’’برہمن‘‘ کی پختہ زناری بھی دیکھ

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

بش اور بلیر اینڈ کمپنی کو ’’برابر کی چوٹ‘‘ کا اب تک کوئی نہ مل رہا تھا۔ یہ کمی بالآخر عراق میں فلوجہ کے ابو مصعب الزرقاوی نے پچھلے دنوں پوری کی۔ مگر افسوس کہ یہ کمی جس مقابلہ میں پوری ہوئی، اس میں بھی جیت کمپنی کی ہوئی۔ زرقاوی برابر رہ کر بھی ہار گئے۔ برابر وہ اس معنی میں رہے کہ مسٹر بلیر نے اگر ان کے مطالبہ پر جھکنے سے انکار کیا اور شدید اندرونی دباؤ کے باوجود انکار پر قائم رہے تو زرقاوی نے بھی ہر طرف سے آنے والی اپیلوں کے دباؤ کا اسی ’’ثابت قدمی‘‘ سے مقابلہ کیا اور اپنا قول کہ ’’عراقی عورتوں کو امریکن جیلوں سے نکلواؤ ورنہ تمھارا آدمی، کینتھ بِگلے (Kenneth Bigley) جو ہمارے ہاتھ میں ہے، قتل کر دیا جائے گا‘‘ پورا کر دکھایا۔ مگر زرقاوی برابری ثابت کر کے بھی اس لیے ہارے کہ انھوں نے جو کیا، وہ نہایت افسوس ناک عمل تھا۔ ان کے ہاتھ میں جو انگریز انجینئر تھا، اس کا انھوں نے کوئی گناہ نہیں بتایا تھا۔ بلیر اور بش کے گناہوں کے عوض ان کے ایک بے گناہ ہم قوم کا قتل سراسر گناہ تھا۔ اس نے اسلام اور مسلمانوں کو بد نام کیے جانے کی اس مہم کو تقویت بھی پہنچائی جس کے بادل اٹھا کر افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی راہ نکالی گئی تھی۔ اور بلیر اس کے برعکس جیتے ہوئے یوں نظر آئے کہ یہ ان کے لیے ایک سخت آزمایش کا موقع تھا اور اس موقع پر زرقاوی کی مانگ کے جواب میں جو فیصلہ انھوں نے کیا، وہ گویا تلوار کی دھار پہ چلنا تھا مگر ان کے منصب کا تقاضا یہی تھا۔ ملک اور پارٹی کا وقار اس سے وابستہ تھا۔ سخت حالات میں منصب کے تقاضوں سے وفاداری نہ چھوڑنا بڑائی دینے والی بات ہے۔

اس قصہ کے دن ستمبر کے آخری ہفتہ کے وہ دن تھے کہ مسٹر بلیر کی لیبر پارٹی کی سالانہ کانفرنس کا آغاز ہونے جا رہا تھا اور اس کانفرنس میں پارٹی کے ان لوگوں کی بھاری تعداد کا سامنا بلیر کو کرنا تھا جو عراق پر چڑھائی کے معاملے میں پہلے دن سے بلیر پالیسی کے مخالف تھے اور اب حالات وشواہد نے بلیر کو تمام تر غلط اور ان کو صحیح تر ثابت کر دیا تھا۔ ایسے میں ایک برطانوی شہری کی جان کا معاملہ، جو بلیر پالیسی ہی کا نتیجہ تھا، ایک بڑی جذباتی فضا جنگ مخالف لوگوں کے حق میں پیدا کر دینے والا معاملہ تھا۔ ان کے سوا بِگلے کا خاندان بھی جہاں زرقاوی سے رحم کی اپیلیں کر رہا تھا، وہاں اپنے وزیر اعظم پر بھی یہ جان بچانے کے لیے دباؤ ڈالنے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑ رہا تھا۔ ٹی وی کیمرے ان کو پورا تعاون دے رہے تھے۔ بِگلے کی بوڑھی ضعیف ماں روتی ہوئی بیٹے کی رہائی مانگتی اسکرین پر دکھائی جا رہی تھی۔ ایسے سخت دباؤ کے ماحول میں ایک جمہوری حکمران کے لیے آسان نہ تھا کہ وہ اپنے فیصلہ پر آخر تک قائم رہ جائے۔ بلیر نے یہ کمزوری دکھانے سے انکا رکر کے یقیناًپالا جیت لیا۔ عراق پر امریکی فوج کشی میں ان کی شرکت کتنی ہی قابل مذمت ہو، وہ ایک دوسری بات ہے۔یہاں اس سے ایک بالکل الگ مسئلہ کی گفتگو ہے۔ یہ بحیثیت لیڈر ایک خاص کردار کا مسئلہ ہے۔ ٹونی بلیر نے ثابت کیا کہ وہ اس کردار کے معاملہ میں پوری طرح قابل اعتماد ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک شہری کی جان کھو کر آئندہ کے لیے ایسی مزید آزمایش کا راستہ بھی بند کر دیا اور ملک کا وقار بھی بچا لیا۔

