دینی مدارس پر دہشت گردی کا الزام

ادارہ

(لندن میں ہونے والے حالیہ بم دھماکوں کے بعد برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے پاکستان کے دینی مدارس کو دہشت گردی کا مرکز قرار دیا جس سے قومی اور عالمی صحافت میں ان مدارس کا کردار ایک بار پھر موضوع بحث بن گیا ہے۔ اس تناظر میں وفاق المدارس العربیۃ پاکستان کی طرف سے جاری کردہ تحریری موقف کا متن یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)


لندن میں خود کش دھماکوں کے ذریعے جو جانیں ضائع ہوئی ہیں او رخوف وہراس کی کیفیت پیدا ہوئی ہے، اس سے دنیا کا ہر با شعور شخص پریشان ہے اور دنیا بھر کے امن پسند لوگ اس دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے اس کا شکار ہونے والے افراد اور خاندانوں کے ساتھ ہم دردی کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں دینی مدارس کا سب سے بڑا فورم وفاق المدارس العربیۃ پاکستان بھی اس تشویش واضطراب میں دنیا کے امن پسند افراد اور حلقوں کے ساتھ شریک ہے اور پرامن شہریوں کے خلاف کی جانے والی اس کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے متاثرہ افراد، خاندانوں اور پوری برطانوی قوم کے ساتھ ہم دردی اور یک جہتی کا اظہار کرتا ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت جنگ میں بھی بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور جنگ سے لاتعلق افراد کو قتل کرنے سے منع کیا ہے، چہ جائیکہ حالت امن میں بے گناہ شہریوں کا اس طرح خون بہایا جائے اور خوف ودہشت کی کیفیت پیدا کی جائے، اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لندن میں گزشتہ دنوں کیے جانے والے بم دھماکے، جن کے نتیجے میں پچاس سے زائد افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں، نہ صرف امن کو سبوتاژ کرنے کی مذموم حرکت کے مترادف ہیں، بلکہ اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا باعث بھی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی وفاق المدارس العربیۃ پاکستان کے صدر حضرت مولانا محمد سلیم اللہ خان، سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور دیگر راہ نما دو اہم امور کی طرف عالمی رائے عامہ اور بین الاقوامی حلقوں کو متوجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک یہ کہ دہشت گردی کے خلاف موجودہ عالمی جنگ کا ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ عالمی سطح پر دہشت گردی کی کوئی تعریف طے کیے بغیر کسی بھی گروہ کو یک طرفہ طور پر دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف کی جانے والی کارروائی انصاف کے تقاضوں پر پوری نہیں اترتی اور اس سے شکوک وشبہات کم ہونے کے بجائے ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ان اسباب وعوامل کو نظر انداز کر دینا بھی اس مبینہ دہشت گردی کے خاتمہ کے بجائے اس کے مزید فروغ کا باعث بن رہا ہے جن اسباب وعوامل کے نتیجے میں اس مبینہ دہشت گردی نے جنم لیا ہے اور جن کی طرف عالمی طاقتوں کے سنجیدگی کے ساتھ متوجہ نہ ہونے کی وجہ سے تشدد کی کارروائیوں کی حمایت کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔

اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی محل نظر ہے کہ لندن کے مذکورہ بم دھماکوں کی ذمہ داری کے حوالے سے پاکستان کے دینی مدارس کو عالمی میڈیا کے ذریعے بلاوجہ طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، حالانکہ یہ بات ایک سے زائد بار دلائل وشواہد کے ساتھ واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس میں کسی طرح کی کوئی فوجی تربیت نہیں دی جاتی، حتیٰ کہ چند ماہ قبل اسلام آباد میں دینی مدارس کے ایک بھرپور کنونشن میں پاکستان کے سابق وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین نے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ انھوں نے اپنے دور میں پورے ملک کے مدارس کی چھان بین کرائی ہے، مگر کوئی مدرسہ بھی دہشت گردی کی تربیت میں ملوث نہیں پایا گیا۔ نیز گزشتہ دو سالوں کے دوران ملک کے درجنوں دینی مدارس پر چھاپے مارے گئے ہیں اور اچانک آپریشن کیا گیا ہے ، لیکن کہیں بھی کوئی ہتھیار یا ٹریننگ کے آلات موجود نہیں پائے گئے، حتیٰ کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات اور کھلے اعلانات کے ذریعے متعدد بار اعلان کیا ہے کہ ملک کے کسی بھی دینی مدرسے کے بارے میں یہ شکایت پائی جائے کہ اس میں اسلحہ کے استعمال کی ٹریننگ دی جا رہی ہے تو اس کی نشان دہی کی جائے۔ اگر اس کا ثبوت فراہم ہو گیا تو اس مدرسہ کے خلاف کارروائی میں خود وفاق بھی حکومت کے ساتھ شریک ہوگا۔ مگر اس کے باوجود دینی مدارس کو مسلسل ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے اور ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ اس لیے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی ہائی کمان اس امر کا ایک بار پھر اعلان ضروری سمجھتی ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس میں صرف اور صرف تعلیم دی جاتی ہے اور قرآن وسنت کے علوم سے نئی نسل کو آراستہ کیا جاتا ہے۔ تعلیم اور دینی تربیت کے سوا ان مدارس کی سرگرمیوں میں اور کوئی بات شامل نہیں ہے اور قرآن وسنت اور ان کے متعلقہ علوم کی تعلیم اور ان کے مطابق نئی نسل کی دینی تربیت کے مشن سے وفاق المدارس سرمو انحراف کے لیے تیار نہیں ہے اور اس سلسلے میں کسی سطح پر کوئی دباؤ قبول نہیں کیا جائے گا، البتہ عسکری ٹریننگ اور دوسرے مذاہب کے خلاف عسکری محاذ آرائی کی فکری تربیت نہ ان مدارس میں دی جاتی ہے اور نہ ہی کسی مرحلے میں اس کا پروگرام مدارس کے اہداف میں شامل ہے اور اس حوالے سے وفاق المدارس کی ہائی کمان پاکستان کی حکومت اور بین الاقوامی حلقوں کو ہر قسم کی ضمانت دینے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ لندن کے خود کش دھماکوں میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے پاکستان کے بعض دینی مدارس میں تعلیم پائی ہے، اس لیے دینی مدارس اس مبینہ دہشت گردی میں ملوث ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قطعی طور پر غیر منطقی اور غیر حقیقی بات ہے، اس لیے کہ اگر بالفرض یہ بات ثابت بھی ہو جائے کہ ان افراد نے کسی وقت پاکستان کے کسی دینی مدرسہ میں تعلیم پائی ہے تو اسے ان کی کارروائی میں مدارس کی شمولیت کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا ہے، اس لیے کہ دنیا بھر میں مختلف حوالوں سے دہشت گردی، قتل وغارت، ڈکیتی اور سنگین جرائم میں ملوث افراد نے کہیں نہ کہیں ضرور تعلیم حاصل کی ہے اور ان میں ہاورڈ، آکسفورڈ اور کیمبرج یونی ورسٹیوں کے تعلیم یافتہ حضرات کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد مل جائے گی لیکن کسی ڈاکو اور قاتل نے اگر آکسفورڈ میں تعلیم پائی ہے تو اس کے لیے یہ نہیں کہا جاتا اور نہ کہا جا سکتا ہے کہ آکسفورڈ یونی ورسٹی میں ڈاکے کی تعلیم دی جاتی ہے اور اگر کسی فوج سے بھاگے ہوئے افراد مجرموں کا گروہ بنا لیں تو ان کے لیے بھی اس فوج کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاتا، اس لیے چند افراد کی کارروائی کو دینی مدارس کے کھاتے میں ڈال کر دینی مدارس کے پورے نظام کو بدنام کرنے کی مہم حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ یہ بات طے ہے کہ دینی مدارس میں کسی قسم کی دہشت گردی کی تربیت نہیں دی جاتی اور ایسی کارروائی کرنے والوں نے یہ تربیت کہیں اور سے حاصل کی ہے اور دہشت گردی کی تربیت کے اصل سرچشموں کا بہرحال سراغ لگانے کی ضرورت ہے۔

اس لیے ہم دنیا بھر کے انصاف پسند حلقوں اور افراد سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ دینی مدارس کے خلاف عالمی حلقوں اور میڈیا کے اس یک طرفہ پراپیگنڈا کا نوٹس لیں اور پرامن ماحول میں اسلامی تعلیمات سے نئی نسل کو روشناس کرانے والے اداروں کو اس جارحانہ اور معاندانہ پراپیگنڈے سے بچانے کے لیے کردار ادا کریں۔

حالات و واقعات

(اگست ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter