اسلامی تحریک نہ کمزوریوں سے مبرا ہے نہ تنقید ونصیحت سے بالا وبے نیاز‘ جیسا کہ اسلامی تحریکوں کے بعض مخلص پیروکاروں نے تصور کر لیا ہے۔ اس تصور کے حاملین تحریک اسلامی اور اسلام کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تحریک پر ناقدانہ نگاہ ڈالنے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسلام پر تنقید ہو رہی ہے۔ یہی کچھ بعض لادین عناصر بانداز دیگر کرتے ہیں۔ وہ تحریک کی خطائیں گنواتے ہیں تو انہیں براہ راست اسلام سے منسوب کر دیتے ہیں اور اسلام اور اس کے احکام میں کیڑے نکالنے لگتے ہیں۔
یہ تحریک بہرحال انسانوں کی تحریک ہے جو اسلام کے غلبے اور اس کے پیغام کو پھیلانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ تحریک کے افراد اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے تمام ممکنہ اسباب وتدابیر اختیار کرتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ نہیں اور نہ ہونا چاہیے کہ ان کا اجتہاد وحی ہے اور یہ کسی بحث وتنقید سے بلند ہے۔ ان میں سے کوئی یہ زعم نہیں رکھتا کہ وہ مواخذہ ومحاسبہ سے بری ہے اور اس پر کیے جانے والے اعتراضات ایسے ہیں جنہیں جواب وصفائی کے درخور نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
اسی بنا پر ہمارا خیال ہے کہ تحریک کے جسد وڈھانچہ اور داخلی اسباب پر بحث کی جانی چاہیے کہ یہ اب تک مطلوبہ اسلامی معاشرے کی تعمیر میں کیوں کام یاب نہیں ہو رہی ہے اور اسلامی شریعت اور عقیدے کی روشنی میں زندگی استوار کرنے میں اس کی ناکامی کی علت کیا ہو سکتی ہے۔ یہاں ہم اختیار سے چند اہم اسباب کا جائزہ لیتے ہیں۔
خود احتسابی کا فقدان
سب سے پہلی چیز جس کی لوگ شکایت کرتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ تحریک کے اندر نقد واحتساب کا عمل اگر یکسر مفقود نہیں تو ضعیف ضرور ہے۔ خود احتسابی یا نقد ذاتی سے ہماری مراد یہ ہے کہ اپنی ذات کا محاسبہ کیا جائے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ’’دانا وہ ہے جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا‘‘ یعنی اس کا محاسبہ کرتا رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’اپنا محاسبہ خود کرو قبل اس کے کہ کوئی تمہارا محاسبہ کرے‘ اپنے عملوں کا وزن اپنے طور پر کر لیا کرو قبل اس کے کہ کوئی تمہارے اعمال کا وزن کرے۔‘‘ بعض بزرگ کہا کرتے تھے: ’’مومن اپنے نفس کا محاسبہ کرنے میں جابر سلطان سے بھی زیادہ شدید ہوتا ہے۔‘‘
یہ تو ہوا انفرادی محاسبہ نفس۔ جس طرح ایک فرد پر لازم ہے کہ وہ دیکھتا رہے کہ وہ اللہ کے معاملے میں کسی تفریط کا شکار نہ ہو اور بندوں کے حقوق میں کوئی کمی نہ چھوڑتا ہو‘ تاکہ اس کا آج ہر کل سے بہتر بنے اور آنے والا کل آج سے بہتر ثابت ہو، اسی طرح جماعت پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے اندر اجتماعی محاسبے کے عمل کو جاری کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو گمراہی پر اکٹھے ہونے سے تو محفوظ رکھا ہے لیکن جہاں تک جماعت کا تعلق ہے‘ وہ خطا اور گم راہی سے محفوظ نہیں سمجھی جا سکتی۔ خاص طور پر اجتہادی امور میں، جہاں ایک معاملے کے متعدد پہلو ہو سکتے ہیں۔ جتنا صحت کا امکان ہوتا ہے‘ اتنا ہی غلطی اور لغزش کا بھی۔ خطا کا امکان بشری کمزوریوں کے ما تحت ہو سکتا ہے۔ یہ ایمان وتقویٰ کے منافی نہیں بلکہ لوازم بشریت میں سے ہے۔ خطا کے رخ پر ان کے قدم بھی پھسل سکتے ہیں جو ہم سب سے کامل ایمان والے ہیں اور میزان میں جن کے عمل قابل ترجیح ہیں۔ صحابہ کرامؓ ہی کو لے لیں۔ غزوۂ احد کے بعد اللہ تعالیٰ کا ان کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟
اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا قلتم انی ھذا قل ھو من عند انفسکم ان اللہ علی کل شی قدیر (آل عمران ۱۶۵)
یہ تمہارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آ پڑی تو تم کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آئی؟ حالانکہ (جنگ بدر میں) دگنی مصیبت تمہارے ہاتھوں (فریق مخالف پر) پڑ چکی ہے۔ اے نبی‘ ان سے کہو کہ یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
قرآن نے صحابہؓ کے بعض اقوال واعمال کا تعلق مظاہر ضعف وخطا ہی سے دکھایا ہے:
ولقد صدقکم اللہ وعدہ اذ تحسونہم باذنہ حتی اذا فشلتم وتنازعتم فی الامر وعصیتم من بعد ما اراکم ما تحبون منکم من یرید الدنیا ومنکم من یرید الآخرۃ (آل عمران ۱۵۲)
اللہ تعالیٰ نے (تائید ونصرت کا) جو وعدہ تم سے کیا تھا‘ وہ تو اس نے پورا کر دیا۔ ابتدا میں اس کے حکم سے تم ہی ان کو قتل کر رہے تھے مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا اور جونہی وہ چیز اللہ نے تم کو دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مال غنیمت) تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے۔
تحریک اسلامی اپنی مالک آپ ہی نہیں ہے‘ یہ پوری امت اسلامیہ کی متاع ہے۔ یہی نہیں بلکہ آنے والی مسلمان نسلوں کو منتقل ہونے والا ورثہ ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس کے اثر وقوت کے سرچشموں سے آگاہی بھی حاصل کی جائے اور اس کے ضعف واضمحلال سے سبق بھی سیکھا جائے۔
تحریک اسلامی کے بعض مخلص متبعین تحریک میں تنقید کا دروازہ کھلنے سے اس لیے خوف زدہ رہتے ہیں کہ اس طرح بعض لوگ اس کی اچھائیوں کو بھی برائیاں ظاہر کرنے لگ جائیں گے۔ ایسی تنقید اگر اصلاح کا باعث نہ بن سکے تو فساد ثابت ہوتی ہے۔ اسی نوعیت کا عذر بعض قدیم علما نے اختیار کیا جنہوں نے امت کو اجتہاد کے دروازے بند کر رکھنے کی نصیحت وتاکید کی۔ ان کا خیال تھا کہ ایسے لوگ بھی اجتہاد کے نام پر اللہ کے دین کو تختہ مشق بنا لیں گے جو اس کے اہل نہیں ہیں۔ دین میں بے حقیقت باتوں کو داخل کریں گے‘ علم وبصیرت کے بغیر اجتہادی فیصلے کریں گے‘ خود بھی گمراہی کا شکار ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ لیکن ہمارے خیال میں ایسے لوگوں کے لیے یہ دروازے بند نہیں ہونے چاہییں جو علم وتقویٰ کے لحاظ سے معاملے پر قادر ہوں۔
