(۱)
محترم جناب ابو عمار زاہد الراشدی صاحب حفظہ اللہ ورعاہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ کی زیر ادارت شائع ہونے والا مجلہ ’الشریعہ‘ پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہ امت مسلمہ کو درپیش مسائل پر بے لاگ تجزیہ اور آزادئ رائے کے ساتھ جامع تبصرہ کرتا ہے۔ اس کی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ اجتہاد جیسی عظیم نعمت کے فروغ کے لیے فکری ومذہبی جمود وسکوت پر تیشہ ابراہیمی چلاتا ہے اور دلائل وبراہین کی زبان پر یقین رکھتا ہے۔
الشریعہ کے بعض مضامین ومقالات مثلاً بیت المقدس پر یہودیوں کے حق تولیت وغیرہ پر میں بھی مولانا ارشاد الحق اثری صاحب کی طرح تحفظات رکھتا ہوں، لیکن بحیثیت مجموعی الشریعہ محاسن کا مجموعہ ہے جس پر آپ اور آپ کی ادارتی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ امید ہے کہ فکری جمود اور تقلید کے خلاف محاکمہ کا سلسلہ آپ جاری رکھیں گے اور شریعت مطہرہ کے دائرے میں وسعت نظر کی دعوت فکر دیتے رہیں گے۔
ایک مجلس میں طلاق ثلاثہ کے وقوع اور موجودہ دور میں اس کے تباہ کن معاشرتی اثرات کے حوالے سے پروفیسر محمد اکرم ورک صاحب نے جو پرمغز تحریر لکھی ہے اور جسے بہت سے جویان حق نے سراہا ہے، وہ یقیناًایک جرات مندانہ اور مستحسن اقدام ہے۔ آج کی دنیا دلائل وبراہین کی زبان کو سمجھتی ہے اور دعووں کو دلائل کی روشنی میں پرکھنے کا رجحان بھی پروان چڑھا ہے۔ وراثتاً ملے ہوئے عاری از دلائل آرا کو خیر باد کہنے کی تحریک دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی ہے۔ جو شخص جتنا زیادہ عالم اور بالغ نظر ہے، وہ مذہبی جمود اور فکری تعصب کو اتنا ہی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات اور بہتر نتائج کا پیش خیمہ ہے۔
امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ کا فتح کردہ ایران اور عراق کا خطہ آج شیعہ مکتب فکر کا مرکز ہے، حالانکہ کوفہ وعراق امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ جیسے بانیان مذہب کا مسکن ومرکز تھا۔ ایسا کیونکر ہوا، یہ ایک سوالیہ نشان ہے جس کا جواب طلاق ثلاثہ سے متعلق پیرمحمد کرم شاہ الازہری اور مولانا سلمان الحسینی کی رائے پر چیں بہ چیں ہونے والوں کے ذمے ہے۔ اسلامی تاریخ کی انتہائی معتوب ومظلوم شخصیت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منہاج السنۃ کے مقدمے میں اس امر کی وضاحت کی ہے۔ خود ائمہ اربعہ علیہم الرحمۃ بھی اجتہاد کو تابندہ وپائندہ رکھنے کے حق میں تھے۔ ان کے اپنے واضح ارشادات اور ان کے تلامذہ امام ابو یوسف وامام محمد کے اپنے استاذ گرامی سے دو تہائی کے قریب مسائل میں اختلاف کرنا اسی وسعت نظر کا غماز ہے۔
ہفت روزہ ضرب مومن ۳۱؍اکتوبر ۲۰۰۳ کے مطابق طالبان کے دور حکومت میں سپریم کورٹ نے افغانستان کی جنگ آزادی اور بعد کی خانہ جنگی کے دوران میں لاپتہ ہو جانے والے لوگوں کے بارے میں علما سے رجوع کر کے یہ فیصلہ صادر کیا تھا کہ ایسے لوگوں کی بیویاں چار سال تک انتظار کرنے کے بعد دوسری شادی کر سکتی ہیں۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے طلاق ثلاثہ آرڈیننس تک نہ کوئی مستقل فقہی مذاہب وجود میں آئے تھے اور نہ ان کے بانیوں میں سے کوئی پیدا ہوا تھا ۔ اس آرڈیننس سے قبل ایک ہی طلاق واقع مانی جاتی تھی اور یہی اس وقت کے ائمہ مجتہدین کا مسلک تھا۔ اسی فقہی مسلک کی ترجمانی بعد میں امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم نے کی اور موجودہ دور میں اہل حدیث مکتبہ فکر اسی کا ترجمان ہے۔ اس رائے کے حاملین کو امام ابن تیمیہ کامقلد قرار دینا قرین انصاف نہیں۔ اسی طرح ائمہ اربعہ کی رائے کے برعکس ہونے کو بھی کسی فقہی مسلک کو کلیتاً مسترد کر دینے کے لیے وجہ جواز نہیں بنایا جا سکتا۔ بہت سے مسائل میں امام ابو یوسف، امام محمد، امام ثوری، لیث بن سعد اور ابن حزم جیسے اہل علم نے جمہور کی رائے سے ہٹ کر رائے قائم کی ہے۔ اگر یہ اہل علم اس بنیاد پر مورد الزام نہیں ٹھہرتے تو آج کے دور میں ان کی رائے کو اختیا ر کرنے والے کیوں گردن زدنی قرار دیے جاتے ہیں؟ زیر بحث مسئلے میں امام ابن تیمیہ سے بھی بڑھ کر مختلف رائے فقہاے امامیہ نے اختیار کی ہے جن کے نزدیک اس طرح کی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی بلکہ لغو قرار پاتی ہے جس کی شریعت میں کوئی تاثیر نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق بات کہنے اور جہاں سے حق ملے، وہاں سے لے لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
ابو عبد اللہ نادم
غواڑی ۔ بلتستان
(۲)
واجب الاحترام مدیر ’ الشریعہ‘
سلام مسنون
’’قرآنی علمیات اور معاصرمسلم رویہ‘‘ کے عنوان سے پروفیسر میاں انعام الرحمٰن صاحب کی کاوش ،اندازِ تحریر کے حوالہ سے قابلِ داد ہے، تاہم میاں صاحب کے مضمون کے Theme اور اس کی بعض جزئیات سے کلیتاً اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی ذریت میں صرف سرکارِ دوعالم ﷺ بحثیت پیغمبر مبعوث ہوئے، جبکہ یہودی علما حضرت اسحٰق علیہ السلام کو ذبیح قرار دینے پر اس لیے مصر ہوئے کہ رحمتِ دوجہاں ﷺ کی آمد سے متعلق توراۃ وانجیل میں موجود بشارتوں کی نفی کی جا سکے۔ ’ذبیح کون؟‘ کی بحث مسلم فکر کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کا آغاز یہودی علما کی طرف سے ہوا اور مسلم محققین نے توراۃ وانجیل اور دیگر تاریخی وجغرافیائی شواہد سے یہ ثابت کیا کہ ذبیح درحقیقت اسمٰعیل علیہ السلام ہی تھے۔ میاں صاحب مسلم رویے کو موردِ الزام ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ اگر تاریخی تناظر میں یہودی شدت پسندی کا بھی ذکر فرماتے تو ان کا مضمون ایک معتدل تحقیق متصور ہوتا۔ مزید برآں حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں ’ذبیح کون؟‘ جیسی ابحاث پر قلم کشائی بذاتِ خود ’فکری تشدد پسندی‘ کے احیا کی کوشش ہے جبکہ اس سے احتراز معاصر مسلم رویہ کو بہتر ومعتدل بنانے میں معاون ہو گا۔ (اللہم ثبت قلوبنا علی دین الاسلام۔ آمین)
حافظ محمد سمیع اللہ فراز
پی ایچ ڈی سکالر، لیکچرار شعبہ علومِ اسلامیہ
ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان۔ لاہور
(۳)
باسمہ تعالیٰ
مکرمی جناب مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے ایمان وصحت کی بہترین حالت میں دین مبین کی ترقی وترویج کے کاموں میں مصروف ہوں گے۔
آپ کے زیر ادارت شائع ہونے والا ماہنامہ ’الشریعہ ‘ہر ماہ باقاعدگی سے ملتا ہے۔تمام مضامین عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اور مسائل کے حل کے لیے تیر بہدف ہوتے ہیں۔ماہنامہ ’الشریعہ‘ کا ہر ماہ بندہ کو شدت سے انتظار رہتاہے، لیکن بندہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرتاہے کہ ابھی تک شکریہ کے طور بھی کوئی خط ارسال نہیں کر سکا۔ اس پر بندہ معذرت خواہ ہے ۔
