راقم اثیم تحریک ۱۹۵۳ء کی ختم نبوت کے دور میں پہلے گوجرانوالہ جیل میں، پھر نیو سنٹرل جیل ملتان میں کمرہ نمبر ۱۴ میں مقید رہا۔ ہماری بارک نمبر ۶ دو منزلہ تھی اور اس میں چار اضلاع کے قیدی تھے اور سب علما، تاجر اور پڑھے لکھے لوگ تھے جو دین دار تھے۔ اضلاع یہ ہیں: گوجرانوالہ، سیالکوٹ، سرگودھا اور کیمبل پور )فی الحال ضلع اٹک(۔ بحمد اللہ تعالیٰ جیل میں بھی پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جاری تھا۔ راقم اثیم قرآنِ کریم کا ترجمہ، موطا امام مالک، شرح نخبۃ الفکر اور حجۃ اللہ البالغہ وغیرہ کتابیں پڑھاتا رہا۔ دیگر حضرات علماء کرام بھی اپنے اپنے ذوق کے اسباق پڑھتے پڑھاتے رہے۔ آخر میں راقم اثیم کمرہ میں اکیلا رہتا تھا کیونکہ باقی ساتھی رہا ہو چکے تھے اور میں قدرے بڑا مجرم تھا۔ تقریباً دس ماہ جیل میں رہا اور ڈاکٹر غلام جیلانی صاحب برق کی تردید میں ’’صرف ایک اسلام بجواب دو اسلام‘‘ وہاں ملتان جیل ہی میں راقم اثیم نے لکھی تھی۔
خواب نمبر ۱
۱۳۷۳ھ / ۱۹۵۳ھ میں تقریباً سحری کا وقت تھا کہ خواب میں مجھ سے کسی نے کہا کہ حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام آ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کہاں آ رہے ہیں؟ تو جواب ملا کہ یہاں تمہارے پاس تشریف لائیں گے۔ میں خوش بھی ہوا کہ حضرت کی ملاقات کا شرف حاصل ہو گا اور کچھ پریشانی بھی ہوئی کہ میں تو قیدی ہوں، حضرت کو بٹھاؤں گا کہاں اور کھلاؤں پلاؤں گا کیا؟ پھر خواب ہی میں یہ خیال آیا کہ راقم کے نیچے جو دری، نمدہ اور چادر ہے، یہ پاک ہیں، ان پر بٹھاؤں گا۔ خواب میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کے ساتھ ان کا ایک خادم تشریف لائے۔ حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سر مبارک ننگا تھا، چہرہ اقدس سرخ، اور ڈاڑھی مبارک سیاہ تھی۔ لمبا سفید عربی طرز کا کرتا زیب تن تھا، اور نظر تو نہیں آتا تھا مگر محسوس یہ ہوتا تھا کہ نیچے حضرت نے جانگیہ اور نیکر پہنی ہوئی ہے۔ آپ کے خادم کا لباس سفید تھا، فٹ کرتا اور قدرے تنگ شلوار اور سر پر سفید اور اوپر کو ابھری ہوئی نوک دار ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔
راقم اثیم نے اپنے بستر پر، جو زمین پر بچھا ہوا تھا، دونوں بزرگوں کو بٹھایا۔ نہایت ہی عقیدت مندانہ طریقے سے علیک سلیک کے بعد راقم اثیم نے حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مودبانہ طور پر کہا کہ حضرت! میں ایک قیدی ہوں اور کوئی خدمت نہیں کر سکتا، صرف قہوہ پلا سکتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا، لاؤ۔ میں خواب ہی میں فورًا تنور پر پہنچا جہاں روٹیاں پکتی تھیں۔ اس تنور پر گھڑا رکھا اور اس میں پانی، چائے کی پتی اور کھانڈ ڈالی۔ تنور خوب گرم تھا، جلد ہی قہوہ تیار ہو گیا۔ راقم اثیم خوشی خوشی لے کر کمرہ میں پہنچا اور قہوہ دو پیالیوں میں ڈالا اور یوں محسوس ہوا کہ اس میں دودھ بھی پڑا ہوا ہے، بڑی خوشی ہوئی۔ ان دونوں بزرگوں نے چائے پی، پھر جلدی سے حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام اٹھ کھڑے ہوئے اور خادم بھی ساتھ اٹھ گیا۔ میں نے التجا کی کہ حضرت ذرا آرام کریں اور ٹھہریں، تو حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، ہمیں جلدی جانا ہے، پھر ان شاء اللہ العزیز جلدی آجائیں گے، یہ فرما کر رخصت ہو گئے۔
