(۴ دسمبر ۲۰۰۳ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اساتذہ کے دو روزہ مشاورتی اجتماع کی پہلی نشست میں پڑھا گیا۔)
فارسی زبان وادب
درس نظامی میں سب سے پہلے جس زبان کو اولیت حاصل ہے، وہ فارسی ہے ا س لیے کہ عربی گریمر یعنی صرف ونحو کی بعض کتب فارسی میں لکھی گئی ہیں جو ہمارے نصاب میں داخل ہیں۔ نیز اکثر علوم وفنون کے تراجم، شروح اور حواشی فارسی میں ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ شروع میں اس معیار کی فارسی پڑھائی جائے کہ پیش آمدہ کتب اور ان کے تراجم، شروح اور حواشی کے پڑھنے میں آسانی ہو اور بخوبی ان کو سمجھا جا سکے۔ نیز مختلف موضوعات پر اکابر علما اور مشائخ ہند کی اکثر وبیشتر کتب فارسی میں ہیں۔ اگر شروع میں فارسی زبان میں رسوخ پیدا نہ ہو تو بعد میں اس کی تلافی مشکل نظر آتی ہے۔ ایک مستند عالم اگر فارسی نہیں جانتا، تو یہ بہت بڑی کمزوری ہے اور جو اپنے بزرگوں کے علوم وفنون سے استفادہ نہ کر سکے، تو یہ کتنی بڑی محرومی ہے۔
فارسی نصاب میں جن علما کی تالیفات کو شامل کیا گیا ہے، ان میں شیخ سعدیؒ ہیں۔ ان کی ابتدائی کتاب ’کریما‘ اور انتہائی کتب ’بوستان‘ اور ’گلستان‘ ہیں۔ شیخ شرف الدین بخاریؒ کی کتاب ’نام حق‘ کا وہ پایہ نہیں ہے جو زبان اور بیان کے اعتبار سے ایک درسی کتاب کا ہونا چاہیے۔ مصنف کی قبولیت اور مبتدی کے لیے طہارت اور نماز کے ضروری اور آسان مسائل نصاب میں اس کے داخل ہونے کا باعث ہوئے ہیں۔ شیخ فرید الدین عطارؒ کی کتاب ’پند نامہ‘ جس میں سلوک اور ہدایت کے راہنما اصول بیان کیے گئے ہیں، نصاب میں داخل ہے۔ اسی طرح مولانا جامیؒ اور علامہ نظامیؒ کی ’زلیخا‘ اور ’سکندر نامہ‘ پڑھائی جاتی ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ جس نے ’پندنامہ‘ پڑھا اور اسے درویشی اور معرفت حاصل نہ ہوئی، اس نے ’پندنامہ‘ نہیں پڑھا۔ جس نے ’بوستان‘ اور ’گلستان‘ پڑھی اور اسے تجربات عالم سے آگاہی نہ ہوئی، اس نے یہ کتابیں نہیں پڑھیں۔ اسی طرح جس نے ’زلیخا‘ پڑھی اور عشق مجازی سے عشق حقیقی تک رسائی حاصل نہ کر سکا، اور جس نے ’سکندرنامہ‘ پڑھا اور اس میں فنون حربیہ سے شناسائی اور جرات پیدا نہ ہوئی، اس نے یہ کتابیں نہیں پڑھیں۔
اس نصاب کی تکمیل پر حسب صلاحیت سال یا دو سال لگ جاتے ہیں۔ زبان دانی کے ساتھ اس میں تہذیب اخلاق اور اصلاح اعمال کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔
عربی صرف ونحو
فارسی نصاب کی تکمیل کے بعد عربی گریمر کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اس کے دو اہم جزو ہیں، علم صرف اور علم نحو۔ علم صرف میں عربی الفاظ اور ان کے اشتقاق کے بارے میں بحث ہوتی ہے، ساتھ ہی ان الفاظ میں جو تغیر رونما ہوتا ہے، اس کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے لیے کچھ قوانین اور ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے۔ متعلم جب الفاظ کے اشتقاق اور اس کے متعلقہ قواعد میں مہارت پیدا کر لیتا ہے تو اس کے لیے صیغہ کی پہچان آسان ہو جاتی ہے۔ ’صیغہ‘ کہتے ہیں لفظ کی موجودہ شکل کو۔ علم صرف سے اس کی اصل ہیئت کا علم ہوتا ہے کہ یہ لفظ اصل میں کیا تھا اور اس میں یہ تبدیلی کیسے رونما ہوئی۔ نیز یہ مجرد ہے یا مزید، اور کس باب سے ہے۔ غرضیکہ اس کا کوئی گوشہ مخفی نہ رہے۔ ’صیغہ‘ کی پہچان علم ’صرف‘ کا مقصود اصلی ہے۔
علم صرف کے بعد علم نحو کا آغاز ہوتا ہے جس میں مفرد الفاظ کے بجائے جملہ اور کلام پیش نظر ہوتا ہے کہ اس میں ایک لفظ کا دوسرے سے کس طرح کا تعلق ہے۔ پھر یہ لفظ معرب ہے یا مبنی۔ معرب ہے تو اس پر کون سا اعراب ہے، رفع نصب، جر یا جزم۔ غرضیکہ الفاظ کی ترکیب، تعلیق اور اعراب اس علم میں مطلوب ہیں۔ عربی گریمر اور صرف ونحو کتنا عمیق علم ہے اور اس میں کس قدر محنت درکار ہے، اس کا کچھ اندازہ مندرجہ ذیل حکایت سے ہوگا۔
ابن جنی جامع موصل میں نحو پڑھا رہے تھے، وہاں سے ابو علی فارسیؒ کا گزر ہوا۔ انہوں نے ان سے علم صرف کا کوئی مسئلہ دریافت کیا۔ وہ جواب دینے میں کامیاب نہ ہوئے۔ ابو علیؒ نے کہا، تم نے کچے انگوروں کا منقیٰ بنا لیا ہے۔ اس دن سے ابن جنیؒ نے ابوعلیؒ کا دامن پکڑا حتیٰ کہ چالیس سال گزر گئے۔ جب ابو علیؒ فوت ہوئے تو ابن جنیؒ اپنے استاد کی مسند پر بیٹھے۔ ابن جنیؒ کے بارے میں متنبی کہا کرتے تھے کہ یہ ایک ایسا شخص ہے کہ اکثر لوگ اس کی قدر کو نہیں پہچانتے۔ ابن جنیؒ کبھی متنبی کے سامنے اس کے اشعار نہیں پڑھا کرتے تھے۔ وہ اپنے کو اس سے کہیں بڑا سمجھتے تھے۔
ہمارے سلسلہ تعلیم میں اس امر کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے کہ ایک درجے میں اچھی طرح مہارت حاصل کیے بغیر دوسرے درجے کی تعلیم کا آغاز نہ کیا جائے۔ علم نحو میں ’ماءۃ عامل‘ کے اشعار میں جو عوامل نحو ذکر کیے گئے ہیں، ان کی امثلہ اور تراکیب اچھی طرح حفظ کرا کے ’شرح ماءۃ عامل‘ شروع کرائی جائے۔ اس میں مسائل اور تراکیب کا مرحلہ اہم ہے۔ اس کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے کیونکہ نحوی ترکیب سمجھے بغیر عربی کا پڑھنا اور سمجھنا دشوار ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ نصاب کی مروجہ کتب پر انحصار نہ کیا جائے اور یہ کوشش کی جائے کہ فن کی نصابی کتب کے علاوہ ایک دو اور اضافی اور مفید کتابیں پڑھی جائیں۔ بعض علما ترکیب واعراب میں مبتدی کی استعداد بڑھانے کے لیے قرآن مجید کی کسی سورت یا پارہ کا انتخاب کرتے ہیں اور اس میں مبادئ ترکیب وقواعد نحویہ کا اجرا کراتے ہیں۔
’ہدایۃ النحو‘ ابو حیان اندلسیؒ کی تصنیف ہے۔ اس میں علامہ ابن حاجبؒ کی مشہور ومعروف کتاب ’کافیہ‘ کے مسائل کی تسہیل کی گئی ہے اور ان کی امثلہ اور شواہد کو واضح کیا گیا ہے تاکہ اس کے بعد پڑھی جانے والی کتاب جو اصل الاصول ہے، اس کے سمجھنے میں مدد مل سکے۔ اس کتاب میں وہ اکثر وبیشتر نحوی مسائل آ گئے ہیں جو ’کافیہ‘ میں ہیں۔ ’کافیہ‘ میں جس بات کو مد نظر رکھا گیا ہے، وہ عبارت کا ایجاز واختصار ہے۔ اس کے پڑھنے سے قبل ضروری ہے کہ اس کے مسائل پر عبور حاصل کر لیا جائے۔ ’کافیہؒ کی عبارت بہت پیچیدہ ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ ’کافیہ‘ میں اصل مقصود اس کی عبارت کا سمجھنا ہے۔ مسائل کا درجہ ثانوی ہے۔ بعض مدارس میں اس کی جگہ ’الفیہ ابن مالکؒ ‘ پڑھاتے ہیں جس میں مسائل نحویہ کو بمع امثلہ سہل انداز میں لایا گیا ہے۔ اس کے اشعار ضبط کر لینے سے کافی حد تک مسائل پر عبور حاصل ہو جاتا ہے۔ حفظ کر کے مشکل سے مشکل اعراب میں ’الفیہ‘ کے اشعار سے برجستہ استدلال کیا جا سکتا ہے۔ ’کافیہ‘ متن المتون کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے بعد اس کی شرح جو کہ ’شرح جامی‘ کے نام سے معروف ہے، مطالعہ کی کتاب ہے۔ ’کافیہ‘ کو سمجھ کر پڑھنے والا طالب علم ’شرح جامی‘ کے اکثر وبیشتر مطالب کو اپنے مطالعہ سے حل کر لیتا ہے۔ درس میں استاد کی تقریر سے اس کا اطمینان ہو جاتا ہے کہ مطالعہ میں، میں نے جوسمجھا تھا، وہ صحیح ہے۔ اس طرح مطالعہ کا شوق پیدا ہوتا ہے اور عادۃً مطالعہ سے مشکل مقامات حل کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
