اشتعال انگیز واقعات پر مسلم امہ کا رد عمل

مولانا نظام الدین

(پندرہ روزہ ’تعمیر حیات‘ لکھنو (۱۰ جون ۲۰۰۵) میں شائع شدہ ایک انٹرویو سے اقتباس۔)


سوال: آپ کے علم میں ہے کہ فاشسٹ عناصر نے تاج محل کے تاجیشوری مندر ہونے کا شوشہ چھوڑ کر باسی کڑھی کو ایک بار پھر ابال دینے کی کوشش کی ہے۔ پیش بندی کے طور پر شاہجہاں وممتاز محل کی قبروں کو بنیاد بنا کر تاج محل کو سنی سنٹرل وقف بورڈ میں قبرستان کے طور پر مندرج کرنے کی بات ملت کے دردمند افراد نے کہی ہے۔ کیا یہ اقدام فاشسٹ عناصر اور شر پسندانہ عناصر کو روکنے کے لیے کافی ثابت ہوگا؟ آپ کے نزدیک اس کا پائیدار حل کیا ہے؟

جواب: تاج محل کو آج کل ہی تاجیشوری کا مندر نہیں کہا جا رہا ہے، یہ پراپیگنڈا آج کا نہیں ہے۔ ایک انگریز مورخ برس ہا برس قبل اس قسم کی زہر افشانی کر چکا ہے اور تاج محل ہی نہیں، قطب مینار اور جامع مسجد کے متعلق بھی ایسا پراپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے۔ تاج محل کو تاجیشوری کا مندر سب سے پہلے اسی انگریز مورخ نے کہا۔ اب جو یہ بات آپ نے کہی کہ سنی سنٹرل وقف بورڈ میں ملت کے ذمہ دار عناصر تاج محل کا رجسٹریشن کرانا چاہتے ہیں تاکہ پیش بندی ہو شاہ جہاں اور ممتاز محل کی قبروں کی بنیاد پر، تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ صرف اتنا ہی اقدام اس پراپیگنڈا کے پیش نظر کافی نہیں ہے۔ اصل کام تو حکومت کا ہے۔ اس کے پاس سارا ریکارڈ موجود ہے۔ وہ اپنے ریکارڈ کو بنیاد بنا کر اس قسم کے مذموم پراپیگنڈا کا استیصال کر سکتی ہے۔ اس کی پوری قوت کے ساتھ تردید کر سکتی ہے۔ محض سنی سنٹرل بورڈ کا قبروں کی بنیاد پر رجسٹریشن کافی نہیں۔ اس کے بعد بھی یہ پراپیگنڈا جاری رہے گا۔ تاج محل کا وقف بورڈ میں اندراج کرا لیں گے، لیکن تب بھی پراپیگنڈا تو جاری رہے گا۔

مثلاً جو دہلی کی جامع مسجد ہے، وہ آج بھی وقف بورڈ میں مندرج ہے لیکن یہ پراپیگنڈا کہ یہ مندر پر بنائی گئی، اب بھی کیا جاتا ہے تو ایسا پراپیگنڈا تو اس لیے کیا جاتا ہے کہ جھوٹ کو اتنی بار دہراتے رہو کہ وہ سچ معلوم ہونے لگے اور اس کی بنیاد پر تخریبی کارروائی اور مذہبی جذبات کوبھڑکانے کا کبھی موقع ملے۔ اس لیے مسلمانو ں کے جو شعائر ہیں جن سے ان کی تاریخ وابستہ ہے، جن سے ان کی شناخت بنتی ہے اور قائم ہے، اس کو تبدیل کرنے کے لیے یا مسخ کرنے کے لیے بلکہ ان کو ختم کرنے کے لیے منصوبہ بند کوششیں بہت دنوں سے جاری ہیں۔ یہ اسی کا ایک شاخسانہ ہے۔

تو جو لوگ رجسٹریشن کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، ٹھیک ہے، ہم ان کی مخالفت نہیں کرتے، لیکن یہ کافی نہیں۔ اصل ذمہ داری حکومت کی ہے۔ حکومت کو اپنی سطح سے تاج محل کے مندر ہونے جیسے پراپیگنڈا کی مذمت ومخالفت اور ان کے تدارک کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان کے پاس اس کا ریکارڈ موجود ہے۔ اگر حکومت اس کی تردید کر دے تو بات ختم ہو جاتی ہے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے ایک بات پھیلتی رہتی ہے لیکن حکومت کی طرف سے کوئی بیان نہیں آتا۔