اسی طرح تحریک اسلامی کے بعض عظیم قائدین پر تنقید کو بھی گوارا نہیں کیا جاتا‘ مبادا تہمت اور خصومت کے تیر ان پر چلنا شروع ہو جائیں۔ حسن البناؒ ‘ ابو الاعلیٰ مودودیؒ ‘ سید قطبؒ اور مصطفیٰ السباعیؒ یا ایسی ہی دیگر فکری اور تحریکی قیادت پر جب تنقیدی رائے زنی کی گئی تو اسے اتہام گردانتے ہوئے یہ سمجھا گیا کہ ان شخصیات کی امامت وعظمت کو طعن کا نشانہ بنایا جا رہا ہے حالانکہ تنقید علمی سطح پر ہو یا عملی اور تحریکی سطح پر‘ کسی شخص کو علمی‘ دینی اور اخلاقی مرتبے سے نیچے نہیں لا سکتی۔ ان رجال عظیم کی فکر صرف وابستگان تحریک ہی کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ تو مسلمان نسلوں کی ملک ہے۔ چنانچہ نہایت ہی ضروری ہے کہ سب ان کی فکر پر تنقیدی جائزے کے ذریعے سے یہ جان سکیں کہ کہاں مکمل اتفاق ہو سکتا ہے اور کہاں اختلاف کی گنجائش ہے۔ یہ فکر صحت وصواب کے کس قدر قریب ہے اور کس حد تک اس سے بعید ہے۔
خود ان مفکرین نے کبھی اپنے آپ کو معصوم نہیں سمجھا‘ نہ اپنی آرا واجتہاد وفکر کو کبھی ’’تقدس‘‘ کا رنگ چڑھایا۔ حسن البناؒ نے تو اپنے ’’دس اصولوں‘‘ میں یہ بات بہ تاکید کہی ہے کہ نبی ﷺ کے سوا ہر شخص کی بات کو اختیار واخذ بھی کیا جا سکتا ہے اور چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔
ان حضرات نے خوب تر کے سفر میں اپنے موقف علمی کو بدلنے میں کبھی عار نہیں سمجھا۔ سید قطبؒ ’’التصویر الفنی ومشاہد القیامۃ فی القرآن‘‘ میں قرآنی بلاغت کے منفرد عظیم نقاد کی حیثیت میں سامنے آئے۔ جب انہوں نے ’’عدالۃ الاسلام ونظامۃ الحیاۃ‘‘ لکھی تو اسلامی نظام معاشرت کی خوبیوں کے پرچارک بنے۔ اس سے آگے فکر بلند نے پرواز کی تو ’’المعالم‘‘ اور ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں ایک زبردست تحریکی داعی کے قالب میں ڈھل کر معاشرے میں اسلامی انقلاب کے علم بردار بن گئے۔ ان کے ایک شاگرد نے ان نظریات وآرا میں ان زبردست تبدیلیوں کے ضمن میں ان سے ایک مرتبہ کہا، ’’معاف کیجیے گا‘ آپ کے بھی امام شافعیؒ کی طرح دو مذہب ہیں‘ ایک قدیم اور ایک جدید‘‘۔ سید قطبؒ نے اپنی فکر کے اجتہادی سفر میں ترقی وانقلاب کا اعتراف کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی اور کہا، ’’ہاں‘ شافعی نے صرف فروع میں رائے بدلی‘ میں نے تو اصول میں بھی ایسا کیا ہے۔‘‘ سید مودودیؒ نے اپنی بعض تحریروں پر ابو الحسن علی ندویؒ کی تنقید کو خندہ پیشانی سے قبول کیا‘ اس کا ذرہ برابر برا نہ منایا جبکہ ان کے پیروکار اس معاملے میں دوسری روش اپناتے ہیں۔ وہ کسی ایسی تنقید سے ناراض ہوتے ہیں۔ انہیں اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ تحریک کے مخالفین اس تنقید کے نام پر تحریک اور اس کے زعما کے خلاف ناشائستہ مہم شروع کر دیں گے‘ قابل اعتراض نکات جمع کر کے انہیں اپنے نقطہ نظر سے پرکھیں گے۔ چھوٹی بات کو بڑی بنا کر پیش کریں گے۔ تحریک اور شخصیات سے ایسی باتیں منسوب کریں گے جن کا ان سے قطعاً کوئی تعلق نہ ہوگا۔
خود میرے ساتھ ایسا ہوچکا ہے۔ میں نے اپنی کتاب ’’الحل الاسلامی‘‘ میں تحریک اسلامی کی بعض داخلی مشکلات وموانع کا جائزہ لیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس میں سے کچھ لیا‘ کچھ کاٹا‘ کچھ بڑھایا‘ کچھ گھٹایا اور اسے اس شاعر کے طریقے سے پیش کیا جس نے کہا تھا:
ما قال ربک ویل للاولی سکروا
بل قال ربک ویل للمصلینا
’’تیرے رب نے شراب پینے والوں کے لیے ہلاکت نہیں بتائی بلکہ نماز پڑھنے والوں کے لیے تباہی کی وعید سنائی ہے۔‘‘
