٹی ہی میں رہتا ہے اور نسل انسان کی بقا و ارتقا پانی کے بغیر محال ہے ، اسی لیے اللہ رب العزت نے اپنا وہ کلام جو قیامت تک رہنے والا ہے، عربی زبان میں نازل فرمایا۔ اگرچہ قرآن مجید میں خارجی مظاہر کا خاصا تذکرہ پایا جاتا ہے، لیکن یہ ایک تو دیگر امور کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ دوسرے، جہاں کہیں ان مظاہر کا ذکر موجود ہے، وہاں انھیں انسان سے relate کیا گیا ہے ، یہ بتانے کے لیے کہ ان کی اہمیت انسان کے مقابلے میں ثانوی اور انسان ہی کی نسبت سے ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلام ستاروں پر ایسی کمندیں ڈالنے کے حق میں نہیں ہے جو انسان سے related نہ ہوں۔ ہماری رائے میں دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد انسانی حقوق کی تحریکوں میں مسلسل اضافہ اور فلسفہ وجودیت کا اثرو نفوذ ،در حقیقت انسان کی ایسی بے وقعتی اور بے بضاعتی کے خلاف احتجاج اور ردِ عمل ہے جس میں انسان سائنسی ایجادات کا رکھیل بن کر رہ گیا ہے اور مظاہر فطرت کی تسخیر کے بعد خود بحیثیت نوع ، مفتوح ہو گیا ہے ۔ بے وقعتی اور بے بضاعتی کے اس کرب سے چھٹکارا ایک ایسی کتاب میں موجود ہے جس کی فقط زبان ہی انسان ، سوسائٹی اور پانی سے متعلق امور بیان کرنے کا غالب رجحان رکھتی ہے۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان جب تک زندہ ہے ، عربی زبان اور اس میں نازل ہونے والے شاہکار کلام یعنی قرآن مجید بھی زندہ ہے ۔
تتمہ
کہا جا رہا ہے کہ دنیا میں تیسری عالمی جنگ چھڑنے میں پانی کے بحران کو کلیدی حیثیت حاصل ہو گی۔ آج ہمارا عہد جس طرح پانی کے بحران کے سامنے بے بس کھڑا ہے، اس سے نبی خاتم ﷺ کی ریگستانی علاقے میں بعثت خاصی معنی خیز ہو جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر مسلم تہذیب میں ، چاہے اس کا تعلق کسی بھی زمانے یا علاقے سے ہو ، داخلی اعتبار سے ایسی خصوصیات لازماً ہونی چاہییں جو انسانی زندگی میں پانی کی قدرو قیمت سے مزین ہوں۔ ہمیں اس پہلو سے اپنے تہذیبی لٹریچر کا تنقیدی مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ معاصرمسلم رویے پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے کہ اس کے ہاں انسان، سوسائٹی اور پانی سے متعلق اپروچ درست نہج پر ہے یا نہیں ۔ ہماری رائے میں کم از کم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس حوالے سے معاصر رویہ ، غیر ذمہ دارانہ اور غیر تسلی بخش ہے۔