’’امریکی چرچ کا جنسی بحران‘‘
لاہور (انٹر نیشنل ڈیسک) امریکہ کے ریورنڈجان جے جیوگین کی طرف سے ڈیڑھ سو کے قریب نوعمر لڑکوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات اور پیٹرک میکسوالے کی طرف سے ۱۹۸۶ء میں اس سے ہونے والے جنسی تشدد پر ریورنڈ جیوگین کے خلاف عدالتی کارروائی اور نو سے دس سال تک سزائے قید کے بعد امریکہ بھر کے کیتھولک فرقے کے لوگ خوفزدہ ہیں اور اپنے فادرز کے ہاتھوں بچوں کے جنسی تشدد کے متعدد سکینڈلوں سے پریشان ہو چکے ہیں۔ امریکہ کے ممتاز جریدے نیوز ویک کی حالیہ اشاعت میں شائع ہونے والے مضمون ’’فادرز کے گناہ‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کے لوگ اب بوسٹن کے کارڈینل کے مخالف ہو چکے ہیں جس کے ماتحت کام کرنے والے پادری جنسی سکینڈل میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس تازہ سکینڈل کے باعث متعدد پادریوں نے جان جے جیوگین کے خلاف قانونی کارروائی پر تشویش اور غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ ہم اتنی توہین محسوس کر رہے ہیں کہ ہم نے عوام میں اپنے مخصوص کالر پہننا بھی ترک کر دیا ہے۔ بوسٹن کے کیتھولکس کی نصف تعداد کا مطالبہ ہے کہ کارڈینل مستعفی ہو جائیں کیونکہ ان کی وجہ سے کیتھولک چرچ کی بدنامی ہوئی ہے۔ اس سکینڈل کی وجہ سے امریکہ کے ایسے بہت سے اداروں سے متعلق لوگ بھی پریشان ہو گئے ہیں جن سے ان کے بچے منسلک ہیں۔ ان میں سکول سپورٹس کی ٹیمیں، بوائے اسکاؤٹس وغیرہ شامل ہیں۔ آرچ ڈایوسس آف منڈولفیا نے انکشاف کیا ہے کہ اسے اس بات کی معقول شہادت ملی ہے کہ ۳۵ پادری پانچ عشروں تک بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کرتے رہے ہیں اور انہوں نے متعدد بار ایسے پادریوں کو ان کے فرائض سے سبک دوش کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایری زونا ڈیلی سٹار نے بشپ مینویل ڈی مورنیو آف ٹکسون کے استعفا کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ اس کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ چرچ کے افسران نے خاموشی کے ساتھ نو لڑکوں کو خاموش رہنے کے لیے لاکھوں ڈالر ادا کیے ہیں۔ پلین ٹفس کی اتھارٹیز نے بتایا ہے کہ انہیں روزانہ کالیں وصول ہو رہی ہیں جن میں میری لینڈ، نیویارک، کیلیفورنیا ‘ایریزونا اور ایلونوس میں جنسی تشدد کے شکار بچوں نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعات بیان کیے ہیں۔ اس مضمون میں متعدد پادریوں کی طرف سے مختلف بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے واقعات درج کیے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ آئندہ دس سال میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد پر ہونے والے تصفیوں پر چرچ ایک بلین ڈالر خرچ کریں گا جبکہ ۱۹۸۰ء کے بعد سے اب تک کم از کم ۸۸۰ ملین ڈالر ادا کر چکا ہے۔
(روزنامہ نوائے وقت لاہور، ۲۸ فروری ۲۰۰۲ء)
’’پاکستان میں پہلا اسلامی بینک‘‘
کراچی (ا پ پ) سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک میں پہلے اسلامی کمرشل بینک کے قیام کے لیے لائسنس جاری کر دیا ہے۔ کراچی میں ہونے والی ایک سادہ تقریب میں گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے میزان بینک لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو عرفان صدیقی کو لائسنس دیا۔ میزان بینک کے سپانسرز کا کویت اور بحرین میں بھی ایک بینک قائم ہے جبکہ جدہ میں اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کے نام سے بھی ایک ادارہ موجود ہے۔ میزان بینک کے چیئرمین اور بورڈ آف ڈائریکٹرز شیخ ابراہیم بن خلیفہ الخلیفہ ہیں جو کہ بحرین کے نائب وزیر خزانہ ہیں۔ میزان بینک لمیٹڈ پہلا اسلامک بینک ہوگا جو پاکستان کے اندر کام شروع کرے گا۔ اس کی پورے ملک میں شاخیں کھولی جائیں گی۔ گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے ایک انٹرویو میں کہا کہ میزان بینک کو ایک اہم اور بھاری ذمہ داری سونپی گئی ہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ دیگر بینک بھی اسلامی اصولوں کے مطابق بینکاری کو فروغ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کافی مشکل مرحلہ ہے تاہم یہ دیکھنا ہے کہ بینک کس طرح اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکومت سے وضاحت طلب کی کہ بینکوں کا نظام کیا اسلامی اصولوں کے مطابق کیا جائے گا جس کے بعد سٹیٹ بینک کے کمیشن نے میزان بینک کی درخواست پر غور کیا اور بینک پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں لائسنس جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ نئے اسلامک بینک کے قیام سے لوگوں کو ایک نیا تجربہ ملے گا جس کے بعد دوسرے بینک بھی اس کی تقلید کرنے کے لیے آگے آئیں گے۔
(روزنامہ پاکستان لاہور، یکم فروری ۲۰۰۲ء)
’’امریکہ میں ڈاڑھی کا مقدمہ‘‘
نیو یارک (نمائندہ خصوصی) نیو جرسی اسٹیٹ میں ۱۰ مسلمان پولیس افسران نے دوران ڈیوٹی ڈاڑھی رکھنے کا مقدمہ جیت لیا ہے۔ جسٹس ڈیپارٹمنٹ کے ایک لاسوٹ میں کہا گیا تھا کہ ۱۰ مسلم افسروں کو ڈاڑھی رکھنے کی وجہ سے ملازمت سے بے دخلی یا پھر ان کی مرضی کے خلاف محکموں میں کھپائے جانے کا امکان تھا۔ جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے محکمہ کو حکم دیا کہ مسلم پولیس افسروں کو دوران ملازمت ڈاڑھی رکھنے کی اجازت دی جائے اور انہیں ہرجانے کے طور پر ۶۰۰,۵۳ ڈالر بھی ادا کیے جائیں۔
(روزنامہ پاکستان لاہور، ۸ فروری ۲۰۰۲ء)