س: کیا آ پ محسوس کرتے ہیں کہ ایسے جذباتی ایشوز مخصوص شر پسندانہ مقاصد کی تکمیل کے لیے کیے جاتے ہیں تاکہ مسلمان مشتعل ہو کر اپنا ہی نقصان کر بیٹھیں؟ اس موقع پر مسلمانوں کو آپ کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟

ج: یہ جذباتیت کا مسئلہ ہی نہیں ہے، مسلمانوں کو اس پر مشتعل ہی نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے مدارس کے بارے میں بھی یہی کہا تھا کہ جو لوگ مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ کہہ رہے ہیں، ان کے جواب میں ہمیں مشتعل ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ مدارس کے دروازے سب پر کھول دیے جانے چاہییں کہ آؤ دیکھو، ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہمیں مدارس کا معیار تعلیم اور ان کے نظام تربیت کو بہتر سے بہتر بنانا چاہیے، بلکہ موقع ہو تو آپ برادران وطن کے لیے بھی تعلیم کے دروازے کھول دیں۔

تو تاج محل کے متعلق جو کچھ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے، وہ کھلا جھوٹ ہے۔ اگر ہم مشتعل ہوئے تو شرپسند عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع ملے گا۔ مسلمانوں کے مشتعل ہونے سے ہمیشہ فرقہ پرستوں کو فائدہ پہنچا۔ جھوٹ جھوٹ ہے۔ اس پر اشتعال کیسا؟ کوئی رات کو دن کہہ دے اور کوئی دن کو رات کہہ دے تو آپ کا رد عمل کیا ہوگا، سوائے اس کے کہ اس کو آپ جھوٹا سمجھیں۔ اس پر مشتعل ہونا حماقت کی بات ہوگی۔ اس سے زیادہ سنگین مسئلے ملت کے سامنے آئے، جیسا کہ ابھی آپ نے بابری مسجد کا ذکر کیا۔ اس سلسلے میں بڑے سنگین مرحلے آئے، آئینی حقوق وقانونی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ہم اپنی پر امن جدوجہد جاری رکھیں تو اس کے مفید نتائج برآمد ہوں گے، اس لیے کہ سچ کو سچ کہنے میں کسی ملاوٹ کی ضرورت نہیں ہے اور کسی سچ کو جھوٹ بنانے کے لیے کافی ملاوٹ کرنی پڑتی ہے۔

س: گوانتا نامو بے قید خانے میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعہ کو منظر عام پر لانے کے پس پشت امریکہ کے کیا عزائم ہو سکتے ہیں؟ نیز عالم اسلام کو امریکہ کی اس نفسیات کا جواب کس انداز سے دینا چاہیے؟

ج: دیکھیے اگر آپ بغور مسائل کا جائزہ لیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ عالم اسلام میں حالیہ چند برسوں میں اس سے زیادہ سنگین واقعات رونما ہوئے۔ مثلاً ایک مثال سقوط کابل کی ہے۔ افغانستان پر حملہ کیا کم سنگین واقعہ ہے؟ آخر طالبان کا قصور کیا تھا؟ یہی نا کہ وہ ایک مثالی اسلامی نظام حکومت کے قیام کے لیے کوشاں تھے اور اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کر رہے تھے۔ بغیر کسی تصادم وٹکراؤ کے وہ دنیا کے سامنے اسلام کی پرامن شبیہ پیش کر رہے تھے، لیکن طالبان کو ملیا میٹ اور نیست ونابود کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ لاکھوں کی تعداد میں بے گناہ انسانوں کا قتل ناحق کیا گیا۔ اسی طرح عراق کے معاملہ کو لیجیے۔ صدام حسین کی شخصیت پر بحث ایک جداگانہ بحث ہے، لیکن صدام حسین پر بھی مہلک ہتھیاروں کے رکھنے کا الزام ثابت نہیں ہوا اور آج تک عراق میں حالات پرامن نہیں ہیں۔ نیز معصوم عوام نشانے پر ہیں۔ تو یہ واقعات تو قرآن کی بے حرمتی سے بھی زیادہ بڑھ کر ہیں۔