’شرح جامی‘ کے حواشی ’عبد الغفور‘، ’لاریؒ ، اور ’تکملہ ملا عبد الحکیم سیالکوٹی‘ سب میں مطالعاتی نظام ہے۔ اس سے علمی حقائق اور دقائق سے واسطہ پڑتا ہے جس کے توسط سے مشکل سے مشکل مقامات حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
عربی ادب
محاورات عرب اور ان کے اسلوب میں کلام کرنا، محل وموقع کی مناسبت سے ضرب الامثال لانا، برجستہ موضوع پر خطاب کے لیے تیار رہنا، مختلف پیرایے میں بیان پر قدرت اس فن کا موضوع ہے۔ ادبی ذوق پیدا کرنے کے لیے ہر کتاب کے مناسب، اس کتاب کے الفاظ ومحاورات کا خیال کرتے ہوئے استاد اردو کی ایک سادہ عبارت املا کرائے اور متعلم اس کی تعریب پیش کرے۔ مثلاً ’نفحۃ الیمن‘ درس نظامی میں ادب عربی کی پہلی کتاب ہے جسے احمد یمنی نے تصنیف کیا۔ تیرہویں صدی کے ادیب تھے۔ مولانا رشید الدین خان دہلوی صاحب ’’المکاتیب‘‘ کے دوست تھے اور انہی کے توسط سے مولانا شاہ عبد العزیزؒ کے ساتھ بھی ان کی ادبی عربی خط وکتابت ہوتی رہتی تھی۔ ’نفحۃ الیمن‘ میں مختلف موضوعات پر عجیب وغریب حکایات تحریر کی گئی ہیں۔ تجربات کا خزینہ ہے۔ نحوی تراکیب کے لیے اس کی عبارات موزوں ہیں۔ ادبی کتب کی تدریس کے وقت زبان وبیان پر عبور حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ نحوی مشق کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے تاکہ متعلم اپنی ابتدائی کتابوں میں عبارت اور ترکیب میں کمال پیدا کر لے اور اسے آئندہ مطولات میں دشواری کا سامنا نہ ہو۔
علم معانی
اس علم سے مقصود یہ ہے کہ کلا م میں لفظی اور معنوی اصلاح کی جائے۔ اس میں کسی قسم کا عیب نہ ہو اور مقاصد اور مطالب کے لیے ایسا اسلوب بیان اختیار کیا جائے جس سے کسی قسم کا خفا باقی نہ رہے اور ترکیب ادا بھی حسین اور دل آویز ہو۔ اس علم کی نزاکت کو ایک حکایت سے سمجھا جا سکتا ہے۔
کسائیؒ نے کہا کہ عرب کہتے ہیں: ’ان الزنبور اشد لسعۃ من النحلۃ فاذا ہو ایاہا‘۔ سیبویہ نے کہا کہ یہ غلط ہے۔ مثل یوں ہے: ’فاذا ہو ہی‘۔ اس پر مناظرہ کی نوبت آ گئی۔ یہ طے ہوا کہ اس مثل کو کسی خالص اعرابی سے دریافت کر لیا جائے۔ فریقین کی تحقیق اور وسعت علم کا اس کو دارومدار ٹھہرایا گیا۔ خلیفہ امین نے جو کسائی کے شاگرد تھے، ایک اعرابی کو بلایا اور اس سے اس مثل کے بارے میں پوچھا۔ اعرابی نے سیبویہ کے کلام کی تائید کی۔ امین نے اس پر زور دیا کہ تم کسائی کے کلام کی تائید کرو۔ اعرابی نے جواب دیا کہ میری زبان سے غلط مثل نہیں نکل سکتی، اس لیے میری زبان پر ’فاذا ہو ہی‘ ہی جاری ہوتا ہے۔ امین نے کہا کہ مضائقہ نہیں، لیکن تم سے ایک شخص پوچھے گا کہ سیبویہ یوں کہتے ہیں اور کسائی کا یہ قول ہے، ان دونوں میں سے حق پر کون ہے؟ تم کہنا کہ کسائی حق پر ہیں۔ اعرابی نے کہا کہ ہاں یہ کہنا ممکن ہے۔ القصہ ’فاذا ہو ہی‘ اور ’فاذا ہو ایاہا‘ میں لفظی طور پر صرف ضمائر کا فرق ہے اور ضمیر بھی دونوں میں مونث ہے لیکن یہ اتنی بڑی نازک بات تھی کہ اس پر نحو کے دو اماموں کا مناظرہ ہوا۔
واضح رہے کہ قرآن عربی زبان میں ہے، جس ذات پر اتارا گیا وہ بھی عربی ہے، اس لیے عربی زبان کا اس کے قواعد وضوابط کے ساتھ اور محاورات کے توسط سے حاصل کرنا لازمی ہے۔ انا انزلنہ قرآنا عربیا لعلکم تعقلون (یوسف) ’’ہم نے اس کتاب کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ تم سمجھ سکو‘‘۔ بلسان عربی مبین (شعرا) ’’قرآن واضح عربی زبان میں ہے۔‘‘ وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ (ابراہیم) ’’ہم نے کسی رسول کو پیغام دے کر نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان کے موافق۔‘‘
ان آیات سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اور اس پر نازل کردہ کتاب کی اصل زبان کا سیکھنا فرض ہے تاکہ علوم الٰہیہ اور علوم نبویہ کا علیٰ وجہ البصیرۃ کماحقہ ادراک کیا جا سکے۔
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
عربی علوم میں اس درجہ کے حصول کے بغیر قرآن وحدیث کا صحیح فہم پیدا نہیں ہو سکتا، چہ جائیکہ کوئی شخص اس سلسلے کا ہادی اور امین ہو۔ کتنا بڑا ظلم ہے کہ محض بی اے اور ایم اے کی سطح پر عربی کے امتحان پاس کر لینے والوں کو ’مولانا‘ کہا دیا جاتا ہے۔
علم فقہ
’فقہ‘ کہتے ہیں فہم وشعور کو۔ فقہا کی اصطلاح میں ’فقہ‘ ایک مشہور علم ہے جس میں احکام بیان کیے جاتے ہیں، خواہ وہ عبادات سے متعلق ہوں یا معاملات سے، قرآن مجید کی نصوص صریحہ یا احادیث صحیحہ کی واضح عبارات سے ثابت ہوں یا ان کا ثبوت قرآن وحدیث سے بطور استنباط کے کیا گیا ہو، یا اجماع اور قیاس کے واسطہ سے۔ ان سب امور پر فقہ کا اطلاق ہوتا ہے۔
دنیا میں نئے وقائع وحوادث کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ فقہی مسائل واحکام کا دائرہ ان کی نسبت بہت تنگ اور محدود ہے، لہٰذا داعیہ پیدا ہوا کہ فقہ کے ایسے قواعد وضوابط وضع کیے جائیں جن کی مدد سے ان مسائل کا استخراج واستنباط کیا جا سکے جو ابھی تک وجود میں نہیں آئے۔ ائمہ مجتہدین نے قرآن واحادیث کی روشنی میں اس طرح کے قواعد وضع کیے ہیں جن کو ’اصول فقہ‘ کہتے ہیں۔
جو شخص روایت اور درایت دونوں صفات سے متصف ہو، وہ فقیہ اور اصولی کہلانے کا مستحق ہے۔ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں: ان یکون صاحب حدیث لہ معرفۃ بالفقہ لیعرف معانی الآثار او صاحب فقہ لہ معرفۃ بالحدیث لئلا یشتغل بالقیاس فی المنصوص علیہ۔ یعنی محدث ہو جو فقہ کی معرفت بھی رکھتا ہو تاکہ آثار واحادیث کے معانی کو اچھی طرح پہچان سکے، یا فقیہ ہو اور ساتھ اسے حدیث کی معرفت حاصل ہو تاکہ منصوص علیہ مسائل میں قیاس کے درپے نہ ہو۔
فقہ حنفی کی وہ کتب مطولہ جو روایت اور درایت پر مشتمل ہیں اور جن میں ادلہ، معاریض، مباحث اور مناظرہ ہے، وہ تین ہیں:
(۱) شمس الائمہ سرخسی کی ’’المبسوط ‘‘ جو نہ صرف دلائل اور براہین کا مجموعہ ہے بلکہ اس فقیہ نے مسائل اور مواقف راجحہ کی حکمت اور فضیلت بیان کرنے کا بھی التزام کیا ہے۔ عبارت نہایت فصیح، آسان اور قریب الفہم ہے اور ہر مسئلہ کو احادیث وآثار سے واضح کیا ہے۔ یہ خصوصیت کسی اور فقیہ کے ہاں دیکھنے میں نہیں آئی۔ یاد رہے کہ امام سرخسیؒ نے مبسوط کی پندرہ جلدیں اوزجند، خراسان کے جیل خانے میں، جو ایک بند کنویں کی شکل میں تھا، اپنی یادداشت سے املا کروائیں۔ ان کے تلامذہ کنویں کے دہانے پر بیٹھ کر اسے قلم بند کر لیتے تھے۔ باقی کی پندرہ جلدیں انہوں نے بالمشافہہ پڑھائیں۔ حاکم شہیدؒ نے امام محمدؒ کی کتب ستہ یعنی الجامع الصغیر، الجامع الکبیر، المبسوط، الزیادات، السیر الصغیر اور السیر الکبیر کی تلخیص کی اور اس کا نام ’’الکافی‘‘ رکھا۔ سرخسی کی ’’المبسوط‘‘ اس کی شرح ہے۔
(۲) ملک العلماء علامہ کاسانی کی ’’بدائع الصنائع ‘‘۔ انہوں نے اپنی اس اچھوتی تصنیف میں فقہ کے ایسے اصول قائم کیے ہیں جو ان شاء اللہ رہتی دنیا تک آنے والے حوادث کے لیے کافی ہوں گے۔ حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ فرماتے ہیں کہ فتاویٰ شامیہ میں اگر فقہی جزئیات بکثرت پائے جاتے ہیں لیکن اگر جدید مسائل میں اصول وکلیات دیکھنے ہوں، تو اس کے لیے ’بدائع الصنائع‘ سے رجوع کرنا چاہیے۔
(۳) علامہ برہان الدین مرغینانی کی ’’الہدایہ‘‘ ۔ ائمہ اربعہ کے مابین دلائل کا تلاطم اور تسلسل، پھر امام اعظم ابو حنیفہؒ اور صاحبینؒ کے مابین دلائل کا توازن اور تبادلہ، اس کے بعد ترجیح، یہ ایسے پہلو ہیں جن سے قاری کو علم فقہ، اصول فقہ اور ساتھ ہی جدال بالاحسن کا فن آ جاتا ہے اور اسے سمجھ کر پڑھنے والا اس فن کا ماہر کہلاتا ہے۔ درس نظامی میں ’ہدایہ‘ کی چاروں جلدیں داخل نصاب ہیں۔
علم منطق
منطق، نطق سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی بات کرنے اور بولنے کے ہیں لیکن مناطقہ کی اصطلاح میں اس کے معنی ’ادراک‘ کے ہیں۔ تنہا ادراک بھی منطق نہیں بلکہ کسی مسئلہ کو اس کے کلیات اور اصول کے ذریعے کماحقہ سمجھنا، بدیہی اور عقلی استدلال کے ذریعے مجہول اور نظری نتائج اخذ کرنا منطق کا موضوع ہے۔ اصل میں یہ یونانیوں کا مصطلح فن ہے۔ وہ اس کے ذریعے اہل اسلام میں تشکیک پیدا کر کے ان کو ان کے معتقدات سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے تھے تو ہمارے قدما اہل اسلام نے اس فن کو نصاب میں داخل کیا تاکہ ان کے استدلالات سے اسلامی اصولوں کو ثابت کیا جائے اور انہی کی منطق سے اسلام کے خلاف ان کے دعاوی کا رد کیا جائے۔ اسی سلسلے میں امام غزالیؒ کی کتاب ’تہافت الفلاسفۃ‘ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی کتاب ’الرد علی المنطقیین‘ ہے۔ مشہور ہے کہ اگر ایک شخص سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت نہیں کر سکتا تو وہ منطقی نہیں ہے۔ ہم اسے انقلاب استدلال سے تعبیر کرتے ہیں۔
تاریخ
یہ ایک طبعی اور فطری موضوع ہے۔ خوراک اور لباس کی طرح ہر حساس شخص کو اس سے پالا پڑتا ہے اس لیے تاریخ کی کسی اہم کتاب کو درس نظامی کے نصاب میں شامل نہیں کیا گیا، لیکن یہ ایک ایسا ضروری امر ہے کہ اس کے بغیر اسلامی تاریخ اور اسلامی سیاست کے موضوعات تشنہ رہ جاتے ہیں۔ اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ارباب علم کو اس میں افادیت کی حامل کتب کو داخل نصاب کر لینا چاہیے۔
دورۂ تفسیر
قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی خدمت میں حضرت مولانا حسین علی (آف واں بھچراں، میانوالی) نے جب ۱۳۰۱ھ میں دورۂ حدیث کی تکمیل کی تو آپ نے انہیں ارشاد فرمایا کہ مولانا محمد مظہر نانوتویؒ سے قرآن کی تفسیر پڑھ لو، تو آپ نے مظاہر العلوم سہارنپور میں ۱۳۰۲ھ میں ان سے تفسیر پڑھی۔ حضرت مولانا حیدر حسن ٹونکیؒ فرماتے ہیں کہ مولانا محمد مظہر نانوتویؒ کا طریقہ یہ تھا کہ سب سے پہلے وہ علماے کرام کو تفاسیر متداولہ (مدارک، خازن، جلالین، بیضاوی) کا مطالعہ کراتے، پھر شاہ عبد القادر دہلویؒ کا ترجمہ اور اس کے حواشی ’موضح قرآن‘ کا درس دیتے تھے تاکہ اس ترجمہ اور اس کے حواشی کے فوائد کی قدرومنزلت کا پتہ چلے اور امام شاہ ولی اللہؒ اور ان کے خانوادہ کا فن تفسیر میں مقام معلوم ہو۔
امام شاہ ولی اللہ اپنے وصیت نامہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’قرآن عظیم را درس گوید بایں صفت کہ صرف قرآن بخواند بغیر تفسیر وترجمہ گوید وہرچہ در اعراب وشان نزل مشکل باشد متوقف شود وبحث نماید وبعد از فراغ تفسیر جلالین را بقدر درس بیند۔ دریں طریق فیضہا است‘‘
یعنی قرآن مجید کا اس طرح درس دیں کہ تفسیر کے بغیر صرف ترجمہ بتلائیں اور نحو یا شان نزول میں جہاں مشکل ہو، ٹھہر جائیں اور تحقیق کریں۔ اس سے فراغت کے بعد تفسیر جلالین کا درس کی مقدار مطالعہ کریں۔ اس طریقے میں بہت فیوض ہیں۔
حضرت مولانا محمد مظہر نانوتویؒ کے توسط سے حضرت مولانا حسین علیؒ کو فن تفسیر کا فیضان الٰہی نصیب ہوا اور وہ عمر بھر قرآن کا درس دیتے رہے۔ وہ توحید کے مبلغ اور داعی تھے اور ان کا فیض جاری وساری ہے۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ کے حکم سے حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے دہلی میں ’نظارۃ المعارف‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس میں ولی اللٰہی طریقے پر قرآن کی تفسیر اور ان کی کتاب ’حجۃ اللہ البالغہ‘ دو اہم موضوع تھے۔ حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ چھ ماہ میں تفسیر مکمل کراتے تھے۔ مولانا ابو الکلام آزادؒ نے کلکتہ میں ’دار الرشاد‘ کے نام سے قرآنی ادارہ قائم کیا اور علماے کرام کے لیے چھ ماہ میں سورہ فاتحہ کا درس ہوتا تھا۔ اس ترتیب اور طریق تعلیم کو دورۂ تفسیر کہتے ہیں اور امام شاہ ولی اللہؒ اس کے موجد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہند وپاک میں امام شاہ ولی اللہؒ کے دیگر آثار وتبرکات کی طرح دورۂ تفسیر بھی معمول بہ ہے۔
دورۂ حدیث
آج سے تین سو سال قبل دورۂ حدیث مشکوٰۃ شریف تک پڑھایا جاتا تھا اور شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کی شروح کے مطابق اس کی تفصیل وتحقیق کی جاتی تھی۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے صحاح ستہ اور موطا امام مالک کو دورۂ حدیث کے نصاب میں شامل کر کے احادیث نبویہ کی حتی الوسع بڑی خدمت سرانجام دی ہے اور اس کے بعد دیگر کتب احادیث کو مطالعہ پر موقوف رکھا ہے۔
تکمیل
تکمیل سے ہماری مراد درج ذیل امور ہیں:
۱۔ ہر فن کی انتہائی کتب، مثلاً امور عامہ، متن متین اور شرح چغمینی وغیرہ۔
۲۔ تخصص فی الفقہ والافتاء، تخصص فی الحدیث، تخصص فی الکتابۃ والانشاء، تخصص فی المجادلۃ مع الفرق الباطلۃ
۳۔ مشائخ صوفیہ مثلاً امام غزالیؒ ، شیخ ابن عربیؒ ، امام مجدد الف ثانیؒ ، مولانا رومیؒ ، امام شاہ ولی اللہؒ ، قاسم العلوم والخیرات مولانا محمد قاسم نانوتویؒ وغیرہ کی کتب میں تحقیق وتفتیش۔
۴۔ قومی زبان میں تحریر وانشا اور تصنیف وتالیف میں تخصص
الحاصل درس نظامی کے نصاب میں دیگر علوم اصول فقہ، علم کلام، فلسفہ وغیرہ موضوعات کی اہم کتب داخل ہیں۔ ہماری گفتگو کا موضوع درس نظامی اور اس میں پڑھائے جانے والے علوم کی افادیت ہے، درس نظامی میں شامل کتب پر سیر حاصل تبصرہ نہیں۔ اس نصاب کی تکمیل سے ایک شخص اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ خلق خدا کی راہنمائی کرے، علم وعمل کی راہ پر چل کر اپنے آپ کو بطور نمونہ پیش کر سکے۔ درس نظامی ایک ایسا نصاب ہے جسے صدہا سال سے بطور تجربہ پڑھا گیا اور پڑھایا جاتا رہا ہے۔ اس پر عبور حاصل کرنے سے اس قدر خداداد قابلیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ تنہا اسلام پر کیے گئے مطاعن کا جواب دے سکتا ہے اور اس سے وہ ملکی امارت اور خلافت کا بھی استحقاق رکھتا ہے۔
اس نصاب میں تبدیلی بایں معنی کہ جس زبان میں قرآن اترا ہے، وہ زبان بدل دی جائے اور ادب قدیم کے بجائے ادب جدید پڑھایا جائے، یہ علم نہیں ہوگا بلکہ جدید قسم کی جہالت ہوگی، البتہ یہ ضروری ہے کہ ادب جدید اور ادب قدیم دونوں سے استفادہ کیا جائے۔ مکالمہ اور محادثہ، مراسلت اور مقالات اور روزہ مرہ معاملات میں ان سے کام لیا جائے۔
حفظ وضبط
بعض اہل علم یہ خیال کرتے ہیں کہ العلم دانستن، یعنی علم جاننے کا نام ہے جبکہ حفظ کرنا ایک اضافی امر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ اس سلسلے کی بہت بڑی کاہلی اور کمزوری ہے۔ اگر کسی جگہ ہنگامی طور پر حالات حاضرہ کے متعلق کچھ بیان کرنے کی نوبت آئے تو ایسے لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کی بہت بڑی کوتاہی ہے۔ اور کچھ نہیں تو کیا موضوع سے متعلق قرآن مجید کی آیات اور احادیث نبویہ سے آنحضرت ﷺ کے چند فرامین اپنی یادداشت سے نہیں سنا سکتے؟ یہ تو پھر وہی بات ہوگی جس پر اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاریٰ کی مذمت کی ہے: ونسوا حظا مما ذکروا بہ (مائدہ) ’’وہ اپنی کتاب میں سے اس قدر حصہ بھول گئے جس میں ان کو خدا کی یاد دلائی گئی تھی۔‘‘ قرآن وحدیث کا اچھا خاصا حصہ یاد کر کے اسے بار بار دہرانا چاہیے۔ اس یادداشت کو ہم مطالعہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی ذمہ داری انبیا، ربانیین اور متبحر علما کے سپرد کی ہے۔ ’ربانی‘ کہتے ہیں اس فقیہ عالم کو جو اپنے علم پر عمل پیرا ہو، جو خلق خدا کی تربیت کر کے انہیں ابتدائی مدارج سے انتہائی مدارج پر پہنچا دے۔ ’حبر‘ کہتے ہیں اس ماہر اور کامل عالم کو جو اپنے شعبہ میں مثالی ہو۔ انہی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کا گواہ ٹھہرایا ہے۔ یحکم بہا النبیون الذین اسلموا للذین ہادوا والربانیون والاحبار بما استحفظوا من کتاب اللہ وکانوا علیہ شہداء (مائدہ)
قرآن وحدیث میں مہارت تامہ حاصل کیے بغیر اور کسی استاد اور شیخ کامل سے کسب کمال کے بغیر ایسا شخص خلق خدا کی رشد وہدایت کا اہل نہیں ہو سکتا۔ امتحانی حد تک کسی زبان میں ڈگری یا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا، اردو لٹریچر پڑھ کر ازخود مجتہد اور مفسر بن جانا ایسا عہدہ نہیں کہ اسے خدا تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز کا ترجمان یا ذمہ دار ٹھہرایا ہو۔ حاشا وکلا۔ ایسا شخص تو مندرجہ ذیل حدیث کا مصداق ہوگا:
قال رسول اللہ ﷺ ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی اذا لم یبق عالما اتخذ الناس رء وسا جہالا فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا واضلوا (متفق علیہ)
’’آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے عطا کردہ علم یوں واپس نہ لے گا کہ زبردستی چھین لے، بلکہ علما کی موت کی صورت میں علم کو واپس لے لے گا۔ حتیٰ کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کسی عالم کو باقی نہ رکھے گا یا کوئی عالم دنیا میں باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا راہنما بنا لیں گے، ان سے مسائل دریافت کیے جائیں گے تو وہ بغیر علم اور فہم کے فتویٰ دیں گے۔ خود بھی گمراہی میں پڑ جائیں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘
ملا علی قاری نے لفظ ’رء وس‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے مراد خلیفہ، صدر، قاضی، مفتی، امام، شیخ اور پیر ومرشد ہیں۔ یعنی لوگ جاہلوں کو صدر مملکت، حاکم، مفتی، امام اور پیشوا تسلیم کر لیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نیچری طبقہ جو قرآن وحدیث کو اپنی خام خیالی اور ناقص عقل کے ترازو میں تولنے کا روادار ہے، اسی طرح ان کے دم چھلے قادیانی، پرویزی اور ان کے ہم نوا ملحد فرقے سب اسی شجرہ خبیثہ کی شاخیں ہیں۔ اعاذنا اللہ منہا
تعلیم وتربیت
اللہ تعالیٰ نے خلق خدا کی تعلیم وتربیت کا جو طریقہ ارشاد فرمایا ہے، وہ صحیح اور فطری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے حق میں اسے تجویز کیا ہے۔ وہ ہے مربی کا تلاوت کے ذریعے سے تزکیہ اور کتاب وسنت کی تعلیم۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کی سیرت اور سنت، جس سے بڑھ کر کوئی چیز باعث ہدایت نہیں ہو سکتی۔ کیا انسان کے بنائے ہوئے کورس سے یہ کم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی موعظت پر عمل کریں، قرآن کی شفا میں اپنی بیماریوں کا علاج تلاش کریں، اس کی بتلائی ہوئی راہ پر چلیں اور اس کی رحمت کے سزاوار ہوں جس سے بڑھ کر کوئی فضل ورحمت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں خشیت، تقویٰ اور اخلاص کا درس اصالتاً موجود ہے اور آنحضرت ﷺ کی زندگی کے ادوار واطوار ہمارے لیے کافی وشافی ہیں۔ ان میں صرف مربی کے توجہ دلانے سے خود، آگاہی اور شعور حاصل ہو جاتا ہے۔ کتب عقائد وفقہ میں اصلاح اعمال کے زریں اصول موقع بہ موقع موجود ہیں۔ ذرا سی توجہ کی ضرورت ہے۔ علم معانی اور علم ادب کا نصاب مربی اور استاد پر منحصر ہے۔ اگر وہ صاحب اصلاح اور احوال تربیت سے واقف ہے تو تذکرہ وتبصرہ کے طور پر ان علوم سے مستفیدین کے مناسب حال بہترین نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ ان چیزوں سے اگر وہ اثر نہیں لیتا تو پھر اور کون سا موثر کلام اور عمل ہو سکتا ہے جس سے وہ راہ راست اختیار کرے گا۔ ہر چیز کے لیے رسمی کورس اور تیاری کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ایسی چیزیں تو مطالعہ اور تجربہ سے حاصل ہو جاتی ہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ مستفیدین بھی مستعد اور باصلاحیت ہوں۔ درس نظامی میں سارے تعلیمی مرحلے درجہ بدرجہ تہذیب اخلاق اور اعمال کے ساتھ طے ہوتے ہیں تو تعلیم وتربیت کے لیے مستقل نصاب کا رسمی تعین اور مستقل استاذ کا انتخاب بے معنی معلوم ہوتا ہے۔