(۱۶ مئی ۲۰۰۲ء کو شیخ زید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام ’’سیرت النبی ﷺ کانفرنس‘‘ میں مدیر ’الشریعہ‘ کا خطاب)
نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ وازواجہ واتباعہ اجمعین۔
میں شیخ زید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی لاہور کا شکر گزار ہوں کہ جناب رسالت مآب ﷺ کی سیرت طیبہ کے موضوع پر منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت اور گفتگو کے اعزاز سے نوازا اور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ہمارے مل بیٹھنے کو قبول فرماتے ہوئے کچھ مقصد کی باتیں کہنے‘ سننے اور پھر ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین
مجھے گفتگو کے لیے ’’سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے جس کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ حتیٰ کہ تذکرہ بھی اس مختصر وقت میں ممکن نہیں ہے اس لیے بہت سے امور کو نظر انداز کرتے ہوئے چند ایک ایسے سوالات کا جائزہ لینا چاہوں گا جو جہاد کے حوالے سے آج کے دور میں عالمی سطح پر موضوع بحث ہیں اور ان کے بارے میں مثبت اور منفی طور پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔
’’جہاد‘‘ کا لفظ لغوی مفہوم کے حوالے سے کوشش‘ محنت ومشقت اور تگ ودو کی مختلف شکلوں کا احاطہ کرتا ہے اور اسے دینی پس منظر میں لیا جائے تو اسلام کی سربلندی‘ دعوت وتبلیغ‘ ترویج وتنفیذ اور تحفظ ودفاع کے لیے کی جانے والی مختلف النوع عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی خواہشات پر کنٹرول اور نفس کی اصلاح کی مساعی پر بھی جہاد کا لفظ بولا گیا ہے جس کی قرآن وسنت میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔
لیکن جہاد کا ایک خصوصی مفہوم ’جنگ‘ اور ’محاربہ‘ بھی ہے جسے قرآن کریم میں ’جہاد فی سبیل اللہ‘ اور ’قتال‘ کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے اور سینکڑوں آیات قرآنی اور ہزاروں احادیث نبویہ میں اس کا تذکرہ موجود ہے اور اس ’جہاد‘ کے فضائل‘ احکام‘ مسائل اور مقصدیت پر قرآن وسنت میں پورے اہتمام کے ساتھ جابجا روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ہے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کافروں کے خلاف میدان جنگ میں صف آرا ہو کر ہتھیاروں کے ساتھ ان سے معرکہ آرائی کرنا اور قتل وقتال کے ذریعے سے کفر پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا جس کی اہمیت وفضیلت پر قرآن کریم اور سنت نبویؐ کی سینکڑوں تصریحات گواہ ہیں اور اس کو آج کے دور میں اس وجہ سے سب سے زیادہ تنقید واعتراض کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ جدید عقل ودانش کے نزدیک عقیدہ ومذہب کے فروغ اور غلبہ کے لیے ہتھیار اٹھانا تہذیب وتمدن کے تقاضوں کے خلاف ہے اور ایسا کرنا بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے دائرے میں آتا ہے۔