قرآن کی بے حرمتی تو ہمیں مشتعل کرنے کے لیے ہے، اس لیے کہ جنھوں نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی، انھوں نے ہی اس واقعہ کو میڈیا میں پیش کیا اور اس کی تشہیر کی ہے۔ اس تشہیر کا مقصد مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ بات ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جیل کی چار دیواری کے واقعہ کو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ساری دنیا میں عام کرنے کے پس پشت مقصد یہی ہے کہ مسلمان سہل انگاری سے کام لیں، اس کے خلاف احتجاج کریں، دفاع میں اپنی توانائی خرچ کریں اور تعمیری کاموں کی طرف سے ان کی توجہ منعطف ہو جائے۔

قرآن پاک کی بے حرمتی پر مسلمانوں کے احتجاج کو بے جا تو نہیں کہا جا سکتا، یہ غیرت وحمیت کا تقاضا ہے، لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جو اقدام طاقت کے نشہ میں اٹھایا جاتا ہے، وہ طاقت ہی کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔ اگر عالم اسلام میں طاقت ہے تو وہ امریکہ کی اس مذموم حرکت کو طاقت سے روک دے۔ پھر وہ کبھی جرات وجسارت نہیں کرے گا قرآن پاک کی بے حرمتی جیسی ناپاک حرکت کی۔

جو لوگ قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف بیانات دے رہے ہیں، مذمتی قراردادیں پاس کر رہے ہیں تو اس سے امریکہ پر کیا اثر پڑنے والا ہے؟ اصل مسئلہ طاقت کا ہے۔ شعائر اسلام کو مٹانے، مدارس کو دہشت گرد قرار دینے، اسلامی نظام حکومت کو نیست ونابود کرنے، مسلم ممالک پر نظر بد رکھنے اور اس زمرہ کے جتنے اقدامات ہیں، انھیں روکنے کے لیے احتجاج کافی نہیں، طاقت کی ضرورت ہے۔ دنیا ’Might is right‘ کے اصول کو جانتی ہے۔

عالم اسلام جب تک مضبوط ومتحد نہیں ہوگا، اپنی طاقت وتوانائیوں کو مجتمع نہیں کرے گا، انتشار کو باہمی اتحاد سے نہیں بدلے گا اور جب تک امریکہ اور اس کی حلیف قوتوں کے سامنے خطرہ اور چیلنج بن کر نہیں آئے گا، عالم اسلام امریکہ کی مذموم حرکتوں اور اس کے ناپاک ارادوں کو روک نہیں سکتا۔ اصل مسئلہ ہے عالم اسلام کی غیرت ایمانی کا، ان کے اتحاد فکر وعمل کا۔ کیا وہ بدلہ لینے کی پوزیشن میں آ سکتے ہیں؟ تب ہی جا کر مسئلہ کا حل سامنے آئے گا۔

یہ مسئلہ ہے سارے عالم اسلام کا۔ ایک ایسی طاقت جو نشہ میں سرشار ہو کر ہماری قوتوں کو ضائع کرنے پر تلی ہوئی ہے، اس پر عالم اسلام غیر ت ایمانی کا ثبوت نہ دے۔ رہا احتجاج کا مسئلہ تو ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ایسے مسائل کھڑے ہی اس نیت سے کیے جاتے ہیں کہ مسلمان سڑک پر آ جائیں، احتجاجی مظاہرے کریں اور پھر انھیں بہانہ تراشنے میں آسانی ہو، نقض امن کے نام پر مسلمانوں پر زیادتی کریں، گولیاں برسائیں، عورتوں کی عصمت وناموس سے کھلواڑ کریں۔

امریکہ ایک طرف تو عالم اسلام کو تباہ کرنے کے درپے ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً شوشے بھی چھوڑتا رہتا ہے۔ اس طرح ان کا استہزا وتضحیک بھی کرتا ہے۔

دین و حکمت

(اگست ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter