دینی مدارس میں عربی زبان کی تعلیم کا منہج

مولانا محمد بشیر سیالکوٹی

(۵ دسمبر ۲۰۰۳ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اساتذہ کے دو روزہ مشاورتی اجتماع کی چوتھی نشست سے خطاب۔)


نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ اما بعد

معزز حاضرین! 

مجھ سے قبل میرے بزرگ دوست مولانا زاہد الراشدی ہمارے فکری اور مسلکی رویوں کے حوالے سے نہایت اہم گفتگو فرما رہے تھے۔ مولانا کی گفتگو مجھے بھی جرات سخن عطا کرتی ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی گفتگو میں بعض باتیں ایسی فرمائی ہیں جو عام طور پر لوگ نہیں کہتے۔ 

۱۹۶۵ء میں، میں کراچی میں حاضر ہوا تو حضرت مولانا یوسف بنوری صاحبؒ کے ہاں ٹھہرا۔ ہفتہ عشرہ مولانا مفتی محمد شفیعؒ کے ہاں بھی گزارا۔ مفتی صاحبؒ نے اپنی وہ معروف تقریر جو اب ’’وحدت امت‘‘ کے نام سے چھپی ہوئی ہے، ہمارے ہی ادارے ’’جامعہ تعلیمات اسلامیہ‘‘ میں فرمائی تھی۔ مولانا عبد الرحیم اشرفؒ اس کے سرپرست تھے اور میں اس ادارے کا ناظم تھا۔ اس تقریر میں انہوں نے مولانا انور شاہ کشمیریؒ کا یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک دن بڑے غمگین بیٹھے تھے۔ ہم نے پوچھا کہ حضرت کیا بات ہے؟ تو فرمایا کہ ہم نے ساری زندگی اس بات میں لگا دی کہ حنفی مسلک کی ترجیح اور فضیلت دوسرے مسالک کے مقابلے میں ثابت کر دیں، جبکہ ہماری اصل ذمہ داری تو اسلام کی اساسی تعلیمات کو پیش کرنا تھا۔

اس رویے کا ایک پہلو تو یہی ہے جس کی طرف شاہ صاحبؒ نے اشارہ فرمایا، یعنی مسلک کی تائیدواشاعت کو ہی زندگی کا مقصد بنا لینا، حالانکہ مسلک ایک بہت محدود دائرہ ہے اور اصل چیز دین کی خدمت ہے۔ اس مسئلے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے، اور وہ یہ کہ ہمارے ہاں مسلک زدگی کا مرض اس حد تک پایا جاتا ہے کہ ذہین اور باصلاحیت اہل قلم جو کچھ لکھتے ہیں، ان کی علمی کاوشوں کی قدروقیمت بھی مسلک کی بنیاد پر متعین کی جاتی ہے۔ ہمارے استاد محترم مولانا عبد الغفار حسن صاحب مدظلہ ایک نہایت فاضل علمی شخصیت ہیں اور مدینہ یونیورسٹی میں اٹھارہ سال تک علم الاسناد کے پروفیسر رہے ہیں۔ مسلکاً اہل حدیث ہیں لیکن مخصوص مسلکی مزاج نہ رکھنے کی وجہ سے ان کے اہل حدیث ہونے پر خود اہل حدیث حضرات میں کئی لطیفے بنے ہوئے ہیں۔ میں خود اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہوں، لیکن اس طرح کہ اس حوالے سے اپنا تعارف پسند نہیں کرتا، ہاں اگر کوئی مجھے اہل حدیث کہے تو اس سے براء ت بھی نہیں کرتا۔ لیکن اہل حدیث میں پانچ چھ گروہ ہیں اور عربی زبان کے حوالے سے میری جو ٹوٹی پھوٹی خدمات ہیں، ان سے عمومی استفادہ میں بھی یہی چیز حائل ہے کہ میں کس حلقے کے زیادہ قریب ہوں اور کس سے دور۔ 

مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کا شکوہ بھی سناتا جاؤں۔ وہ فرماتے تھے کہ میں دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کا رکن ہوں لیکن میری کتابوں کی پذیرائی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پہلے ہوئی ہے اور ان درویشوں کے ہاں بعد میں۔ ان کی زندگی میں تو برصغیر کے مدارس میں بہت ہی کم ہوئی۔ یہ مرض ہمارے اس خطے میں، واقعہ یہ ہے کہ بہت زیادہ ہے۔ 

خیر یہ تو میرے کچھ جذبات تھے جن کا مولانا راشدی کی گفتگو کے حوالے سے اظہار ہو گیا۔ جہاں تک میرے موضوع کا تعلق ہے تو عربی زبان کے ایک خادم اور اس کی تعلیم وتدریس سے متعلق ہونے کے ناتے سے میں اپنی زندگی کے بعض تجربات سے آپ حضرات کو آگاہ کرنا چاہوں گا۔ 

میرے خاندان میں کوئی پرائمری پاس نہیں تھا۔ گاؤں میں پہلا سکول بنا تھا۔ جب سکھ وہاں سے گئے تو میری عمر گیارہ سال تھی۔ والد صاحب کبھی پرائمری کرنے کے لیے سکول میں داخل ہونے کو کہتے تھے، اور کبھی کہتے تھے کہ پرائمری کی کیا ضرورت ہے، تم زراعت کیا کرو۔ میں جب پہلی جماعت میں تھا توہمارے گاؤں میں ایک موحد عالم آئے۔ وہ شروع شروع میں چھوٹی موٹی بدعات کر لیا کرتے تھے تاکہ لوگ انہیں وہابی نہ سمجھیں، مثلاً ختم پڑھ لیتے تھے، لیکن ہمارے دل میں یہ بات انہوں نے ڈال دی کہ یہ شرک ہے۔ انہوں نے مجھے تین سال میں گلستان، بوستان اور پندنامہ وغیرہ کتابیں پڑھا دیں۔ بس یہ ایک تعلیمی پس منظر ذہن میں آتا ہے، ورنہ مجھ سے پہلے میرے خاندان میں کوئی شخص پڑھا لکھا نہیں تھا۔

اس کے بعد آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے جب مجھے دینی مدارس میں پڑھنے کا موقع ملا تو صورت حال یہ تھی کہ مجھے پڑھانے والے اساتذہ پٹھان تھے، میں خود پنجابی تھا، کتاب فارسی میں تھی اور جس زبان کو سیکھنا مقصود تھا، وہ عربی تھی۔ اس صورت حال میں غالباً آج بھی کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ میں نے دو سال اس نظام میں پڑھا اور میرا شمار انعام پانے والے طلبہ میں ہوتا تھا۔ میں نے ’زرادی‘ وغیرہ کتابیں پڑھ لی تھیں اور صرف ونحو کے قواعد اچھی طرح سے رٹے ہوئے تھے۔ 

یہ غالباً ۵۷ء یا ۵۸ء کی بات ہے کہ کتابوں کے ایک تاجر نے بیروت سے تفسیر ابن کثیر وغیرہ کچھ عربی کی کتابیں منگوائیں جن کی پیکنگ کے لیے عربی کے پرانے اخبارات استعمال کیے گئے تھے۔ آپ یقین جانیے، ان اخبارات کو دیکھ کر مجھے پہلی مرتبہ یہ معلوم ہوا کہ یہ جس زبان کی گردانیں ہم یاد کرتے اور جس کے قواعد کو ہم رٹا لگاتے ہیں، یہ دنیا کے کسی علاقے میں لکھی پڑھی بھی جاتی ہے اور اس میں اخبارات بھی شائع ہوتے ہیں۔ یعنی بات ’ضرب زید عمرا‘ سے آگے بھی ہے۔ 

اسی طالب علمی کے دور میں جب میں ’ابواب الصرف‘ پڑھتا تھا تو مجھے یاد ہے کہ ایک دن استاد نے لم یضرب کے صیغے پر ہلکی سی چھڑی مار دی۔ یہ پہلی اور آخری چھڑی تھی، لیکن میں نے اس وقت یہ سوچا کہ بڑا ہو کر اس کتاب کا کچھ نہ کچھ علاج ضرور کروں گا۔ اب اتنے عرصے کے بعد جب میں ’ابواب الصرف‘ کو بطرز جدید مرتب کر رہا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اس وقت کی سوچی ہوئی بات کیسے حقیقت کا روپ دھار رہی ہے۔ 

عربی نصاب اور طرز تدریس کی اصلاح کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے بہت پہلے جو ابتدائی خیال ذہن میں ڈالا تھا، وہ بعد میں انگریزی زبان کی تعلیم حاصل کرنے سے اور پختہ ہوا کہ اس پہلو میں عربی مدارس کی مدد کرنی ہے، کیونکہ عربی زبان دنیا کی دوسری زبانوں کی طرح محض ایک زبان نہیں ہے۔ یہ ہمارے دین کا حصہ ہے۔

اس کے بعد مجھے عرب ممالک میں رہنے اور کام کرنے اور حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مولانا ابو الحسن علی ندویؒ اور دوسرے عالمی سطح کے اہل علم اور مفکرین سے ملنے کا موقع ملا۔ مولانا ندویؒ فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان میں ایک سپاہی تو ایسا ہونا چاہیے جو قرآن کی زبان کو صحیح انداز میں پیش کرنے کے لیے کام کرے۔ اس عرصے میں، میں مختلف نوکریاں بھی کرتا رہا۔ وزارت خارجہ میں کام کا موقع ملا، اقوام متحدہ سے بھی آفر ہوئی۔ اور میں کئی دفعہ بزنس اور نوکریوں کو چھوڑ کر واپس آیا کہ مجھے یہ کام کرنا ہے۔ میں اس لیے نہیں پیدا ہوا کہ کوئی کوٹھی بنا کر مرجاؤں۔ 

مجھے عربوں میں سرکاری سطح پر کام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے حکومت پاکستان بلکہ مملکت پاکستان کے بے شمار خسارے خود ٹیبل پر بیٹھ کر دیکھے ہیں جو عربی زبان نہ جاننے کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ بیس کے قریب عرب ملک ہیں جن کے ساتھ ہمیں سرکاری سطح پر ڈیلنگ کرنی ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض نہایت خفیہ تجارتی اور سیاسی ڈیلنگز بھی ہوتی ہیں، لیکن ہمارے ملک میں وزارت خارجہ کی سطح پر صرف ایک مترجم ہوتا ہے جو بوقت ضرورت صدر ہاؤس اور وزیر اعظم ہاؤس میں بھی خدمات انجام دیتا ہے۔

میں ایک واقعہ آپ کو سنانا چاہوں گا جس کا میں عینی شاہد ہوں۔ ۱۹۷۹ء میں بیت اللہ پر جب کچھ جذباتی نوجوانوں نے قبضہ کیا تو میری ڈیوٹی اس وقت پاکستانی وزارت خارجہ میں تھی۔ اتفاق سے اس واقعہ کی اطلاع جب دفتر میں موصول ہوئی تو میں میز پر موجود نہیں تھا۔ میرے ایک ساتھی مترجم نے، جو علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے، اس کی فوری رپورٹ تیار کر کے حکومت پاکستان کو بھجوا دی، لیکن عربی سے مناسب واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے ایک ایسی بھیانک غلطی ان سے سرزد ہوئی کہ اس کا بہت بھاری نقصان حکومت پاکستان کو اٹھانا پڑا۔ ہوا یوں کہ سعودی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ عربی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’بعض الخارجین علی النظام‘  یعنی حکومت کے کچھ باغیوں نے بیت اللہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ عربی زبان میں خرج کے ساتھ جب علیٰ کا صلہ آئے تو اس کا مطلب بغاوت کرنا ہوتا ہے، لیکن میرے ساتھی مترجم اس سے واقف نہیں تھے، چنانچہ انہوں نے ترجمہ یوں کر دیا کہ Some non-Muslims have captured the Kaba.، یعنی کچھ غیر مسلموں نے بیت اللہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ میں جب اگلے دن دفتر میں گیا اور رپورٹ کی کاپی دیکھی تو میں نے سر پکڑ لیا اور اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ آپ نے کیا کر دیا؟ کم از کم ترجمہ چیک تو کرا لیتے۔ میں نے کہا کہ فوراً پاکستان کا ریڈیو آن کرو۔ سعودیہ کے وقت کے مطابق آٹھ بجے جبکہ پاکستان کے وقت کے مطابق دس بجے کی خبریں نشر ہو رہی تھیں اور ان میں بتایا جا رہا تھا کہ یہاں علماے کرام امریکی سفارت خانے کو جلا چکے ہیں۔ ظاہر ہے، اگر یہ خبر نشر ہوگی کہ کعبہ پر کافروں نے قبضہ کر لیا ہے تو رد عمل یہی ہوگا۔ بعد میں حکومت پاکستان کو کروڑوں روپے خرچ کر کے ایمبیسی کی مرمت کرانا پڑی کیونکہ بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق ہماری حکومت اس کی حفاظت کی ذمہ دار تھی۔ 

اب میں مختصراً یہ بات واضح کرنے کی کوشش کروں گا کہ عربی زبان کی تدریس کے حوالے سے دینی مدارس میں مروج طریقے میں کیا نقص پایا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اس طریقے کی بنیادی خامیاں دو ہیں:

ایک، زبان کے عملی استعمال کے بغیر صرف ونحو کے قواعد رٹانا۔

اور دوسرا، لسانی مسائل کی تعلیم میں مناسب ترتیب اور تقسیم کا فقدان۔

حقیقت یہ ہے کہ عربی کی تعلیم کے لیے ’ابواب الصرف‘ کی طرز پر گردانوں کارٹانا عربی مدارس اور دینی علوم کے لیے بدنامی کا باعث ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ گردانیں نہیں ہونی چاہییں، لیکن جس طرح سے صرف کا یہ پیچیدہ فن زبان کے عملی استعمال کے بغیر پڑھایا جاتا ہے، وہ ایک نقصان دہ بات ہے۔ دنیا کے عجائبات میں اگر اس کا شمار کریں تو غلط نہیں ہوگا۔ آپ اندازہ کیجیے کہ مثلاً ’ارشاد الصرف‘ یا ’ابواب الصرف‘ وغیرہ پڑھنے والا طالب علم تقریباً ۵۳ ہزار الفاظ پڑھتا اور یاد کرتا ہے، اور صرفی قواعد کا اتنا ماہر ہوتا ہے کہ آپ اسے پنجابی کا کوئی لفظ دیں تو وہ عربی کی طرز پر اس کی گردان بنا دے گا۔ میں خود اس طریقے سے گزرا ہوں۔ اور یہ جو مدارس میں جملہ مشہور ہے کہ ’’دعا یدعو پڑھدے نٹھے تے ہل ویندے ڈٹھے‘‘ تو حقیقت یہ ہے کہ ہم خود انہیں بھگاتے ہیں۔ 

اس ضمن میں دوسری بات یہ ہے کہ صرف ونحو بلکہ تمام علوم میں مناسب ترتیب اور ان کے مواد میں تقدیم وتاخیر ہونی چاہیے۔ موجودہ نصاب میں، مثال کے طور پر، نحو کی سب سے پہلی کتاب ’علم النحو‘ میں وہ بیشتر مسائل اور مثالیں جو طالب عالم اگلے مرحلے کی کتابوں ’ہدایۃ النحو‘ اور ’شرح جامی‘ وغیرہ میں پڑھتا ہے، درج کر دی گئی ہیں۔ مثلاً جملہ انشائیہ کی ساری قسمیں اسی سطح پر طالب علم کے سامنے رکھ دی گئی ہیں، جبکہ سردست صرف جملہ انشائیہ اور جملہ خبریہ کا فرق سمجھا دینا کافی ہے۔ اسی طرح مستثنیٰ منہ کی مختلف اقسام، جن میں سے بعض کافی پیچیدہ ہیں،ایک مبتدی طالب علم کو ان میں الجھانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ اسی طرح باقی مباحث میں بھی موٹی موٹی اور بنیادی چیزیں سکھانے کی ضرورت ہے، باقی تفصیلات اگلے درجات پر چھوڑ دی جائیں۔ ہمارے ہاں ’شرح ماءۃ عامل‘ کو جس طرح سے پڑھایا جاتا ہے، وہ معلوم ہی ہے۔ 

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایک واقعہ ہوا کہ مصر سے نحو کے ایک بلند پایہ استاد تشریف لائے اور انہوں نے اس موضوع پر پاکستانی طلبہ کو ایک لیکچر دیا۔ اس میں انہوں نے کہا کہ عبد القاہر جرجانی نے فلسفہ نحو پر ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام ’العوامل الماءۃ‘ ہے، اس پر بھی نظر ڈالنی چاہیے۔ حاضرین نے انہیں بتایا کہ یہ کتاب تو یہاں بلکہ ترکی سے انڈونیشیا تک ہر جگہ داخل نصاب ہے اور عربی کے ابتدائی طلبہ کو پڑھائی جاتی ہے۔ وہ حیران رہ گئے اور کہنے لگے کہ یہ رسالہ تو فلسفہ نحو میں لکھا گیا ہے نہ کہ نحو میں اور اس کا مطالعہ ایک منتہی کو کرنا چاہیے نہ کہ ایک مبتدی طالب علم کو۔

اگر آپ کسی بچے سے یہ کہیں کہ چونکہ تم نے ABC یاد کر لی ہے، اس لیے اب ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ کے قواعد بھی رٹ لو تو یہ کتنی غلط بات ہوگی۔ ان کا مرحلہ تو بہت بعد میں آئے گا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہم اپنے طلبہ کے ساتھ اس سے بھی زیادہ غیر معقول رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ایک طالب علم بیچارہ گاؤں کے ماحول سے اٹھ کر آتا ہے اور اس کو ’اسناد‘ کی نظری بحثوں سے واسطہ پڑ جاتا ہے کہ ایک ’مسند‘ ہوتا ہے اور ایک ’مسند الیہ‘، اسم ’مسند الیہ‘ بھی ہو سکتا ہے اور ’مسند‘ بھی، فعل صرف ’مسند‘ ہو سکتا ہے، ’مسند الیہ‘ نہیں ہو سکتا، جبکہ حرف نہ ’مسند‘ ہوتا ہے اور نہ ’مسند الیہ‘۔ اب واقعہ یہ ہے کہ ان نظری بحثوں اور تدقیقات کو سمجھنے کے لیے طالب علم کا ذہن اس مرحلے پر تیار نہیں ہوتا اور نتیجتاً وہ اس فن سے متوحش ہو جاتا ہے۔ 

یہ باتیں تو صرف ونحو کی تعلیم کے حوالے سے تھیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ عربی کی ’لغت‘ بھی سکھائی جانی چاہیے، جوکہ مدارس میں نہیں پڑھائی جاتی۔ ہم ہر چیز عربی میں پڑھاتے ہیں لیکن عربی نہیں پڑھاتے۔ زبان کے استعمال میں بعض نازک چیزیں ایسی ہیں جن پر خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً مختلف افعال کے درست مصادر کا استعمال، مصادر کے بدلنے سے معانی کے بدلنے کا علم، فعل کے مفہوم میں صلات کے بدلنے سے پیدا ہونے والی تبدیلی، اور اس طرح کے بعض دوسرے امور۔ ان چیزوں کو توجہ سے سیکھے بغیر درست عربی نہ بولی جا سکتی ہے اور نہ لکھی، بلکہ ترجمہ بھی درست نہیں کیا جا سکتا۔ آرمی میں ایک خطیب صاحب نے تقریر کرتے ہوئے ’الشیطان یعدکم الفقر’ کا ترجمہ یہ کیا کہ ’’شیطان تم سے فقر کا وعدہ کرتا ہے‘‘۔ میں نے گزارش کی کہ یہاں یعد کا معنی وعدہ کرنا نہیں بلکہ ڈرانا ہے۔ اگر وعد کا مصدر وعد ہو تو معنی وعدہ کرنا ہوتا ہے، لیکن وعید ہو تو معنی ڈرانا اور دھمکانا ہوتا ہے۔ واللہ یعدکم مغفرۃ میں پہلا جبکہ الشیطان یعدکم الفقر میں دوسرا معنی مراد ہے۔ تو کہنے لگے کہ مدارس میں ہم نے یہ چیزیں نہیں سیکھیں۔ اسی طرح گزشتہ حاضری کے موقع پر میں نے یہاں تفنن کے لیے اساتذہ اور طلبہ سے بعض افعال کے مصادر پوچھے تو غلط جواب ملا۔ مثلاً فرح یفرح کا مصدر فرحا اور نظر ینظر کا نظرا بتایا گیا، حالانکہ صحیح مصادر فرحا اور نظرا ہیں۔ 

اگر کسی کو تجوید کی سات کتابیں ازبر ہوں تو آپ اسے قاری نہیں مانتے، بلکہ قاریوں کا محض نقاد مانتے ہیں جو خود تو ایک سورت بھی تجوید کے قواعد کے مطابق نہ پڑھ سکے لیکن نکتہ چینی ہر قاری پر کر سکے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ عربی مدارس کے لوگوں کو صرف ونحو آتی ہے، یہ صحیح بات نہیں ہے۔ یہاں تو یہ ہو رہا ہے کہ سات آٹھ سال کے نصاب میں وہی باتیں بار بار طوطے کی طرح طلبہ کی رٹا دی جاتی ہیں اور وہ بھی بغیر استعمال کے، اور اسے آتا کچھ بھی نہیں۔ آپ کسی کو زبانی کتنا ہی لیکچر دے ڈالیں کہ ڈرائیونگ کرتے وقت گاڑی کو یوں سنبھالنا ہے، بریک یوں لگانی ہے وغیرہ، لیکن جب تک آپ اس کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھائیں گے نہیں، اسے ڈرائیونگ نہیں آئے گی۔ تمام ٹیکنیکل فنون کا یہی معاملہ ہے کہ انہیں عملی طور پر سکھانا پڑتا ہے۔ زبان بھی ایک عملی، اور استعمال کی چیز ہے۔ اس کی تعلیم میں بھی اس اصول کی پابندی کی جانی چاہیے۔ صرف ونحو کا مقصد تو آپ یہ بتاتے ہیں کہ ’صیانۃ الذہن عن الخطا اللفظی‘ یعنی لکھنے اور بولنے میں خطا سے بچ جانا، لیکن جب لکھنا بولنا ہی نہیں تو غلطی کہاں سے ہوگی؟

اس طریقے کے دفاع میں عام طور پر کئی باتیں کہی جاتی ہیں۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ یہ اکابر نے بنایا ہے اور اسی کے مطابق تعلیم پا کر بڑے بڑے اہل علم تیار ہوئے ہیں۔ ہمیں اکابر کا پورا احترام ملحوظ ہے لیکن بات یہ ہے کہ ہمارے حالات اور ضروریات کے لحاظ سے اگر کہیں ترمیم اور تبدیلی کی ضرورت ہے تو اس سے گریز نہیں کیا جا سکتا۔ 

کچھ کہتے ہیں کہ آپ کو صرف عربی زبان کی فکر ہے، آپ اسی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ میں عرض کرتا ہوں کہ آپ کا ستر فی صد نصاب عربی میں ہے، تو عربی کی استعداد سے کیسے صرف نظر کیا جا سکتا ہے؟ کچھ کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد عربی بطور زبان سکھانا نہیں بلکہ علوم شرعیہ اور مسائل کی تعلیم دینا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایک غلط طرز فکر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بسا اوقات علما ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ عربی کی تعلیم کے مخالف ہوں۔ ہمارے اختیار کردہ طریقے سے جو قباحتیں سامنے آ رہی ہیں، میں ان میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا۔

ایک تو یہ کتنی عجیب بات ہے کہ دینی مدارس کے اہل علم صحیح عربی میں چند جملے بھی لکھ اور بول نہ سکیں۔ اس سے زبان بدنام ہوتی ہے۔ جب سالہا سال تک اعلیٰ عربی نصاب پڑھانے والا شیخ الحدیث عربی میں گفتگو نہ کر سکتا ہو تو ایک عام ڈاکٹر اور پروفیسر تو لازماً متوحش ہوگا کہ یہ تو ایسی مشکل زبان ہے کہ بڑے بڑے علما کو بھی زندگی بھر پڑھنے پڑھانے کے باوجود بولنی نہیں آتی۔ واقعہ یہ ہے کہ لوگ یہی سمجھتے ہیں۔ میں نے اس بات کا بڑا وسیع تجربہ کیا ہے کہ ہمارا طریقہ عربی کی بدنامی اور بالواسطہ انگریزی کے غیر ضروری تسلط اور فروغ کا سبب بن رہا ہے۔ 

آپ کے شہر گوجرانوالہ میں ہم نے چند ماہ قبل طالبات اور معلمات کے لیے عربی ریفریشر کورس کا اہتمام کیا۔ ایک ایم اے پاس معلمہ نے کہا کہ پہلی مرتبہ سنا ہے کہ عربی میں بھی ریفریشر کورس ہوتے ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ عربی ایک مردہ زبان ہے، ہمارے دین کی مقدس زبان ہے، کہیں لکھی بولی نہیں جاتی، تو اس میں ریفریشر کورس کرانے کا کیا مطلب، کیونکہ ریفریشر کورس تو نئی جان ڈالنے یا تازگی پیدا کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ تصور ہمارے صرف ونحو کے طریقے سے عربی پڑھانے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ عام طلبہ تو کیا، خود دینی مدارس کے اساتذہ بھی اسی تصور میں مبتلا ہیں۔ میرے پاس علما عربی میں خط لکھوانے کے لیے آتے ہیں، یا کہیں عربی میں تقریر کرنی ہو تو مجھ سے کہا جاتا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ اپنے بڑے عالم سے کہا کہ مولانا، آپ شیخ الحدیث والتفسیر ہیں، آپس میں بیٹھے ہیں، بے تکلفی سے بتائیے کہ آپ عربی کو مشکل سمجھتے ہیں یا آسان؟ کہنے لگے، خدا کی قسم مشکل ہے۔ ساری عمر پڑھی پڑھائی ہے لیکن عربوں کے پاس جاتا ہوں تو بول نہیں سکتا۔ میں نے ان سے کہا، خدا کی قسم یہ بالکل مشکل نہیں ہے۔ آپ کو مشکل اس لیے لگتی ہے کہ آپ دوڑ تو پنڈی کی طرف رہے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ لاہور نہیں آ رہا۔ اس طرح اگر آپ تیز دوڑیں گے تو لاہور قریب نہیں آئے گا بلکہ اور دور ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اردو دان لوگوں کے لیے انگریزی کی نسبت عربی سیکھنا زیادہ آسان ہے۔ دونوں زبانوں کے حروف تہجی اور ان کا تلفظ ایک جیسا ہے اور عربی زبان کے الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ ہم خود اپنی زبان میں روز مرہ استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح ہم انگریزی کی بہ نسبت عربی سے زیادہ مانوس ہیں۔

اسلامی تہذیب وتمدن کو مٹانے کے لیے جو بھی منصوبے استعماری طاقتوں نے تیار کیے، عربی زبان کو دبانے اور ختم کرنے کی کوششیں ان کا لازمی حصہ تھیں۔ وہ اسلام دشمنی کی بنا پر ایسا کرتے ہیں اور ہم وہی کام اپنی سادہ لوحی اور قدیم طرز تعلیم پر جمود کے ذریعے سے کر رہے ہیں۔ 

پھر آپ یہ دیکھیں کہ برصغیر کے علما کی تصنیفات کا ایک قیمتی ذخیرہ ہے جو اردو اور فارسی زبانوں میں ہے اور اس وجہ سے عالم عرب ان سے استفادہ کرنے سے محروم ہے۔ مثال کے طور پر شاہ ولی اللہؒ کی کتاب ازالۃ الخفاء، جس کے بارے میں نواب صدیق حسن خانؒ نے لکھا ہے کہ لم یولف مثلہ قبلہ ولا بعدہ، لیکن عرب لوگ اس سے واقف نہیں۔ ہم کچھ دوست فیصل آباد میں مولانا اسحاق چیمہ صاحب کے گھر بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے تو میں نے عرض کیا کہ مولانا، ہماری جان تو فاتحہ خلف الامام کی بحث سے نہیں چھوٹتی، جبکہ اس کے علاوہ بھی کئی کام ہیں۔ مثال کے طور پر ازالۃ الخفاء کو عالمی سطح پر علمی حلقوں کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ وہیں اس کتاب کی تعریب کی ابتدائی تحریک ہوئی۔ میں نے مولانا ارشاد الحق اثری صاحب سے گزارش کی کہ وہ اس کی تخریج کر دیں اور خود میں نے اس کی تعریب کرنا شروع کر دی۔ ایک بڑے حصے کا عربی ترجمہ میں نے خود کیا ہے اور باقی ماندہ ایک عرب مترجم سے کروا رہا ہوں۔ یہ کام دو تہائی کے قریب مکمل ہو گیا ہے۔ اگر مولانا یوسف بنوریؒ حیات ہوتے تو ان سے گزارش کرتا کہ اس کا مقدمہ تحریر فرمائیں، لیکن یہ بھی مجھے خود ہی لکھنا پڑا اور اب وہ ’’الشاہ ولی اللہ، حیاتہ ودعوتہ‘‘ کے نام سے الگ کتاب کی صورت میں بیروت سے چھپ گیا ہے۔ اسی طرح شرعی عدالت نے قادیانی مسئلے پر جو فیصلہ کیا تھا، اس کا بھی میں نے عربی اور اردو دونوں زبانوں میں ترجمہ کیا۔ تو اس نوعیت کے علمی کاموں کا ایک بڑا ذخیرہ ہے جو فصیح عربی میں ترجمہ کی صلاحیت رکھنے والے مستعد اور قابل نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ کا منتظر ہے۔ 

مسئلے کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ علما یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ حکومت ان کے سپرد کر دی جائے اور وہ اس کے معاملات کو چلانے کے اہل ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت سے عملی میدانوں میں کام کرنے کے لیے علما کی مناسب تیاری نہیں ہے جس کی وجہ سے سیکولر ذہن کے لوگوں کو ان میدانوں میں آگے بڑھنے اور سیکولر نظریات اور اقدار کو فروغ دینے کے مواقع ملتے ہیں۔ اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (NUML) میں سیکولر مزاج کے حامل عربی کے ماہرین تیار کیے جا رہے ہیں۔ وہ لوگ مدارس پر پھبتیاں کستے ہیں کہ ان لوگوں کو عربی نہیں آتی۔ وہاں مخلوط تعلیم کا ماحول ہے اور آزاد ماحول میں تربیت پانے والے فوجی افسران اس کے نگران ہیں۔ اگر کوئی دینی مزاج رکھنے والا استاذ اس کے خلاف کوئی بات کرتا ہے تو کرنل صاحب ڈانٹ پلا دیتے ہیں۔ گویا عربی زبان کے میدان میں خدمات انجام دینے کے لیے بھی ماہرین سیکولر بنیادوں پر تیار ہو رہے ہیں، اور یہ اس لیے کہ مذہبی طبقات کے نوجوان اس کام کے لیے آگے نہیں بڑھے۔

میں اپنی ان گزارشات کا حاصل چند نکات کی صورت میں پیش کرنا چاہوں گا:

۱۔ آپ عربی زبان کو سہل اور دلچسپ بنا کر پیش کریں، اس کے مشکل ہونے کے تاثر کو ختم کریں اور صرف ونحو کے قواعد سے بقدر ضرورت مدد لیتے ہوئے اصل توجہ زبان کے عملی استعمال پر مرکوز کریں۔ اس ضمن میں اب کافی ذخیرہ سامنے آ چکا ہے، آپ اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ عرب دنیا میں رائج کتابوں میں سے ایک کتاب التحفۃ السنیۃ فی شرح الآجرومیۃ ہے، جو میں نے اہل حدیث مدارس میں لگوائی تھی اور آپ کو بھی مشورہ دیتا ہوں کہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ کہتے ہیں کہ مصر میں یہ کتاب ہر بچے کو ازبر ہوتی ہے۔ اصل ’’رسالہ آجرومیہ‘‘ مراکش کے علاقے آجروم کے رہنے والے کسی قدیم بزرگ کا ہے اور اس کی شرح محی الدین عبد الحمید نے لکھی ہے۔ یمنیوں نے اسے مزید اتنا آسان بنا دیا ہے کہ اسے ہمارے یہاں سکول کی پہلی جماعت میں پڑھایا جا سکتا ہے۔ 

۲۔ ابواب الصرف کے بارے میں میری اصل رائے تو یہ ہے کہ اس طریقے سے ’صرف‘ نہ پڑھائی جائے، لیکن مانے گا کون۔ اس لیے میں نے سوچا کہ اس میں استعمالات اور مشقوں کا اضافہ کر دیا جائے تاکہ کچھ تو صورت حال بہتر ہو سکے۔ مثلاً صرف کے بجائے، جو نسبتاً قلیل الاستعمال ہے، علم کی گردان پڑھائی جائے۔ اور خالی صیغے اور گردانیں رٹانے کے بجائے ان کے استعمال کے لیے جملے دیے جائیں۔ مثلاً من علمک القراء ۃ، من علمک الحدیث، ممن تعلمت الحدیث الشریف، تعلمت من فلان۔ اس طرح طالب علم گردان کے ساتھ ساتھ استعمال بھی سیکھ جائے گا۔ اسی کے ضمن میں آپ مدرسے کے ماحول سے متعلق کئی دوسرے جملوں کی مشق بھی کروا سکتے ہیں۔ مثلاً فی مدرستنا عشرۃ مدرسین۔ الشیخ محمود یعلمنا القران۔ والشیخ حامد یعلمنا الفقہ الاسلامی۔ من یعلمک اللغۃ العربیۃ؟ الاستاذ ابراہیم یعلمنا اللغۃ العربیۃ۔ وغیرہ

اسی طرح باقی کتابوں میں سے بھی کوئی کتاب عملی استعمال کے بغیر نہ پڑھائی جائے۔ فوری طور پر وہ کتابیں نصاب میں لگانی چاہییں جن میں قواعد کے استعمال کی مشقیں شامل کی گئی ہیں، کیونکہ مشق اور اجرا سے ہی قاعدہ صحیح طور پر سمجھ میں آتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ طلبہ کو ’قصص النبیین‘ پڑھائیں لیکن مشقوں کے ساتھ۔ اس کی ورک بک بھی ساتھ پڑھائیں۔ اس طریقے سے طالب علم جب پڑھے ہوئے ذخیرے کو استعمال کرے گا تو اسے سالہ شیئا اور سالہ عن شئ جیسے محاورات کا فرق عملی طور پر سمجھ میں آئے گا اور وہ غلطی نہیں کرے گا۔ اسلامی یونیورسٹی میں محاوروں کے غلط استعمال پر اکثر مذاق ہوتا رہتا ہے۔ طالب علم کہتا ہے، سالت من المدرس یا سالت من المدیر۔ حالانکہ صحیح محاورہ یا تو سالہ شیئا ہے (یعنی کسی سے کوئی چیز مانگنا) اور یا سالہ عن شئ (یعنی کسی چیز کے بارے میں پوچھنا)۔ سال کے ساتھ من صلے کے طور پر استعمال نہیں ہوتا۔ اسی طرح مثال کے طور پر ارحم علیٰ حالنا غلط ہے۔ صحیح محاورہ اللہم ارحمنا ہے۔ رحم کے ساتھ علیٰ استعمال نہیں ہوتا۔ ہر زبان میں صلات (Prepositions) کے صحیح استعمال پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ انگریزی میں مثلاً Look into کا مطلب اور ہوتا ہے اور Look at کا معنی اور۔ تو میں نے جب یہ چیزیں انگریزی سیکھتے ہوئے محسوس کیں تو مجھے احساس ہوا کہ عربی کی تعلیم میں بھی مدارس کی اس پہلو سے مدد کرنی چاہیے۔ چنانچہ میں نے اپنی تصنیفات میں روز مرہ محاورات میں غلطیوں کی اصلاح کے لیے قل / لاتقل کا ایک سلسلہ رکھا ہے، یعنی یوں کہیے اور یوں نہ کہیے۔ 

