مفتی اعظم سعودی عرب کا خطبہ حج

ادارہ

(اس سال   ۲۰ لاکھ کے لگ بھگ خوش نصیب مسلمانوں نے سعودی عرب کے مفتی اعظم سماحۃ الشیخ عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ تعالیٰ کی امامت میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور امیر حج موصوف نے اپنے خطبہ حج میں عالم اسلام کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے ملت اسلامیہ کی راہ نمائی کے لیے انتہائی درد دل کے ساتھ بہت سی مفید باتیں ارشاد فرمائیں۔ ہمارے نزدیک یہ خطبہ مسلم حکمرانوں کی تنظیم او آئی سی کے باقاعدہ ریکارڈ اور ایجنڈے میں شامل ہونا چاہیے اور عالم اسلام کے حکمرانوں اور دیگر تمام طبقات کو ان پر سنجیدہ توجہ دینی چاہیے۔ روزنامہ نوائے وقت کے شکریے کے ساتھ اس خطبے کا اردو خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)


سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز آل شیخ نے امریکہ میں ۱۱ ستمبر کے حملوں کے بعد مغرب کی جانب سے اسلام کے خلاف دہشت گردی کے الزامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک کر دینا انتہائی بے انصافی ہے۔ یہاں مسجد نمرہ میں ۲۰ لاکھ سے زائد حجاج کرام کے سامنے خطبہ حج میں انہوں نے کہا کہ دہشت گردی‘ نا انصافی اور ظلم کے برابر ہے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ دہشت گردی کو ایسے عظیم مذہب کے ساتھ کیسے منسلک کیا جا سکتا ہے جو انسانی زندگی کابہت زیادہ احترام کرتا ہے اور جنگ کے بجائے امن کو فروغ دیتا ہے۔ اسلام بچوں‘ عورتوں اور بے گناہ لوگوں کے قتل سے سختی سے روکتا ہے۔ یہ معاہدوں اور سمجھوتوں کا احترام کرتا ہے اور ہر وقت حقوق کی پاس داری کرتا ہے۔ انہوں نے دنیا کے 1.3ارب مسلمانوں سے کہا کہ وہ اپنے مذہب اسلام پر سختی سے کاربند رہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان دنوں اسلامی ممالک میں اہم واقعات رونما ہو رہے ہیں جو ہمیں غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مذہب کے دفاع کے لیے متحد ہو جائیں۔ انہوں نے اسلام کے دشمنوں کی جانب سے پیدا کیے گئے حالات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تہذیب نے انسانوں میں تفریق پیدا کی ہے اور انسانوں کو تباہی والے ہتھیاروں کے سوا اور کچھ نہیں دیا۔ مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات نہ کریں جس سے ان پر کوئی الزام آئے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ ہمارے گناہوں کی شامت کے باعث ہے۔ کمزور عقائد‘ مسلمانوں کے درمیان اختلافات اور جھگڑے اس کا سبب ہیں۔ پھر ہم ہر چیز کا الزام اپنے دشمنوں پر کیوں عائد کریں؟ انہوں نے کہا کہ مسلمان غیروں پر بھروسہ نہ کریں۔ اللہ نے ہمیں مادی نعمتیں عطا کی ہیں جن سے ہم معاشی خود کفالت حاصل کر سکتے ہیں اس لیے مسلمان غیروں کے پنجے سے معاشی آزادی حاصل کریں۔

عبد العزیز آل شیخ نے کہا کہ اسلام ایک دوسرے کی خیر خواہی کا دین ہے۔ اسلام عفو ودرگزر کا دین ہے۔ اسلام وہ دین ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے۔ اسلام کا مقصد دنیا سے ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ ہے۔ اسلام دین عدل ہے۔ دنیا کے اندر عدل کی حکمرانی‘ انصاف کی حکمرانی یہ اس دین کا مرکزی نکتہ ہے اور یہ دین اسی لیے بھیجا گیا ہے کہ دنیا کے اندر عدل وانصاف کوجاری کیا جائے۔ دین اسلام احترام آدمیت کا اور احترام انسانیت کا دین ہے۔ اسلام کے اندر ایک انسانی جان کی اتنی قیمت ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی شخص کو بلاجواز قتل کر دیا تو قرآن حکیم کی رو سے اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر دیا۔ قران پاک میں آیا ہے کہ ’’جس نے بلا سبب معصوم انسان کو قتل کیا تو اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا۔‘‘ اسلام دنیا کے ہر خطے میں ہونے والے ظلم کی مذمت کرتا ہے۔ یہ ظلم چاہے بے قصور مسلمانوں کے ساتھ ہو یا ان مسلمانوں کے ساتھ جن کے پاس کوئی اسلحہ نہیں‘ چاہے یہ ظلم فلسطین کے ان مسلمانوں کے ساتھ ہو جو اس وقت زیادتی اور ظلم کا شکار ہیں۔ تو دین اسلام ظاہر ہے کہ ان سارے مظلوموں کی مدافعت کرتا ہے اور ظلم کرنے والوں کی ہر حال میں مذمت کرتا ہے چاہے کچھ لوگ ان کے مظالم سے کتنی ہی چشم پوشی کریں۔ دین اسلام کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی اختیار کرنے کا سبق دیا جائے اور انسانوں کو انسانوں کے ظلم سے نکال کر اسلام کا سایہ انہیں فراہم کیا جائے۔ اسلام وہ دین ہے کہ جو ہر قسم کے علاقائی‘ نسلی تعصبات اور رنگ کے تعصبات کا قلع قمع کرتا ہے‘ انہیں ختم کرتا ہے اور پوری انسانیت کو مساوات کا درس دیتا ہے۔ اسلام نے جو کچھ انسانیت کو دیا ہے‘ انسانیت اس پر فخر کر سکتی ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگ جنہوں نے انسانیت کو تباہ کرنے والا اسلحہ بنایا ہے اور جنہوں نے ایسے ایسے ہتھیار ایجاد کیے ہیں کہ جو آج انسان کے لیے بہت بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں اور مستقبل میں ان ہتھیاروں کی وجہ سے پوری انسانیت تباہی کی زد پر ہے۔ یہ اسلحہ انسانیت کو تباہ کرنے کے لیے اور ختم کر دینے کے لیے اور انسانیت کو‘ اس کی تکریم اور اس کی عزت کو پامال کرنے اور انسان کے حقوق کو ختم کرنے کے لیے یہ اسلحہ ایک بہت بڑی علامت ہے اور بہت بڑا خطرہ ہے۔

آج مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی نعمت سے نوازا ہے۔ دنیا کے اندر جغرافیائی لحاظ سے بہترین خطے میں ہر قسم کی نعمتیں اور طاقت کے ذرائع انہیں عطا کیے ہیں۔ یہ سب ان کے پاس ہے مگر بد قسمتی یہ ہے کہ مسلمان گروہ بندیوں کا شکار ہیں۔ مسلمان آپس میں ٹکڑے ٹکڑے ہیں۔ مسلمانوں کا ایک دوسر ے پر اعتماد نہیں ہے۔ مسلمانوں کے دلوں کے اندر بزدلی گھر کر چکی ہے اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی وجہ سے آج وہ طرح طرح کے مسائل کا شکار ہیں ۔ آج میری اپیل ہر مسلمان سے ہے اور میں ہر مسلمان کو بڑے خیرخواہانہ جذبے سے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے فرض کو پہچانے ۔ اگر ہر مسلمان اپنے فرض کو پہچان لے اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو جائے اور اس بات کا عہد کر لے کہ وہ خود اچھا مسلمان بنے گا اور جو لوگ اس کے تحت ہیں‘ ان کی وہ اچھی تربیت کرے گا‘ ان کا وہ خیال کرے گا‘ سرکار رسالت مآب ﷺ کی اس حدیث کے مطابق کہ ’’تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں‘‘ تو اگر مسلمان اپنی ان ذمہ داریوں کو محسوس کر لیں اور ہر مسلمان دوسروں کی فکر کرنے کے بجائے اپنی اپنی فکراور اپنے خاندان ‘ اپنی رعیت جو لوگ اس کے تحت ہیں‘ ان کی فکر کرے تو ا س سے ایک بہت بڑی اصلاح کی صورت اور بہت بڑی تبدیلی ہم اپنے معاشروں میں پیدا کر سکتے ہیں۔

اسی طرح مسلمانوں کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے دین کی دعوت کو عصری زبان میں‘ اس زبان میں جو آج انسان سمجھتے ہیں‘ نہایت آسان پیرایے میں اس دین کی دعوت کو پیش کرے ۔ وہ لوگ جو اس دین میں داخل نہیں ہیں یا مسلمان نہیں ہیں‘ ان تک ہمیں اس دین کی دعوت کو اپنے عمل کے ذریعے سے اور آسان زبان کے ساتھ حکمت کے ساتھ جیسا کہ حکم دیا گیا ہے کہ ’’اپنے رب کے راستے کی طرف اچھی نصیحت اور حکمت کے ساتھ دعوت دو‘‘ یہ فریضہ ہمیں ادا کرنا چاہیے۔ مسلمان حکمت کے ساتھ آسان دعوت پیش کریں اور اپنے عمل سے اس کا نمونہ انسانوں کے سامنے رکھیں۔ اس کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ لوگ اس دین کی طرف متوجہ نہ ہوں۔

آج اس دین کے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی نئی نسل کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیں۔ آج غیر مسلم میڈیا اور مسلمانوں کے دشمن ہر طریقے سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کی نئی نسل طرح طرح کی برائیوں میں پڑ جائے‘ انہیں شراب کی لت لگ جائے اور وہ رقص وسرود میں مبتلا ہو جائیں اور اس طرح سے ان کی جو تخلیقی صلاحیتیں ہیں اور عملی صلاحیتیں ہیں یا وہ صلاحیتیں کہ جن کے ذریعے سے وہ اس امت کو عروج کی طرف اور ترقی کی طرف لے جا سکتے ہیں‘ ان صلاحیتوں پر وار کیاجائے‘ ان کی ان صلاحیتوں کو ختم کر دیا جائے۔ دشمن کی یہ چال ہے کہ وہ امت مسلمہ کی نئی نسل کو بے عمل بنا دے‘ امت مسلمہ کی نئی نسل کو غفلت کے اندر مبتلا کر دے۔ اس سلسلے میں تمام ذمہ داران کو آگاہ ہونا چاہیے اور اپنی نئی نسل کی تربیت اور ان کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔

مسلمان امت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے اقتصادی معاملات کے اندر‘ اپنی معیشت میں خود کفیل ہوں۔ اس طرح کے پروگرام اور اس طرح کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ مسلمان اپنے معاملات کے اندر خود کفیل ہوں‘ بالخصوص اپنی معیشت کے معاملے میں وہ دوسروں پر بھروسہ نہ کریں بلکہ اس طرح کے اقدامات کیے جائیں کہ مسلمان استعمار اور غیروں سے نجات حاصل کریں‘ خاص طور پر اپنی معیشت کے معاملات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنی نعمتیں عطا کی ہیں اور اتنے معیاری مادی وسائل عطا کیے ہیں کہ اس حکمت عملی کو آسانی سے اختیار کیا جا سکتا ہے کہ وہ معاشی خود کفالت حاصل کریں اور غیروں کے پنجے سے اور ان کے قبضہ سے آزادی حاصل کریں۔ اسی طرح سے مسلمانوں پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ عناصر جو کہ اس امت کے درمیان فرقہ بندی اور اسے گروہوں میں تقسیم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں‘ ان کے سلسلے میں بھی انہیں چاہیے کہ وہ چوکنا رہیں۔

اسلام اور عصر حاضر

(مارچ ۲۰۰۲ء)

تلاش

Flag Counter