روزنامہ جنگ لندن میں مانچسٹر کے جناب غلام ربانی صاحب اپنے ایک مضمون بعنوان ’’ہم نے فرقہ پرستی کا سانڈ پال لیا‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں میں سے اس قوم کے بہی خواہ سرسید احمد خان اٹھے اور انہوں نے اس قوم کو پستی سے نکالنے کی خاطر علی گڑھ یونیورسٹی قائم کی تاکہ مسلمان اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں۔ یہ دل خراش حقیقت ہے کہ دیوبند فرقہ والوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے عین مقابل ایک مدرسہ کھول کر سرسید احمد خان کی مخالفت کرنا شروع کر دی اور اس کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کر کے اس کو نیچری کہنا شروع کر دیا اور مسلمانوں کے لیے انگریزی تعلیم حاصل کرنا ناجائز قرار دے دیا۔‘‘
اس پیراگراف میں جناب غلام ربانی صاحب نے چند بے بنیاد باتیں علماء دیوبند کی طرف منسوب کر کے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے:
ایک یہ کہ دیوبند والوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے عین مقابل اپنا مدرسہ کھول کر سرسید کی مخالفت کی۔
دوسری یہ کہ انہوں نے سرسید کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا۔
تیسری یہ کہ انہوں نے انگریزی تعلیم حاصل کرنے کو ناجائز قرار دیا۔
غلام ربانی صاحب کے یہ تینوں دعوے بالکل بے بنیاد‘ گمراہ کن اور سراسر غلط ہیں۔ یہ غلط فہمیاں عوام تو عوام‘ خواص تک کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ آئیے تاریخی حقائق کی روشنی میں ان تینوں دعووں کا جائزہ لیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ مدرسہ دیوبند علی گڑھ یونیورسٹی کے عین مقابل نہیں بلکہ تین سو میل دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا اور اس کا قیام مسلمانوں کی دینی تعلیم کے پیش نظر عمل میں لایا گیا تھا۔ علی گڑھ یونیورسٹی اور دار العلوم دیوبند کے قیام کا پس منظر یہ ہے کہ ۱۸۵۷ء کے غدر یا جنگ آزادی کے ناکام ہونے کے بعد ‘ جو اصلاً مسلمانوں کی طرف سے آخری مغل تاج دار بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں مسلمانوں کا اقتدار بحال کرنے کی کوشش کی تھی‘ پورے ہندوستان پر انگریز کا اقتدار مستحکم ہو گیا۔ چونکہ انگریز نے برصغیر کی حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور مسلمان ہی انگریز کے خلاف برسرپیکار تھے‘ اس لیے اس نے مسلمانوں خصوصاً علما کو مظالم کا نشانہ بنایا۔ غدر میں بے شمار علما قتل کیے گئے یا ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ انگریز نے اپنی پالیسی کی بنیاد ہندوؤں کو نوازنے اور مسلمانوں کو کمزور اور تباہ کرنے پر رکھی۔ تمام اسلامی اوقاف کو ضبط اور دینی تعلیم کے مدارس کو بند کر کے علما کو نان شبینہ کا محتاج بنا دیا۔ دوسری طرف سرکاری ملازمتوں کے دروازے مسلمانوں پر بند کر کے ان کی معاشی حالت بالکل تباہ کر دی۔ فارسی کی جگہ انگریزی کو سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ عیسائی مشنریاں برصغیر کو ایک عیسائی ملک بنانے کے لیے کوشاں ہو گئیں۔ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ ہندوستان دوسرا اسپین نہ بن جائے جہاں کوئی نماز پڑھانے والا نہ ملے اور مادی ومعاشی امتیاز سے مسلمان بالکل ختم ہو کر رہ جائیں۔ غرض ۱۸۵۷ء کے غدر کے بعد برصغیر میں مسلمانوں اور اسلام کے وجود کو حقیقی خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔
ان حالات میں ملت کے درد مندوں نے مسلمانوں کے دین ودنیا کے تحفظ وبقا کے لیے مختلف طریقہ ہائے کار اختیار کیے تاکہ مسلمان مادی ترقی‘ سرکاری ملازمتوں‘ جدید علوم اور قومی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ اس کے لیے سرسید احمد خان نے علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھی۔ جبکہ دینی علوم اور اسلامی تمدن وکلچر کے تحفظ اور مسلمانوں کا رشتہ اسلام سے باقی رکھنے کے لیے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی زیر سرپرستی دیوبند کا مدرسہ قائم کیا گیا۔ یہ دونوں بزرگ ایک ہی استاد حضرت مولانا مملوک علی صاحب (جو حضرت شاہ ولی اللہؒ کے خاندان کے آخری علمی وارث تھے) کے شاگرد تھے۔ یہ دونوں ادارے ۱۸۵۷ء کے غدر یا جنگ آزادی کے چند سال بعد قائم ہوئے البتہ دونوں کی پالیسی اور طریقہ کار مختلف تھا۔ ایک کا مقصد مسلمانوں کے دنیوی تنزل کو روکنا تھا تو دوسرے کا ان کے دینی علوم وکلچر کا تحفظ کرنا۔ الحمد للہ اب برصغیر میں بہت سے دینی ادارے قائم ہو گئے ہیں مگر شروع میں تقریباً نصف صدی تک مدرسہ دیوبند ہی صحیح معنوں میں ایک اسلامی جامعہ کہلانے کا مستحق تھا۔
ان دونوں اداروں کے بانی بزرگوں میں باہم کوئی دشمنی یا عناد نہ تھااور دونوں کو مسلمانوں ہی کا مفاد عزیز تھا اور اپنے اپنے کام میں دونوں مخلص تھے۔ چنانچہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال پر سرسید احمد خان نے اپنے رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں نہایت غم کے ساتھ طویل مضمون لکھا جو کہ انتہائی درمندانہ تھا۔ اس کی آخری چند سطور ملاحظہ ہوں:
’’اس زمانہ میں سب لوگ تسلیم کرتے ہوں گے کہ مولوی محمد قاسم اس دنیا میں بے مثل تھے۔ ان کا پایہ اس زمانہ میں شاید معلوماتی علم میں شاہ عبد العزیز سے کچھ کم ہو‘ الا اور تمام باتوں میں ان سے بڑھ کر تھا۔ مسکینی‘ نیکی اور سادہ مزاجی میں ان کا پایہ مولوی محمد اسحاق (شاہ عبد العزیز کے نواسے) سے بڑھ کر نہ تھا تو کم بھی نہ تھا۔ وہ درحقیقت فرشتہ سیرت اور ملکوتی خصلت کے شخص تھے اور ایسے آدمی کے وجود سے زمانہ کا خالی ہو جانا ان بزرگوں کے لیے جو ان کے بعد زندہ ہیں‘ نہایت رنج اور افسوس کا باعث ہے۔ دیوبند کا مدرسہ ان کی ایک عمدہ یادگار ہے اور سب لوگوں کا فرض ہے کہ ایسی کوشش کریں کہ وہ مدرسہ ہمیشہ قائم اور مستقل رہے اور اس کے ذریعے سے تمام قوم کے دل پر ان کی یادگاری کا نقش جما رہے۔‘‘ (رود کوثر‘ صفحہ ۳۶۸)
بانی دار العلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے انتقال پر سرسید کی یہ تحریر اس غلط فہمی کی تردید کے لیے کافی ہے کہ دیوبند کا مدرسہ سرسید کی مخالفت کے لیے قائم ہوا تھا۔ یہی نہیں بلکہ سرسید نے علی گڑھ یونیورسٹی کا شعبہ دینیات حضرت مولانا محمد قاسمؒ کے داماد مولانا عبد اللہ صاحب کے سپرد کیا اور اب تک ہر دور میں علی گڑھ یونیورسٹی کا شعبہ دینیات علماء دیوبند ہی کے سپرد رہا ہے۔ دار العلوم دیوبند کے پہلے صدر مدرس مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ جو سرسید کے محبوب استاد مولانا مملوک علیؒ کے صاحب زادے تھے‘ سرسید کو حقیقی بھائی سے زیادہ عزیز تھے۔ ان تاریخی حقائق سے دیوبند اور علی گڑھ کے درمیان مخاصمت یا دشمنی کی داستان سراسر من گھڑت ثابت ہوتی ہے۔