۳۔ دوران تعلیم میں درسی کتابوں کے وہ نسخے استعمال کریں جو کتابت وطباعت کے جدید معیار پر شائع کیے گئے ہیں۔ تعلیم کو دلچسپ اور پر کشش بنانے میں اس چیز کا بڑا دخل ہے۔ اس معاملے میں بھی دینی علوم کی مظلومیت کی ایک مثال دیکھیے۔ میں درس گاہ میں بیٹھا طالبات کو وفاق کے امتحان کے لیے ’شرح ماءۃ عامل‘ پڑھا رہا تھا تو اس میں مجھے ایک بحث تلاش کرنے میں کچھ وقت لگ گیا۔ میں نے سوچا کہ میں مصنف ہوتے ہوئے اتنی دقت محسوس کر رہا ہوں تو طلبہ کا کیا حال ہوگا۔ اس وقت ’شرح ماءۃ عامل‘ کا جو نسخہ بازار میں ملتا ہے، اس کی کتابت ۱۱۳ سال قبل کانپور میں ہوئی تھی اور آج بھی کراچی، ملتان اور لاہور کے تمام پبلشر اسی نسخے کا عکس چھاپتے ہیں۔ میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اس کتاب کو کمپیوٹر پر نئے سرے سے ٹائپ کرو اور اس کو نئی شکل دو۔ اس میں عوامل کو ایک چارٹ کی صورت میں واضح کرنے کے علاوہ، میں نے متن میں عوامل کو جلی کر دیا ہے اور کچھ اس کو سہل بنانے کی کوشش کی ہے، ورنہ اب تک اس کی جتنی شروح سامنے آئی ہیں، وہ اس کو منتہی درجے کی ایک مشکل کتاب بنا چکی ہیں۔

۴۔ آپ کو تربیت اساتذہ کا بھی انتظام کرنا چاہیے۔ جب تک آپ اساتذہ کی ٹریننگ کا بندوبست نہیں کرتے، اس وقت تک خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ تدریس زبان کی جدید تکنیک اور معاون ذرائع کے استعمال سے انہیں مناسب واقفیت ہونی چاہیے تاکہ وہ جدید مواد اور نصابی کتب کی بہتر طور پر تدریس کر سکیں۔ خود میں نے کتابیں لکھنے کے ساتھ ساتھ معلمین اور معلمات کی ٹیمیں بھی تیار کی ہیں۔ آپ کسی بھی شہر میں کہیں، ہم اپنے اساتذہ کی ٹیم بھیجنے کے لیے تیار ہیں جو عربی کے مدرسین کو پندرہ دن یا ایک ماہ کے دورانیے کے کورسز کروائیں گے۔ اس میں خود ان کو بھی عربی بولنے کی مشق کروائیں گے اور تدریس کے سلسلے میں ان کی پوری راہنمائی کریں گے۔ ابھی رمضان سے پہلے ہم نے دار العلوم تعلیم القرآن اور دوسرے اداروں کے تیس مدرسین کو تیس روزہ کورس مکمل کروایا ہے اور اس قسم کے مزید کورسز کے لیے درخواستیں مسلسل آ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ عام پڑھے لوگوں کے لیے ہم نے پچاس روزہ عربی کورس ترتیب دیا ہے جس میں وکلا، تاجر اور فوجی افسران وغیرہ عربی سیکھ رہے ہیں۔ 

۵۔ یہ تجاویز وفاق والوں کے سامنے بھی پیش کریں اور اگر وہ نہیں مانتے تو آپ خود مدارس میں اس طریقے پر کام کرنا شروع کر دیں۔ ہم نے وفاق المدارس السلفیہ کا چار سال کا نصاب تو الحمد للہ کوشش کر کے تبدیل کروا دیا ہے۔ اس کے صدر پروفیسر ساجد میر ہیں جو انگریزی کے پروفیسر ہیں اور ہمارے نقطہ نظر کو سمجھتے ہیں، اس لیے وہاں عربی کا نصاب ہم نے نیا نافذ کر دیا ہے۔ اسی طرح پنجاب یونیورسٹی نے حال ہی میں ایم اے عربی کے نصاب میں ہماری تیار کردہ چار کتابیں شامل کر لی ہیں، حالانکہ میں کبھی ان سے ملنے نہیں گیا۔ آپ بھی اس طریقے سے کام شروع کر دیں۔ جب اس کے فوائد سامنے آئیں گے، آپ کے طلبہ کی عربی کی استعداد اچھی ہو جائے گی اور وہ پرچے عربی میں حل کرنے کے قابل ہو جائیں گے تو کسی نہ کسی مرحلے پر وفاق والوں کو بھی تبدیلی کرنا پڑے گی۔ آپ اخلاص سے کام شروع کریں گے تو یقیناًاس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔ 

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(جنوری و فروری ۲۰۰۴ء)

تلاش

Flag Counter