اس طرح کی تحریف وخرافات سے قطع نظر خالص علمی تنقید جو اخلاق سے کی جائے‘ اسے محض اس ڈر سے نہیں روکنا چاہیے۔
انقسام واختلاف
معاصر اسلامی تحریک میں ایک دوسرا فتنہ یہ ہے کہ تمام جماعتیں اور صفیں انتشار واختلاف اور تقسیم وشکستگی کا شکار ہیں۔ ہر جماعت صرف اپنے آپ ہی کو ’’جماعت المسلمین‘‘ تصور کرتی ہے‘ یہ نہیں مانتی کہ وہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت ہے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہی حق پر ہے‘ باقی سب گمراہی کے راستے پر گام زن ہیں۔ صرف اسی جماعت میں شامل ہونے والے جنت کے‘ اور آگ سے نجات کے مستحق ہوں گے۔ وہ واحد ’’فرقہ ناجیہ‘‘ ہے، باقی سب ہلاکت اور دوزخ میں پڑیں گے۔ یہ بات ان میں سے ہر جماعت اگر زبان قال سے نہیں کہتی تو زبان حال سے اسی کا اظہار کرتی ہے۔ امت جس انتشار اور عدم وحدت کا شکار تھی‘ اسی میں تحریکیں ڈوبتی جا رہی ہیں۔ تحریک کا اصل ہدف غلبہ اسلام تک نہ پہنچ پانے اور اس میں استقامت نہ دکھا سکنے میں اسی افتراق وانشقاق کا دخل ہے جس کا احساس بعض مخلص اور غیرت مند افراد کو ہے اور وہ اسی چیز کے شاکی ہیں۔ فکر وعمل کا سفر اسی رخ پر اگر جاری رہا تو اتفاق وتقارب کے رستے منقطع ہو جائیں گے اور جڑنا اور ملنا مشکل ہو جائے گا۔
میں اسلامی جماعتوں کی تعداد کے خلاف نہیں ہوں اسی لیے میں نے موجودہ دراڑوں کو بھرنے کے لیے لفظ ’’وحدت‘‘ کے بجائے ’’تقارب‘‘ استعمال کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سب اپنے اپنے وجود کو تحلیل کر کے ایک قیادت کے تحت ایک جماعت کی شکل اختیار کرلیں کیونکہ یہ ایک میٹھے اور خوش گوار خواب کے سوا کچھ نہیں۔ عملاً سب کے لیے اتنا بڑا ایثار اور عجز آسان نہیں ہے الا یہ کہ انسان فرشتوں کا روپ دھار لیں۔ پھر جماعتوں کی تعداد اگر محض تنوع اور تخصص کے لیے ہو تو ایسی قبیح بات بھی نہیں ہے بشرطیکہ یہ تصادم وتضاد کی حدود سے محفوظ رہے۔
ہو سکتا ہے ایک جماعت جاہلانہ خرافات اور شرک سے عقیدے کو پاک رکھنے میں خصوصیت رکھتی ہے‘ اس کا مقصود یہ ہو کہ مسلمانوں کے عقیدے درست کر کے قرآن وسنت کے مطابق بنایا جائے۔ کوئی دوسری جماعت عبادات کو بدعات اور دیگر آمیزشوں سے پاک رکھنے کے لیے کوشاں ہو اور چاہتی ہو کہ لوگ دین کی تعلیمات کو سمجھ لیں۔ ممکن ہے کوئی تیسری جماعت مسلم خاندان کے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہتی ہو۔ اس کی دعوت ہو کہ عورتیں شرعی پردے کو اپنائیں اور بن ٹھن کر نمائش زینت نہ کرتی پھریں۔اسی طرح بعض جماعتوں کے پیش نظر سیاسی انقلاب کا نصب العین ہو سکتا ہے۔ وہ انتخاب کے میدان میں کود کر لادینی گروہوں کی سیاسی پیش قدمی کو روکنے کا لائحہ عمل رکھتی ہوں۔ پانچویں قسم ان جماعتوں کی بھی ہو سکتی ہے جو تزکیہ وتربیت اور اجتماعی عمل کو اپنا ٹارگٹ سمجھتی ہیں اور اپنی جملہ کاوشیں اور وقت اسی مقصد کے لیے صرف کرتی ہیں۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ بعض جماعتیں عام لوگوں میں اپنا کام کرتی ہوں‘ اس کے مقابلے میں کچھ دوسری جماعتیں صرف تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے لوگوں کو اپنا مخاطب بناتی ہوں۔ بعض کی دعوت جذبات پر مضراب کا کام کرتی ہے‘ بعض کیفیات ایمان کو متاثر کرتی ہیں‘ کچھ کا پیغام عقل وفکر کو اپیل کرتا ہے‘ خاص طور پر ایسے لبرل اور اشتراکی ذہنوں کو اپیل کرتا ہے جو مغرب زدگی کے باعث عقل ہی کو تمام معیار خطا وصواب سمجھے بیٹھے ہیں۔ جماعتوں میں اسی نوعیت کے فرق ہیں۔ اس فرق کی بنا پر ہر جماعت اسی میدان میں اپنی خدمات کام میں لا رہی ہے جس میدان کی وہ نمائندہ ہے اور جسے وہ کسی دوسرے میدان کے مقابلے میں زیادہ اہم سمجھتی ہے۔
