سوشل گلوبلائزیشن کا ایجنڈا اور علماء کرام کی ذمہ داریاں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۲۰ جون ۲۰۰۵ کو ابراہیم کمیونٹی کالج لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام ایک فکری نشست منعقد ہوئی جس کی صدارت فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے کی، جبکہ پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ نشست میں لندن کے مختلف علاقوں کے علماء کرام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی نے سوشل گلوبلائزیشن کے موضوع پر تفصیلی خطاب کیا۔ ان کے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)


بعد الحمد والصلوۃ!

مجھے آج کی اس نشست میں گلوبلائزیشن کے ایجنڈے اور علماء کرام کی ذمہ داریوں کے حوالے سے گفتگو کے لیے کہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی گزارش یہ ہے کہ گلوبلائزیشن کیا ہے؟ گلوبلائزیشن، عولمہ، بین الاقوامیت، عالمگیریت اور انٹرنیشنل ازم کی اصطلاحات کم وبیش ایک ہی معنی میں استعمال کی جا رہی ہیں۔ وہ یہ کہ سائنسی ترقی اور مواصلات کے جدید ترین ذرائع نے انسانی آبادی کو طویل جغرافیائی فاصلوں کے باوجود ایک دوسرے کے اس قدر قریب کر دیا ہے کہ پوری انسانی آبادی ایک مشترکہ سوسائٹی کا نقشہ پیش کر رہی ہے اور اسے ’’گلوبل ویلج‘‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ دنیا کے ایک کونے میں واقعہ ہوتا ہے تو دوسرے کونے تک چند منٹوں میں اس کی نہ صرف خبر پہنچ جاتی ہے بلکہ اس کے مناظر بھی نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں اور اب صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں رونما ہونے والا واقعہ اور اس کے اثرات صرف اس خطے تک محدود نہیں رہتے بلکہ واقعہ کی نوعیت کے لحاظ سے دوسری دنیا بھی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ سوسائٹیاں ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں، ثقافتیں ایک دوسرے میں مدغم ہو رہی ہیں اور تہذیبیں باہمی کش مکش کے باوجود ایک دوسرے کا اثر قبول کرتے ہوئے گڈمڈ ہوتی جا رہی ہیں۔ اس طرح دنیا ایک مشترکہ عالمی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے اور عالمگیریت کا ماحول دن بدن گہرا ہوتا جا رہا ہے۔

یہ گلوبلائزیشن انسانی معاشرے کے ارتقا کا نام ہے جسے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے عروج تک پہنچا دیا ہے اور نسل انسانی کے معاشرتی ارتقا اور سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کے امتزاج نے پوری انسانی آبادی کو ایک دوسرے کے نہ صرف قریب کر دیا ہے بلکہ ذہنوں اور دلوں کے فاصلے بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس گلوبلائزیشن کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ یہ صرف ارتقا کا ایک عمل ہے جو اپنی انتہا کی طرف فطری رفتار سے بڑھ رہا ہے، البتہ گلوبلائزیشن کے حوالے سے دنیا میں مختلف ایجنڈوں پر کام ہو رہا ہے اور ان ایجنڈوں کا مشترکہ نکتہ یہ ہے کہ مستقبل کے گلوبل ویلج میں جو کم وبیش پوری نسل انسانی کو محیط ہوگا، فکری اور تہذیبی قیادت کس کے ہاتھ میں ہوگی اور اس کا نظام کن اصولوں پر استوار ہوگا۔ اس پر مختلف ایجنڈوں میں کش مکش جاری ہے اور اس میں مسلسل پیش رفت ہو رہی ہے۔ یہ کش مکش دنیا کے وسائل پر کنٹرول کے حوالے سے بھی ہے، تہذیب وثقافت کی بالادستی کے نام سے بھی ہے، فکر وعقیدہ کی برتری کے عنوان سے بھی ہے، عسکری کنٹرول اور اجارہ داری کے میدان میں بھی ہے اور مذہب کے شعبے میں بھی ہے۔ دنیا میں مختلف گروہ اور قوتیں ان میدانوں میں سرگرم عمل ہیں اور اس وقت مغرب کو بہرحال اس حوالے سے بالادستی کی پوزیشن حاصل ہے کہ دنیا بھر کے معاشی وسائل اس کے کنٹرول میں ہیں، اسے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بالادستی بلکہ اجارہ داری حاصل ہے، بین الاقوامی سیاسی نظام میں اسے فیصلہ کن برتری حاصل ہے اور عسکری میدان میں اسے چیلنج کرنے والی کوئی قوت سردست میدان میں موجود نہیں ہے، اس لیے گلوبلائزیشن کے حوالے سے وہی اس وقت سب سے زیادہ سرگرم عمل ہے۔ امیر ترین ممالک مشترکہ گروپ قائم کر کے دنیا کے معاشی وسائل اور معدنی ذخائر پر اپنی اجارہ داری کو مضبوط کرنے، دنیا بھر کی تجارت وصنعت پر بالادستی قائم رکھنے، اسلحہ اور عسکریت کے میدان میں باقی ساری دنیا کو اپنی سطح تک آنے سے روکنے اور دنیا بھر میں اپنی ثقافت وتہذیب کو فروغ دینے کے لیے مسلسل مصروف کار ہیں، جبکہ ان کی تگ وتاز کا سب سے بڑا میدان عالم اسلام ہے۔ 