اس آزمایشی منظر سے نظر بے اختیار اپنے یہاں کے اس منظر کی طرف جاتی اور اداس ہوتی ہے جس میں قائدانہ کردار کی یہ صلابت واستقامت نہیں ملتی۔ امریکی برطانوی سامراجیت نے جب ۲۰۰۱ء میں افغانستان کا رخ کیا تو پڑوسی پاکستان میں جن لوگوں نے خود اس کے مقابلہ کا عزم ظاہر کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس معاملہ میں ساتھ دینے کے لیے پکارا، وہ حالات کی سختی سے رفتہ رفتہ اس قدر بدلے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ جیسے وہ لوگ کوئی اور تھے جنھوں نے اس وقت وہ باتیں کی تھیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے افغانستان پر قناعت نہ کر کے عراق کو بھی روند ڈالا ہے مگر ان کا یہ فاصلہ بڑھانے والا عمل الٹا فاصلوں کو کالعدم کرنے والا ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ۲۰۰۱ء میں جس افغانستان پر یہ لوگ عذاب بن کر نازل ہوئے تھے، وہ طالبان کا افغانستان تھا۔ ’’طالبان‘‘ کا لفظ آپ سے آپ بھی ’’مدرسہ‘‘ سے ان کے رشتہ کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ پھر مدرسے خود بھی آگے بڑھ بڑھ کر اپنا رشتہ دکھا رہے تھے۔ طالبان سے فارغ ہوتے ہی امریکہ اور اس کے ساتھ ساتھ کم وبیش تمام مغربی ممالک نے ضروری جان لیا کہ ’’طالبان‘‘ سے آئندہ کے لیے اطمینان حاصل کرنے کو پاکستان (بلکہ دنیا بھر) کے مدارس کی ’’اصلاح‘‘ لازم ہے، ورنہ یہ ’’نرسری‘‘ اگر باقی رہی تو ’’سرپھرے‘‘ پھر ضرور نکلتے رہیں گے۔ اس سلسلہ میں ان کی یہ مرکزی سوچ کوئی راز نہیں کہ وہ یہاں کے دینی تعلیم کے نظام کو اس ’’اعتدال پسند‘‘ (Moderate) اسلام کی تعلیم کے نظام سے بدلا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں جس کے فارغین کو ان کے اس تصور زندگی سے ہم آہنگی میں کوئی دقت محسوس نہ ہو جسے وہ ڈیماکریسی اور لبرٹی وغیرہ کی اصطلاحات سے ادا کرتے ہیں۔

اس صورت حال میں توقع کی جاتی تھی کہ طالبان کو بچالینا اگرچہ پاکستان کے دینی قائدین کے بس کی بات نہ تھی اور یوں وہ ایک ملک بھی الگ تھا، مگر یہ جو خود پاکستان کے مدارس نشانہ پر رکھے جا رہے ہیں، ان کو تو وہ اپنے جیتے جی مغربی ’’اصلاحات‘‘ کا شکار ہرگز نہ ہونے دیں گے۔ مگر ہم ایک حیرت زدگی کے عالم میں خبریں پڑھتے ہیں کہ مغربی ممالک کے سفارت کار ہمارے مدرسوں میں گھوم پھر رہے ہیں اور نظام تعلیم کی جدید کاری کے لیے ہمہ جہت تعاون کی پیش کشیں ان کی زبانوں پر ہیں۔ دل پوچھتا ہے، کیا ان لوگوں کے لیے کسی بھی درجہ میں ہمارے ہمت افزا رویہ کا کوئی جوڑ افغانستان پر بمباری کے وقت ہمارے جذبات اور رویہ سے لگایا جا سکتا ہے؟ کسی کو اگر ان کی ڈپلومیٹک زبان کے جادو سے کوئی دھوکہ ان کے مقاصد وعزائم کے بارے میں ہو گیا ہو تو مسٹر بلیر کی اسی کانفرنس کی تقریر پڑھ لینی چاہیے جس کا ذکر اوپر آیا۔

اس کانفرنس پر عراق کا مسئلہ چھایا رہا تھا اور جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا، اس مسئلہ پر مسٹر بلیر کو خود اپنی پارٹی میں پہلے دن سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ اس کانفرنس کا موقع بظاہر ان کے لیے اس سلسلہ کی آزمایشوں کا آخری اور سخت ترین موقع تھا مگر تمام سابقہ موقعوں کی طرح وہ اس بار بھی پار ہوجانے کی صلاحیت کا ثبوت دے گئے، یا کہیے کہ قسمت ساتھ دے گئی۔ برطانوی صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کے اندازوں اور ذرائع کے مطابق مسٹر بلیر کو اس کانفرنس کے لیے تقریر کی تیاری میں بذات خود بہت محنت کرنا پڑی تھی اور کیس جس قدر کمزور تھا اور جیتنا بہرحال تھا، تو اس کے لیے ضرور ایسا ہوا ہوگا۔ اس تقریر میں یوں تو اور بھی بہت کچھ تھا مگر اصلاً جو چیز محنت طلب تھی، وہ عراق پر جا پڑنے کا جواز ان سب باتوں کے باوجود بتانا جنھوں نے جواز کے لیے بنائے گئے سرے کیس کی بخیہ ادھیڑ ڈالی ہے۔ نیز اس تقاضا کو رد کرنا کہ اب جو ناسازگار حالات وہاں پر ہیں، ان کی بنا پر وہاں سے نکل آنا چاہیے، نکل آنے کے تقاضا کو رد کرتے ہوئے جو کچھ موصوف نے کہا، اس میں پاکستانی مدرسوں کا بھی صراحتاً ذکر خیر ہے اور اس طور پر کہ ابھی عراق سے نکل آنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے، یہ جو عراق میں اور جہاں تہاں دہشت گردی سر اٹھائے ہوئے ہے اور ہماری مہم کا اصل ہد ف وہی ہے، اس کے تو سرچشموں تک ہمیں پہنچنا اور تباہ کرنا ہے۔ اور ان سرچشموں میں سے ایک ہیں پاکستان کے مدرسے۔ لیجیے، تقریر کا یہ متعلقہ حصہ یہاں پڑھ لیجیے:

There are two views of what is happening in the world today. One view is that what is happening is not qualitatively different from the terrorism we have always lived with ..... We try not to provoke them and hope in time they will wither. 
The other view is that this is a wholly new phenomenon. Worldwide terrorism is based on a perversion of the true, peaceful and honourable faith of Islam; that its roots are in the madrassas of Pakistan, the extreme form of Wahabi doctrine of Saudi Arabia, in the former training camps of al-Qaedah in Afghanistan. If you take this view, the only path to take is to confront the terrorism, remove its roots and branches and at all costs stop its acquiring the weapons to kill on a massive scale. (The Times, 30 Sep 2004)
’’آج جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے، اس کے بارے میں دو نقطہ نظر ہیں۔ ایک یہ کہ یہ دہشت گردی کوئی نئی نرالی چیز نہیں۔ یہ ہوتی ہی آئی ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ ان لوگوں کو چھیڑا جائے۔ یہ خود ہی ختم ہو جائیں گے۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ ایک بالکل نرالا ظہور ہے۔ یہ عالمگیر نوعیت کی دہشت گردی ایک سچے، پر امن اور معزز دین، اسلام کی تحریف پر مبنی ہے اور اس کی جڑیں ہیں پاکستان کے مدرسوں میں، سعودی وہابیت کی انتہا پسندانہ شکل میں اور القاعدہ کے سابق افغانی ٹریننگ کیمپوں میں۔ اس نقطہ نظر کو قبول کیا جاتا ہے تو پھر واحد راہ عمل یہ ہے کہ اس دہشت گردی سے ٹکرایا جائے، اس کی جڑوں اور شاخوں سب کا صفایا کیا جائے اور کسی بھی قیمت پر یہ نوبت نہ آنے دی جائے کہ اس کے ہاتھ میں وسیع پیمانہ پر مار دھاڑ کے ہتھیار آ جائیں۔‘‘

