کتاب کے ساتھ میرا تدریجی تعارف

ادارہ

(یہ مضمون ’’مطالعہ‘‘ کے عنوان سے مختلف اصحاب قلم کی تحریروں کے ایک کتابی مجموعہ کے لیے لکھا گیا۔)

 کتاب کے ساتھ میرا تعارف بحمد اللہ تعالیٰ بہت پرانا ہے اور اس دور سے ہے جبکہ میں کتاب کے مفہوم اور مقصد تک سے آشنا نہیں تھا۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کا گھر میں زیادہ تر وقت لکھنے پڑھنے میں گزرتا تھا اور ان کے ارد گرد الماریوں میں کتابیں ہی کتابیں ہوتی تھیں اس لیے کتاب کے چہرہ سے شناسائی تو تب سے ہے جب میں نے ارد گرد کی چیزوں کو دیکھنا اور ان میں الگ الگ فرق کرنا شروع کر دیا تھا۔

اس کے بعد کتاب سے دوسرے مرحلے کا تعارف اس وقت ہوا جب میں نے دو چار حرف پڑھ لیے اور کم از کم کتاب کا نام پڑھ سکتا تھا۔ والد صاحب ایک چارپائی پر بیٹھ کر لکھا کرتے تھے اور حوالہ کے لیے کوئی کتاب دیکھنے کی ضرورت ہوتی تو خود اٹھ کر متعلقہ الماری سے وہ کتاب لے لیا کرتے تھے مگر جب میں اور میری بڑی ہمشیرہ الفاظ کی شناخت کے قابل ہو گئے تو پھر اس کام میں ہماری شرکت بھی ہو گئی ‘ اس حد تک کہ ہم میں سے کوئی موجود ہوتا تو والد صاحب کو کتاب کے لیے خود الماری تک نہیں جانا پڑتا تھا بلکہ وہ ہمیں آواز دیتے کہ فلاں کتاب کی فلاں جلد نکال لاؤ اور ہم میں سے کوئی یہ خدمت سرانجام دے دیتا۔ ابتدا میں والد صاحب کو ہمیں یہ بتانا پڑتا تھا کہ فلاں الماری کے فلاں خانے میں اس نام کی کتاب سے اس کی اتنے نمبر کی جلد نکال لاؤ۔ بعد میں کتابوں سے ہمارا تعارف گہرا ہو گیا تو وہ صرف کتاب اور جلد نمبر کا کہتے اور ہم کتاب نکال لاتے اور اس کے لیے بسا اوقات ہم دونوں بہن بھائیوں میں مقابلہ بھی ہوتا کہ کون پہلے کتاب نکال کر لاتا ہے۔

اس وقت کی جن کتابوں کے نام ابھی تک ذہن کے نقشے میں محفوظ ہیں‘ ان میں ۱۔ السنن الکبریٰ‘ ۲۔ لسان المیزان‘ ۳۔ تذکرۃ الحفاظ‘ ۴۔ تہذیب التہذیب‘ ۴۔ تاریخ بغداد اور ۶۔ نیل الاوطار بطور خاص قابل ذکر ہیں جو علم حدیث اور اسماءِ رجال کی کتابیں ہیں اور یہ حضرت والد صاحب کے خصوصی ذوق کے علوم ہیں۔ ان کتابوں کے نام‘ ٹائٹل اور جلدیں بچپن میں ہی ذہن پر نقش ہو گئی تھیں اور یہ نقش ابھی تک ا س طرح تازہ ہیں جیسے آج ہی ان کتابوں کو دیکھا ہو۔

پھر ایک قدم اور آگے بڑھا اور کتاب کو خود پڑھنے کی منزل آ گئی۔ اس کے لیے میں گکھڑ کے ایک مرحوم بزرگ ماسٹر بشیر احمد صاحب کشمیری کا ممنون احسان ہوں کہ ان کی بدولت کتاب کے مطالعہ کی حدود میں قدم رکھا۔ ماسٹر بشیر احمد کشمیریؒ پرائمری سکول کے ٹیچر تھے‘ حضرت والد محترم کے قریبی دوستوں میں سے تھے‘ ان کے خاندان سے ہمارا گہرا خاندانی تعلق تھا‘ انہیں ہم چاچا جی کہا کرتے تھے اور وہ بھی ہم سے بھتیجوں جیسا تعلق رکھتے تھے۔ ان کی والدہ محترمہ کو ہم بے جی کہتے تھے اور ان کی ہمشیرگان ہماری پھوپھیاں کہلاتی تھیں۔ انہی میں سے ایک پھوپھی اب میرے چھوٹے بھائی مولانا عبد القدوس قارن کی خوش دامن ہیں۔ والد محترم کو جب کسی جلسہ یا دوسرے کام کی وجہ سے رات گھر سے باہر رہنا پڑتا تو بے جی اس روز ہمارے ہاں رات گزارتی تھیں اور ہمیں چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنایا کرتی تھیں جس کی وجہ سے ہم بہت خوش ہوتے تھے اور ہمیں ایسی رات کا انتظار رہتا تھا۔

ماسٹر بشیر احمد صاحب امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے شیدائی اور احرار کے سرگرم کارکن تھے۔ وہ حضرت شاہ جیؒ کی گکھڑ تشریف آوری اور جلسہ سے خطاب کا واقعہ اکثر سنایا کرتے تھے اور میرے بارے میں بتاتے تھے کہ میں بالکل گود کابچہ تھا اور مجھے حضرت شاہ جیؒ نے گود میں اٹھایا تھا اس لیے مجھ سے اگر کوئی دوست پوچھتا ہے کہ کیا تم نے امیر شریعتؒ کی زیارت کی ہے تو میں کہا کرتا ہوں کہ مجھے تو یاد نہیں ہے البتہ شاہ جیؒ نے مجھے دیکھا ہے۔

ماسٹر صاحب کے ہاں ہفت روزہ خدام الدین‘ ترجمان اسلام‘ ماہنامہ تبصرہ‘ ہفت روزہ پیام اسلام‘ ہفت روزہ چٹان اور دیگر دینی جرائد آیا کرتے تھے۔ میں ان جرائد سے انہی کے ہاں متعارف ہوا اور وہیں سے رسالے پڑھنے کی عادت شروع ہوئی۔ حضرت والد صاحب کے پاس دہلی سے ماہنامہ برہان‘ ملتان سے ماہنامہ الصدیق‘ چوکیرہ (سرگودہا) سے ماہنامہ الفاروق اور فیصل آباد (تب لائل پور) سے ہفتہ روزہ پاکستانی آیا کرتے تھے جو میری نظر سے گزرا کرتے تھے۔ جامع مسجد بوہڑ والی گکھڑ کے حجرہ کی الماری میں ایک چھوٹی سی لائبریری تھی جس کے انچارج ماسٹر صاحب مرحوم تھے۔ اس میں زیادہ تر احرار راہ نماؤں کی کتابیں تھیں۔ وہیں سے میں نے وہ کتابیں لیں جو میری زندگی میں مطالعہ کی سب سے پہلی کتابیں ہیں۔ چودھری افضل حق مرحوم کی ’’تاریخ احرار‘‘ مولانا مظہر علی اظہر کی ’’دنیا کی بساط سیاست‘‘ اور آغا شورش کاشمیری کی ’’خطبات احرار‘‘ پہلی کتابیں ہیں جن کا میں نے باقاعدہ مطالعہ کیا۔ کچھ سمجھ میں آئیں اور اکثر حصے ذہن کے اوپر سے ہی گزر گئے لیکن بہرحال میں نے اپنی مطالعاتی بلکہ فکری زندگی کا آغاز ان کتابوں سے کیا۔

یہ میری زندگی کا وہ دور ہے جب میں نے قرآن کریم حفظ مکمل کر لیا تھا اور صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں گھر میں ہی حضرت والد صاحب سے پڑھ رہا تھا یعنی ۱۹۶۱ء اور ۱۹۶۲ء کا دور جب میری عمر تیرہ چودہ برس کے لگ بھگ تھی۔ اس کے بعد جب ۶۳ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں داخل ہوا اور مدرسہ کے دار الاقامہ میں ایک آزاد طالب علم کی حیثیت سے نئی زندگی کا آغاز کیا تو میں نے اس آزادی کا خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ گھومنا پھرنا‘ جلسے سننا‘ لائبریریاں تلاش کرنا‘ رسالے ڈھونڈنا‘ کتابیں مہیا کرنا اور ان کا مطالعہ کرنا میرے روزہ مرہ معمولات میں شامل ہو گیا تھا۔ درسی کتابوں کے ساتھ میرا تعلق اتنا ہی تھا کہ سبق میں حاضر ہوتا تھا اور واجبی سے مطالعہ وتکرار کے ساتھ سبق کو کسی حد تک قابومیں رکھنے کی کوشش بھی بسا اوقات کر لیتا تھا لیکن اس کے علاوہ میری مصروفیات کا دائرہ پھیل چکا تھا اور اس میں شب وروز کی کوئی قید باقی نہیں رہ گئی تھی۔

اس دور میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے کتب خانے کے علاوہ عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی دامت برکاتہم کی ذاتی لائبریری میری دسترس میں تھی اور چوک نیائیں میں اہل حدیث دوستوں کا ’’اسلامی دار المطالعہ‘‘ میری جولان گاہ میں شامل تھا جہاں میں اکثر عصر کے بعد جاتا‘ دینی جرائد اور رسالوں پر نظر ڈالتا اور مطالعہ کے لیے کوئی نہ کوئی کتاب وہاں سے لے آتا۔ طالب علمی کے دور میں سب سے زیادہ استفادہ میں نے ان تین لائبریریوں سے کیا ہے۔

مطالعہ کے لیے مجھے جس نوعیت کی کوئی کتاب یا رسالہ میسر آجاتا‘ سمجھ میں آتا یا نہ آتا‘ میں اس پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش ضرور کرتا البتہ ترجیحات میں بالترتیب ۱۔ مزاحیہ تحریریں‘ ۲۔ تاریخی ناول اور ۳۔ جاسوسی ادب سرفہرست رہے اور اب بھی اختیاری مطالعہ میں حتی الامکان ترجیحات کی یہ ترتیب قائم رہتی ہے مگر یہ بات تفریحی مطالعہ کی ہے یعنی فارغ وقت گزارنے کے لیے‘ ذہن کو دیگر مصروفیات سے فارغ کرنے کے لیے اور تھوڑی بہت ذہنی آسودگی حاصل کرنے کے لیے ورنہ عملی وفکری ضرورت کے لیے میرے مطالعہ کی ترجیحات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہو چکی ہیں اور اب ۱۔ حدیث نبوی ﷺ اور اس سے متعلقہ علوم وفنون‘ ۲۔ تاریخ اور حقائق وواقعات کا پس منظر اور ۳۔ اقوام وافکار کا تقابلی مطالعہ اسی ترتیب کے ساتھ میری دل چسپی کے موضوعات ہیں۔

شعر وشاعری بھی میرے مطالعہ کا اہم موضوع رہی ہے اور کسی حد تک اب بھی ہے۔ ایک دور میں دیوان حافظؒ اور دیوان غالب میرے سرہانے کے نیچے مستقل پڑے رہتے تھے۔ دیوان حافظؒ کے بہت سے اشعار سمجھ میں نہیں آتے تھے اس لیے میں نے مترجم دیوان رکھا ہوا تھا اور اس کی مدد سے ضروری باتیں سمجھ لیا کرتا تھا۔ عربی ادب میں دیوان حماسہ مطالعہ اور تدریس دونوں کے لیے میری پسندیدہ کتاب ہے اور مصر کے قومی شاعر شوقیؒ کی کوئی چیز مل جائے تو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

اردو ناول کی شاید ہی کوئی صنف میں نے چھوڑی ہو۔ جاسوسی‘ تاریخی اور رومانی ہر قسم کے ناول میں نے پڑھے ہیں اور سینکڑوں ناول پڑھ ڈالے ہیں۔ نسیم حجازی سے لے کر ابن صفی تک کوئی ناول نگار میرے دائرے سے باہر نہیں رہا جبکہ ادبی جرائد میں چٹان‘ اردو دائجسٹ‘ سیارہ ڈائجسٹ‘ حکایت‘ قومی ڈائجسٹ اور علامت سالہا سال تک میرے مطالعہ کا حصہ رہے ہیں اور ماہنامہ الشریعۃ کے تبادلے میں جو بیسیوں جرائد ہر ماہ آتے ہیں‘ ان سب کے مضامین کے عنوانات پرایک نظر ڈالنا اور دل چسپی کے مضامین کو مطالعہ کے لیے الگ کر لینا اب عادت سی بن گئی ہے۔

کتاب کے ساتھ تعارف کا اس سے اگلا مرحلہ میرے طالب علمی کے آخری دور میں شروع ہوا۔ یہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد کے دور کی بات ہے۔ گوجرانوالہ ریلوے اسٹیشن کے سامنے جہاں آج کل سفینہ مارکیٹ ہے‘ ان دنوں یہاں خیام ہوٹل ہوا کرتا تھا جہاں ہر اتوار کی شام کو ’’مجلس فکر ونظر‘‘ کے زیر اہتمام ایک فکری نشست جمتی تھی۔ ارشد میر ایڈووکیٹ مرحوم اس مجلس کے سیکرٹری تھے۔ ان سے اسی محفل میں تعارف ہوا جو بڑھتے بڑھتے بے تکلفانہ اور برادرانہ دوستی تک جا پہنچا۔ اس ادبی محفل میں کوئی نہ کوئی مقالہ ہوتا اور ایک آدھ نظم یا غزل ہوتی جس پر تنقید کا میدان گرم ہوتا اور ارباب شعر وادب اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے۔ پروفیسر اسرار احمد سہاروی‘ سید سبط الحسن ضیغم‘ ایزد مسعود ایڈووکیٹ‘ پروفیسر عبد اللہ جمال‘ پروفیسر افتخار ملک مرحوم‘ پروفیسر محمد صادق‘ پروفیسر رفیق چودھری‘ اثر لدھیانوی مرحوم اور ارشد میر ایڈووکیٹ مرحوم اس مجلس کے سرکردہ ارکان تھے۔ میں بھی ہفتہ وار ادبی نشست میں جاتا تھا اور ایک خاموش سامع کی حیثیت سے شریک ہوتا تھا۔ ایک روز اگلی محفل کا پروگرام طے ہو رہا تھا لیکن کوئی صاحب مقالہ کے لیے تیار نہیں ہو رہے تھے۔ میں نے جب یہ کیفیت دیکھی تو کہا کہ اگر اجازت ہو تو اگلی محفل میں مضمون میں پڑھ دوں؟ دوستوں نے میری طرف دیکھا تو میری ہیئت کذائی دیکھ کر تذبذب کا شکار ہو گئے اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ تھوڑی خاموشی کے بعد ارشد میر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کس موضوع پر مضمون پڑھیں گے؟ میں نے جواب دیا کہ ’’ فلپ کے ہٹی کی کتاب ’عرب اور اسلام‘ پر ایک تنقیدی نظر‘‘۔ ہٹی کی اس کتاب کا ترجمہ انہی دنوں آیا تھا اور میں نے تازہ تازہ پڑھ کر اس کی بہت سی باتوں کو نشان زد کر رکھا تھا۔ اس لیے میرا خیال تھا کہ میں اگلے اتوار تک کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات کو قلم بند کر لوں گا مگر میرا یہ کہنا ایک دھماکہ ثابت ہوا۔ میری پہلی بات ہی بعض دوستوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ دوسری بات نے تو ان کے چہروں کی کیفیات کو یک لخت تبدیل کر دیا اور مجھے بعض چہروں پر خندۂ استہزا کی جھلک صاف دکھائی دینے لگی مگر میں اپنے موقف پر قائم رہا جس پر ارشد میر صاحب نے اگلی محفل میں میرے مضمون کا اعلان کر دیا۔ 

میں نے اپنے مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصے میں ان واقعاتی غلطیوں کی نشان دہی کی جو ہٹی سے تاریخی طور پر چند واقعات کو بیان کرنے میں ہو گئی تھیں اور ان کی تعداد دس سے زیادہ تھی۔ دوسرے حصے میں اس اصولی بحث پر کچھ گزارشات پیش کیں کہ ہٹی اور دیگر مستشرقین اسلام کو ایک تحریک (Movement) کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ اسلام تحریک نہیں بلکہ دین ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی تحریک اور دین کے فر ق کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔ اس مضمون کا پہلا حصہ ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں اس دور میں شائع ہو گیا تھا مگر دوسرے حصے کے بارے میں ترجمان اسلام کے مدیر محترم ڈاکٹر احمد حسین صاحب کمال مرحوم نے مجھے بتایا کہ وہ کہیں گم ہو گیا ہے۔ بد قسمتی سے میرے پاس اس کی کاپی نہیں تھی اور مزید بد قسمتی یہ کہ اس کے بعد اس حصے کو لکھنے کی کئی بار کوشش کر چکا ہوں مگر ابھی تک اس معیار پر نہیں لکھ پا رہا۔ کسی کتاب کے پوسٹ مارٹم اور آپریشن کے حوالے سے یہ میرا پہلا مضمون تھا جو میں نے ’’مجلس فکر ونظر‘‘ کی ہفتہ وار ادبی نشست میں پڑھا جسے بے حد پسند کیا گیا اور اس کے بعد مجلس میں میری شمولیت نے خاموش سامع کے بجائے متحرک رکن کی شکل اختیار کر لی۔

کتاب کے ساتھ میرے تعلق کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ زندگی میں اپنے جیب خرچ اور کمائی کا ایک بڑا حصہ میں نے کتاب پر صرف کیا ہے۔ خرچ کے معاملے میں میری تین کمزوریاں شروع سے رہی ہیں: ۱۔ سفر‘ ۲۔ کتاب اور ۳۔ ڈاک اسٹیشنری۔ مجھے جب بھی اپنے اخراجات میں کوئی گنجائش ملی ہے (بسا اوقات اس کے بغیر بھی) تو میری رقم کے مصارف میں یہی تین چیزیں شامل رہی ہیں اور اب بھی یہی صورت حال ہے۔ میں نے زندگی میں جتنی کتابیں خریدی ہیں‘ اگر سب میرے پاس موجود ہوتیں تو انہیں سنبھالنے کے لیے اچھی خاصی لائبریری درکار ہوتی مگر میرے ساتھ المیہ یہ رہا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک کتاب خریدنے میں جس قدر ’’فضول خرچ‘‘ تھا‘ اسی طرح کتاب دینے میں بھی فراخ دل رہا ہوں۔ مجھ سے جس دوست نے بھی کسی ضرورت کے لیے کوئی کتاب مانگی ہے‘ میں انکار نہیں کر سکا اور اس طرح دی ہوئی کتابوں میں شاید ہی چند کتابیں مجھے واپس ملی ہوں ورنہ اکثر کتابیں دوستوں ہی کے کام آ رہی ہیں۔ یہ ’’واردات‘‘ میرے ساتھ انفرادی کے علاوہ اجتماعی بھی ہوئی ہے اور کئی بار ہوئی ہے۔ ۶۵ء کی بات ہے کہ گکھڑ میں ’’انجمن نوجوانان اسلام‘‘ قائم ہوئی جس کے بانیوں میں میرا نام بھی شامل ہے۔ اس انجمن نے عوامی خدمت کے لیے ’’دار المطالعہ‘‘قائم کیا تو میں نے اپنی زیادہ تر کتابیں وہاں دے دیں کہ عمومی استفادہ ہوگا اور محفوظ بھی رہیں گی مگر دو چار سال کے بعد انجمن بکھری تو کتابوں کا بھی کچھ پتہ نہ چل سکا کہ کہاں گئیں۔

اس کے بعد گوجرانوالہ میں اسلامیہ کالج روڈ پر کچھ نوجوانوں نے ’’انصار الاسلام لائبریری‘‘ کے نام سے دینی دار المطالعہ قائم کیا تو اس وقت جمع ہونے والی کتابوں کا بڑا حصہ ان کی نذر کر دیا۔ یہ دار المطالعہ آٹھ دس سال چلتا رہا ہے اور اب اس کا بھی کوئی سراغ موجود نہیں ہے۔

اس کے کافی عرصہ بعد شاہ ولی اللہ یونیورسٹی وجود میں آئی اور اس میں لائبریری قائم کی گئی تو میں نے ایک بار پھر کتابوں کی چھانٹی کی اور اچھا خاصا ذخیرہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کی لائبریری میں منتقل کر دیا مگر یونیورسٹی کا سلسلہ تعلیم چند سال بعد منقطع ہو گیا تو لائبریری بھی بند ہو گئی۔ خدا جانے کوئی کتاب وہاں اب بھی موجود ہے یا نہیں۔

یہ سلسلہ شاید مزید آگے چلتا مگر اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی کہ میرے بڑے بیٹے حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ کو کتاب شناسی کا ذوق عطا فرمایا‘ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ اس نے آہستہ آہستہ کتابوں کا معاملہ اپنے کنٹرول میں لے لیا اور کچھ مجھے بھی تھوڑی ’’عقل‘‘ آ گئی اس لیے اب اگر اس سے کوئی کتاب کے بارے میں پوچھتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ ’’ابو سے پوچھنا پڑے گا‘‘ اور مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ ’’ناصر کو پتہ ہوگا‘‘۔ اس طرح کچھ کتابیں بچی ہوئی ہیں اور ہم انہیں الشریعۃ اکادمی کی لائبریری کے لیے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔

’’الشریعہ اکادمی‘‘ گوجرانوالہ میں جی ٹی روڈ پر کنگنی والا بائی پاس کے ساتھ مغرب کی جانب ہاشمی کالونی میں ایک کنال رقبہ پر تعلیمی اور تصنیفی مقاصد کے لیے قائم کی گئی ہے جس کی نگرانی میرے پاس اور نظم عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر کے ہاتھ میں ہے۔ اس میں ایک لائبریری کے لیے بڑا ہال مخصوص کر دیا گیا ہے اور خواہش ہے کہ ایک اچھی سی لائبریری بنائی جائے جو علماء کرام‘ اہل دانش اور طلبہ کے لیے استفادہ کا ذریعہ بنے۔ ارادہ یہ ہے کہ فارغ التحصیل علماء کرام کے لیے ایک ’’خصوصی کورس‘‘ شروع کیا جائے جس میں انہیں تاریخ‘ تقابل ادیان‘ تعلقات عامہ‘ کمپیوٹر اور دیگر ضروری مضامین کی تیاری کے ساتھ ساتھ تحقیق ومطالعہ‘ تحریر وانشا اور ادب وصحافت کے ذوق سے آشنا کیاجائے اور اردو‘ عربی اور انگلش سے حسبِ ضرورت روشناس کرایا جائے۔ اس کے لیے جگہ موجود ہے اور دیگر ضروری وسائل کے لیے بھی اصحاب خیر سے تعاون کی امید ہے لیکن میرے نزدیک اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز ایک معیاری لائبریری ہے ۔ جس روز کام شروع کرنے کی حد تک لائبریری میسر آ گئی‘ اس ’’خصوصی کورس‘‘ کا آغاز کر دیا جائے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

مشاہدات و تاثرات

(مارچ ۲۰۰۲ء)

تلاش

Flag Counter