راقم اثیم اس خواب پر بہت خوش ہوا۔ فجر ہوئی اور ہمارے کمرے کھلے تو راقم اثیم استادِ محترم حضرت مولانا عبد القدیر صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوا، جو تحریکِ ختم نبوت کے سلسلے میں ہمارے ساتھ جیل میں مقید تھے، اور ان کے سامنے خواب بیان کیا۔ حضرت نے فرمایا، میاں! تمہیں معلوم ہے کہ حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام اور فرشتوں علیہم السلام کی شکل و صورت میں شیطان نہیں آ سکتا۔ تم نے واقعی حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا ہے اور میاں! ہو سکتا ہے کہ تمہاری زندگی ہی میں تشریف لے آئیں۔
خواب نمبر ۲
راقم اثیم نے دوسری مرتبہ حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب میں دیکھا کہ حضرت شلوار پہنے ہوئے تھے اور گھٹنوں سے ذرا نیچے تک قمیص زیب تن تھی، اور سر مبارک پر سادہ سا کلّہ، اوپر پگڑی باندھے ہوئے تھے، اور کوٹ میں، جو گھٹنوں سے نیچے تھا، ملبوس تھے اور بڑی تیزی سے چل رہے تھے۔ راقم اثیم کو پتہ چلا کہ حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام جا رہے ہیں تو راقم اثیم بھی پیچھے پیچھے چل پڑا اور سلام عرض کی۔ یوں محسوس ہوا کہ بہت آہستہ سے جواب دیا اور رفتار برقرار رکھی۔ راقم بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ کافی دور جانے کے بعد زور زر کی بارش شروع ہو گئی۔ حضرت اس بارش میں بیٹھ گئے اور اوپر ایک سفید رنگ کی چادر تان لی۔ کافی دیر مغموم اور پریشان حالت میں بیٹھے رہے، پھر بارش میں ہی اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے اور پھر نظر نہ آئے۔
اس خواب کے چند دن بعد مہاجرینِ فلسطین کے دو کیمپوں صابرہ اور شتیلہ کا واقعہ پیش آیا کہ یہودیوں نے تقریباً بتیس ہزار مظلوم مسلمان مردوں، عورتوں، بوڑھوں، بچوں اور مریضوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ اس واقعہ کے پیش آنے کے بعد راقم اثیم اس خواب کی تعبیر سمجھا کہ حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کا شدید بارش میں چادر اوڑھ کر بیٹھنا اور پریشان ہونا اس طرف اشارہ تھا کہ تقریباً ستر لاکھ ظالم یہودیوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ظلم ہوا اور تقریباً تیرہ کروڑ کی آبادی پر مشتمل آس پاس کے مسلمان ممالک نے بے غیرتی کا مظاہرہ کیا اور مصلحت کی چادر اوڑھے رکھی۔
خواب نمبر ۳
بحمد اللہ تعالیٰ کارگل کی لڑائی سے چند دن پہلے تیسری مرتبہ حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب میں دیکھا۔ آپ سفید لباس میں ملبوس تھے، اوپر واسکٹ تھا، سر مبارک ننگا تھا اور عینک لگائے ہوئے تھے۔ آپ کے اردگرد کچھ مستعد نوجوان تھے اور خاصی تعداد میں میلے اور ڈھیلے لباس والے طالبان قسم کی مخلوق تھی جو آپ کے حکم کی منتظر تھی، ملاقات ہوتے ہوئے آپ فورًا کہیں چلے گئے۔