محترم جناب ابوعمار زاہد الراشدی صاحب (جنرل سیکرٹری پاکستان شریعت کونسل)
السلام علیکم!
امید ہے آپ مع رفقائے کار بخیریت ہوں گے۔ میں کافی عرصہ سے روزنامہ اوصاف میں آپ کے کالم بعنوان ’’نوائے قلم‘‘ کا قاری ہوں۔ یہ ایک جاندار اور موقر کالم ہے جس میں حالاتِ حاضرہ اور دینی مسائل پر معلومات ہوتی ہیں۔ میں اس کو کافی پسند کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ ’’الہلال‘‘ میں بھی آپ کا کالم ہوتا ہے۔ الغرض جہاں آپ ایک عالم فاضل ہیں، وہاں موجودہ دور کے مسائل پر بھی آپ کی نظر ہوتی ہے۔ آپ کے کالم مدلل اور تاریخی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں، آپ کا طرز اسلوب استدلال کا حامل ہوتا ہے۔
پچھلے ایک دو کالموں میں مجھے اس ملک کی حالت اور مستقبل کافی خطرناک نظر آ رہا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ موجودہ حکومت ایسے کام کر رہی ہے جو خطرناک نوعیت کے ہیں۔
ایک تو ٹیکسٹ بک بورڈز کا مسئلہ ہے۔ یہ بورڈز غیر ملکیوں کے حوالے کرنے کا پروگرام ہے تاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کتابیں چھاپ سکیں اور قیمتوں میں اضافہ کر کے غریبوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دیں۔ غریب لوگ اور تنخواہ دار کس طرح کتابوں کی بھاری قیمت برداشت کر سکیں گے؟ صرف امیر اور جاگیردار لوگ ہی کتابوں کی قیمتیں برداشت کر سکیں گے اور تعلیم صرف ان کے بچوں کے لیے مخصوص ہو جائے گی تاکہ ان کے بچے مخصوص نصاب پڑھ کر ملکی وسائل پر قابض ہو کر ہمارے اوپر حکومت کرنے کے قابل ہو جائیں اور پھر یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہر ہر چیز پر قابض ہو جائیں کیونکہ میرے خیال میں نصاب بھی ان کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے تیار کیا جائے گا۔
اسی طرح ایک اور خطرہ کارپوریٹ فارمنگ کا ہے۔ زمین کے مالک باہر کے درآمد شدہ لوگوں کو بنانے کا منصوبہ ہے تاکہ جو فصلیں اور خوراک حاصل ہو وہ اپنی مرضی کے مطابق دوسروں کو اپنی من پسند قیمتوں پر فروخت کریں۔ ان کی قیمتیں اتنی زیادہ ہوں گی کہ اس ملک کا عام آدمی ادا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکے گا۔
اس خطرے کی طرف اشارہ پچھلے دنوں ’’مشرق‘‘ اخبار کے کالم میں جنرل حمید گل نے کر دیا ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر یہ سارا ملک دوسروں کے پاس گروی رکھ دیا جائے گا۔
مولانا صاحب! یہ ملک کیا ہم نے دوسروں کا پیٹ بھرنے اور ان کو مالامال کرنے کے لیے بنایا تھا؟ غیروں کے منصوبے ہمارے ملک میں نافذ کیے جائیں گے؟ مشرکوں اور یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے ہم اور ہماری اولادیں تکلیف بھری زندگیاں گزاریں گے؟ مجھے بڑی تشویش ہے کہ آخر ہماری نسلوں کا کیا ہو گا؟ عام شخص کی زندگی بڑی تکلیف دہ ہو رہی ہے۔ موجودہ حکومت تو مکمل طور پر غیروں کے احکام کی منتظر رہتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ ملک صرف امیروں اور حکمرانوں کے لیے بنایا گیا ہے؟ ان کی جو مرضی آئے خوشی سے کریں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اس ملک کے وسائل پر ان کا قبضہ ہے۔ سارے وسائل اور سہولیات اس ملک کے بڑے بڑے افسروں اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے وقف ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس غریب عوام کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، علاج، مکان، تعلیم سے محروم کی جا رہی ہے۔
میرے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ سوچیں اور دوسرے علماء کو اکٹھا کریں کہ وہ ذاتی سوچ سے نکل کر مجموعی طور پر اس ملک کے لیے سوچیں اور فکر کریں کہ عوام کش منصوبے بنا کر ملک کو تباہ کر رہے ہیں۔ جمہوریت اور الیکشن ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے، اب تک اس سے کوئی فائدہ اور خیر برآمد نہیں ہوا بلکہ اس سے مزید نقصان پہنچا ہے۔ ساری دینی جماعتوں کو اکٹھا اور متحد کریں، ذاتی انا اور فائدہ کو نہ دیکھیں، اگر یہ جماعتیں اکٹھی اور ایک جھنڈے تلے جمع ہو گئیں تو امیدِ واثق ہے کہ ملک بچ جائے گا اور عوام خوشحال ہو جائے گی۔
لادینی اور سیکولر قوتوں کو آگے نہ کریں بلکہ اسلام ہی ہمارے لیے امن و چین کا ضامن ہے جبکہ حکمران طبقہ اس بات سے ناآشنا ہے۔ اس کو اسلام سے آگہی نہیں ہے، ان کو پتہ ہی نہیں ہے کہ اسلام کیا چیز ہے۔ بہرحال آپ علماء لوگ اس ملک کی باگ ڈور جلد ہی سنبھال لیں، قبل اس کے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اس ملک پر مکمل طور پر قابض ہو جائیں۔
میں نے اپنا تعارف تو کرایا ہی نہیں، میں علماء کا قدردان ہوں اور ہر اہلِ علم و فضل کا شیدائی ہوں۔ میں خود ایم اے کرنے کے بعد ایک ہائی اسکول میں بطور معلم کام کرتا ہوں۔ کچھ عرصہ قبل میری نظروں سے ماہنامہ الشریعہ گزرا، اگر یہ اب شائع ہوتا ہے تو مجھے بھیج دیں تاکہ مزید آپ سے رابطہ استوار ہو۔ میں کوئی باقاعدہ ادیب یا لکھاری نہیں ہوں، میرے دل میں کچھ باتیں تھیں جو میں نے لکھ دی ہیں، اس میں کوئی ربط نہیں ہو گا تو معاف فرمائیں، مزید آپ کا وقت نہیں لینا چاہتا۔
والسلام، آپ کا مخلص
طارق محمود اعوان (ایم اے) ٹانک