غیر منصوص مسائل کا حل ۔ فقہ اسلامی میں تجویز کردہ طریق کار

محمد عمار خان ناصر

مسلمانوں کی علمی میراث میں فقہ اسلامی کے نام سے جو ذخیرہ پایا جاتا ہے وہ اپنے اجزائے ترکیبی کے لحاظ سے دو چیزوں سے عبارت ہے: ایک ان احکام کی تشریح و تعبیر جو قرآن و سنت میں منصوص ہیں، اور دوسرے ان مسائل کے بارے میں دین کے منشا کی تعیین جن سے نصوص ساکت ہیں، اور جن کے حل کی ذمہ داری قرآن و سنت کے طے کردہ ضوابط کی روشنی میں امت کے علما کے سپرد کی گئی ہے۔ اپنے لغوی مفہوم اور قرآن و سنت کے استعمالات کے لحاظ سے فقہ کا لفظ ان دونوں دائروں کے لیے بولا جاتا ہے۔ تاہم اس کے اصطلاحی و عرفی مفہوم کے پیشِ نظر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ فقہ کی اصل جولان گاہ غیر منصوص احکام کا دائرہ ہے، اسی لیے فقہی ذخیرے کا بیشتر حصہ انہی مسائل و مباحث کی تحقیق و تنقیح کے لیے خاص ہے۔

دوسرے تمام علوم و فنون کی طرح فقہ اسلامی بھی عہد بعہد ارتقا کے مراحل سے گزری ہے اور اس کے بنیادی و ذیلی اصولوں کی ترتیب و تدوین اور ان سے بے شمار جزئیات کی تفریع سینکڑوں اہلِ علم کی علمی کاوشوں کی مرہونِ منت ہے۔ اس سارے عمل میں، فطری طور پر، مختلف رجحانات اور فکری خصائص رکھنے والے مکاتبِ فکر بھی وجود میں آئے ہیں جن کے مابین پیدا ہونے والی مختلف النوع علمی بحثیں فی الواقع علم و نظر کی آبیاری کرنے اور ان کو جلا بخشنے والی ہیں۔ فقہا کی ان مسلسل اور گوناگوں کاوشوں کا ثمر یہ ہے کہ اسلامی فقہ نئے پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے ایک جامع، مربوط اور منضبط ضابطہ رکھتی ہے۔ مسلم فقہا نے نہایت دقتِ نظر کے ساتھ غیر منصوص احکام کو ان کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف دائروں میں تقسیم کیا اور ان کے حل کے لیے مختلف اطلاقی قواعد وضع کیے ہیں۔

جہاں تک فقہی آرا کے اختلاف کا تعلق ہے تو وہ علم و فکر کی دنیا کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔ اس کے بغیر علوم و فنون نہ پھلتے پھولتے ہیں، نہ ان میں نئی نئی راہیں کھلتی ہیں اور نہ مختلف الجھنوں کی تنقیح کا سامان ہی فراہم ہو سکتا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ تمام حلقہ ہائے فکر حیرت انگیز طور پر اپنا انتساب ایک ہی بنیادی سرچشمے کی طرف کرتے ہیں، اور اگر دقتِ نظر سے جائزہ لیا جائے تو ان سب کا استدلال و استنباط چند ایک ایسے کلی قواعد کے تابع ہوتا ہے جو ان کے مابین مابہ الاشتراک کی حیثیت رکھتے اور اس طرح اس غیر متناہی سلسلہ اختلافات میں رشتۂ اتحاد پیدا کرتے ہیں۔ جہاں تک میں غور کر سکا ہوں، فقہی مکاتبِ فکر کے باہمی اختلافات بظاہر کتنے ہی وسیع الاطراف محسوس ہوتے ہوں، وہ بیشتر صرف اطلاق کے اختلافات ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ استنباط کے بنیادی اصول تو ایک ہی ہیں لیکن کسی خاص مسئلے میں ان کا اطلاق کرتے ہوئے اختلاف ہو جاتا ہے۔ ایک فقہیہ اپنے علم و مطالعہ کی روشنی میں ایک اصول کا اطلاق درست سمجھتا ہے جبکہ دوسرے کے نزدیک بعینہ اس مسئلے میں کسی دوسرے اصول کا اطلاق بہتر ہوتا ہے۔