اس سلسلے میں آگے بڑھنے سے قبل ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ عقیدہ ومذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے اور باطل مذاہب پر حق مذہب کی بالادستی کے لیے عسکری جنگ لڑنے کا آغاز حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا بلکہ جہاد کا یہ عمل آسمانی ادیان میں پہلے سے تسلسل کے ساتھ چلا آ رہا ہے اور جناب نبی اکرم ﷺ نے اس حوالے سے تاریخ میں کسی نئے عمل اور اسلوب کا اضافہ کرنے کے بجائے آسمانی مذاہب کی ایک مسلسل روایت کو برقرار رکھا ہے چنانچہ جس طرح قرآن کریم میں جہاد اور مجاہدین کا تذکرہ پایا جاتا ہے‘ اسی طرح بائبل میں بھی ان مجاہدین اور مذہبی جنگوں کا ذکر موجود ہے جو بنی اسرائیل نے اپنے مذہب کے دفاع اور اپنی آزادی اور تشخص کے تحفظ کے لیے لڑیں۔ مثال کے طور پر قرآن کریم نے فلسطین کی سرزمین پر لڑی جانے والی ایک مقدس جنگ کا سورۃ البقرۃ میں تذکرہ کیا ہے جو جالوت جیسے ظالم حکمران کے خلاف حضرت طالوت کی قیادت میں لڑی گئی اور اس میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت بادشاہ کا معجزانہ طور پر خاتمہ ہوا۔ اس جنگ کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے اور اس میں حضرت طالوت کو’ساؤل بادشاہ‘ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔
اس لیے آگر آج کی جدید دانش کو مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانے پر اعتراض ہے تو اس کا ہدف صرف قرآن کریم اور جناب نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی نہیں بلکہ اصولی طور پر بائبل اور بنی اسرائیل یعنی یہود ونصاریٰ کی پوری تاریخ اس کی زد میں ہے‘ صرف اتنے فرق کے ساتھ کہ بائبل کے ماننے والوں نے بائبل پر ایمان کے دعوے کے باوجود اس کے عملی احکام اور ماضی سے دست برداری کا اعلان کر دیا ہے جبکہ قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے تمام تر عملی کم زوریوں کے باوجود اپنے ماضی اور قرآنی احکام وتعلیمات سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس وضاحت کے بعد جہاد کی مقصدیت کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جہاد کا مقصد جناب نبی اکرم ﷺ نے ’’اعلاء کلمۃ اللہ‘‘ قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو جس کا مطلب عملی طو رپر یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی میں حکم اور قانون کا درجہ انسانی خواہشات اور ظن وگمان کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور آسمانی تعلیمات کو حاصل ہونا چاہیے اور کلمۃ اللہ کی اسی سربلندی کے لیے قرآن کریم اور جناب نبی اکرم ﷺ نے آسمانی مذاہب کی ان دینی معرکہ آرائیوں کے تسلسل کو باقی رکھا ہے تاکہ کسی دور میں بھی انسانی خواہشات اور عقل وگمان کو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات پر غلبہ حاصل نہ ہونے پائے اور انسانی سوسائٹی پر اللہ تعالیٰ کے احکام کی عمل داری کے جس مشن کے لیے حضرت انبیاء کرام مبعوث ہوتے رہے ہیں‘ اس میں تعطل واقع نہ ہو چنانچہ جناب نبی اکرم ﷺ نے ایک ارشاد مبارک میں یہ کہہ کر اس جدوجہد کے قیامت تک جاری رہنے کا اعلان فرما دیا ہے کہ: الجہاد ماض الی یوم القیامۃ۔
یہ فکر وفلسفہ کی جنگ ہے‘ اسلوب زندگی کی معرکہ آرائی ہے اور تہذیب وثقافت کا محاذ ہے جس میں شروع سے آسمانی مذاہب کا یہ موقف رہا ہے اور اب آسمانی مذاہب وادیان کے حقیقی وارث کی حیثیت سے اسلام کا موقف بھی یہی ہے کہ انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی اور اس کے مسائل کے حل کے لیے انسانی خواہشات اور عقل ودانش تنہا کفایت نہیں کرتیں بلکہ ان پر آسمانی تعلیمات کی نگرانی ضروری ہے کیونکہ اس ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ (Check & Balance)کے بغیر انسانی خواہشات اور انسانی عقل کے لیے پوری نسل انسانی کی ضروریات ومفادات میں توازن قائم رکھنا ممکن نہیں ہے لیکن آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ تہذیب جدید نے آسمانی تعلیمات سے دست برداری کا اعلان کر کے خواہشات اور عقل ہی کو تمام امور کی فائنل اتھارٹی قرار دے رکھا ہے جس سے توازن بگڑ گیا ہے‘ اجتماعی اخلاقیات دم توڑ گئی ہیں‘ طاقت کا بے لگام گھوڑا وحی الٰہی کی لگام سے آزاد ہو گیا ہے اور پوری دنیا میں ہر طرف ’’جنگل کے قانون‘‘ (Might is Right)کا دور دورہ ہے۔
آج کی جدید دانش نے چونکہ مذاہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر کے شخصی زندگی کے دائروں میں محدود کر دیا ہے اس لیے عقل جدید کے نزدیک مذہب کو وہ مقام حاصل نہیں رہا کہ اس کے لیے ہتھیار اٹھائے جائیں اور اس کے فروغ وتنفیذ کے لیے عسکری قوت کو استعمال میں لایا جائے ورنہ ہتھیار تو آج بھی موجود ہیں اور جتنے ہتھیار آج پائے جاتے ہیں اور تیار ہو رہے ہیں‘ انسانی تاریخ میں ا سے قبل کبھی نہیں دیکھے گئے۔ یہ ہتھیار استعمال بھی ہوتے ہیں اور وہ تباہی لاتے ہیں کہ اس سے قبل کی انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے مگر ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے والوں کے مقاصد اور عنوانات مختلف ہیں:
- جرمنی نے جرمن نسل کی برتری کے عنوان سے ہتھیار بنائے اور دو عظیم جنگوں میں پوری دنیا کے لیے تباہی کا سامان فراہم کیا۔
- روس نے محنت کشوں کی طبقاتی بالادستی کے نام پر عسکری قوت کا بے تحاشا استعمال کیا اور نسل انسانی کے ایک بڑے حصے کو تہہ تیغ کر دیا۔
- اسرائیل ایک نسلی مذہب کی برتری کے لیے اپنے سائز سے سینکڑوں گنا زیادہ ہتھیار جمع کیے ہوئے ہے اور فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی (Genocide) میں مصروف ہے ۔
- اور امریکہ نے مغربی تہذیب وثقافت کے تحفظ کے نام پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر نسلی برتری‘ طبقاتی بالادستی اور تہذیب وثقافت کے تحفظ کے لیے ہتھیار اٹھانا اور صرف اٹھانا نہیں بلکہ اسے وحشیانہ انداز میں اندھا دھند استعمال کر کے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا دہشت گردی نہیں ہے تو آسمانی تعلیمات کے فروغ اور وحی الٰہی کی بالادستی کے لیے ہتھیار اٹھانے کو کون سے قانون اور اخلاقیات کے تحت دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے؟
باقی تمام پہلوؤں سے صرف نظر کرتے ہوئے آج کی معروضی صورت حال (Scenario) میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے طرز عمل کا جائزہ لے لیں کہ افغانستان اور دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں اسلام کے اجتماعی نظام کے نفاذ کا نام لینے والوں کے خلاف ’’عالمی اتحاد‘‘ کے پرچم تلے جو وحشیانہ فوج کشی جاری ہے‘ اس کے جواز میں اس کے علاوہ اب تک کوئی دلیل پیش نہیں کی جا سکی کہ اسلام کا نام لینے والے ان مبینہ انتہاپسندوں سے آج کی عالمی تہذیب کو خطرہ ہے‘ بالادست (Dominant) ثقافت کو خطرہ ہے اور بین الاقوامی نظام کو خطرہ ہے‘ اس لیے ان انتہا پسندوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ عقیدہ ومذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے کو دہشت گردی کہنے والے خود ایک مذہب اور عقیدہ کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے میدان جنگ میں مسلسل صف آرا ہیں۔
میری اس گزارش کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک عقیدہ‘ فلسفہ اور تہذیب کے تحفظ کے لیے ہتھیا ر اٹھانے اور اسے بے دریغ استعمال کرنے کا ایک فریق کو حق حاصل ہے تو اس کے خلاف دوسرے عقیدہ‘ فلسفہ اور تہذیب کے علم برداروں کو ہتھیار اٹھانے کے حق سے کسی طرح محروم نہیں کیا جا سکتا اور ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے کے لیے یہ کوئی وجہ جواز (Excuse)نہیں ہے کہ چونکہ ایک فریق کے پاس ہتھیار بنانے کی صلاحیت زیادہ ہے اور اسے ان ہتھیاروں کے استعمال کے مواقع زیادہ میسر ہیں‘ اس لیے اسے تو ہتھیار بنانے اور چلانے کا حق حاصل ہے اور دوسرا فریق اس صلاحیت میں کمزور اور ان مواقع کی فراوانی سے محروم ہے اس لیے اسے اس کا سرے سے کوئی حق نہیں ہے۔
آج امریکہ اور اس کے اتحادی اس بات پر مطمئن ہیں کہ جو جنگ وہ لڑ رہے ہیں‘ وہ اعلیٰ مقاصد کی خاطر لڑی جا رہی ہے‘ انسانیت کی بھلائی کی جنگ ہے اور ان کے بقول اعلیٰ ترین تہذیبی اقدار کے تحفظ کی جنگ ہے۔ جنگ کی اسی مقصدیت کی وجہ سے انہیں اس عظیم جانی ومالی نقصان کی کوئی پروا نہیں ہے جو دنیا بھر میں ان کے ہاتھوں مسلسل جاری ہے۔ انسان مر رہے ہیں‘ عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں‘ بچے یتیم ہو رہے ہیں‘ عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو رہی ہیں‘ ملکوں اور قوموں کی معیشتیں تباہ ہو رہی ہیں اور امن وامان کا توازن مسلسل بگڑتا چلا جا رہا ہے لیکن ایسا کرنے والے چو نکہ اپنے زعم کے مطابق یہ سب کچھ اعلیٰ مقاصد کے لیے کر رہے ہیں اور ان اقدامات کے ذریعے سے اعلیٰ تہذیب وثقافت کا تحفظ کر رہے ہیں‘ اس لیے ان کے خیال میں یہ سب کچھ جائز ہے اور جنگ کا حصہ ہے جسے کسی چون وچرا کے بغیر پوری نسل انسانی کو برداشت کرنا چاہیے۔ یہی بات اسلام کہتا ہے اور جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ نسل انسانی کے لیے نجات کا راستہ انسانی خواہشات اور صرف انسانی عقل نہیں ہے بلکہ وحی الٰہی کی نگرانی اور آسمانی تعلیمات کی برتری انسانی سوسائٹی کے لیے ضروری ہے اور اسلام کے نزدیک انسانیت کی اعلیٰ اقدار اور تہذیبی روایات کا سرچشمہ انسانی خواہشات اور عقل محض نہیں بلکہ وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات ہیں اس لیے ایک مسلمان اگر ان مقاصد کے لیے ہتھیار اٹھاتا ہے تو دنیا کی مسلمہ روایات اور تاریخی عمل کی روشنی میں اسے یہ کہہ کر اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا کہ مخالف فریق کے نزدیک اس کا یہ عمل دہشت گردی قرار پا گیا ہے۔
اس اصولی وضاحت کے بعد قرآن وسنت کی رو سے جہاد کی چند عملی صورتوں کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
قرآن کریم نے بنی اسرائیل کے حوالے سے جہاد کے ایک حکم کا تذکرہ سورۃ المائدہ میں کیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے چنگل سے بنی اسرائیل کو نکال کر صحرائے سینا میں خیمہ زن ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کو حکم ملا کہ وہ ’’بیت المقدس‘‘ کو عمالقہ سے آزاد کرنے کے لیے جہاد کریں اور آگے بڑھ کر حملہ آور ہوں مگر غلامی کے دائرے سے تازہ تازہ نکلنے والی مرعوب قوم کو اس کا حوصلہ نہ ہوا اور پھر اس کے چالیس سال بعد بنی اسرائیل کی نئی نسل نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں جنگ لڑ کر بیت المقدس کو آزاد کرایا۔
قرآن کریم نے بنی اسرائیل ہی کے حوالے سے ایک اور جہاد کا تذکرہ کیا ہے جس کا حوالہ ہم پہلے بھی دے چکے ہیں کہ جالوت نامی ظالم بادشاہ نے فلسطین کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر کے بنی اسرائیل کو مظالم کا شکار بنانا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت سموئیل علیہ السلام کے حکم پر طالوت بادشاہ کی قیادت میں بنی اسرائیل کی مٹھی بھر (Handful) جماعت نے جالوت کا مقابلہ کیا اور اسے میدان جنگ میں شکست دے کر فلسطین کے علاقے آزاد کرائے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کفار مکہ کے خلاف پہلے بڑے معرکے کی قیادت بدر کے میدان میں کی اور قریش کو شکست دے کر شاندار کام یابی حاصل کی۔ یہ جنگ قریش مکہ کے ان عزائم پر ضرب لگانے کے لیے بپا ہوئی تھی جو وہ اسلام کو ختم کرنے اور جناب نبی اکرم ﷺ اور ان کی جماعت کو ناکام بنانے کے لیے اختیار کیے ہوئے تھے۔ اس کے بعد ’احد‘ اور ’احزاب‘ کی جنگیں بھی اسی پس منظر میں تھیں اور اس کشمکش کا خاتمہ اس وقت ہوا جب نبی اکرم ﷺ نے ۸ھ میں خود پیش قدمی کر کے مکہ مکرمہ پر قبضہ کر لیا۔
یہود مدینہ کے ساتھ جناب نبی اکرم ﷺ نے امن وامان کے ماحول میں وقت بسر کرنے کی کوشش کی لیکن یہودیوں کی سازشوں اور عہد شکنیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہ رہا تو جناب نبی اکرم ﷺ نے یہودیوں کے سب سے بڑے مرکز (Stronghold)خیبر پر حملہ آور ہو کر اسے فتح کر لیا اور یہود کا زور توڑ دیا۔
قیصر روم کے باج گزاروں نے مسلمانوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور یہ خبر ملی کہ خود قیصر روم مدینہ منورہ پر حملہ کی تیاری کر رہا ہے تو جناب نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں اس کا انتظار کرنے کے بجائے شام کی سرحد کی طرف پیش قدمی کی اور تبوک میں ایک ماہ قیام کر کے رومی فوجوں کا انتظار کرنے کے بعد وہاں سے واپس تشریف لائے۔
یہ تو چند کھلی جنگیں ہیں جو علانیہ لڑی گئیں لیکن ان سے ہٹ کر ایسی متعدد کارروائیاں بھی سیرت النبی کے ریکارڈ میں ملتی ہیں جنہیں چھاپہ مار کارروائیوں (Ambush)سے تعبیر کیاجاتا ہے۔
- مدینہ منورہ کے ایک سازشی یہودی سردار کعب بن اشرف کو جناب نبی اکرم ﷺ کے ایما پر حضرت محمد بن مسلمہؓ اور ان کے رفقا نے شب خون مار کر قتل کیا۔
- خیبر کے نواح کے ایک اور سازشی یہودی سردار ابو رافع کو جناب نبی اکرم ﷺ کے حکم پر حضرت عبد اللہ بن عتیکؓ نے اسی قسم کی چھاپہ مار کارروائی کے ذریعے سے قتل کیا۔
- جناب نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں یمن کے اسلامی صوبہ پرایک نئے مدعی نبوت اسود عنسی نے قبضہ کر کے جناب نبی اکرم ﷺ کے مقرر کردہ گورنر کو شہید کر دیا اور اسلامی ریاست کے عمال کو یمن چھوڑنے پر مجبور کر دیا تو جناب نبی اکرم ﷺ کے ایما پر حضرت فیروز دیلمیؓ اور ان کے رفقا نے چھاپہ مار کارروائی کر کے اسود عنسی کو رات کی تاریکی میں قتل کیا اور یمن پر اسلامی اقتدار کا پرچم دوبارہ لہرا دیا۔
- صلح حدیبیہ میں قریش مکہ کی بعض ناجائز اور یک طرفہ شرائط کے خلاف دباؤ ڈالنے کے لیے حضرت ابوبصیرؓ اور حضرت ابوجندلؓ نے سمندر کے کنارے ایک باقاعدہ چھاپہ مار کیمپ قائم کیا اور قریش کا شام کی طرف تجارت کا راستہ غیر محفوظ بنا دیا جس سے مجبور ہو کر قریش کو صلح حدیبیہ کے معاہدے میں شامل اپنی یک طرفہ شرائط واپس لینا پڑیں اور ابوبصیرؓ کی چھاپہ مار کارروائیوں سے تنگ آکر قریش کو جناب نبی اکرم ﷺ سے دوبارہ گفتگو کرنا پڑی۔
جناب نبی اکرم ﷺ نے میدان جنگ میں دشمن کے مقابلے کے ساتھ ساتھ میڈیا کے محاذ پر بھی کفار کے خلاف صف آرائی کی چنانچہ غزوۂ احزاب کے بعد نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ کے ایک اجتماع میں باقاعدہ طور پر اس کا اعلان کیا کہ اب قریش مکہ کو مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونے کی جرات نہیں ہوگی لیکن اب وہ زبان کی جنگ لڑیں گے اور مسلمانوں کے خلاف پورے عرب میں پراپیگنڈے اور منافرت انگیزی کا بازار گرم کریں گے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس موقع پر شعر وخطابت سے تعلق رکھنے والے صحابہ کرامؓ کو میدان میں آنے کی ترغیب دی چنانچہ حضرت حسان بن ثابتؓ‘ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت کعب بن مالکؓ نے کھلے بندوں اعلان کر کے یہ محاذ سنبھالا اور شعر وشاعری کے محاذ پر کفار کے حملوں کا پوری جرات کے ساتھ مقابلہ کیا۔
زیادہ تفصیلات کا موقع نہیں ہے لیکن ان گزارشات سے اتنی بات ضرور سامنے آ گئی ہوگی کہ نبی اکرم ﷺ نے اسلام کی سربلندی اور امت مسلمہ کے تحفظ واستحکام کے لیے موقع ومحل کی مناسبت سے جنگ کی ہرممکنہ صورت اختیار کی اور محاذ آرائی کے جس اسلوب نے بھی جناب نبی اکرم ﷺ کے سامنے اپناچیلنج رکھا‘ اسے جواب میں مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
آج کے حالات میں جہاد کے حوالے سے دو سوال عام طو رپر کیے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان مجاہدین کی چھاپہ مار کارروائیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کیاکسی علاقے میں جہاد کے لیے ایک اسلامی حکومت کا وجود اور اس کی اجازت ضروری نہیں ہے؟
اس کے جواب میں عرض کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں حضرت ابوبصیرؓ کا کیمپ اور حضرت فیروز دیلمیؓ کی چھاپہ مار کارروائی میں ہمارے سامنے واضح مثال کے طورپر موجود ہے۔ حضرت ابوبصیرؓ نے اپنا کیمپ جناب نبی اکرم ﷺ کی اجازت سے قائم نہیں کیا تھا لیکن جب یہ کیمپ اپنے مقاصد میں کام یاب ہوا تو نبی اکرم ﷺ نے نہ صرف اس کے نتائج کو قبول کیا بلکہ قریش کی طرف سے یک طرفہ شرائط سے دست برداری کے بعد اس کیمپ کے مجاہدین کو باعزت طور پر واپس بلا لیا۔
اسی طرح یمن پر اسود عنسی کا غیر اسلامی اقتدار قائم ہونے کے بعد جناب نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ سے فوج بھیج کر لشکر کشی نہیں کی بلکہ یمن کے اندر مسلمانوں کو بغاوت کرنے کا حکم دیا اور اسی بغاوت کی عملی شکل وہ چھاپہ مار کارروائی تھی جس کے نتیجے میں اسود عنسی قتل ہوا۔
دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر جہاد شرعی فریضہ کی حیثیت رکھتا ہے تو جو مسلمان غیر مسلم اکثریت کے ملکوں میں اقلیت (Minority)کے طورپر رہتے ہیں‘ ان کی ذمہ داری کیا ہے اور کیا ان کے لیے جہاد میں شمولیت ضروری نہیں ہے؟
اس کے جواب میں دو واقعات کاحوالہ دینا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت حذیفہ بن یمانؓ اور ان کے والد محترم جناب نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم آپ کی خدمت میں جہاد میں شمولیت کے لیے حاضر ہو رہے تھے کہ راستے میں کفار کے ایک گروہ نے گرفتار کر لیا اور اس شرط پر انہوں نے ہمیں رہا کیا ہے کہ ہم ان کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر حصہ نہیں لیں گے۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے یہ فرما کر انہیں بدر کے معرکے میں شریک ہونے سے روک دیا کہ اگر تم نے اس بات کا وعدہ کر لیا ہے تو اس وعدہ کی پاس داری تم پر لازم ہے چنانچہ حضرت حذیفہؓ اور ان کے والد محترم موجود ہوتے ہوئے بھی بدر کے معرکے میں مسلمانوں کا ساتھ نہیں دے سکے تھے۔
اسی طرح حضرت سلمان فارسیؓ نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا جب رسول اکرم ﷺ قبا میں قیام فرما تھے اور ابھی مدینہ منورہ نہیں پہنچے تھے لیکن حضرت سلمان فارسیؓ کا ذکر نہ بدر کے مجاہدین میں ملتا ہے اور نہ وہ احد ہی میں شریک ہو سکے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس وقت آزاد نہیں تھے بلکہ ایک یہودی کے غلام تھے چنانچہ غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان کی شمولیت جس پہلے غزوے میں ہوئی‘ وہ احزاب کا معرکہ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے جہاد کے حوالے سے مسلمانوں کے معروضی حالات اور ان کی مجبوریوں کا لحاظ رکھا ہے اس لیے جو مسلمان غیرمسلم اکثریت کے ملکوں میں رہتے ہیں اور ان کے ان ریاستوں کے ساتھ وفاداری کے معاہدات موجود ہیں‘ ان کے لیے ان معاہدات کی پاس داری لازمی ہے البتہ اپنے ملکوں کے قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد‘ ہم دردی اور خیر خواہی کے لیے وہ جو کچھ بھی کر سکتے ہیں‘ وہ ان کی دینی ذمہ داری ہے اور اس میں انہیں کسی درجے میں بھی کوتاہی روا نہیں رکھنی چاہیے۔
گزشتہ سال افغانستان پر امریکی حملے کے موقع پر میں برطانیہ میں تھا۔ مجھ سے وہاں کے بہت سے مسلمانوں نے دریافت کیا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کو یہودیوں کی پیروی کرنا چاہیے اور ان سے کام کا طریقہ سیکھنا چاہیے کیونکہ یہودی ان ممالک میں رہتے ہوئے جو کچھ یہودیت کے عالمی غلبہ اور اسرائیل کے تحفظ ودفاع کے لیے کر رہے ہیں‘ اسلام کے غلبہ اور مظلوم مسلمانوں کے دفاع کے لیے وہ سب کچھ کرنا مسلمانوں کا بھی حق ہے مگر یہ کام طریقہ اور ترتیب کے ساتھ ہونا چاہیے اور جن ملکوں میں مسلمان رہ رہے ہیں‘ ان کے ساتھ اپنے معاہدات اور کمٹ منٹ کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنا چاہیے۔
آج دنیا کی عمومی صورت حال پھر اس سطح پر آ گئی ہے کہ خواہشات اور محدود عقل پرستی نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور آسمانی تعلیمات کا نام لینے کو جرم قرار دیا جا رہا ہے۔ آج کی اجتماعی عقل نے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت سے انکار کر کے حاکمیت مطلقہ کا منصب خود سنبھال لیا ہے اور وحی الٰہی سے راہ نمائی حاصل کرنے کے بجائے اس کے نشانات واثرات کو ختم کرنے کی ہر سطح پر کوشش ہو رہی ہے۔ اس فضا میں ’’اعلاء کلمۃ اللہ‘‘ کا پرچم پھر سے بلند کرنا اگرچہ مشکل بلکہ مشکل تر دکھائی دیتا ہے لیکن جناب نبی اکرم ﷺ کی سنت وسیرت کا تقاضا یہی ہے کہ نسل انسانی کو خواہشات کی غلامی اور عقل محض کی پیروی کے فریب سے نکالا جائے اور اسے آسمانی تعلیمات کی ضرورت واہمیت کا احساس دلاتے ہوئے وحی الٰہی کے ہدایات کے دائرے میں لانے کی کوشش کی جائے۔
اس کے ساتھ ہی دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمان جس مظلومیت اور کس مپرسی کے عالم میں ظالم اور متسلط قوتوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں اور انہیں جس بے رحمی اور سنگ دلی کے ساتھ ان کے مذہبی تشخص کے ساتھ ساتھ قومی آزادی اور علاقائی خود مختاری (Territorial Independence)سے محروم کیا جا رہا ہے‘ اس کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا اور ان مظلوم مسلمانوں کو ظلم وجبر کے ماحول سے نجات دلانے کے لیے جو کچھ ممکن ہو‘ کر گزرنا یہ بھی جناب نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات وارشادات کا ایک اہم حصہ ہے جس سے صرف نظر کر کے ہم نبی اکرم ﷺ کی اتباع اور پیروی کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔
ان دو عظیم تر ملی مقاصد کے لیے جدوجہد کے مختلف شعبے ہیں۔ فکر وفلسفہ کا میدان ہے‘ میڈیا اور انفرمیشن ٹیکنالوجی کی جولان گاہ ہے‘ تہذیب وثقافت کا محاذ ہے‘ تعلیم وتربیت کا دائرہ ہے‘ لابنگ اور سفارت کاری کا شعبہ ہے اور عسکری صلاحیت کے ساتھ ہتھیاروں کی معرکہ آرائی ہے۔ یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کے شعبے اور اعلاء کلمۃ اللہ کے ناگزیر تقاضے ہیں۔
اس لیے آج کے دور میں ’سنت نبوی کی روشنی میں جہاد کا مفہوم‘ یہ ہے کہ:
- نسل انسانی کو خواہشات کی غلامی اور عقل محض کی پیروی سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور آسمانی تعلیمات کی عمل داری کی طرف لانے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کی جائے۔
- اسلام کی دعوت اور قرآن وسنت کی تعلیمات کو نسل انسانی کے ہر فرد تک پہنچانے اور اس کی ذہنی سطح کے مطابق اسے دعوت اسلام کا مقصد وافادیت سمجھانے کا اہتمام کیاجائے۔
- ملت اسلامیہ کو فکری وحدت‘ سیاسی مرکزیت‘ معاشی خود کفالت‘ ٹیکنالوجی کی مہارت اور عسکری قوت وصلاحیت کی فراہمی کے لیے بھرپور وسائل اور توانائیاں بروئے کار لائی جائیں۔
- مسلمان کو صحیح معنوں میں مسلمان بنانے اور قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں کے اخلاق وکردار کی تعمیر کے لیے تگ ودو کی جائے نیز دینی تعلیم وتربیت کے نظام کو ہر سطح پر مربوط ومنظم کیا جائے۔
- مظلوم مسلمانوں کو ظلم وجبر سے نجات دلانے اور ان کے دینی تشخص اور علاقائی خود مختاری کی بحالی کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی جائے۔
- مسلم ممالک میں قرآن وسنت کی عمل داری اور شرعی نظام کے نفاذ کی راہ ہموار کر کے تمام مسلم ملکوں کو عالمی سطح پر کنفیڈریشن کی صورت میں خلافت اسلامیہ قائم کرنے پر آمادہ کیاجائے۔
- دینی جذبہ وغیرت کے تحت ظالموں کے خلاف اور مظلوموں کے حق میں ہتھیار اٹھانے والے مجاہدین کو عالمی استعمار کے ہاتھوں ذبح کرانے اور ان کے قتل عام پر خوش ہونے کے بجائے ان کو بچانے کی کوشش کی جائے اور اس عظیم قوت کو ضائع ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کی خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرتے ہوئے انہیں ملت اسلامیہ کے لیے حقیقی معنوں میں ایک کارآمد قوت بنانے کی راہ نکالی جائے۔
- اسلامی تعلیمات‘ قرآن وسنت کے قوانین اور جہاد کے بارے میں عالمی استعمار اور مغربی تہذیب کے علم برداروں کے یک طرفہ اور معاندانہ پروپیگنڈے سے متاثر ومرعوب ہونے کے بجائے اس کو مسترد کیا جائے اور دلیل ومنطق کے ساتھ اسلامی احکام اور جہاد کی ضرورت وافادیت سے دنیا کو روشناس کرایا جائے۔
یہ کام دراصل مسلم حکومتوں کے کرنے کے ہیں اور انہیں او آئی سی کے عملی ایجنڈے کا حصہ ہونا چاہیے لیکن اگر دینی مراکز اور اسلامی تحریکات بھی باہمی ربط ومشاورت کے ساتھ ان مقاصد کے لیے مشترکہ پیش رفت کا اہتمام کر سکیں تو حالات کو خاصا بہتر بنایا جا سکتا ہے۔