یہ چیز اچھی بھی ہے اور مفید بھی ہے بشرطیکہ سب ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن کا مظاہرہ کریں اور اختلاف کے مقامات پر ایک دوسرے کی برداشت سے باہر نہ ہو جائیں۔ معروف کے معاملے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور سمجھائیں اور جب کبھی وجود وشعائر دین کی حفاظت جیسے بڑے مسائل درپیش ہوں تو سب ایک ہی صف میں کھڑے ہو جائیں اور قدم سے قدم ملا کر منزل مقصود تک پہنچیں۔ یہودیوں‘ عیسائیوں‘ اشتراکیوں اور ملحدوں کے خلاف ایک محاذ بنا کر لڑیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو یاد رکھیں:
ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانہم بنیان مرصوص (الصف ۴)
بلاشک اللہ ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر لڑتے ہیں۔
آج اسلامی تحریک کی قیادت کا فرض ہے کہ اسلام کے لیے سرگرم اسلامی جماعتوں کے مابین قربت واتفاق کی ایسی فضا پیدا کرے جس میں سلجھے ہوئے اور تعلیم یافتہ نوجوان ایک تازہ جوش وولولہ کے ساتھ عازم سفر ہو جائیں۔ عالم عرب میں خصوصیت سے جن جماعتوں کا ذکر مقصود ہے‘ وہ یہ ہیں: ۱۔ جماعت اخوان المسلمین‘ ۲۔ سلفی جماعت‘ ۳۔ جماعت الجہاد‘ ۴۔ حزب تحریر اسلامی‘ ۵۔ تبلیغی جماعت (اور عالم عرب سے باہر جماعت اسلامی پاکستان وانڈیا‘ حزب السلامۃ اور نوری جماعت ترکی‘ جماعت شباب مسلم اور حزب اسلامی ملائشیا وغیرہ)
ان اسلامی جماعتوں کو چاہیے کہ سب کے مفکرین اور قائدین کو ایک دوسرے کے اجتماعات اور دروس کے حلقوں میں بلائیں‘ تعاون کے مواقع تلاش کرنے اور اختلافات کی دراڑوں کو بھرنے کی کوشش کریں۔ جزئیات میں اختلاف کی آگ ٹھندی ہو۔ دوسروں کے بارے میں‘ وہ وہ رائے یا عمل میں مکمل اتفاق نہ بھی رکھتے ہوں‘ حسن ظن کو فروغ دیا جائے۔ کوئی ایسا لائحہ عمل تیار ہونا چاہیے جس پر سب کا جمع ہونا ممکن ہو تاکہ اسلام کے دشمنوں کے خلاف مقابلے میں سب صف واحد میں کھڑے ہو سکیں خواہ دشمن کی تعداد کتنی ہی زیادہ ہو‘ تیاری کتنے ہی پہلوؤں سے ہو اور مکر کا جال کتنا ہی مضبوط ہو۔
ان جماعتوں میں فرق کا بڑھا چڑھا ہوا ہونا اور اختلافات کے شگاف کا وسیع ہونا ایک عذر ہے۔ آخر کام تو سب اسلام ہی کا کر رہی ہیں پھر کیوں نہ قطع تعلق کی روش ختم ہو اور کشیدگی ورنجش کا ازالہ ہو؟
میرا خیال ہے کہ امام حسن البنا رحمہ اللہ کے وضع کردہ ’’دس اصول‘‘ مذکورہ جماعتوں میں فکری وعملی اشتراک کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ یہ اصول امامؒ نے مصر کی دینی جماعتوں کو اتحاد کی کم از کم بنیاد کے طور پر پیش کیے تھے تاکہ اسلام کے لیے کام کرنے والے جملہ عناصر میں فہم وفکر کی وحدت پیدا کی جا سکے اور ان میں پائے جانے والے اختلافات اور الزام تراشی کو ختم کیا جا سکے۔ نیتوں میں اخلاص ہو تو یہ ’’دس اصول‘‘ آج بھی روشن مینار بن سکتے ہیں۔ ایک اہم اصول یہ ہے کہ ’’جس چیز پر ہمارا اتفاق ہو جائے گا‘ ہم ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ اگر کسی چیز میں اختلاف باقی رہے گا تو (الزام تراشی اور اتہام بازی کے بجائے) ایک دوسرے سے معذرت کر لیں گے۔‘‘
میں نے حسن البناؒ سے بڑھ کر اسلام کے کاز کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کی دل داری اور احترام جذبات کی خواہش کسی میں نہیں پائی۔ وہ اتفاق ورفاقت پر زور دیتے ہیں اور دلوں کے تقارب کے لیے نرم اور میٹھا اسلوب اپناتے تھے۔
اخوان المسلمین کے چھٹے اجتماع کے موقع پر اپنے پیغام میں جو کچھ کہا تھا‘ یہ ہے کہ ’’جو مختلف گروہ اسلام کے لیے کام کر رہے ہیں‘ ان کے مابین نزاعات کے سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ محبت‘ اخوت‘ تعاون اور دوستی کے جذبات کام میں لائے جائیں‘ نقطہ نظر میں تقرب اور اتفاق کے مواقع تلاش کیے جائیں۔ فقہی اور مسلکی اختلاف بعد ونفرت کا باعث نہ بنے۔ دین کو پیش کیا جائے یا دین کا کام کیا جائے تو انتہائی نرم لہجے میں تاکہ بات دلوں میں اتر جائے اور عقل کو اپیل کرتی جائے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب نام‘ القاب اور تنظیموں کی ہیئت کے فرق ختم ہو جائیں گے۔ دین اسلام کے ماننے والے ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔ مومنانہ اخوت قائم ہوگی اور دین کے لیے کام کرنے والے تمام لوگ اسی جذبے سے سرشار ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہوں گے۔‘‘
تحریک اسلامی کے لیے یہ بات ہرگز مناسب نہیں کہ وہ ان شخصیات کی دینی خدمات یا خود ان شخصیات کا وزن کم کرے جو دعوت دین کے میدان میں سرگرم ہیں۔ یہ شخصیات اگرچہ انفرادی طور پر کام کر رہی ہیں لیکن پھر بھی ان کا وسیع حلقہ اثر وتلامذہ ہے‘ ان کے مدارس اور مرید ہیں۔ بلاشبہ ان میں سے بعض راست اور مخلص تو ایسے ہیں جو رائے عامہ میں ایک زبردست حرکت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہماری منظم جماعتی اور ایک لگے بندھے پروگرام کے مطابق جدوجہد کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان لوگوں کو اعتبار سے ساقط کر دیں جو جماعت کی حدود کے اندر آکر کام نہیں کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس اس کا معقول جواز اور بعض مادی ومعنوی موانع ہوں جو انہیں منظم اور جماعتی اسلوب کار سے دور رکھتے ہوں۔ اگر وہ فکری‘ قلبی اور عملی طور پر جماعتی کام سے تعاون بھی کرتے ہوں تو پھر ان کے باضابطہ اور رسمی طور پر رکن جماعت نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح بعض بڑی صاف ستھری‘ دعوت دین میں مخلص شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جو سرکاری محکموں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ یہ خواہ کسی درس گاہ میں کام کر رہی ہوں یا وزارت اوقاف وغیرہ میں ملازم ہوں۔ محض سرکاری ملازم ہونے کے ’’جرم‘‘ میں ان سے تجاہل ولا تعلقی برتنا بھی کسی طور پر روا نہیں ہے۔ بعض اوقات سرکاری مشینری اور اداروں میں رہ کر یہ بڑے بڑے علمی اور عملی کام کر جانے کے قابل ہوتی ہیں۔ (باقی)