زیرنظر مقالہ میں، میں نے کوشش کی ہے کہ غیر منصوص مسائل کے حل کے لیے اسلامی فقہ میں تجویز کردہ طریق کار اور بنیادی قواعد کا ایک مختصر جائزہ پیش کروں اور ان کی توضیح چند ایسی مثالوں سے کروں جن میں ان قواعد کا اطلاق کیا گیا ہو۔ مثالوں کا انتخاب زیادہ تر جدید پیش آمدہ مسائل سے کیا گیا ہے تاکہ ایک طرف تو یہ بات واضح ہو کہ صدیوں پہلے طے ہونے والے یہ قواعد اپنی ہمہ گیری اور جامعیت کے لحاظ سے آج بھی قابلِ استناد ہیں، اور دوسری طرف یہ حقیقت بھی سامنے آئے کہ ان قواعد کی افادیت کا مدار اس بات پر ہے کہ جزئیات میں اجتہاد کا سلسلہ رکے بغیر جاری رہے اور فقہ اسلامی زمانے کے مسلسل ارتقا کا برابر ساتھ دیتی رہے۔

فقہی و علمی مسائل میں، جیسا کہ میں نے عرض کیا، اہلِ علم کے مابین اختلافِ رائے کا واقع ہو جانا ایک بالکل فطری امر ہے۔ چنانچہ تمام علمی آرا کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے ان آرا کو ترجیح دی ہے جو میرے ناقص فہم کے مطابق، ازروئے اصول و قواعد، اقرب الی الصواب ہیں۔


فقہ اسلامی کے ان قواعد کلیہ کا مطالعہ چار بنیادی عنوانات کے تحت کیا جا سکتا ہے:

۱۔ قیاس،

۲۔ احکام کی حکمت،

۳۔ مصالح، اور

۴۔ عرف

قیاس

شریعت کے احکام اکثر و بیشتر کسی خاص عِلّت پر مبنی ہوتے ہیں۔ قیاس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی منصوص حکم کو علت کی بنا پر ان صورتوں میں بھی ثابت کیا جائے جن میں یہ علت پائی جاتی ہے۔ فقہ اسلامی کے قدیم و جدید ذخیرے میں مسائل کی ایک بہت بڑی تعداد کے احکام اس اصول کے مطابق اخذ کیے گئے ہیں۔

جدید مسائل میں اس کی ایک مثال بندوق کا شکار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر پھینک کر شکار کیے جانے والے جانور کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تیر کا نوک دار حصہ شکار کو لگا ہو اور اس سے جانور کا خون نکلا ہو تو وہ حلال ہے۔ اور اگر تیر چوڑائی والی جانب سے جانور کو لگا ہے اور اس سے اس کی موت واقع ہوئی ہے تو چونکہ وہ ذبح نہیں ہوا بلکہ چوٹ لگنے سے مرا ہے اس لیے حرام ہے۔ تیر پر قیاس کرتے ہوئے علما نے بندوق سے شکار کیے جانے والے جانوروں کو بھی حرام قرار دیا ہے۔

قیاس کا عمل دو پہلو رکھتا ہے:

ایک پہلو کا تعلق فہمِ نص سے ہے، یعنی اس میں کسی منصوص حکم کی علت متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ علت کی پہچان، اس کی شرائط اور اس کی تعیین کے مختلف طریقوں پر اہلِ اصول نے بحث کی ہے لیکن یہ تفصیل یہاں ہمارے موضوع سے خارج ہے۔