ہمارے حوالے سے مغرب کی یلغار دو جانب سے دنیا میں تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ ایک طرف مغرب کی سیکولر حکومتیں اور سیکولر لابیاں مسلم معاشرہ میں سیکولر ازم اور لادینیت کو فروغ دے کر اور اس کے لیے اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں پوری طرح جھونک کر ہماری نئی نسل کی دینی اساس اور فکر وعقیدہ کی بنیادوں کو کمزور کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ عالم اسلام کے بارے میں ان کے تمام تر ایجنڈے کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مسلمان اپنی معاشرتی زندگی میں مذہب کے کردار سے دست بردار ہو جائیں اور مذہب کے فکر وفلسفہ کو من وعن قبول کرتے ہوئے اپنی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کو اس کے سانچے میں ڈھال لیں۔ دوسری طرف مسیحی مشنری سرگرمیاں دنیا کے مختلف مسلم ممالک میں سادہ لوح مسلمانوں کو مسیحیت کے دائرے میں شامل کرنے کی تگ ودو کر رہی ہیں۔ افریقہ کے کم وبیش سب ممالک، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور افغانستان سمیت وسطی ایشیا میں مسیحی مشنریوں اور مسیحی رفاہی این جی اوز کی تبلیغی سرگرمیاں دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو عیسائیت کا حلقہ بگوش کرنے کے لیے کس تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ مغرب کی سیکولر حکومتوں اور مسیحی مشنری اداروں کو ایک دوسرے کا بھرپور تعاون حاصل ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں باقاعدہ منصوبے اور انڈر سٹینڈنگ کے ساتھ عالم اسلام کو مغلوب اور فتح کرنے کی مہم میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

دوسری طرف عالم اسلام کی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے بیشتر حلقوں اور افراد کو سرے سے اس صورت حال کا ادراک ہی نہیں ہے۔ مغرب کی اس مذہبی اور تہذیبی یلغار کا مقابلہ صرف دینی شعبہ سے تعلق رکھنے والے بعض حلقے کر رہے ہیں اور انھیں نہ صرف یہ کہ مسلم حکومتوں کا تعاون حاصل نہیں ہے بلکہ اکثر ممالک میں مسلم حکومتوں کا وزن دینی بیداری کے لیے کام کرنے والے دانش وروں اور حلقوں کے بجائے ان کے مخالف پلڑے میں ہے۔ اس طرح مسلم معاشرہ میں دینی بیداری، مذہبی وابستگی اور اسلامی تہذیب وثقافت کے تحفظ وبقا کی جدوجہد کرنے والوں کو مغرب کی حکومتوں اور این جی اوز کے ساتھ ساتھ اپنی حکومتوں اور مقتدر طبقات کی مخالفت اور دباؤ کا بھی سامنا ہے اور انھیں دو طرفہ جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔

ان حالات میں علماء کرام کی ذمہ داریوں اور کردار کے حوالے سے سب سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہمارا سب سے پہلا اور اہم فریضہ معروضی صورت حال سے آگاہی حاصل کرنا ہے، کیونکہ ہماری غالب اکثریت اس صورت حال سے آگاہ نہیں ہے اور اسے حالات کی سنگینی کا سرے سے کوئی ادراک نہیں ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب حالات پر ہماری نظر نہیں ہوگی اور ہم معروضی صورت حال سے باخبر نہیں ہوں گے تو اس کشمکش میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔ یہ درست ہے کہ ہم سیاسی، معاشی، عسکری، سائنسی اور صنعتی وتجارتی میدانوں میں مغرب کا مقابلہ کرنے اور اس کا راستہ روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، لیکن فکر وفلسفہ، تہذیب وثقافت، تعلیم وتربیت اور دعوت وتبلیغ کے میدان ہمارے لیے اجنبی نہیں ہیں اور ان محاذوں پر اگر ہم نئی نسل کی ذہن سازی اور صف بندی کے کام کو صحیح کر لیں تو نہ صرف یہ کہ عالم اسلام کو فتح کرنے کی مغربی مہم کا کم از کم ان میدانوں میں کامیابی کے ساتھ سامنا کر سکتے ہیں بلکہ زندگی کے دوسرے شعبوں کے باشعور افراد کو بھی ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلا سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لیں۔ جو کام ہم کر سکتے ہیں، اس کی منصوبہ بندی کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی فضا قائم کریں۔ ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں اور مل جل کر نئی نسل کو دین کے ساتھ وابستہ رکھنے، اسے موجودہ صورت حال سے آگاہ کرنے اور بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اگر فکری بیداری کے ماحول کو قائم رکھ سکیں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے حضرات کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے رہیں تو حالات میں بہت حد تک سدھار آ سکتا ہے۔

میں گفتگو کے خلاصہ کے طور پر علماء کرام سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ وہ دنیا کے حالات سے بے خبر نہ رہیں۔ یہ بے خبریت جس میں ہم عافیت محسوس کر رہے ہیں، دینی فرائض کے حوالے سے ہمارے لیے زہر قاتل ہے۔ حالات سے آگاہی حاصل کریں اور ان کے مطابق اپنی صلاحیتوں، توانائیوں اور مواقع کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے کردار کا تعین کریں۔ آج کے حالات میں یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے اور اسی صورت میں ہم عالم اسلام کی بہتری اور مسلم امہ کے مفاد کے لیے کوئی مثبت اور موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

عالم اسلام اور مغرب

(اگست ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter