دینی مدارس کا نظام تربیت ۔ چند اصلاح طلب پہلو

ڈاکٹر محمد امین

(۴ دسمبر ۲۰۰۳ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اساتذہ کے دو روزہ مشاورتی اجتماع کی دوسری نشست سے خطاب۔)


الحمد للہ وکفی والصلوۃ والسلام علی نبی الہدی۔ اما بعد۔ قال سبحانہ وتعالی فی کتابہ الکریم ’کما ارسلنا فیکم رسولا منکم یتلوا علیکم آیاتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتاب والحکمۃ‘۔ وقال النبی ﷺ ’ادبنی ربی فاحسن تادیبی‘

حاضرین کرام!

مجھے جب عمار ناصر صاحب نے بتایا کہ وہ دینی مدارس کے اساتذہ کی ایک مجلس مشاورت رکھنا چاہ رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ انہوں نے میرے لیے ’’تربیت طلبہ‘‘ کا موضوع تجویز کیا ہے، تو میں نے ان سے کہا کہ میرے ذہن میں تو کچھ اور باتیں تھیں جن کو اس موقع پر بیان کرنا میں زیادہ مناسب سمجھتا تھا، تاہم جب آپ نے ایک چیز طے کر لی ہے اور چھپا ہوا پروگرام بھی لوگوں کو بھجوا دیا ہے تو اب مجوزہ عنوان پر ہی اپنی معروضات پیش کروں گا۔

البتہ تمہیداً دو باتیں عرض کرنا ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ مجھ سے پہلے مولانا زاہد الراشدی صاحب نے دینی نظام تعلیم میں اصلاح کے حوالے سے کچھ باتیں کہی ہیں لیکن انہیں میرے مقابلے میں ایک advantage حاصل ہے، اور وہ یہ کہ چونکہ وہ دینی مدارس کے نظام سے براہ راست متعلق ہیں، اس لیے اگر وہ اس نظام میں اصلاح یا اس کے نہج میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو وہ کسی حد تک قابل قبول یا کم از کم قابل برداشت ہوتی ہے۔ میرا معاملہ یہ ہے کہ میں مدارس کا نہیں بلکہ کالج اور یونیورسٹی کا آدمی ہوں، اور دینی مدارس کے لوگ یہ تاثر لے سکتے ہیں کہ یہ کوئی باہر کا آدمی ہے جو ہم پر تنقید کر رہا ہے۔ میں اس تاثر کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں بھی عربی اور اسلامیات کا آدمی ہوں، ساری عمر یہی مضامین پڑھتے پڑھاتے گزری ہے، صرف میدان عمل اور پلیٹ فارم کے بدل جانے سے آدمی ’’باہر‘‘ کا آدمی نہیں بن جاتا۔ ہمارا موضوع ایک ہے، مقصد ایک ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ مدرسے میں پڑھاتے ہیں اور میں یونیورسٹی میں کام کرتا ہوں۔ چنانچہ میری گزارشات کو کسی باہر کے آدمی کی تنقید یا تنقیص نہ سمجھیے۔ میں بھی آپ ہی میں سے ہوں، آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ کا احترام کرتا ہوں اور آپ کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھتا ہوں اور اسی حوالے سے ان پر غوروفکر کرتا ہوں۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ دینی مدارس کے موجودہ نظام میں اصلاح کی بات کرنے والے دو گروہ ہیں۔ ایک تو بیرونی قوتیں اور ان کے مقامی ایجنٹ ہیں جو مدارس میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ اور دوسرے کچھ اندر کے لوگ بھی ہیں جو اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے کچھ تغیرات چاہتے ہیں۔ تو ان دونوں کی پوزیشن میں فرق کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ باہر کی قوتیں دینی مدارس کے نظام میں تبدیلی اپنے دین دشمن مقاصد کے تحت چاہتی ہیں، جبکہ ہم لوگ اگر تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو دینی مقاصد کی بہتری کے لیے کرتے ہیں۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب یا میں اگر موجودہ دینی نظام تعلیم سے کوئی اختلاف کرتے ہیں تو اس سے مقصود ہرگز اس کی تنقیص یا اسے نقصان پہنچانا نہیں ہوتا بلکہ پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ یہ کام پہلے سے بہتر اور عمدہ طریقے سے انجام پائے، اور دینی مدارس میں ایسے علما تیار ہوں جو معاشرے میں زیادہ موثر دینی کردار ادا کر سکیں۔ لہٰذا کھرے اور کھوٹے میں فرق ملحوظ رکھیے۔ یہاں تو اب یہ حالت ہے کہ 

ہر بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہل نظر گئی

تو یہ بات ذرا ذہن میں رکھیے کہ ہم لوگ مدارس کے خیر خواہ ہیں، تبدیلی کی کوئی بات کرتے ہیں تو پیش نظر مخلصانہ اصلاح ہوتی ہے۔ ہم وہ لوگ نہیں ہیں جو باہر سے بیٹھ کر توپ وتفنگ سے کام لے رہے ہوں تاکہ خدانخواستہ یہ نظام برباد اور ختم ہو جائے۔

’تربیت‘ کا مفہوم اور اہمیت

اب میں اپنے اصل موضوع یعنی ’تربیت طلبہ‘ کی طرف آتا ہوں۔ سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ تربیت کیا ہے اور اس سے مقصود کیا ہے؟ جس چیز کو ہم تعلیمی اصطلاح میں ’تربیت‘ کہتے ہیں، شرعی اصطلاح میں اسے ’تزکیہ‘ کہا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے میں نے آپ کے سامنے جو آیت کریمہ تلاوت کی، وہ تزکیہ سے متعلق ہے۔ تزکیہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ زک و ہے۔ اس کے دو معنی ہوتے ہیں: ایک کسی چیز کو پاک صاف کرنا اور دوسرے اس کو کو جلا دینا اور پروان چڑھانا۔ گویا جب ہم تزکیہ نفس کی اصطلاح استعمال کریں گے تو مطلب یہ ہوگا کو نفس کو عقائد واعمال اور اخلاق وکردار کی ساری کمزوریوں سے پاک کرنا اور ان کی جگہ ان خوبیوں کو پروان چڑھانا جو کہ شریعت کو مطلوب ہیں۔ اچھا کیا ہے، برا کیا ہے، کن اخلاق واوصاف کو پروان چڑھانا ہے اور کن چیزوں سے بچنا ہے؟ اس کافیصلہ شریعت کرتی ہے۔

اس تزکیہ کی اہمیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ جتنے پیغمبر بھی اس نے بھیجے، وہ لوگوں کے تزکیے کے لیے ہی بھیجے۔ سورۃ الاعلیٰ میں ہے کہ ’قد افلح من تزکی فذکر اسم ربہ فصلی........ ان ہذا لفی الصحف الاولی صحف ابراہیم وموسی‘ یعنی صحف ابراہیم وموسیٰ میں بھی یہی بات کہی گئی تھی کہ لوگوں کی فلاح کا دار ومدار تزکیہ (اور عبادت وترجیح آخرت) پر ہے۔ اسی طرح سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ ’اذہب الی فرعون انہ طغی فقل ہل لک الی ان تزکی‘ یعنی فرعون کے پاس جاؤ کہ وہ سرکش ہو گیا ہے اور اسے تزکیہ اختیار کرنے کی تلقین کرو۔ (النازعات ۷۹:۱۷) نبی کریم ﷺ کی ڈیوٹی بھی اللہ تعالیٰ نے یہ لگائی کہ لوگوں کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیں اور ان کا تزکیہ کریں۔ قرآن حکیم میں یہ بات چار مواقع پر بیان ہوئی ہے۔ سورہ جمعہ میں، آل عمران میں اور دو دفعہ سورۂ بقرہ میں۔ ایک جگہ پر آپ کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے تزکیہ کا ذکر شروع میں ہے اور دوسری جگہ آخر میں، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جو چیز اول وآخر مطلوب ہے، وہ تزکیہ ہی ہے۔ ویسے بھی تعلیم کا مطلب ہوتا ہے علم کاحصول اور کچھ چیزوں کا جاننا۔ ظاہر ہے کہ کسی چیز کا علم یا کچھ معلومات کا جان لینا اصل مقصد نہیں ہوتا بلکہ اصل مقصد تو اس علم پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ تعلیم سے مقصود بھی تزکیہ ہی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، ’قد افلح من زکاہا وقد خاب من دساہا‘۔ یعنی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا، وہ کامیاب ہے اور جس نے یہ نہ کیا، وہ ناکام ہے) (الشمس ۹۱:۹، ۱۰) تو تزکیہ کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ہماری فلاح کا ضامن ہے۔ فلاح کیا ہے؟ فلاح اسلام کا ایک جامع تصور اور اصطلاح ہے۔ اس میں دین اور دنیا دونوں کی کامیابی شامل ہے۔ کامیابی یہ ہے کہ آدمی آخرت میں سرخرو ہو اور دنیا کی زندگی اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے گزارے۔ گویا تزکیہ یہ ہے کہ نفس انسانی کی ایسی تربیت ہو کہ اس کے لیے اللہ کے احکام کی اطاعت آسان ہو جائے، اور شریعت کی پیروی اس کی طبیعت بن جائے۔ 

دیکھیے! انسانی نفس کی جو ساخت اور بناوٹ ہے، اس میں خیر اور شر دونوں شامل ہیں۔ ’فالہمہا فجورہا وتقواہا‘(الشمس ۹۱:۸) یعنی انسان میں اللہ تعالیٰ نے نیکی کے جراثیم بھی رکھے ہیں اور برائی کے بھی۔ انسان جس پہلو کو ترقی دیتا ہے، وہی اس کی شخصیت پر غالب آ جاتا ہے۔ اس بات کو نبی کریم ﷺ نے یوں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو فطرت پر پیدا کرتا ہے لیکن والدین اور ماحول کسی کو یہودی اور کسی کو عیسائی بنا دیتا ہے۔ تو ماحول کے ان منفی اثرات کے ازالہ کے لیے انسانی جبلتوں، محرکات، عواطف اور مدرکات، ان سب کی صحیح تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی ان کی اس طریقے سے نشوونما کہ خیر کا پہلو بڑھتا جائے اور اس کی نمو ہوتی جائے، جبکہ انسانی شخصیت کا حیوانی پہلو جو فجور کا پہلو ہے، وہ دبتا چلا جائے۔ نفس انسانی کے سارے ذہنی، فکری اور جسمانی قویٰ کی ایسی نشوونما بے حد اہم ہے کیونکہ جب تک آدمی کی صحیح تربیت نہ ہو، وہ نہ اسلام نہ لا سکتا ہے اور نہ اسلامی احکام پر کماحقہ عمل کر سکتا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیے کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں، جب مسلمانوں پر بہت کڑا وقت تھا، دو آدمیوں یعنی حضرت عمر اور ابوجہل کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی کہ یا اللہ، ان میں سے کسی ایک کو قبول اسلام کی توفیق عنایت فرما۔ تو ایک کے بارے میں دعا قبول ہو گئی جبکہ دوسرے کے بارے میں نہیں ہوئی کیونکہ قبول ہدایت کی جو صلاحیت سیدنا عمرؓ میں پائی جاتی تھی، ابو جہل اس سے محروم تھا۔ تو نفس کی سعادت کا مدار اس کے تزکیے پر ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے اس تربیت کا وسیلہ بھی بتا دیا ہے یعنی تعلیم کتاب۔ اس کی بنیاد قرآن حکیم ہے۔ قرآن حکیم علم کا ذریعہ بھی ہے اور تزکیہ کا بھی۔ جب علم اور تزکیہ دونوں کی بنیاد قرآن پر ہو اور حکمت کے ساتھ ہو تو وہ شخصیت وجود میں آتی ہے جو قرآن کو اور اسلام کومطلوب ہے۔ 

اس تربیت کو اگر آپ تعین کے ساتھ جاننا چاہیں کہ یہ کیا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس کے دو پہلو ہیں: ایک معصیت سے بچنا اور دوسرے درجہ ’احسان‘ کا حصول۔ یعنی تربیت کا حاصل یہ دو چیزیں ہیں: ایک یہ کہ آدمی اللہ کی معصیت سے بچ جائے، اس کی اطاعت کے قابل ہو جائے اور اس کے احکام کی پیروی آسانی سے اور خوشی سے کرنے لگ جائے۔ دوسرے یہ کہ آدمی احکام شریعت پر عمل کرتے ہوئے انہیں بہترین طریقے سے سرانجام دے۔ ’احسان‘ کا مطلب ہے کسی کام کو اپنی بہترین صورت میں اور کمال کے ساتھ کرنا۔ حدیث جبریل میں یہ بات یوں بیان کی گئی ہے کہ ’ان تعبد اللہ کانک تراہ‘ ۔ اس سے بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی کہ احسان کا تعلق صرف عبادت سے ہے۔ اول تو عبادت کا مطلب عربی زبان میں وسیع تر ہے۔ پھر دوسری روایت میں ان تعبد اللہ کے بجائے ان تعمل للہ کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ساری زندگی میں اطاعت کے جتنے بھی کام ہوں، وہ اعلیٰ ترین درجے کے ہوں۔ گویا احسان کا مطلب ہے حصول کمال یا excellence۔ 

تربیت سے تغافل کے اسباب

اب ذہن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ تربیت اتنی اہم ہے اور اس کو تعلیم کی اصل غایت کی حیثیت حاصل ہے تو پھر ہمارے تعلیمی نظام میں اس سے صرف نظر کیوں کر لیا گیا ہے اور اس کو عملاً اہمیت کیوں نہیں دی جاتی؟ اس تغافل کے بہت سے نظری اور عملی اسباب ہیں۔

ایک وجہ تو یہ ہے کہ والدین کو بچوں کی تربیت کی اہمیت کا احساس ہی نہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ اچھا کھلانے پلانے اور اچھا پہنانے کے ساتھ بچوں کو سکول کالج یا مدرسے میں پڑھنے کے لیے بھیج دیا جائے، اس سے زیادہ ان کو ان کی تعمیر سیرت وکردار کی کوئی فکر نہیں۔ گویا جسمانی پرورش اور ظاہری ضروریات کی فراہمی سے زیادہ وہ اپنی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔ حالانکہ جو چیز بچوں کی ضروریات کے حوالے سے سب سے زیادہ اہم ہے، وہ یہ ہے کہ وہ ان کی تعمیر سیرت وکردار کی خبر رکھتے، اس کے لیے پریشان ہوتے، کوشش اور جدوجہد کرتے اور خود اس کے لیے وقت نکالتے۔ آج کل بچے سکولوں میں جاتے ہیں، شام کو واپس آتے ہیں تو ٹیوشن کے لیے بھجوا دیے جاتے ہیں، رات کو ٹی وی کھول کر والدین خود بھی بیٹھ جاتے ہیں اور بچوں کو بھی ساتھ بٹھا لیتے ہیں۔ اس سے زیادہ والدین بچوں کے لیے کوئی وقت نہیں نکال پاتے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ والدین کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ بچے کی تربیت بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ 

دوسری وجہ یہ ہے کہ اساتذہ بھی طلبہ کی تربیت کی ذمہ داری سے غافل ہو گئے ہیں، حالانکہ ان کا اصل کام پڑھا دینا نہیں، بلکہ تربیت کرنا ہے۔ خاص طور پر ہمارے ماحول میں اساتذہ کی یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ماحول میں ٹی وی اور وی سی آر کی صورت میں بگاڑ پیدا کرنے والے عوامل پہلے سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ ان عوامل میں سے ایک بری صحبت بھی ہے۔ غربت بھی ایک مسئلہ ہے۔ والدین دو اور دو چار کے چکر میں رہتے ہیں، دال روٹی کی فکر کرتے ہیں، صبح سے شام تک ان کو سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی کہ دیکھیں کہ بچے کس حال میں ہیں۔ بعض اوقات والدین کی ناچاقی بھی بچوں کے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہے۔ تو تعلیمی اداروں، خاص طور سے دینی تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تربیت پر توجہ دینے کی بے حد ضرورت ہے۔ 

تربیت کی اقسام

تربیت کو ہم کئی قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ دینی تربیت، فکری و علمی تربیت، انتظامی تربیت اور جسمانی تربیت وغیرہ۔ یہ سارے تربیت کے مختلف پہلو ہیں اور باہم متجاوز بھی ہیں۔ اب ہم ان پر ذرا تفصیل سے گفتگو کریں گے۔

۱۔ دینی تربیت:

دینی تربیت میں پورے دین کو شامل سمجھنا چاہیے۔ ہمارا جو دین ہے، اس کے مشمولات کو ہم چار بڑے شعبوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ایک عقائد، دوسرے عبادات، تیسرے اخلاق وآداب اور چوتھے معاملات۔ عقائد ظاہر ہے کہ ہر چیز کی بنیاد ہیں۔ عبادات کا تعلق بندے اور رب کے درمیان ہے، جبکہ اخلاق وآداب اور معاملات کا تعلق انسانوں کے مابین مسائل سے ہے۔ ان مسائل سے ہمارے دین کا ایک بڑا حصہ متعلق ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ مدارس میں پڑھائے جانے والے مواد کا غالب حصہ فقہ سے متعلق ہوتا ہے، اس لیے کہ فقہ میں زندگی کے روز مرہ مسائل سے بحث ہوتی ہے اور انسانوں کو جن معاملات سے سابقہ پیش آتا ہے، وہ فقہ میں زیر بحث آتے ہیں۔ 

دینی تربیت کے بارے میں ہمارے ہاں تعلیمی اور تربیتی حلقوں میں کئی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں تصوف کے نام سے جو ادارہ تربیت اور تزکیہ کے لیے وجود میں آیا، اس میں اس وقت ہمارے ہاں زیادہ زور ذکر اور عبادات پر دیا جاتا ہے۔ تھوڑی سی توجہ اخلاق پر دے دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ میں ان چیزوں کی اہمیت کم نہیں کر رہا، لیکن ایک متوازن تربیت کی ضرورت ہے۔ عبادات یقیناًاہم ہیں لیکن کیا معاملات غیر اہم ہیں؟ کیا جھوٹ بولنا غیر اہم ہے؟ وعدہ خلافی کرنا غیر اہم ہے؟ بیوی بچوں کے ساتھ بدسلوکی کرنا غیر اہم ہے؟ یہ بھی اسی طرح خدا ورسول کے حکم ہیں جیسے پہلی چیزیں۔ تو تربیت میں کچھ پہلوؤں کو اہمیت دینا اور کچھ کو نہ دینا یہ دینی لحاظ سے ایک غیر متوازن رویہ ہے۔ 

عبادات کی تربیت، (مثلاً نماز وقت پر اور باجماعت ادا کرنا) : اس میں یہ ذہن میں رہے کہ چونکہ مدارس کا ماحول دینی ہوتا ہے اس لیے اس لحاظ سے وہاں بعض پہلوؤں پر کم توجہ کی ضرورت ہوگی اور بعض دوسروں پر زیادہ کی۔ عام تعلیمی اداروں میں عبادات کے حوالے سے دینی تربیت کی زیادہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے کیونکہ وہاں مساجد نہیں ہوتیں، طہارت خانے نہیں ہوتے، وضو کی جگہ نہیں ہوتی، وغیرہ۔ 

جب ہم تربیت کی بات کرتے ہیں، خصوصاً دینی لحاظ سے تو روز مرہ زندگی کے آداب پر بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے، مثلاً آداب میں سے ایک یہ ہے کہ وقت پر کام کیا جائے۔ میں نے دیکھا ہے کہ دینی مجالس میں اس چیز کا اہتمام نہیں کیا جاتا حالانکہ نماز میں ہمیں سب سے پہلے یہی بات سکھائی جاتی ہے۔ جماعت کا وقت ہوتے ہی لوگ گھڑیاں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور الحمد للہ یہ مشاہدہ ہے کہ کم از کم نماز میں ہم وقت کی پابندی کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ہماری عادت کیوں نہیں بنتی؟ ہم نماز میں تو وقت کی پابندی کرتے ہیں، اس کے بعد کیوں نہیں کرتے؟ نماز میں اگر یہ شریعت کا حکم ہے تو باہر کیوں نہیں؟ نماز میں حکم ہے کہ صف آگے پیچھے نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہم میں اتحاد پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں، خلا نہ ہو، صف ٹیڑھی نہ ہو، یہ خوبیاں جو شریعت نماز میں پیدا کرنا چاہتی ہے، وہ باہر کی زندگی میں کیوں منتقل نہیں ہوتیں؟ 

۲۔ فکری وعلمی تربیت

فکری وعلمی تربیت میں حریت فکر، تحقیق، تقریر وتحریر کی مشق، لائبریری کا استعمال، مطالعاتی وتفریحی سفر وغیرہ شامل ہیں۔ سب سے پہلے حریت فکر کو لیجیے۔ ممکن ہے میری یہ بات آپ کو قابل ہضم نہ لگے، لیکن میں عرض کرتا ہوں کہ حریت فکر کی تربیت بھی بالکل دینی اساس رکھتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی سے، جن کی ایک ایک بات ہمارے لیے حجت ہے، ہمیں اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ خود آپ نے اپنے صحابہ میں اس چیز کی حوصلہ افزائی کی۔ بدر کے موقع پر دیکھ لیجیے، جب حضرت حباب بن منذرؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! جس جگہ آپ نے فوج کو اترنے کا حکم دیا ہے، کیا وہ وحی پر مبنی ہے؟ آپ نے فرمایا، نہیں۔ تو کہا کہ یہ جگہ تو مناسب نہیں۔ غزوۂ احزاب میں بھی ایسے ہی ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے سوچا کہ کچھ دے دلا کر یہودیوں سے معاملہ طے کر لیا جائے کیونکہ باہر دشمن ہے، یہ کہیں اندر سے وار نہ کر دیں۔ انصار کے سرداروں کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ اگر وحی کی بنیاد پر حکم ہے تو سر تسلیم خم ہے لیکن اگر محض تجویز ہے تو ہم اتفاق نہیں کرتے۔ آپ نے ان کی بات مان لی۔ یہ تو خیر بڑے معاملات ہیں۔ گھر کی خادمہ حضرت بریرہؓ کا واقعہ تو آپ کے علم میں ہوگا۔ اس کا خاوند پاگل ہوا پھرتا تھا۔ روتا ہوا اس کے پیچھے گلیوں میں بھاگتا تھا۔ چاہتا تھا کہ اس کے نکاح میں رہے، کیونکہ بریرہؓ کے آزاد ہونے کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا تھا۔ صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی سفارش کی تو آپ نے بریرہؓ کو بلایا اور کہا کہ مغیث کے ساتھ نکاح برقرار رکھو۔ اس نے کہا کیا یہ آپ کا حکم ہے؟ فرمایا نہیں، محض سفارش ہے۔ تو کہنے لگی معاف کیجیے، میں اس کے نکاح میں نہیں رہنا چاہتی۔ 

تو بلاشبہ کمال درجے کی اطاعت کا تصور بھی شریعت میں موجود ہے، وہ اپنی جگہ، لیکن یہ چیز اس کی نقیض نہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ صحابہ کو اس کا فرق وقتاً فوقتاً سمجھاتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو دیکھا کہ کچھ صحابہ کھڑے ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ جو جہاں تھا، وہیں بیٹھ گیا۔ جو لوگ دروازے میں تھے، وہ بھی وہیں بیٹھ گئے اور راستہ بند ہو گیا۔ آپ نے بعد میں کہا کہ بھائی راستہ تو چھوڑ دو۔ صحابہ کی اطاعت کا یہ حال تھا اور ظاہر ہے کہ اگر نبی کی اطاعت بھی ہیچ پیچ کے ساتھ کریں تو وہ اطاعت کیا ہوئی؟ غیر مشروط اطاعت مطلوب ہے اور صحابہ کرام نے ہمارے لیے اس کے بہترین نمونے چھوڑے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہمارا دین فکری حریت کا بھی علمبردار ہے۔ یہ چیز اللہ ورسول کی غیر مشروط اطاعت کی نقیض نہیں۔ اطاعت غیر مشروط اور پورے جذبے اور شدت کے ساتھ کرنی چاہیے، لیکن دین ہمیں یہ نہیں سکھاتا کہ ہم اپنے دل ودماغ کے دروازے بند کر لیں اور سوچنا چھوڑ دیں۔ 

اب اگر آپ مدارس کے نظام تعلیم کے بارے میں حریت فکر کا عملی اطلاق کرنا چاہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ تین مسائل آپ کی فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ ایک مقاصد تعلیم، دوسرے نصاب تعلیم، اور تیسرے دین میں مسلک کا مقام۔ ممکن ہے یہ موضوع سے کچھ تجاوز ہو لیکن میں درخواست کرتا ہوں کہ آئیے چند منٹ کے لیے ان پر کچھ غور کر لیں۔

مقاصد تعلیم:

جب ہم نظام تعلیم کی بات کرتے ہیں تو نصاب، کتابوں، تعلیمی ماحول اور بہت سی دیگر باتوں سے پہلے جو بات زیر بحث آتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس تعلیمی نظام کے مقاصد کیا ہیں؟ ہمارے مدارس میں ایک بات مشہور ہے اور وہ یہ کہ ہم نے بس علما اور مولوی پیدا کرنے ہیں جو مسجدیں سنبھالیں اور مدرسے چلائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ناقص اور کمزور بات ہے۔ مسلمانوں کے نظام تعلیم میں کبھی ثنویت نہیں رہی، اس میں ہمیشہ وحدت رہی ہے۔ دینی نظام تعلیم کا یہ محدود ہدف دراصل گزشتہ صدی میں اس وقت کے حالات کے تناظرمیں طے کیا گیا تھا۔ درس نظامی جب ہندوستان میں رائج تھا تو سی ایس پی افسر پیدا کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے انہی مدارس سے فارغ ہونے والے لوگ تحصیل دار اور کلکٹر لگتے تھے، جج اور قاضی بھی وہی بنتے تھے، ڈاکٹر اور طبیب بھی وہی ہوتے تھے۔ ملک کا نظام چلانے کے لیے ساری بیوروکریسی انہی مدارس سے آتی تھی۔ انگریزوں کے تسلط اور قبضے کے نتیجے میں برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تواس کے ساتھ ہی اس تعلیمی نظام کی بساط بھی لپیٹ دی گئی۔ مسلمانوں نے ۱۸۵۷ء میں مزاحمت کی تو چھ چھ سو علما کو ایک دن میں درختوں کے ساتھ پھانسی دی گئی ۔ یوں کہنا چاہیے کہ ان کو پوری طرح کچل دیا گیا۔ فارسی جو اس وقت کی قومی زبان بھی تھی اور سرکاری بھی، اس کی جگہ انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کر دیا گیا، تو فارسی عربی پڑھنے والے بیروزگار ہو گئے۔ مثل مشہور ہوگئی کہ پڑھیں فارسی بیچیں تیل۔ ان کو نوکری نہیں ملتی تھی۔ معاشرے میں ان کا کوئی ذریعہ روزگار نہیں تھا، کیونکہ انگریزی آ گئی تھی۔ اس صورت حال میں کچھ علما نے سوچا کہ اب حکومت تو ہمارے پاس رہی نہیں، پہلے بڑے بڑے وقف ہوتے تھے اور حکومتیں وسائل مہیا کرتی تھیں۔ اب یہ تعلیمی نظام ختم ہو گیا ہے اور انگریز نے سارا نظام بدل دیا ہے تو اب امت کا مستقبل کیا ہوگا؟ انہوں نے سوچا کہ ہمارا اجتماعی نظام تو باقی نہیں رہا تو کم از کم ہمارا یہ جو مساجد کا نظام ہے، اور نکاح طلاق کے جو مسائل ہیں، اور خوشی غمی کی جو رسمیں ہیں تو انفرادی اور معاشرتی زندگی کے ان دائروں میں ہی میں دین کو بچا لیا جائے، اگرچہ کسی کونے کھدرے میں لگ کر ہی بچایا جا سکے۔ چنانچہ انہوں نے مدرسہ دیوبند کی بنیاد ڈالی۔

لیکن یہ صورت حال ۱۹۴۷ء میں ختم ہو گئی۔ اب ہم نہ دار الحرب میں ہیں اور نہ انگریز ہم پر حکمران ہیں۔ اب تو آپ کا اپنا ملک ہے تو آپ پہلے والی پالیسی کیسے رکھ سکتے ہیں؟ لہٰذا اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں ہمیں صرف ایسے عالم دین ہی پیدا نہیں کرنے ہیں جو مدرسے اور مسجدیں سنبھالیں۔ یقیناًیہ بھی سنبھالنے چاہییں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس معاشرے کا کیا قصور ہے کہ اس کو ایسا جج نہ ملے جو دین جانتا ہو؟ مسلمانوں کی ریاست ہے تو جج آخر ایسا کیوں ہو جس کو انگریزوں کا قانون تو یاد ہو لیکن وہ شرعی قانون سے واقف نہ ہو؟ ہمارے ہاں وکیل ہیں جو قانون کی تشریح کرتے ہیں۔ ان سے پہلے مفتی ہوتے تھے، اب وکیل آ گئے ہیں۔ تو ان وکیلوں کو اسلامی قانون کی تعلیم دینا کس کا کام ہے؟ کیا وہ دینی کام نہیں؟ کیا یہ سارا نظام ایسے ہی چلتا رہے؟ ہم اس میں کوئی حصہ نہیں لیں گے؟ 

اس وقت دینی مدارس میں ایک اندازے کے مطابق حفظ وناظرے کے درجات کو چھوڑ کر زیادہ سے زیادہ دو لاکھ طالب علم پڑھتے ہیں جبکہ گزشتہ سال کے اکنامک سروے آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق پرائمری سکول میں داخلہ لینے والے پاکستانی بچوں کی تعداد تقریباً ۲ کروڑ ہے۔ اب یہ کون سا دین ہے یا دین کی کون سی حکمت عملی ہے کہ آپ دو لاکھ بچوں کو تو پڑھا رہے ہیں اور دو کروڑ کو بھولے ہوئے ہیں؟ ان کو دین کون سکھائے گا؟ کیا وہ مسلمانوں کے بچے نہیں؟ بات اس وقت حکومت یا غیر حکومت کی نہیں ہو رہی۔ سوال یہ ہے کہ اہل دین، جو لوگوں کو دین سکھانا چاہتے ہیں، ان کی ان دو کروڑ بچوں تک اپروچ ہی نہیں۔ ان بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ میں آپ کے استاد کتنے ہیں؟ ان استادوں کی تربیت میں آپ کا کتنا ہاتھ ہے؟ آپ کے پیش نظر تو دین کی خدمت ہے، آپ تو دین کو غالب کرنا چاہتے ہیں، معاشرے میں دین دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کا مقصد تعلیم یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ صرف مدرسے کے مولوی پیدا کریں؟ اس ملک کو چلانے والے لوگ جو مسلمان ہیں اور آپ کے بھائی ہیں، ان کو دین سکھانا کیا آپ کی ذمہ داری نہیں؟ آپ اس نکتے پر غور فرمائیں کہ اہل دین کو صرف مدرسے اور مسجد تک محدود نہیں رہنا ہے۔ اگر آپ اس معاشرے میں اسلام چاہتے ہیں اور دین ہی کی خدمت کے لیے آپ نے ادارے بنائے ہیں، تو آپ کا دائرہ کار محدود نہیں ہونا چاہیے۔ حالات کے بدلنے کی وجہ سے جو بنیادی تبدیلی آئی ہے، اس کے لحاظ سے آپ کو مقاصد تعلیم میں وسعت پیدا کرنی چاہیے۔

نصاب تعلیم:

جب آپ مقاصد تعلیم میں توسیع کریں گے تو نصاب خود بخود بدل جائے گا۔ معاف کیجیے گا، آپ کے لیے یہ بات شاید نئی ہو۔ ہم لوگ جو کالج یونیورسٹی میں ہیں، ہمارے لیے یہ بات نئی نہیں ہے۔ ہر سال یونیورسٹی میں کلاسیں شروع ہونے سے پہلے پروفیسروں کی میٹنگیں ہوتی ہیں جن میں پروفیسر یہ طے کرتا ہے کہ اس نے کیا پڑھانا ہے۔ مثلاً اصول فقہ ایک مضمون ہے تو میرے ذمے یہ ہے کہ میں نے اصول فقہ پڑھانا ہے۔ اب اس میں کیا پڑھانا ہے، تو وہ میری صواب دید پر منحصر ہے۔ یونیورسٹی مجبور نہیں کرتی کہ فلاں کتاب پڑھاؤ۔ بلکہ مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ میں جب شریعہ اکیڈمی (بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد) میں تھا اور ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کے ساتھ کام کرتا تھا تو ہمارے پروگرام مینیجر ایک سول جج تھے جو آج کل ایڈیشنل سیشن جج ہیں۔ میں فقہ القرآن والسنۃ پڑھاتا تھا تو انہوں نے مجھ سے یہ کہا کہ تم فلاں چیز پڑھاؤ۔ مجھے اس بات پر غصہ آیا اور میں نے ڈاکٹر غازی کو ان کی تحریری شکایت کی کہ یہ کون ہوتے ہیں مجھے بتانے والے کہ میں کیا پڑھاؤں اور کیا نہ پڑھاؤں؟ ڈاکٹر صاحب نے اس سے کہا کہ جاؤ اور ڈاکٹر امین سے معذرت کرو۔ یہ تمہارا کام نہیں کہ تم یونیورسٹی کے استاد کو یہ بتاؤ کہ کیا پڑھانا ہے۔

تو نصاب کوئی غیر متبدل چیز نہیں ہوتی۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں نصاب صرف قرآن مجید تھا۔ بعد میں لوگوں نے حدیثیں بھی پڑھنا شروع کر دیں۔ اگلی صدی میں فقہ بھی شامل ہو گئی۔ اس وقت اصول فقہ نہیں تھے۔ اس سے اگلی صدی میں اصول کی تعلیم بھی شروع ہو گئی۔ جب یونانی علوم کا ریلا آیا تو منطق بھی شامل ہو گئی۔ تو نصاب کوئی مقدس گائے نہیں ہوتی۔ یہ ہمیشہ زمانے اور معاشرے کی ضروریات کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ نصاب کے کچھ اجزا مثلاً قرآن وسنت، یقیناًکبھی تبدیل نہیں ہوں گے۔ اسی طرح چونکہ ہمارے دینی مآخذ عربی میں ہیں، تو عربی زبان بھی نہیں بدلے گی۔ لیکن، معاف کیجیے، فارسی کو کوئی تقدس حاصل نہیں۔ اس کی اس وقت یقیناًضرورت تھی جب اسے قومی زبان کی حیثیت حاصل تھی، یہ اس وقت معاشرتی زبان بھی تھی۔ اس وقت جو نہیں پڑھتا تھا، تیل بیچتا تھا، اسے روزگار نہیں ملتا تھا۔ یہ ذریعہ اظہار تھی۔ اب فارسی ذریعہ اظہار نہیں ہے۔ تو کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں اس لحاظ سے دیکھنا چاہیے۔ نصاب کو تقدس حاصل نہیں ہوتا۔ نصاب سے مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ ایسے موثر اور متبحر علما تیار کیے جائیں جو معاشرے تک بہترین طریقے سے دین پہنچا سکیں، دین کی خدمت کر سکیں، لوگوں کے قول وعمل کو شریعت کے مطابق ڈھال سکیں۔ 

اب آپ ہماری موجودہ ضروریات کے لحاظ سے اس نصاب پر نظر ڈالیں تو کئی خامیاں محسوس ہوں گی۔ مغرب اور امریکہ کے ایجنڈوں کو چھوڑیے، خود سوچیے کہ کیا ہمارے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس دنیا کو سمجھیں؟ اگر امام غزالی کی یہ مجبوری تھی کہ وہ یونانی فلسفہ پڑھیں اور پھر ’’تہافت‘‘ لکھیں تو آج ہماری مجبوری یہ کیوں نہیں ہے کہ ہم پہلے مغرب کا فلسفہ پڑھیں اور پھر اس کی تردید کریں؟ آپ اگر مغرب کا فلسفہ سمجھتے ہی نہیں تو اس کا رد کیسے کریں گے؟ اس لیے ان علوم کو جاننا جو اس وقت دنیا میں مروج ہیں، خود ہماری ضرورت ہے۔ جس طرح قدیم زمانے میں یونانی فکر گمراہیوں کا سرچشمہ تھی، آج اسی طرح مغربی فکر گمراہیوں کا منبع ہے۔ آپ کیسے کہتے ہیں کہ انگریزی پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں؟ جب تک آپ انگریزی نہیں پڑھتے، آپ کو پتہ کیسے چلے گا کہ آپ کے دشمن کی سوچ کیا ہے اور اس کا رد کیسے کرنا ہے؟ 

اسی طرح قرآن مجید کو اس نصاب میں وہ مرکزی حیثیت حاصل نہیں جو اسے حاصل ہونی چاہیے۔ معاف کیجیے گا، آپ کو حدیث کا دورہ تو پڑتا ہے، قرآن کا کیوں نہیں پڑتا؟ کیا قرآن حدیث سے کم اہم ہے؟ پھر قرآن و حدیث کو آپ فقہی تناظر میں اور فقہی زاویہ نگاہ سے پڑھاتے ہیں۔ قرآن وحدیث کے پیغام، فلسفہ اور ان کی حکمت کے بہت کم پہلو زیر غور آتے ہیں۔ فقہی مباحث میں بھی غلط ترجیحات قائم کر لی گئی ہیں۔ بخاری کی ایک حدیث رفع یدین پر آ گئی تو حنفی نقطہ نظر کی وضاحت میں استاد چھ دن یہ ثابت کرنے پر صرف کرے گا کہ رفع یدین نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے مقابلے میں جب معاملات سے متعلق کوئی حدیث آئے گی تو ترجمہ پڑھ کر فارغ ہو جائیں گے۔ آخر کیا قصور ہے اس حدیث کا؟ عربی زبان، جیسا کہ آپ بھی تسلیم کریں گے کہ دینی مدارس کے طلبہ کو نہ لکھنی آتی ہے اور نہ بولنی۔ تو ان سب حوالوں سے نصاب اور منہج تعلیم میں اصلاح کی ضرورت ہے۔

مسلک کا مقام:

تیسری چیز یہ ہے کہ ہم نے مسالک کو دین بنا لیا ہے۔ معاف کیجیے گا، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اپنا مسلک چھوڑ دیجیے۔ مسلک ہونا چاہیے۔ فقہ ہو یا کلام، ہر آدمی کا ایک مسلک ہوتا ہے۔ یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے، لیکن وہ مسلک دین نہیں ہوتا، وہ اجتہادی مسلک ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت ایک رائے کی ہوتی ہے۔ حضرت قائد اعظم سے کسی نے پوچھا کہ آپ شیعہ ہیں یا سنی؟ وہ وکیل آدمی تھے اور ہوشیار تھے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ شیعہ تھے یا سنی؟ سوال کرنے والا خاموش ہو گیا کیونکہ اس کے ذہن میں شرارت تھی۔ تو عرض یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مسلکی تقسیم ضرورت سے زیادہ شدید ہے اور وہ بعض حلقوں میں خونی تقسیم بن گئی ہے۔ سیکڑوں آدمی قتل ہو چکے ہیں۔ اگرچہ اس کے اسباب زیادہ تر دوسرے ہیں، اصلاً مسلکی اور فقہی اختلافات بنیاد نہیں، لیکن نور بشر کے جھگڑوں میں مسجدیں دھلتی ہم نے بھی دیکھی ہیں۔ حالانکہ اگر غور کریں تو ہمارے ملک میں مسلکی اختلافات کی کوئی بڑی بنیاد نہیں، اس لیے کہ غالب اکثریت حنفی ہے۔ بریلوی بھی حنفی ہیں او ردیوبندی بھی۔ اہل ظاہر یا اہل حدیث بالکل تھوڑے ہیں، پانچ یا سات فی صد ہوں گے۔ تو پھر جھگڑے کیوں؟ اس وقت شیعہ کو چھوڑ کر باقی چاروں وفاقوں کے نصاب میں کوئی خاص فرق نہیں۔ چھوٹی موٹی کتابوں کا فرق ہے۔ حتیٰ کہ اہل حدیث بھی فقہ میں ہدایہ ہی پڑھاتے ہیں۔ اس کے باوجود نصاب کیوں ایک نہیں بنتا؟ وفاق کیوں ایک نہیں بنتا؟ میں عرض کروں گا کہ یہ وفاقوں کی تقسیم بھی اسٹیبلشمنٹ کی قائم کردہ ہے۔ وہ علما میں تفریق ڈالے رکھنا چاہتی ہے۔ ان کے اندر اتحاد نہیں دیکھنا چاہتی۔ ضیاء الحق چاہتا تو پانچ وفاقوں کی اجازت نہ دیتا، دو کی دیتا تو سب اہل سنت مجبور ہوتے کہ ایک ہی نظام کے تحت کام کریں۔معاف کیجیے گا، اس معاملے میں علما کو بالغ نظری کا ثبوت دینا چاہیے۔ 

تحقیق:

حریت فکر کی بحث سمیٹنے کے بعد اب آئیے، فکری وعلمی تربیت کے دوسرے اجزا کی طرف۔ ان میں سرفہرست تحقیق ہے۔ ہمیں دینی علوم میں تحقیق کی ضرورت ہے اور اس تحقیق میں بھی تخلیقیت کی ضرورت ہے۔ مکھی پر مکھی مارنا کوئی کام نہیں۔ ہمارے ایک نوجوان دوست، جو لاہور کی ایک جامعہ میں استاد ہیں، مجھ سے کہنے لگے کہ میں نے لکھنے پڑھنے کا کام شروع کیا ہے، میرے لیے دعا کریں۔ میں نے کہا ماشاء اللہ بڑی خوشی کی بات ہے، آپ کیا لکھ رہے ہیں؟ کہنے لگے کہ دعاؤ ں کا ایک مجموعہ تیار کر رہا ہوں۔ میں نے کہا، اس کے بعد کیا منصوبہ ہے؟ کہنے لگے کہ پھر نماز پر ایک کتاب لکھوں گا۔ میں نہیں کہتا کہ یہ دین کی خدمت نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ بار بار ایک ہی قسم کے موضوعات پر کام کرتے چلے جانا کیا صلاحیتوں اور وقت کا درست استعمال ہے؟ میں آپ کو اپنا ذاتی واقعہ سناتا ہوں۔ میں نے لندن یونیورسٹی کے سکول آف اورئینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز کے ایک انگریز پروفیسر سے خط وکتابت کی کہ میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا کہ تم مجھے ان موضوعات کی ایک فہرست بھجواؤ جن پر تم کام کرنا چاہتے ہو۔ میں نے جو فہرست بھجوائی اس میں پہلے نمبر پر میں نے جو موضوع لکھا، وہ وہی تھا جس پر میں نے سعودیہ میں ماجستیر میں مقالہ لکھا تھا، یعنی التشریع الاسلامی والغربی۔ چنانچہ میں نے پروفیسر صاحب کو لکھا کہ میں اجتہاد اور مغرب میں قانون سازی کے تقابلی مطالعے کے موضوع پر کا م کرنا چاہتا ہوں۔ اس انگریز مستشرق نے مجھے جواب میں لکھا کہ تم اجتہاد پر کیا نیا کام کر سکتے ہو؟ یہ تو رٹا رٹایا موضوع ہے۔ میں نے جب اصرار کیا کہ یہ موضوع مجھے پسند ہے اور میں اسی پر کام کرنا چاہتا ہوں تو اس نے کہا کہ تم دو باتیں بتاؤ۔ ایک یہ کہ مغربی قانون کا تمہارا کس حد تک مطالعہ ہے؟ اور دوسرے تم مجھے سکوپ آف اجتہاد یعنی اجتہاد کے دائرہ کار پر چار صفحے کا ایک مضمون لکھ کر بھیجو۔ میں نے جتنا زور لگا سکتا تھا، لگا کر مضمون لکھا اور اس کو بھیج دیا۔ اس نے لکھا کہ تمہارا مغربی قانون کا مطالعہ کمزور ہے، اس سطح کا نہیں ہے کہ تم اس میں پی ایچ ڈی کر سکو۔ اور دوسری بات یہ کہ تم نے اجتہاد کا جو سکوپ لکھا ہے، وہ مجھے اپیل نہیں کرتا۔ اس میں تم آخر کیا نئی بات کر سکو گے؟ تو حقیقت یہ ہے کہ ہم چیزوں کو ری پروڈیوس کر رہے ہیں۔ جتنا لٹریچر اٹھا کر دیکھ لیں، کوئی بات نئی نہیں ہے۔ کوئی نئے مسائل نہیں ہیں جن کو زیر بحث لایا گیا ہو۔ تو جب تک آپ تخلیقیت کی طرف نہیں آئیں گے، اسلامی علوم میں تحقیق کا خلا پر نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر رفیع الدین صاحب مرحوم کی ایک تحریر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے جس میں ’’اسلامی علوم میں تحقیق کیسے کی جائے؟‘‘ کے موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

تحقیق کے لیے لائبریری بھی ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ رکھتی ہے۔ ہمارے ہاں مدارس میں لائبریریاں نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو طلبہ کو ان میں جاتے اور استفادہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ لاہور کے بڑے مدارس میں نے دیکھے ہیں۔ ان میں کوئی علمی رسائل نہیں آتے حتیٰ کہ اخبار تک نہیں آتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک لازمی لائبریری پیریڈ ہونا چاہیے تاکہ طلبہ کتب خانے میں وقت گزاریں۔ ان کو یہ تربیت دی جائے کہ کیٹلاگ کیسے استعمال کرنی ہے، کتاب کیسے ڈھونڈنی ہے۔ اسی طریقے سے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے انہیں مطالعاتی دورے کروانے چاہییں۔ انڈسٹریوں میں جانا چاہیے۔ اپنے مدرسے کے ماحول سے باہر نکل کر دنیا اور اس کے ہنگاموں کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے طلبہ کی تربیت کرنا چاہتے ہیں، ان کے ذہنی افق کو وسیع کرنا چاہتے ہیں تو ایسا کرنا ہوگا۔ مجتہد اور مفتی کی شرائط میں سے ایک لازمی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات کو جانتا ہو جن میں اس نے شریعت کا حکم دریافت کرنا ہے۔ جو آدمی اس ماحول کو ہی نہ سمجھتا ہو جس میں اس نے اجتہاد کرنا ہو تو وہ اجتہاد کا اہل کیسے ہوگا؟ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے کچھ عرصہ پہلے ماہنامہ الشریعہ میں یہ بات لکھی کہ ان کے سامنے کسی مدرسے کے مفتی صاحب کے سامنے بنک کے کسی معاملے کے متعلق استفسار آیا تو انہوں نے مولانا سے پوچھا۔ مولانا نے جواب دیا کہ مجھے تو بنکاری نظام اور اس کی تفصیلات کا پتہ نہیں کیونکہ میں نے مغربی نظام معیشت کا مطالعہ نہیں کیا، لہٰذا میں تو اس کا جواب نہیں دے سکتا۔ غرض یہ کہ ہمیں ذہنی وسعت پیدا کرنے کے لیے فکری سطح پرکچھ کام کرنے چاہییں۔

تقریر وتحریر کی مشق:

علم و تحقیق کی تربیت کے ساتھ ساتھ دین کی دعوت وتبلیغ کے لیے تحریر اور تقریر کی بھی تربیت ہونی چاہیے۔ دینی مدارس میں تحریر کی صلاحیت کو نشوونما دینے کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔ اس کے مقابلے میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دیکھیے۔ یونیورسٹی کا ہر شعبہ اپنا ایک میگزین شائع کرتا ہے اور طلبہ کو ان میں لکھنے کے لیے مقابلے کرنے پڑتے ہیں۔ ندوۃ العلما کی مثال لیجیے۔ وہاں کے فارغ التحصیل فصیح وبلیغ عربی میں تقریر اور تحریر پر قادر ہوتے ہیں جبکہ ہمارے مدارس میں شاذ ونادر ہی ایسے لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ ہم نے اکثر خطیبوں کو دیکھا ہے کہ وہ اردو بولتے ہوئے غلطیاں کرتے ہیں کیونکہ وہ اردو کا مطالعہ نہیں کرتے۔ تکمیل تعلیم کے بعد کتابیں نہیں پڑھتے۔ مطالعہ جاری رکھنا چاہیے۔ تحریر کی مشق ہونی چاہیے۔ دین بیزار لوگ روز بے ہودہ مضامین کے انبار لگائے جا رہے ہیں اور ان کی تحریریں بکثرت ہمارے اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔ ان کا جواب دینے کے لیے علما موجود نہیں ہیں اور ایسے لوگ بہت کم ہیں جن کی تحریر اچھی ہو۔

میں نے علما کی ایک مجلس میں یہ بات کہی جو سب نے مانی۔ میں نے کہا کہ میں نے لاہور کے مختلف علاقوں ڈیفنس، گلبرگ، اقبال ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن وغیرہ میں مسجدوں میں جا کر جمعہ کے خطبے سنے ہیں۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ۹۰ فیصد لوگ دوسری اذان کے وقت مسجد میں آتے ہیں یعنی وہ تقریر سننے نہیں آتے بلکہ نماز پڑھنے آتے ہیں۔ آخر لوگ کیوں علما کی تقریر نہیں سننا چاہتے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ اہل دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاشرے کو دین کے مطابق ڈھالیں۔ اگر وہ یہ نہیں کرتے تو وہ ناکام ہیں۔ تو علما کو موثر ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں کہ لوگ ان کی تقریر ہی نہ سننے آئیں، ان کی فریکونسی اور ہو اور جو دو کروڑ بچے دوسرے تعلیمی اداروں سے پڑھ کر نکل رہے ہیں، ان کی فریکونسی اور ہو۔ وہ اور طرح سے سوچتے ہوں اور ہمارے علما دوسری طرح سے سوچتے ہوں۔ 

۳۔ انتظامی تربیت

اسی طریقے سے انتظامی تربیت بھی ہونی ہے تاکہ طلبہ میں لیڈر شپ کی کوالٹی پیدا ہو۔ اس مقصد کے لیے طلبہ کو مختلف انتظامی کاموں میں شریک کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً تقریبات کا انتظام ان کے سپرد کیا جا سکتا ہے اور مختلف ذمہ داریاں ان کے مابین تقسیم کی جا سکتی ہیں۔ تقریب کا انتظام کیسے کرنا ہے، اس کی ضروریات کیا ہیں، اس طریقے سے انہیں تربیت دیں۔ اس میں وقت کی پابندی کا بھی اہتمام انہیں سکھائیں۔ اگر تقریب کے آغاز کا وقت دس بجے طے کیا گیا ہے تو اسے دس بجے ہی شروع ہونا چاہیے۔ اس تربیت کی عملی زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔ 

انتظامی تربیت سے خود اعتمادی آتی ہے، سلیقہ اور قرینہ آتا ہے۔ نظم وضبط پیدا ہوتا ہے۔ مدارس میں انتظامی کام کافی ہوتے ہیں۔ طعام وقیام کے امور ہوتے ہیں، اس کے لیے طلبہ کی ڈیوٹیاں لگائی جا سکتی ہیں، ناظم صلوٰۃ کا تقرر کیا جا سکتا ہے۔ صفائی کے امور کے جائزہ کے لیے صفائی کا ناظم بنایا جا سکتا ہے۔ طلبہ کو وقت پر جگانے، طعام گاہ کی صفائی وغیرہ کا جائزہ لینے، کھانے کی تقسیم کے معاملات، برتنوں کی صفائی وغیرہ کے سارے انتظامات طلبہ کے سپرد کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے ان کی صلاحیتیں بیدار ہوں گی۔

۴۔ جسمانی تربیت

جسمانی ورزش اور کھیلوں کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔ مجھے ڈر ہے کہ مدارس میں اس پر توجہ نہیں دی جاتی جبکہ لیکن سکولوں اور کالجوں میں ایک ادارے کی ٹیم دوسرے ادارے میں جاتی ہے اور وہاں کی ٹیم کے ساتھ کھیلتی ہے۔ انعامات دیے جاتے ہیں۔ یہ غیر اسلامی نظام نہیں۔ کھیل اور ورزش کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور اس میں مسابقت کی فضا پیدا کرنی چاہیے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے والیوں کو لکھا تھا کہ تیر اندازی کا انتظام کرو۔ یہ ساری چیزیں تربیت کے مختلف پہلو ہیں اور ان کا اہتمام کیا جانا چاہیے تاکہ ایک متوازن شخصیت وجود میں آئے اور اس کی صلاحیتوں کو نمو ملے۔ 

تربیت کا لائحہ عمل

ان ساری باتوں کی تربیت میں مدارس کی انتظامیہ کا بھی کردار ہے اور اساتذہ کا بھی، لہٰذا پہلے اساتذہ کی تربیت ہونی چاہیے۔ جامعہ نعیمیہ کے مہتمم ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب کے ساتھ اساتذہ کی تربیت کی بات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ ان سے بھی پہلے مہتممین کی تربیت ہونی چاہیے۔ ان کی نہیں ہوگی تو اساتذہ کی کہاں سے ہونے دیں گے؟ تو استاد، طلبہ کی تربیت کا بہت بڑا آلہ ہے۔ اسے یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ صرف معلم نہیں، مربی بھی ہے۔ جب وہ اپنے آپ کو طلبہ کی تربیت کا ذمہ دار سمجھے گا تو اسے اپنے کام کی نزاکت کا اندازہ ہوگا۔ اس کا سب سے پہلا کام یہ احساس کرنا ہے کہ طلبہ اسے ماڈل سمجھتے ہیں۔ جیسے استاد کرتا ہے، ویسے ہی طلبہ بھی کرتے ہیں۔ جیسے وہ سوچتا ہے، طلبہ بھی ویسے ہی سوچتے ہیں۔ ہمارے ایک استاد تھے، وہ کلاس میں آکر سب سے پہلے سگریٹ سلگاتے تھے۔ تو استاد کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ ایک ماڈل ہے۔ خود وہ اپنے آپ کو ماڈل نہ سمجھے، لیکن یہ دیکھے کہ اس کی سیرت وکردار ایسی ہونی چاہیے کہ طلبہ اس کی اتباع کر سکیں۔ تو دینی مدارس میں اساتذہ کی تربیت کا انتظام ہونا چاہیے اور اس میں ان کو دو باتیں سکھائی جائیں۔ ایک تو فنی تربیت کہ مثلاً تختہ سیاہ کو کیسے استعمال کیا جائے، سبق کیسے تیار کیا جائے وغیرہ۔ اور دوسرے نظریاتی تربیت جس کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ خود اچھا مسلمان کیسے بننا ہے اور دوسرا یہ کہ انہیں اپنے طلبہ کی تربیت کیسے کرنی ہے اور انہیں اچھا مسلمان کیسے بنانا ہے؟ استاد کا کام یہ ہے کہ وہ دین کو طلبہ کے سامنے پرکشش بنا کر پیش کرے تاکہ ان میں اس پر عمل کے لیے آمادگی پیدا ہو۔ دین کو پرکشش بنانے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ استاد خود دین پر عمل کرے۔ دوسرا یہ کہ اس کے اندر اخلاص اور طلبہ کی خیر خواہی کا جذبہ ہو۔ طلبہ یہ محسوس کریں کہ استاد ان کے لیے اخلاص رکھتا ہے۔ وہ ان کے ساتھ محبت سے پیش آئے۔ ڈنڈے مار کو آپ کسی کو وہ چیزیں نہیں سکھا سکتے اور نہ اس کے اندر وہ جوہر پیدا کر سکتے ہیں جو محبت اور شفقت کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ بد قسمتی سے مارپیٹ کا سلسلہ بعض مدارس میں، خاص طور پر حفظ کے درجات میں اب بھی جاری ہے۔ یہ ایک غلط طریقہ ہے۔ طلبہ کے ساتھ اپنے تعلق کو شفقت، نرمی اور محبت کی اساس پر استوار کرنا چاہیے تاکہ ان میں پڑھنے کے لیے آمادگی پیدا ہو اور تحکم کے بجائے وہ شراکت کے احساس کے ساتھ سیکھنے کا عمل جاری رکھیں۔ 

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمارے ہاں تربیت کے لیے وقت مخصوص نہیں کیا جاتا۔ مجھ سے اگر پوچھیں تو میں کہوں گا کہ چونکہ غایت ہی تربیت ہے، اس لیے کم از کم پچاس فی صد وقت تربیت کے لیے دینا چاہیے، جس کا ہمارے ہاں کوئی تصور نہیں۔ تربیت کے لیے الگ پیریڈ مخصوص کرنے چاہییں اور اگر مثال کے طور پر ۱۵۰۰ نمبر کے باقی مضامین ہیں تو ان میں کم از کم ۱۰۰ نمبر کا تربیت کا پرچہ شامل کریں۔ اس کو باقاعدہ لازمی پرچہ قرار دیں، یعنی جو تربیت کے پرچے میں فیل ہو، اس کو سارے امتحان میں فیل تصور کیا جائے۔ تربیت میں دیکھا جائے کہ کون طالب علم لڑائی جھگڑا کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، چوری کرتا ہے، وقت پر کلاس میں حاضر نہیں ہوتا وغیرہ۔ 

اس تربیت کا باقاعدہ نصاب بھی ہونا چاہیے۔ تاہم اگر مدارس کی انتظامیہ توجہ نہ دے تو میں سمجھتا ہوں کہ اساتذہ اپنے طور پر تزکیہ اور تربیت کا نصاب بنا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں تصوف کی بعض کتابیں شامل نصاب رہی ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ نے اس کا اہتمام کیا تھا لیکن بعد میں جب دیوبند کے تعلیمی نظام کی صورت میں اس میں ارتقا ہوا تو بعض تاریخی عوامل کی وجہ سے، جن کے تجزیے میں اس وقت میں نہیں پڑوں گا، تصوف کی کتابیں نصاب میں شامل نہ رہ سکیں۔ میرے خیال میں یہ نصاب میں ایک خامی ہے، اور تربیت اور تزکیے کا مواد نصاب میں لازماً شامل ہونا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ، امام غزالی اور دیگر اکابر تصوف کی چیزوں سے انتخاب کیا جا سکتا ہے۔ روایتی تصوف کے لٹریچر میں کچھ کمزوریاں اور خرابیاں بھی موجود ہیں۔ تازہ کاموں میں سے مولانا اشرف علی تھانویؒ کی چیزیں منتخب کی جا سکتی ہیں اور ایسا مواد چھانٹ کر نکالا جا سکتا ہے جو تصوف کی روایتی کمزوریوں اور بعض غیر اسلامی عناصر سے پاک ہو۔ نصاب کی خامی کو تو ایک اچھا استاد پورا کر سکتا ہے لیکن اچھے استاد کی خامی نہ نصاب پوری کر سکتا ہے اور نہ کوئی اور چیز۔ اس لیے اگر استاد تربیت کو اپنی ذمہ داری محسوس کرے تو وہ سو راستے ایجاد کر لے گا۔ 

ہر مدرسے میں ایک تربیت کمیٹی بننی چاہیے جس کے سربراہ مہتمم صاحب ہوں یا کسی سینئر استاد کو ناظم بنا دیا جائے اور کچھ صالح طلبہ کو اس کا رکن بنا لیا جائے۔ ہر کلاس کا انچارج استاد تربیتی کمیٹی کا رکن ہو۔ وہ باقاعدہ بیٹھ کر میٹنگیں کریں۔ کچھ پرابلم کیسز ہوتے ہیں۔ بعض طلبا بگڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی اصلاح کے لیے، ان کے والدین کو بلانے کے لیے ایک کمیٹی بنا لیں اور والدین سے رابطہ رکھیں۔ پھر تربیت کمیٹی اپنے طور پر پورے سال کا ایک پروگرام بنا سکتی ہے مثلاً آپ ہر ہفتے مختلف اخلاقی خوبیاں پیدا کرنے اور برائیوں سے بچنے کے لیے کسی ایک چیز کو موضوع بنا سکتے ہیں۔ مثلاً اس ہفتے ہمارے پیش نظر غیبت کی مذمت ہے۔ طلبہ کوبتایا جائے کہ غیبت کیا ہے، شریعت نے اس کی کیسے مذمت کی ہے، معاشرے میں اس سے کیا فساد پیدا ہوتا ہے۔ ان باتوں کو ہر کلاس میں تختہ سیاہ پرلکھ دیا جائے۔ طعام گاہ میں لکھ دیا جائے۔ اس طرح مختلف پہلوؤں سے اس چیز کو اجاگر کر کے اس کی قباحت کا احسا س زندہ کیا جائے۔ اسی طرح ہر ہفتے کسی نئی چیز پر توجہ مرکوز کی جائے۔ 

حوصلہ افزائی کے لیے انعام بھی رکھا جا سکتا ہے مثلاً پچھلے ایک ماہ میں جن طلبہ کی تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی، ان کو کوئی انعام دے دیا جائے۔ اس طریقے سے بعض لوگوں نے تجربات کیے ہیں۔ راول پنڈی میں عبد الجبار غازی صاحب نے جو جماعت اسلامی سے الگ ہوئے ہیں، ایک تجربہ کیا۔ انہوں نے گراف بنا کر ہر کلاس میں لٹکا دیے۔ اس پر لڑکوں کے نام لکھے ہوتے تھے۔ جو طالب علم خوبی کے کام زیادہ کرتا، اس کے دو نمبر زیادہ ہو جاتے۔ اس کے برعکس اگر کسی نے گالی دی، تو اس کے دو نمبر کم ہو گئے۔ کسی نے جھگڑا کیا، تو اس کے چار نمبر کم ہو گئے۔ والدین نے کوئی شکایت کی تو دو نمبر اور کم ہو جاتے۔ اس طرح گراف کے ذریعے سے ہر طالب علم کے اخلاق وکردار کا پتہ چلتا رہتا اور طلبہ میں اچھے نمبروں کے لیے مسابقت پیدا ہو جاتی۔

تو یہ تربیت کے مختلف پہلو اور اس کے چند اسالیب ہیں۔ غور اور تجربے سے مزید کئی تدبیریں اختیار کی جا سکتی ہیں۔ بہرحال طلبہ کو اچھے کاموں کی طرف راغب کرنے اور ان میں برے کاموں سے بچنے کا جذبہ بیدار کرنے کا ایک پورا نظام مدرسے میں ہونا چاہیے۔ 

جب ہم تربیت کے پہلو سے غور کرنا شروع کریں گے تو کافی کتابیں سامنے آنا شروع ہو جائیں گی، لیکن فوری طور پر دو چیزوں کی طرف میں اشارہ کر سکتا ہوں۔ ایک تو پروفیسر سید سلیم صاحبؒ کا چھوٹا سا مقالہ ’’درس گاہ کی ہم نصابی سرگرمیاں‘‘ کے نام سے ہے۔ اور ایک کوشش میں نے بھی کی تھی ’’تعلیمی ادارے اور کردار سازی‘‘ کے عنوان سے۔ یہ دونوں کتابیں تعلیمی ادارے میں تربیت سیرت وکردار سے بحث کرتی ہیں۔ اگرچہ ان کا پس منظر دینی مدارس کا نہیں ہے لیکن مسائل مشترک ہیں، مثلاً بچے کیوں بگڑتے ہیں، ان کی اصلاح کیسے ہونی چاہیے، سیرت وکردار کی خوبیاں کیسے پیدا کرنی چاہییں، اس کے لیے کیا ماڈل سامنے رکھنے چاہییں،کیا کیا گر استعمال کرنے چاہییں وغیرہ۔ میں نے اس کتاب میں اسلامی تربیت کے ۳۱ گر لکھے ہیں۔ ان سے آپ کو کچھ بنیادی مواد مل جائے گا۔

آخر میں، میں دوبارہ عرض کروں گا کہ میری گزارشات محض اخلاص اور دردمندی پر مبنی ہیں۔ میری باتوں سے آپ کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن یہ موضوعات بہرحال اس قابل ضرور ہیں کہ آپ ان کے بارے میں سوچیں۔ دین محض کتابوں میں نہیں لکھا ہوتا۔ یہ معاشرے کی صورت میں ایک زندہ حقیقت ہوتا ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے نبی کی امت کو یہ توفیق بخشی کہ اسلامی معاشرہ پچھلی چودہ صدیوں سے بلاانقطاع قائم ہے۔ اس تسلسل کو بقا اور استحکام بخشنے کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ معاشرہ دین سے جڑا رہے۔ یہ کام علما کا ہے لہٰذا ان کے اور معاشرے کے مابین ہم آہنگی ناگزیر ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ علما اس معاشرے کی ذہنی، فکری، جسمانی اور مادی ضرورتوں کو سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو عمل کی توفیق دیں۔ آمین

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(جنوری و فروری ۲۰۰۴ء)

تلاش

Flag Counter