کیا اس اقتباس کو پڑھ کر بھی کوئی شبہ رہنا چاہیے کہ یہ جو ہمارے مدارس کے لیے مغرب کی چھاتیوں میں ایک دم سے ’’دودھ اتر آیا‘‘ ہے، اس کا اصل مقصد کیا ہے؟ بش اور بلیر جو اس مہم کے پیشوا ہیں، ان میں سے بلیر صاف بتا رہے ہیں کہ وہ مدرسوں کی موجودہ تعلیم کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اس کو انھیں، بزعم خود اسی طرح جڑ سے اکھاڑ دینا ہے جس طرح افغانستان سے القاعدہ کے ٹریننگ کیمپ صاف کر کے ’’سابق‘‘ بنا دیے گئے۔

ہمیں تو یہی سمجھنا مشکل ہو رہا تھا کہ جنرل پرویز صاحب نے حکومت سنبھالنے کے بعد سے جو مدارس کی ’’اصلاح‘‘ کا علم اٹھایا تو ہمارے اہل مدارس اپنے رویہ سے یہ ظاہر کرنے کے باوجود کہ وہ اس سے خطرہ محسوس کرتے ہیں، جنرل صاحب سے کبھی یہ کیوں نہ پوچھ سکے کہ دستور پاکستان کی کون سی شق حکومت کو مجاز بناتی ہے کہ ان آزاد دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں کچھ اپنی منشا داخل کریں؟ ہم نے اس خیال کے ماتحت دستور پاکستان کی ورق گردانی بھی کی، ہمیں تو کوئی ایسی شق دکھائی نہ دی۔ یہاں کے نصاب تعلیم میں کوئی چیز ایسی داخل ہو جو دستور کی رو سے ناروا ہو تو حکومت اس کو بے شک کہے کہ اصلاح کی جائے۔ مگر اس کے ماسوا تو صرف ایک عام شہری والے حق سے بس رائے زنی جائز ہو سکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ لیکن اب اس پر مزید جو یہ مغربی سفارت کاروں کے ساتھ معاملہ دیکھنے میں آ رہا ہے، وہ تو یہ تاثر دیتا ہے کہ دل شاید ’’ناتواں‘‘ تھا جو مقابلہ میں دم توڑ گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اندیشہ گزر رہا تھا کہ اس میں کہیں دخل القاعدہ کی طرف منسوب ابو مصعب زرقاوی جیسے جیالوں کا طرز عمل نہ ہو جس کے حوالہ سے اسلام اور اسلامی تعلیمات کے اداروں کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ کہیں اس پراپیگنڈے کے دباؤ میں تو یہ دینی قیادت نہیں آ گئی؟ خاص کر ایسے حالات میں کہ اندر خود اپنی حکومت بھی وہی ایجنڈا لیے ہوئے چل رہی ہے، لیکن ابو مصعب زرقاوی جیسے لوگ تو تمام تر جناب بش اور بلیر کی اس سفاکی کا رد عمل ہیں جس کی گواہ افغانستان اور عراق کی سرزمین ہے اور جس پر خود امریکہ اور برطانیہ کے لاکھوں لوگ اپنے صدر اور وزیر اعظم کو لعنت کناں اور شرمسار ہیں۔ امریکی صدر بش اپنی عالمی سطح کی ذمہ دارانہ حیثیت کے باوجود اگر دو تین ہزار امریکنوں کی موت پر اس قدر آپے سے باہر ہو سکتے ہیں کہ مفلوک الحال افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر بھی تسکین نہ پائیں تو عراق پر توڑی گئی ایسی قیامت سے جس کے لیے بہانہ بھی بغیر جعل سازی کے میسر نہ تھا، زرقاوی جیسے نوجوانوں کا عربوں میں نکل آنا اسے کیوں کر بجز رد عمل ماننے کے ہم سے کوئی تیار ہو سکتا ہے؟ مگر افسوس کہ ایک خبر ہمارے اندیشہ کو عین واقعہ اور حقیقت بتانے والی سامنے آ کر رہی ہے اور مسٹر بش اور بلیر کی اپنے ایک انتہائی شرمناک موقف پر ڈھٹائی کے ہم معنی مضبوطی کے مقابلہ میں اپنوں کی لچک کا منظر دیکھ کر علامہ اقبال کا یہ نوحہ یاد آگیا ہے:

دیکھ مسجد میں شکست رشتہءِ تسبیح شیخ
بتکدہ میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ

یہ خبر اسلام آباد میں ۱۶ ستمبر کو منعقدہ ’’پہلی بین المذاہب کانفرنس‘‘ کے حوالہ سے ہے جو ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ (پاکستان) شمارہ اکتوبر ۲۰۰۴ء میں تفصیل سے نقل ہوئی ہے۔ اس کانفرنس کے داعی وفاق المدارس کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد حنیف جالندھری تھے۔ مولانا کے استقبالیہ خطبہ کا جو اقتباس خبرمیں دیا گیا ہے، اس کے یہ دو تین جملے ہمارے موضوع گفتگو سے تعلق رکھتے ہیں:

’’انھوں نے مدارس کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے افراد معاشرہ کی اصلاح کا اہم ذریعہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دین ومذہب کا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں اور ہم سب مل کر دہشت گردی کے خلاف کام کریں گے۔‘‘

عام حالات میں ان جملوں کا ہر لفظ مکمل تائید کا مستحق ہے، مگر اس وقت امریکہ اور برطانیہ (یعنی بش اور بلیر) نے دہشت گردی کی اصطلاح کو مبہم رکھ کر اور باوجود دنیا کے اصرار کے اس کے مفہوم کا تعین یو این او میں بھی نہ ہونے دے کر، جو ستم اس اصطلاح کی آڑ میں اپنی سامراجیت کا مقابلہ کرنے والوں پر ہر طرف سے توڑ رکھا ہے، اس کے بعد اس مبہم ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف مزاحمت کا عہد کرنے کے لیے (خاکم بدہن) امریکہ اور برطانیہ کی پراپیگنڈا طاقت کے آگے سپر ڈال دینے کے سوا دوسری تعبیر سمجھ میں نہیں آتی۔

اس گفتگو میں روئے سخن اگرچہ خاص پاکستان کی طرف ہو گیا ہے جس کی وجہ مخفی نہ ہونی چاہیے، مگر پڑوسی ہندوستان کے اہل مدارس کے بارے میں بھی جو کچھ اسی طرح کی خبریں آنے لگی ہیں تو جو پاکستان والوں پر صادق آئے گا، وہ بعینہ ان پر بھی۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ ہمارے مدارس کے نصاب تعلیم میں تبدیلیوں کا جو سوال اٹھا ہے، یہ لکھنے والا اصولاً اس کی تائید میں ہے۔ خود اس نے مدرسہ میں پڑھا اور احسان مند ہے، مگر روز بروز شدت سے محسوس کرتا ہے کہ اس نے جو وہاں پڑھا، زمانہ کی دینی ضرورت کے لحاظ سے وہ کم تھا۔ مگر یہ تبدیلی اسلام کو مغربی تصور کے مطابق ’’ماڈرن‘‘ بنانے کے نقطہ نظر سے آئے، اس سے اللہ کی پناہ!

حالات و مشاہدات

(نومبر ۲۰۰۴ء)

تلاش

Flag Counter