دوسرا پہلو اس حکم کے تعدیہ یعنی غیر منصوص صورتوں میں اس کے اطلاق سے متعلق ہے۔ کسی حکم کی علت کی درست تعیین کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ غیر منصوص مسائل پر اس کا اطلاق بھی درست ہو۔ اس ضمن میں فقہا نے متعدد عقلی قواعد وضع کیے ہیں جن میں سے چند بنیادی قواعد کا ہم اجمالاً یہاں تذکرہ کرتے ہیں۔

(۱) پہلا ضابطہ یہ ہے کہ قیاس کے دائرے میں وہ احکام نہیں آ سکتے جن کے بارے میں مستقل نص موجود ہو۔ چنانچہ سفر کی حالت میں مغرب کی نماز کو ظہر، عصر اور عشا پر قیاس کرتے ہوئے قصر کر کے نہیں پڑھا جا سکتا۔ اسی طرح خاوند اگر اپنی بیوی پر بدکاری کا جھوٹا الزام لگائے تو اس پر قذف کی حد جاری نہیں کی جا سکتی۔

(۲) دوسرا ضابطہ یہ ہے کہ ایسے منصوص احکام کو قیاس کا مبنی نہیں بنایا جا سکتا جو شریعت کے عام ضوابط کے تحت نہیں آتے بلکہ ان کی نوعیت مخصوص احکام کی ہے۔ اس کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں:

ایک یہ کہ وہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہو۔ چنانچہ ازواج کی تعداد میں جو رخصت قرآن مجید کی رو سے خاص طور پر آپ کے لیے ثابت ہے، اس میں کسی دوسرے کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔ احناف نے اسی اصول پر ایسے شخص کے لیے جو کسی کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کر سکا ہو، اس کی قبر پر نماز پڑھنے کو ناجائز قرار دیا ہے، اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت ہے۔

دوسری یہ کہ اس کی نوعیت ایسی رخصت کی ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو اپنے مخصوص اختیارات کے تحت دی ہو۔ روایات میں ابو بردہؓ کے لیے ایک سال سے کم عمر کی بکری کی قربانی کی اجازت، اور سالم مولٰی حذیفہؓ کے لیے بڑی عمر میں حذیفہؓ کی بیوی کا دودھ پینے سے حرمتِ رضاعت کا ثبوت اسی نوعیت کے احکام ہیں۔ چنانچہ ان پر دوسرے کسی فرد کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔

تیسری یہ کہ وہ حکم کسی مخصوص حالت سے متعلق اور کسی قید سے مقید ہو۔ اس صورت میں اس کو عام حکم بنانا درست نہیں ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نجاشیؓ کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھائی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا انتقال ایک کافر ملک میں ہوا تھا اور اگرچہ مسلمان وہاں موجود تھے لیکن ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ان کی نماز جنازہ پڑھتے اور اسلامی طریقے پر ان کی تدفین کرتے۔ چنانچہ نجاشیؓ پر قیاس کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی غائبانہ نماز جنازہ تو پڑھی جا سکتی ہے جن کی نماز جنازہ نہ پڑھی جا سکی ہو لیکن اس کو ایک عام عمل بنانا درست نہیں ہو گا۔

(۳) تیسرا ضابطہ یہ ہے کہ قیاس کا مدار ظاہری مماثلت پر نہیں بلکہ حقیقی علت پر رکھنا چاہئے۔ جدید فقہی استنباطات نے اس اصول کی اہمیت کو نہایت موکد کر دیا ہے اس لیے کہ بالخصوص معیشت کے مسائل میں کیے جانے والے قیاسات کے نتائج بہت وسیع اور دور رس ہوتے ہیں، لہٰذا بیانِ احکام میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ کیجئے۔

کرنسی نوٹ کی قوتِ خرید

قرض دے کر مدت کے عوض میں اصل سے زائد رقم لینا سود ہے جو کہ شریعت میں حرام ہے۔ زمانہ قدیم میں سونا اور چاندی کو Medium of exchange یعنی اشیا کے تبادلہ کے لیے ذریعے کی حیثیت حاصل تھی، اس لیے شریعت میں سونے اور چاندی کے قرض میں اصل سے زائد مقدار لینے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ لیکن جدید معیشت میں سونے اور چاندی کو یہ حیثیت حاصل نہیں رہی بلکہ ان کی جگہ کرنسی نوٹ نے لے لی ہے۔ کرنسی نوٹ کی قیمت چونکہ یکساں نہیں رہتی بلکہ مختلف معاشی عوامل کے تحت کم اور زیادہ ہوتی رہتی ہے، اس لیے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ نوٹ کی قوتِ خرید میں اس کمی بیشی کا مالی ادائیگیوں پر کیا اثر پڑے گا؟

مثال کے طور پر ایک شخص نے پانچ ہزار روپے کسی کو بطور قرض دیے اور قرض دیتے وقت ان کی قوتِ خرید ایک تولہ سونا تھی۔ کچھ عرصہ بعد جب مقروض نے قرض واپس کیا تو پانچ ہزار روپے کی قوتِ خرید کم ہو کر دس ماشے رہ گئی۔ اب کیا مقروض ہر حالت میں اتنی ہی مقدار میں نوٹ ادا کرے گا جتنے اس نے لیے تھے؟ یا ان کی قیمتِ خرید کا لحاظ کرتے ہوئے اتنے نوٹ دے گا جن سے ایک تولہ سونا خریدا جا سکتا ہو؟

ایک رائے یہ ہے کہ نوٹوں کی مقدار وہی رہنی چاہئے  کیونکہ کرنسی نوٹ بھی سونا چاندی کی طرح ثمن ہیں، اس لیے جیسے سونا چاندی کے قرض میں کمی بیشی درست نہیں، اسی طرح نوٹوں کے قرض میں بھی کمی بیشی ناجائز ہے۔ تاہم اس قیاس میں محض ظاہری مماثلت کو دیکھتے ہوئے حقیقی علت سے صرفِ نظر کر لیا گیا ہے۔ اس لیے کہ سونا چاندی کی ایک حیثیت تو بلاشبہ یہی ہے کہ وہ اشیا کے تبادلہ کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ وہ بذاتِ خود اپنی بھی ایک قیمت رکھتے ہیں۔ اور جب مقروض اصل مقدار میں سونا یا چاندی واپس کرتا ہے تو قرض خواہ کو کوئی نقصان برداشت نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے برخلاف کرنسی نوٹ کی بذاتِ خود کوئی قیمت نہیں ہوتی، بلکہ وہ ایک فرضی قوتِ خرید کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس لیے جس شخص نے دوسرے کو پانچ ہزار روپے دیے ہیں، اس نے نوٹوں کی شکل میں کوئی ایسی چیز اس کو نہیں دی ہے جو بذاتِ خود قیمت رکھنے والی ہو، بلکہ اس نے، درحقیقت، پانچ ہزار روپے کی قوتِ خرید اس کے حوالے کی ہے۔ 

لہٰذا عدل و انصاف کی رو سے ضروری ہے کہ قرض دینے والے کو اس کی قوتِ خرید پوری واپس ملے، چاہے نوٹوں کی مقدار میں بظاہر زیادتی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔ اس صورت میں یہ زیادتی مدت کے عوض میں نہیں ہے، جو کہ حرمتِ سود کی اصل علت ہے، بلکہ اس نقصان کی تلافی کے لیے ہو گی جو اس عرصے میں نوٹ کی قوتِ خرید میں واقع ہو گیا ہے۔

صنعتی پیداوار

شریعت میں مالِ تجارت پر ڈھائی فیصد جبکہ زمین کی پیداوار پر دس فیصد یا پانچ فیصد زکوٰۃ فرض کی گئی ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ تجارت میں سرمایے کے محفوظ رہنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور سارے کا سارا سرمایہ ہر وقت معرض خطر میں ہوتا ہے، جبکہ زمین کی پیداوار میں نقصان اگر ہو سکتا ہے تو پیداوار میں ہو سکتا ہے، زمین، جو کہ پیداوار کا منبع ہے، بذاتِ خود محفوظ رہتی ہے۔ اس اصول پر دیکھئے، جدید معیشت میں کارخانوں اور فیکٹریوں کی مصنوعات اور مکانوں اور جائیدادوں کے کرایوں کو اگرچہ علما نے بالعموم مالِ تجارت شمار کیا ہے، لیکن ایک رائے یہ ہے کہ ان کا الحاق مالِ تجارت کے بجائے مزروعات کے ساتھ کر کے ان پر دس یا پانچ فیصد زکوٰۃ عائد کرنی چاہئے کیونکہ ان میں بھی ذرائع پیداوار یعنی مشینیں اور اوزار وغیرہ بالعموم نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ دوسری رائے عقل و قیاس کے زیادہ قرین ہے۔

(۴) چوتھا ضابطہ یہ ہے کہ بعض دفعہ علت سے قطعہ نظر کر کے محض احتیاطاً ایک چیز کو دوسرے کے قائم مقام قرار دے کر ایک کے احکام دوسری پر جاری کر دیے جاتے ہیں۔ مثلاً غسل واجب ہونے کی اصل علت تو منی کا خروج ہے، لیکن احتیاطاً شرمگاہوں کے محض ملنے پر غسل واجب کیا گیا ہے۔ جدید مسائل میں اس سے ملتی جلتی صورت ٹسٹ ٹیوب کے استعمال میں پائی جاتی ہے۔ ٹسٹ ٹیوب کے طریقے میں مرد کی منی کو محفوظ کر کے اسے انجکشن کے ذریعے سے یا خود اسی ٹیوب کے ذریعے سے عورت کے رحم میں پہنچایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا اس صورت میں عورت پر غسل واجب ہو گا یا نہیں؟ ایک رائے یہ ہے کہ چونکہ غسل کا موجب درحقیقت منی کا ایسا دخول و خروج ہے جس میں جنسی لذت کا حصول بھی شامل ہو، اس لیے مذکورہ صورت میں غسل واجب نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک اس صورت میں ازروئے علت نہیں لیکن ازروئے احتیاط غسل واجب ہو گا۔

احکام کی حکمت

شریعت کے تمام احکام خاص حکمتوں پر مبنی ہیں جن کا حصول ان احکام کے پورا کرنے سے مقصود ہوتا ہے۔ غیر منصوص مسائل میں بعض دفعہ عقلی لحاظ سے کئی پہلوؤں کا اختیار کرنا ممکن ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ دیکھنا چاہئے کہ احکام کی حکمت کی رعایت کس پہلو میں زیادہ ہے۔ اس اصول کا اطلاق حسبِ ذیل مسائل میں ہوتا ہے۔

نمازوں کے اوقات

ایسے مقامات جہاں بعض نمازوں کا وقت نہ ملتا ہو، مثلاً آفتاب کے طلوع و غروب کے درمیان گھنٹہ نصف گھنٹہ کا فاصلہ رہتا ہو، یا کئی کئی ماہ تک مسلسل دن یا رات رہتے ہوں، تو وہاں نمازوں کا حکم کیا ہے؟ بعض فقہا نے محض ظاہر کو دیکھتے ہوئے یہ فتوٰی دیا کہ چونکہ وقت نماز کے لیے شرط ہے اس لیے ان علاقوں میں وہ نمازیں فرض نہیں ہوں گی جن کا وقت نہیں ملتا۔ لیکن دوسری رائے، جو زیادہ  معقول ہے، یہ ہے کہ شریعت کا اصل مطلوب ایک مخصوص وقت کے اندر پانچ نمازیں ہیں۔ اوقات ان نمازوں کے لیے محض علامت اور ظاہری سبب کی حیثیت رکھتے ہیں نہ کہ حقیقی سبب کی۔ اس لیے مذکورہ علاقوں میں بھی چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں ہی فرض ہوں گی اور ان کے اوقات قریبی علاقوں کے اوقات کے مطابق طے کیے جائیں گے۔

ٹیلی ویژن سے نماز

نماز ایک زندہ روحانی عمل ہے اور اس میں قلبی کیفیات کو اصل مقصود کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک امام کے پیچھے باجماعت نماز پڑھنے سے یگانگت اور وحدت کی جو کیفیات پیدا ہوتی ہیں، وہ ٹیلی ویژن یا ریڈیو کے پیچھے پڑھنے میں نہیں ہو سکتیں، چنانچہ مذکورہ صورت میں نماز درست نہیں ہو گی۔

نس بندی

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے اس میں تبدیلی اور اس کے تقاضوں سے انحراف دین میں حرام ہے۔ مردوں کے عورتوں سے اور عورتوں کے مردوں سے مشابہت اختیار کرنے کو اسی بنیاد پر حدیث میں قابلِ لعنت عمل قرار دیا گیا ہے۔ اسی اصول پر علما نے نس بندی کو حرام کہا ہے کیونکہ مردانہ صلاحیت اور اس کا جائز استعمال اس فطرت کا تقاضا ہے جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے، اور اس فطرت کو ختم کرنے کا اختیار انسان کو نہیں دیا گیا۔

حسن کے لیے سرجری

سرجری کے طریقوں میں ترقی کے باعث یہ ممکن ہو گیا ہے کہ انسان اپنی شکل و شباہت کو سرجری کی مدد سے ایک خاص حد تک اپنی پسند کے مطابق بنوا لے۔ اسلام کے نزدیک انسانوں کی صورت گری مختلف حکمتوں کے تحت اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے کرتے ہیں اور اچھی یا بری شکل دینے سے مقصود انسان کی آزمائش کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ کی اس تقسیم کو قبول کرنا ہی بندگی کا تقاضا ہے۔ چنانچہ اگر محض حسن پیدا کرنے کے لیے سرجری کروائی جائے تو یہ حرام ہے۔ البتہ اگر کسی شخص کی خلقت انسانوں کی عام خلقت سے مختلف ہو، یا کسی حادثے کے نتیجے میں اصل شکل میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو سرجری کے ذریعے سے اس کا علاج درست ہو گا۔

حد میں مقطوع الید کی پیوندکاری

شریعت میں حدود کا مقصد محض مجرم کو سزا دینا نہیں بلکہ اسے معاشرے کے لیے عبرت بنا دینا بھی ہے۔ لہٰذا سرجری کے ذریعے سے کسی ایسے شخص کے اعضا کو دوبارہ جوڑنا ناجائز ہو گا جس کا ہاتھ چوری میں یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ قصاص میں کاٹا گیا ہو۔

روزہ میں انجکشن

علما کے مابین انجکشن سے روزہ ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک انجکشن مطلقاً  ناقض ہے اور بعض رگ میں لگائے جانے والے انجکشن کو ناقض اور دوسرے کو غیر ناقض قرار دیتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ انجکشن میں کون سی صورت پائی جاتی ہے، علما نے یہ بات بطورِ اصول تسلیم کی ہے کہ اگر جسم کے اندر داخل کی جانے والی کوئی چیز کسی منفذ کے ذریعے سے دماغ یا معدہ تک پہنچ جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک روزے کا مقصد دراصل انسان کو اپنے نفس کی خواہشات پر قابو پانے کی تربیت دینا ہے اور اس مقصد کے لیے شریعت میں اکل و شرب اور جماع کو ممنوع کیا گیا ہے۔ چونکہ علاج کی غرض سے کسی بھی قسم کی بیرونی دوا یا انجکشن استعمال کرنے سے اس مقصد پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لیے یہ چیزیں ناقضِ صوم نہیں ہو سکتیں۔ البتہ اگر کوئی شخص کوئی دوا یا انجکشن استعمال ہی اس غرض سے کرتا ہے کہ اس کے بدن کو تقویت پہنچے اور کمزوری محسوس نہ ہو، تو یہ روزے کے مقصد کے خلاف ہے، لہٰذا اس صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا خواہ وہ رگ میں لگایا جائے یا گوشت میں۔

کیسٹ کو بے وضو چھونا

بعض علما کا خیال ہے کہ ایسی کیسٹ کو چھونے کے لیے بھی باوضو ہونا ضروری ہے جس میں قرآن مجید کی تلاوت ریکارڈ کی گئی ہو کیونکہ وضو کے حکم کا مقصد قرآن کا احترام ہے، اور احترام جیسے لکھے ہوئے قرآن کا ہونا چاہئے اسی طرح ریکارڈ کیے ہوئے قرآن کا بھی ہونا چاہئے۔ ہمارے خیال میں ادب اور احترام کا تعلق انسان کی داخلی کیفیات سے ہے، چونکہ کیسٹ پر قرآن ظاہری طور پر لکھا ہوا نہیں ہوتا اس لیے اس کو چھوتے ہوئے آدمی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ اس نے قرآن پکڑا ہوا ہے اور نہ وہ کوئی حجاب محسوس کرتا ہے، چنانچہ اس صورت میں باوضو ہونے کی شرط لگانا درست نہیں۔

ٹیپ ریکارڈر سے قرآن سننے پر سجدۂ تلاوت

علما کا خیال ہے کہ ٹیپ ریکارڈر سے تلاوت سننے پر سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہوتا کیونکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ سننے والا خود پڑھنے والے کی زبان سے قرآن سنے۔ ہمارے نزدیک سجدۂ تلاوت کی حکمت یہ ہے کہ آدمی ایسی آیات کو سن کر، جن میں سجدہ کی ترغیب دی گئی ہے، فورًا ان کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی عاجزی کا اظہار کرے۔ ظاہر ہے کہ اس میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیت کسی کی زبان سے سنی گئی ہے یا ٹیپ ریکارڈر سے، اس لیے ہمارے نزدیک دونوں صورتوں کا حکم ایک ہونا چاہئے۔

مصالح

مصالح کے عنوان کے تحت مختلف ذیلی اصول مندرج ہوتے ہیں:

(۱) الدین یسر

پہلا اصول یہ ہے کہ مامورات میں، یعنی ایسی باتوں میں جن کا کرنا دین میں مطلوب ہے، حتی الوسع یسر اور آسانی کو ملحوظ رکھا جائے۔ ہمارے نزدیک حسبِ ذیل مسائل میں اس اصول کا اطلاق ہونا چاہئے۔

وِگ اور مصنوعی دانتوں کے ساتھ غسل

علما نے ایسے دانتوں میں جو مستقل طور پر لگا دیے گئے ہوں، اور ایسے دانتوں میں جن کو اتارا جا سکے، فرق کرتے ہوئے دوسری صورت میں غسل میں دانتوں کے اتارنے کو ضروری قرار دیا ہے۔ اسی طرح سرجری کے بعض نئے طریقوں میں گنجے پن کے مریضوں کے سر پر ایک جھلی، جس پر بال لگے ہوتے ہیں، مستقل طور پر لگا دی جاتی ہے جو سر سے جدا نہیں ہو سکتی، علما نے اس طرح کی وگ کو بھی غسل سے مانع قرار دیا ہے۔ ہماری رائے میں یہ دونوں فتوے یسر کے خلاف ہیں۔