اب آئیے غلام نبی صاحب کے دوسرے دعوے کی طرف کہ سرسید کے خلاف علماء دیوبند نے کفر کا فتویٰ دیاتھا۔ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جو علماء کے خلاف پھیلائی گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ علماء دیوبند نے کبھی سرسید پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا۔ معروف اسکالر ومحقق شیخ محمد اکرام جو مولانا حالی کے بعد سرسید کے سب سے بڑے طرفدار اور مداح حامی اور وکیل سمجھے جاتے ہیں‘ لکھتے ہیں:
’’اس مخالفت کے متعلق عوام بلکہ خواص میں بھی کئی غلط فہمیاں رائج ہیں۔ اس بارے میں سب سے بڑی غلط فہمی بہت عام ہے کہ علما نے سرسید کی مخالفت اس وجہ سے کی کہ وہ انگریزی تعلیم رائج کرنا چاہتے تھے۔ یہ خیال انتہائی غلط اور علماء اسلام کے ساتھ صریح بے انصافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرسید کے سب سے بڑے مخالف وہ حضرات تھے جنہوں نے نہ صرف برصغیر میں سرسید کی شدید مخالفت کا ہنگامہ کھڑا کیا بلکہ حرمین شریفین تک سے ان کے خلاف کفر کے فتوے حاصل کیے۔ ان میں ایک کانپور کے ڈپٹی کلکٹر امداد علی صاحب‘ دوسرے گورکھ پور عدالت کے سب جج مولوی علی بخش صاحب تھے۔ یہ دونوں بزرگ انگریز کے نہایت مقرب اور اس قدر وفادار تھے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ہندوستانیوں کے خلاف برملا انگریز کی وفاداری میں سینہ پر گولی تک کھائی۔ چنانچہ خواجہ الطاف حسین حالی نے سرسید کی سوانح حیات ’’حیات جاوید‘‘ میں تفصیل سے اس مسئلے پر بحث کی ہے۔ حالی ان دونوں حضرات کے متعلق لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں سرسید کی جس قدر مخالفتیں اطراف وجوانب سے ہوئیں‘ان کا منبع ان ہی دو صاحبان کی تحریریں ہیں۔ ‘‘
جہاں تک علما کی طرف سے انگریزی زبان سیکھنے کی مخالفت کا تعلق ہے تو یہ بھی ایک بالکل بے بنیاددعویٰ ہے۔ ابتدا میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کے جانشین شاہ عبد العزیزؒ سے کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کے متعلق فتویٰ پوچھا گیا تو فرمایا: ’’انگریزی کالجوں میں پڑھو اور سیکھو۔ شرعاً ہر طرح سے جائز ہے۔‘‘ (اسباب بغاوت ہند‘ مصنفہ سرسید احمد خان) یا درہے کہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کو برصغیر کے تمام علماء (دیوبندی‘ بریلوی‘ اہل حدیث) اپنا مقتدا وامام مانتے ہیں۔
دیوبندی جماعت کے سب سے بڑے مفتی اور عالم مولانا رشید احمد گنگوہی ہیں جو سرسید احمد خان کے معاصرین میں سے ہیں۔ ان کا فتویٰ فتاویٰ رشیدیہ میں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’انگریزی زبان سیکھنا درست ہے بشرطیکہ کوئی معصیت کا مرتکب نہ ہو اور نقصان دین میں اس سے نہ آئے۔‘‘
اور مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے شاگرد وجانشین اور دار العلوم دیوبند کے پہلے طالب علم شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے ۱۹۲۰ء میں خود علی گڑھ میں جامعہ ملیہ کے تاسیسی خطبہ استقبالیہ میں فرمایا تھا:
’’آپ میں جو لوگ محقق اور باخبر ہیں‘ وہ جانتے ہوں گے کہ میرے بزرگوں نے کسی وقت بھی کسی اجنبی زبان سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم وفنون حاصل کر نے پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا۔‘‘
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت کی دوسری مسلم یونیورسٹی جامعہ ملیہ کی تاسیس وبنیاد اسی دیوبند کے فرزند شیخ الہند کے ہاتھوں پڑی۔ الغرض علماء دیوبند نے کبھی انگریزی زبان سیکھنے یا مغربی علوم وفنون حاصل کرنے کی مخالفت نہیں کی البتہ انگریز پرستی‘ انگریز کی وفاداری‘ اسلامی احکام وتمدن کی جگہ مغربی افکار ومعاشرت اختیار کرنے کے خلاف ضرور نفرت کا اظہار کیا جس سے آج تک ہمیں مغرب کی ذہنی غلامی نے جکڑ رکھا ہے۔ اگر محترم غلام ربانی صاحب دیوبند کے کسی بزرگ کی طرف سے انگریزی زبان اور جدید سائنسی علوم سیکھنے کی مخالفت کی نشان دہی کر دیں تو ان کی ازحد نوازش ہوگی اور ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جن حضرات نے سرسید اور علی گڑھ کالج کی سخت مخالفت کی تھی‘ انہوں نے اپنے سخت سے سخت مضامین اور درشت سے درشت فتاویٰ میں کبھی یہ نہیں لکھا کہ انگریزی پڑھنا ناجائز یا کفر ہے بلکہ یہی لکھا کہ جس کے عقائد سرسید جیسے ہوں‘ وہ مسلمان نہیں اور جو مدرسہ ایسے عقائد والا قائم کرے‘ ا س کی اعانت جائز نہیں۔ شروع میں سب حضرات کو خطرہ تھا کہ سرسید اپنے کالج میں اپنے ان مخصوص مذہبی خیالات کی تبلیغ کریں گے جن کا اظہار وہ اپنی تفسیر‘ کتابوں‘ رسائل اور مضامین میں کر رہے ہیں مگر بعد میں جب دیکھا کہ سرسید نے ایسا نہیں کیا تو انہوں نے بھی مخالفت ختم کر دی۔
آئیے اس امر پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ ایک طبقہ نے سرسید احمد خان کی مخالفت کیوں کی تھی؟ ہندوستان پر انگریزکا اقتدار قائم ہو جانے کے بعد سرسید نے جو حکمت عملی پیش کی‘ وہ دو امور پر مشتمل تھی: ایک سیاسی اور دوسرے مذہبی۔ سیاسی یہ کہ ۱۸۵۷ء کے غدر یا جنگ آزادی میں سرسید اور علما دونوں نے حصہ لیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سرسید ایک فریق یعنی انگریز کے ساتھ تھے اور علما دوسرے فریق یعنی مجاہدین کے ساتھ۔ اس کے بعد سرسید نے اپنی کتاب ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور دوسری تصانیف میں انگریز کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو غدار‘ خساری اور غنڈہ وغیرہ کے القاب سے نوازا اور مسلمانوں کو ہمیشہ انگریز کے وفادار رہنے اور انگریزی تمدن ومعاشرت اختیار کرنے کی تلقین کی۔ سرسید کے سیاسی فلسفہ کی بنیاد انگریز کے ساتھ کامل وفاداری پر تھی۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو نہ صرف انگریزی تمدن ومعاشرت اختیار کر لینی چاہیے بلکہ اس پر فخر بھی کرنا چاہیے۔
سرسید کا مذہبی فلسفہ یہ تھا کہ قرآن وسنت کے احکام اور تعلیمات پر مغربی دانش وروں کے اعتراضات کو قبول کرتے ہوئے اسلام کی ایسی تشریح کی جائے جو مغرب کے لیے قابل قبول قرار پائے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے قرآن کی جو تفسیر لکھی‘ اس میں حضرات انبیاء کے معجزات ‘ جنت اور جہنم اور جنات کا انکار کرتے ہوئے اسلامی احکام وقوانین کی عجیب وغریب تاویلیں کیں اور اس میں اس حد تک آگے نکل گئے کہ کوئی مسلمان اس کا تصور نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر سرسید احمد خان کے نزدیک وحی کے معنیٰ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبریل پیغام لے کر پیغمبر کے پاس آتے تھے بلکہ یہ اس طرح ہے کہ جیسے کسی پر جنون یا مرگی کے دورے کی کیفیت ہو اور اس میں وہ نارمل کیفیت سے ہٹ کر خاص قسم کی گفتگو کرے۔ وحی کے اس معنی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن کلام الٰہی ہونے کے بجائے نبی اکرم ﷺ کا کلام قرار پاتا ہے اور اس سے اسلام کے بنیادی عقائد نبوت اور قرآن کی پوری عمارت دھڑام سے زمین پر آجاتی ہے۔ مغربی دانش وروں اور مستشرقین کے نزدیک قرآن محمد ﷺ کا کلام ہے اور وحی کے معنی اور کیفیت اسی طرح بیان کرتے ہیں۔
سرسید نے اپنی تفسیر قرآن‘ دیگر کتب‘ رسالہ اور مضامین میں جن مذہبی خیالات کا اظہار کیا ہے‘ اس سے علی گڑھ تحریک کے تمام قائدین کو سخت اختلاف تھا اور مذہبی خیالات میں کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ سرسید کے جانشین محسن الملک نواب مہدی علی خان نے جب سرسید کی تفسیر دیکھی تو انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ سرسید قبلہ رو ہو کر نماز پڑھتے ہوں گے۔ انہوں نے ایک طویل اور سخت خط لکھا۔ اسی طرح ایک اور نہایت قریبی ساتھی اور معاون نے سرسید کو یہاں تک لکھا کہ قرآن کو منزل من اللہ ماننے سے انکار کر دینا آسان ہے بہ نسبت اس معنی وتفسیر کے جو آپ بیان فرما رہے ہیں۔ غرض سرسید کے مذہبی خیالات وتعبیرات سے مولانا حالی‘ شبلی نعمانی اور نواب محسن الملک جیسے ان کے تمام قریبی رفقا نے سخت اختلاف کرتے ہوئے ان سے اپنی براء ت کا اظہار کیا۔ مذہبی معاملات میں ان کی جو تحریریں تھیں‘ ان سے سرسید کے تعلیمی مشن کو سخت نقصان پہنچا اور غیر ضروری مخالفت کا سامنا ہوا۔چنانچہ حالی کے بعد سرسید کے زبردست مداح وحامی شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں کہ تفسیر کی اشاعت نے سرسید کے دوسرے کاموں کو بہت نقصان پہنچایا اور ا س سے فائدہ بہت کم ہوا۔ ان کا اصل مقصد مسلمانوں میں تعلیم عام کرنا اور ان کی دنیوی ترقی کا انتظام کرنا تھا۔ سرسید نے اپنی مخالفت کا سامان آپ پیدا کر لیا اور بعض لوگوں کو انگریزی تعلیم سے عقائد متزلزل ہو جانے کا جو ڈر تھا‘ اس کا بدیہی ثبوت خود بہم پہنچایا۔
الغرض سرسید کے ان دونوں مذہبی وسیاسی فلسفوں کو خود علی گڑھ کی دوسری نسل نے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان کی قیادت میں علی گڑھ میں تعلیم پانے والوں نے نہ صرف ان کی اسلامی عقائد واحکام کی تعبیر وتشریح کو مسترد کیا بلکہ انگریزکی کامل وفاداری کے فلسفہ کو رد کرتے ہوئے تحریک آزادی میں شیخ الہند کی قیادت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ لوگ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے مگر آزادی کی جدوجہد میں بیشتر مولانا محمد قاسم نانوتوی کے جانشین اور دیوبند کے صدر شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی قیادت میں برطانوی استعمار کے خلاف صف آرا ہو گئے تھے۔