نومبر کا شمارہ بندہ کے سامنے پڑا ہے۔ اول سے آخر تک مطالعہ کرنے کے بعد کچھ لکھنے کی جسارت کررہاہوں۔ صفحہ ۴۴ پر عبد الجلیل نقوی صاحب کا خط شائع ہوا ہے۔ اس سے پہلے شیعہ سنی مسئلہ اور اختلاف کے عوامل پر ’الشریعہ‘ میں کافی لکھا گیا ہے اور ’الشریعہ‘ نے اپنی روایت کے مطابق ہر فریق کو کھل کر اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا ہے ۔عبد الجلیل نقوی صاحب نے اپنے خط میں ’’نہ مانوں‘ ‘والا رویہ اختیار کیا ہے ۔یہ مسئلہ ایجنسیوں یا متعصب گروہ کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ شیعہ مسلک کے ان مصنفین کاپیدا کردہ ہے جنھوں نے اپنی کتابوں میں اہل سنت کے اکابر پر تنقید کا بیہودہ طرز اختیار کیا ہے۔ یہ کتابیں اس وقت لکھی گئی تھیں جب ’متعصب‘ گروہ کے قائدین کے آباواجداد بھی پیدا نہیں ہوئے تھے ۔کیا محمد بن یعقوب کلینی نے ’اصول کافی‘ میں نہیں لکھا کہ کفر کی تین جڑیں ہیں:ایک شیطان، دوسرا قابیل اور تیسری (معاذاللہ) حضرت آدم؟ کیا باقر مجلسی نے اپنی کتاب ’حق الیقین ‘میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کو (معاذاللہ )شیطان سے بڑا کافر نہیں لکھا؟ کیا اسی باقر مجلسی نے اپنی کتاب ’عین الیقین ‘میں تین صحابہ یعنی مقدادؓ ،سلمانؓاور ابوذرؓکے سوا باقی تمام صحابہؓکو نعوذباللہ کافر اور مرتد نہیں لکھا؟ کیا اسی کتاب میں باقر مجلسی نے نہیں لکھا کہ امام جعفر صادقؒ نماز کے بعد جب تک خلفاے ثلاثہؓ اور پیغمبر علیہ السلام کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہؓ پر لعنت نہیں کرتے تھے، اپنے مصلے سے نہیں اٹھتے تھے؟ جب ایسے خیالات ظاہر اور شائع کیے جائیں گے تو ان کا رد عمل ضرور ہو گا۔ رد عمل میں دہشت گردی ،خود کش حملوں اور قتل وغارت گری سے بندہ بھی اتفاق نہیں کرتا اور نہ کوئی سنجیدہ انسان ایسے اقدامات کی حمایت کر سکتاہے ۔دیوبندی مکتب فکر کے سنجیدہ اور دانش ور افرادنے اگر اہل تشیع کے طرز عمل کے خلاف قلم اٹھایا ہے تو یہ اقدام ایجنسیوں یا ایک متعصب گروہ کے پروپیگنڈا کا نتیجہ ہر گز نہیں۔ آپ اس متعصب گروہ کو چھوڑ کر دیوبندی ،بریلوی اور اہل حدیث مکاتب فکر کے کسی سنجیدہ عالم ،دانش ور اور مفتی سے ان کتابوں کے مصنفین یا ان عقائد کے حامل افراد کے بارے میں پوچھ لیں کہ اسلام کے ساتھ ان کا کوئی تعلق ہے یا نہیں؟ حقیقت حال واضح ہو جائے گی۔
عبد الجلیل نقوی صاحب کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ ’نہ مانوں‘ کا رویہ چھوڑ کر حقائق کو تسلیم کریں اور اس مسئلے کے واقعی حل کے لیے مدد کریں۔ پاکستان جیسا ترقی پزیر ملک اس اختلاف اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ دونوں فریق باہم اتحاد واتفاق پیدا کریں تاکہ درپیش مسائل کا یک جان ہو کر مقابلہ کیا جا سکے۔
امید ہے کہ ماہنامہ ’الشریعہ‘ مسائل ومباحث کے حوالے سے ہماری معلومات میں اضافہ کرتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ’الشریعہ‘ کو مزید ترقی نصیب فرمائے۔آمین
سید عنایت اللہ ہاشمی
نائب مہتمم دارالعلوم مصباح الاسلام
مٹہ مغل خیل ۔ شبقدر فورٹ۔ ضلع چارسدہ
(۴)
باسمہ سبحانہ
بخدمت گرامی حضرت علامہ راشدی صاحب مدظلہ
سلام مسنون
الشریعہ میں شیعہ کی تکفیر کے موضوع پر بحث جاری ہے۔ احقر کی نظر میں عملی طور پر یہ بحث بے فائدہ ہے اس لیے کہ اس پر کوئی مثبت نتیجہ مرتب ہونے کی امید نہیں ہے۔ اگر قارئین شوق رکھتے ہوں تو شیعہ سنی مسئلہ کے حل میں حکومتی انداز فکر، شیعہ سنی تنازع کی وجوہ اور اس کے سدباب کی تجاویز وغیرہ موضوعات پر قلم اٹھائیں۔ شیعہ سنی حوالے سے تاریخی وادبی بہت سے موضوعات تشنہ بحث ہیں۔ ان پر طبع آزمائی کریں۔
شیعہ سنی مسئلہ میں حکومت جس افراط وتفریط کا شکار ہے، اس کے پیش نظر کچھ لکھنا اور چھاپنا ایک مستقل مسئلہ ہے۔
(مولانا) مشتاق احمد
جامعہ عربیہ۔ چنیوٹ