عقیدۂ حیاۃ النبی اور شرک

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

کراچی

۵۔۷۔۲۰۰۳ء

محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب

السلام علیکم

ماہنامہ الشریعہ بابت مئی/جون ۲۰۰۳ء میں آپ کے مضمون کا اقتباس جو عطاء الحق قاسمی صاحب نے اپنے کالم میں دیا اور اس پر مخالفت اور موافقت میں مضامین نظر سے گزرے۔ میں آپ کے زور استدلال سے متاثر ہوں۔

میں ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے آپ کے علم سے استفادہ کرنا چاہتا ہوں۔ دار العلوم کراچی،جس کے مہتمم جناب محمد رفیع عثمانی صاحب ہیں، نے مجھے لکھا:

’’آپ ﷺ کے روضہ اطہر پر درود وسلام پڑھنے والے کے لیے جو آداب ذکر کیے گئے ہیں، وہ درست ہیں۔ چنانچہ اہل السنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ ﷺ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ کو دنیا کی طرح حیات حاصل ہے اور جو شخص آپ کے روضہ اطہر پر حاضر ہو کر درود وسلام پڑھتا ہے، آپ ﷺ اس کو خود سنتے ہیں۔‘‘

گویا حیات النبی کے معاملہ میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، تبلیغی جماعت والے سب متفق ہیں کہ نبی زندہ ہیں۔ لیکن قرآن کی یہ آیت ہے کہ:

۱۔ ’’ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اللہ کی ذات کے۔‘‘ (القصص ۸۵)
۲۔ ’’پھر اس زندگی کے بعد تمہیں موت آ کر رہے گی اور اس کے بعد قیامت کے دن تم پھر اٹھائے جاؤ گے۔‘‘ (المومنون ۱۵۔۱۶)

کوئی یہ نہ سمجھے کہ رسول اس سے مستثنیٰ ہیں۔ فرمایا:

۱۔ ’’آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔‘‘ (الزمر ۳۰)
۲۔ ’’ہمیشگی تو ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں رکھی ہے۔ اگر تم مر گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے؟ ہر جاندار کوموت کا مزا چکھنا ہے۔‘‘ (الانبیاء ۳۴۔۳۵)

کیا حیات النبی کا عقیدہ رکھنے والے منکر قرآن اور مشرک نہیں ہیں؟

والسلام 

احمد اشرف


جواب

باسمہ سبحانہ

محترمی احمد اشرف صاحب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  ۔ مزاج گرامی؟

آپ کا خط موصول ہوا۔ اس سے قبل بھی اسی نوعیت کا خط آپ کی طرف سے موصول ہوا تھا جو ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں شائع کر دیا گیا۔ اس کا شمارہ آپ کو ارسال کیا جا رہا ہے۔ آپ نے چونکہ مسئلہ کو سمجھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، اس لیے چند سطور تحریر کر رہا ہوں، ورنہ میں اس نوعیت کے مسائل میں بحث ومباحثہ کا عادی نہیں ہوں اور نہ ہی بحث برائے بحث کا کوئی فائدہ مرتب ہوتا ہے۔

آپ نے قرآن کریم کی چند آیات کریمہ کا حوالہ دیا ہے اور سوال کیا ہے کہ کیا ان آیات کے اس مفہوم کی روشنی میں جو آپ بیان کر رہے ہیں، حیات النبی ﷺ کا عقیدہ شرک نہیں ہے؟ اس سلسلے میں ایک اصولی گزارش یہ ہے کہ اگر تو قرآن کریم ہم نے براہ راست اپنے فہم اور معلومات کی بنیاد پر سمجھنا ہے تو پھر آپ کے تجزیہ اور استدلال کی کسی حد تک گنجائش نکل سکتی ہے لیکن اگر فہم قرآن کریم کے لیے جناب نبی اکرم ﷺ کے ارشادات اور تشریحات کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے تو پھر ہمیں قرآن کریم کی کسی آیت یا جملے کا مطلب ومفہوم طے کرتے ہوئے جناب نبی اکرم ﷺ کے فرمودات اور توضیحات کے دائرے میں رہنا ہوگا اور وہی مفہوم صحیح قرار پائے گا جو نبی اکرم ﷺ کے ارشادات سے مطابقت رکھتا ہوگا۔

یہاں ایک خوب صورت سا مغالطہ ہمارے ذہنوں سے الجھنے لگتا ہے کہ قرآن کریم کے مفہوم ا ور ارشاد سے ٹکرانے والی کسی حدیث کو ہم قبول کرنے کے پابند نہیں ہیں اور جہاں قرآن کریم اور حدیث مبارکہ میں تعارض ہوگا، وہاں ہم قرآن کریم کو ترجیح دیں گے۔ یہ بات بظاہر بہت خوب صورت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ فلاں آیت اور فلاں حدیث میں تعارض ہے؟ ظاہر بات ہے کہ یہ فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے اور اس طرح ایک بار پھر ہم یہ اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں کہ چونکہ ہمیں فلاں آیت اور فلاں حدیث میں تعارض نظر آ رہا ہے، اس لیے ہم اس حدیث کو قبول نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ اتھارٹی حاصل نہیں ہے کہ ہم قرآن کریم اور حدیث نبوی کے درمیان ’’حکم‘‘ کی حیثیت اختیار کر لیں اور اپنے فہم اور علم کو حتمی قرار دیتے ہوئے فیصلے کرنے لگ جائیں بلکہ فہم قرآن کریم کی صحیح ترتیب یہی ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے قرآن کریم کی کسی آیت کا جو مفہوم بیان کیا ہے یا جس مسئلہ میں جو طرز عمل اختیار کیا ہے، اس کی روشنی میں قرآن پاک کو سمجھا جائے اور صحیح سند کے ساتھ جو ارشاد نبوی سامنے آ جائے، اسے ہی فائنل اتھارٹی قرار دیا جائے۔ اس سے ہٹ کر قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی تو اللہ تعالیٰ کا مقدس کلام ’’بازیچہ اطفال‘‘ بن کر رہ جائے گا اور فکری انتشار کے سوا کچھ بھی ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا۔

اس اصولی گزارش کے بعد متعلقہ مسئلہ کے حوالہ سے یہ عرض ہے کہ میں یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ حضرات انبیاے کرام علیہم السلام کو قبروں میں زندہ ماننے سے کون سا شرک لازم آتا ہے؟ شرک تو اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات واختیارات میں کسی اور کو شریک سمجھنے کا نام ہے۔ اگر کوئی شخص قبر میں زندہ ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ کی کون سی صفت یا اختیار میں اس کی شرکت ہو جاتی ہے؟ اگر نفس حیات ماننے سے شرک لازم آتا ہے تو اس حیات کا اطلاق ہم سب پر ہوتا ہے، پھر ہم بھی معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ کے شریک قرار پاتے ہیں اور اگر موت کے بعد کی زندگی سے یہ مفہوم اخذ کیا جاتا ہے تو شہدا کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ وہ قتل ہو جانے کے بعد نہ صرف زندہ ہیں بلکہ رزق بھی دیے جاتے ہیں تو کیا موت کے بعد انہیں زندہ ماننے سے شرک لازم آ جاتا ہے؟ یا مثلاً بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ عام مردہ بھی قبرستان میں آنے جانے والوں کے قدموں کی چاپ سنتا ہے۔ اسی طرح مسلم شریف کی ایک روایت کے مطابق حضرت عمرو بن العاصؓنے وفات سے قبل اپنی وصیت میں تلقین کی کہ انہیں قبر میں دفن کرنے کے بعد احباب اتنی دیر تک ان کی قبر کے پاس رہیں جتنی دیر میں اونٹ کو ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان فرمائی کہ قبر میں سوال وجواب کا مرحلہ یہی ہوتا ہے اور ارد گرد احباب کی موجودگی سے وہ انس اور حوصلہ محسوس کریں گے۔

میں فی الواقع یہ بات نہیں سمجھ پایا کہ ایسا کہنے یا ماننے سے شرک کی کون سی صورت وقوع پذیر ہو جاتی ہے؟

باقی رہی بات اللہ تعالیٰ کے سوا باقی سب کے فنا ہو جانے کی تو میرے بھائی، اسے بھی جناب نبی اکرم ﷺ کے ارشاد کی روشنی میں سمجھیں گے تو مسئلہ حل ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جب قیامت کا صور پھونکا جائے گا تو ہر چیز فنا ہو جائے گی اور ایک اللہ تعالیٰ کی ذات باقی رہ جائے گی۔ اس کیفیت پر ایک زمانہ گزرے گا۔ اس کے بعد پھر کائنات اللہ تعالیٰ کے حکم سے دوبارہ وجود میں آئے گی۔ جہاں تک موت کا تعلق ہے، اسے قرآن کریم نے فنا کے معنی میں ذکر نہیں کیا بلکہ اس کی تردید کی ہے۔ یہ مشرکین کا عقیدہ تھا کہ موت فنا کا نام ہے اور فنا کے گھاٹ اتر جانے کے بعد دوبارہ زندگی کا کوئی امکان نہیں ہے جس کا قرآن کریم نے جابجا رد کیا ہے اور فرمایا ہے کہ موت فنا کا نام نہیں بلکہ اس کے بعد بھی زندگی ہے، قبروں سے دوبارہ اٹھنا ہے، حساب کتاب ہے، اور سزا جزا کے مراحل سے گزرنا ہے بلکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ اصل زندگی وہی ہے جو دائمی ہے اور نہ ختم ہونے والی ہے، اس لیے اگر انسان کے لیے اس ابدی زندگی کو ماننے سے شرک لازم نہیں آتا تو میرے بھائی! قبر کی عارضی زندگی اس کے لیے تسلیم کر لینے میں بھی شرک کا کوئی پہلو موجود نہیں ہے۔

اس کے بعد یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ جو حضرات قبروں میں انبیاے کرام علیہم السلام کی زندگی کے قائل ہیں، اور یہ جمہور امت ہے جو چودہ سو برس سے اس کی قائل چلی آ رہی ہے، وہ اس بات کے ایک لمحہ کے لیے بھی قائل نہیں ہیں کہ حضرات انبیاے کرام علیہم السلام موت سے مستثنیٰ ہیں یا ان پر موت نہیں آئی۔ وہ حضرات انبیاے کرام علیہم السلام پر موت کا ورود اسی طرح مانتے ہیں جیسے شہدا کے لیے مانتے ہیں اور پھر موت کے بعد عالم برزخ میں ان کی اسی طرح کی زندگی کے قائل ہیں جیسے شہدا کے لیے قرآن کریم نے زندگی اور رزق دیے جانے کا ذکر فرمایا ہے۔

یہ زندگی عالم برزخ کی زندگی ہے ، اس دنیا کی زندگی نہیں ہے اور اسے اگر حیات دنیوی کہا جاتا ہے تو صرف اس معنی میں کہ یہ برزخی حیات اس جسم مبارک کے ساتھ قائم ہے جو اس دنیا میں تھا کیونکہ جناب نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاے کرام علیہم السلام کے اجسام مبارکہ کو حرام کر دیا ہے اور انبیاے کرام علیہم السلام کے اجسام دنیویہ فنا نہیں ہوتے بلکہ اسی طرح قائم رہتے ہیں، حتیٰ کہ یہ مسئلہ خود قرآن کریم نے حضرت یونس علیہ السلام کے حوالہ سے ذکر فرمایا ہے کہ اگر وہ تسبیح نہ کرتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام کے جسم مبارک کو تو باقی رہنا ہی تھا، ان کی وجہ سے مچھلی کو بھی قیامت تک حیات مل جاتی۔ اس لیے قرآن کریم کی منشا بھی یہی ہے کہ حضرات انبیاے کرام علیہم السلام کے اجسام مبارکہ قیامت تک محفوظ رہتے ہیں۔ ہاں قیامت کی اجتماعی فنا میں دوسروں کے ساتھ وہ بھی شریک ہوں گے۔

اس لیے حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے آپ کو جو جواب دیا ہے اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے جس ارشاد گرامی کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، مجھے میں اس اشکال کی کوئی بات دکھائی نہیں دیتی، اس لیے کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات بالکل درست ہے اور امت مسلمہ کے جمہور اہل علم چودہ سو برس سے اسی کے قائل چلے آ رہے ہیں۔

امید ہے کہ بات کو سمجھنے کے لیے اتنی گزارشات کافی ہوں گی۔

شکریہ! والسلام

ابو عمار زاہد الراشدی

مکاتیب

(اگست ۲۰۰۳ء)

تلاش

Flag Counter