دینی تعلیم کی ترویج کے ساتھ ساتھ استعمار کے خلاف جہاد علماء دیوبند کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ استعمار کے خلاف جہاد دیوبند مدرسہ کے قائم ہونے سے بہت پہلے ۱۸۵۷ء میں شروع ہو چکا تھا جب شاملی کے میدان میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی‘ مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا محمد قاسم نانوتوی نے انگریز کے خلاف جنگ لڑی۔ اس میں پیر ضامنؒ کے ساتھ بہت سے علما ومحدثین شہید ہوئے۔ اس کے بعد تحریک آزادی کے تمام ممتاز راہنما ڈاکٹر انصاری‘ حکیم اجمل خان‘ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا ابو الکلام آزاد‘ مولانا عبید اللہ سندھی برطانوی استعمار کے خلاف جنگ میں مولانا محمد قاسم نانوتوی کے جانشین شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے ساتھ تھے۔ آج بھی دیوبند کے معنوی فرزند مختلف ممالک میں جہاد کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔ طالبان علماء دیوبند ہی کے خوشہ چین ہیں۔ امریکہ اور مغرب نے اب تک پاکستان کی جن تحریکوں اور افراد پر پابندی عائد کی ہے‘ ان میں سے بیشتر کا تعلق علماء دیوبند ہی سے ہے۔
البتہ سرسید کے پروگرام کے دو حصوں کو مسلمانوں میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ ایک یہ کہ مسلمان اپنے حقوق کا تحفظ جداگانہ تشخص کی بنیاد پر کریں۔ دوسرے یہ کہ انگریزی تعلیم حاصل کر کے نئے نظام میں عملاًشریک ہوں۔ ان دونوں کی بنیاد متعصب ہندو اکثریت کے غلبہ کے خوف سے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے جذبہ پر تھی جس میں سرسید احمد خان بلاشبہ مخلص نظر آتے ہیں اسی لیے اسے مسلمانوں میں قبولیت عامہ حاصل ہوئی۔ اس حوالے سے علماء دیوبند سرسید احمد خان کی خدمات‘ جدوجہد‘ قربانیوں اور ایثار کے پوری طرح معترف وقدر دان ہیں اور کبھی ان کے تذکرہ واعتراف میں حجاب محسوس نہیں کرتے۔ وہ اس حوالے سے سرسید کے دل میں مسلمانوں کے لیے درد اور فکر کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں مسلمانوں کا محسن مانتے ہیں۔
آخر میں ہم جناب غلام ربانی صاحب سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس وقت جب کہ تمام دنیا کی باطل طاقتیں اسلام اورمسلمانوں کی مخالفت میں متحد ہوئی ہیں‘ جس کا مظاہرہ آئے دن فلسطین‘ بوسنیا‘ مقدونیا‘ چیچنیا اور کشمیر میں ہوتا رہتا ہے‘ ایسے نازک وقت میں ماضی کے اختلافات کو ہوا دینے اور قدیم وجدید طبقات میں نفرت بڑھانے کے بجائے ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ دنیا بھر کے فقہی مذاہب حنفی‘ شافعی‘ مالکی‘ حنبلی اور برصغیر کے تمام مکاتب فکر دیوبندی‘ بریلوی‘ اہل حدیث اور قدیم وجدید دونوں طبقوں (علما اور جدید تعلیم یافتہ) کے مابین خلیج کو کم کیا جائے۔ اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کی روشنی میں ہمارا اصول الحکمۃ ضالۃ المومن ہونا چاہیے یعنی ہر طبقہ اور جگہ سے اچھی باتوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ ہمیں قدیم صالح اور جدید نافع کے درمیان ایک حسین امتزاج پیدا کر کے ملت کے تمام طبقات کو اسلام کی دعوت ودفاع کے لیے بھائی بھائی بنا کر باطل قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنا دینا چاہیے۔ اس میں ہم سب کی اور پوری ملت اسلامیہ کی بھلائی اور سرخ روئی ہے۔