ناخن پالش کے ساتھ وضو اور غسل

ناخن پالش کے بارے میں علما کا موقف یہ ہے کہ اس کے ساتھ وضو درست نہیں کیونکہ اس کی تہہ (layer) ناخنوں تک پانی کے پہنچنے سے مانع ہے۔ ہمارے نزدیک یسر کے اصول کا تقاضا یہ ہے کہ ہر ایسی چیز جو جسم کے ساتھ اس طرح چپک جائے کہ اس کو الگ کرنے کے لیے رگڑنے یا کھرچنے کی ضرورت پڑے، اسے اصل جلد ہی کے حکم میں تصور کیا جائے۔ اس طرح ناخن پالش، پینٹ، یا تارکول وغیرہ کے جسم پر لگنے کی صورت میں ان کو اتارے بغیر وضو اور غسل درست ہو گا۔

(۲) الاصل الاباحۃ

دوسرا اصول یہ ہے کہ اشیا میں اصل اباحت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عمل درست ہے، اِلّا یہ کہ اس کے خلاف کوئی ممانعت شریعت میں وارد ہوئی ہو۔ اس اصول پر حسبِ ذیل امور جائز قرار پاتے ہیں:

اعضا کی پیوندکاری

علما کے ایک گروہ کے خیال ہے کہ ایک انسان اپنا کوئی عضو اپنی زندگی میں یا موت کے بعد کسی دوسرے شخص کو نہیں دے سکتا کیونکہ اس کا جسم درحقیقت اللہ کی ملکیت ہے، اس لیے اسے اپنے جسم پر اس نوعیت کا تصرف کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ علما کے دوسرے گروہ کی رائے یہ ہے کہ اعضا کی منتقلی سے انسانوں کا فائدہ متعلق ہے کیونکہ اس طریقے سے کئی مریض مرض سے نجات پا لیتے ہیں اور بعض صورتوں میں ان کی زندگی بھی بچائی جا سکتی ہے، اس لیے یہ طریقہ درست ہے۔ ہمارے نزدیک یہ دوسری رائے درست ہے۔

ٹسٹ ٹیوب

ٹسٹ ٹیوب کی مدد سے بعض بے اولاد جوڑوں کے ہاں اولاد پیدا ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس طریقے سے فائدہ اٹھانا بالکل جائز ہو گا، بشرطیکہ بچے کی تولید میں مادہ ایسے مرد و عورت ہی کا استعمال کیا جائے جو شرعی طور پر میاں بیوی ہیں۔

چٹ فنڈ یا کمیٹی

ہمارے معاشرے میں عام لوگوں نے سہولت کی غرض سے کمیٹی کے نام سے قرض کا ایک طریقہ رائج کیا ہے جس میں تمام شرکا ہر ماہ رقم کی ایک متعین مقدار ادا کرتے ہیں اور جمع شدہ رقم باری کے مطابق کسی ایک رکن کو دے دی جاتی ہے۔ اس طرح تمام شرکا اپنی اپنی باری پر اپنی رقم پوری کی پوری اکٹھی وصول کر لیتے ہیں۔ بعض اہلِ علم نے اگرچہ اس کو غلط قرار دیا ہے لیکن ہمارے نزدیک اس طریقے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔ البتہ اس کا ایک دوسرا طریقہ جس میں شرکا کو اپنی ادا کردہ رقم سے کم یا زیادہ پیسے مل جاتے ہیں، صریحاً ناجائز ہے۔

ممسک حیض ادویہ

حج کے ایام میں تمام افعالِ حج کو اپنے مقرر وقت پر انجام دینے کے لیے اگر خواتین ایسی ادویہ استعمال کریں جو وقتی طور پر حیض کے خون کو روک دیں تو کوئی قباحت نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی خاتون محسوس کرے کہ رمضان کا مہینہ گزرنے کے بعد تنہا روزے رکھنا نفسیاتی طور پر مشکل ہو گا تو وہ رمضان ہی میں روزے رکھنے کے لیے ایسی ادویہ استعمال کر سکتی ہے۔

(۳) الضرورات تبیح المحظورات

تیسرا اصول یہ ہے کہ شریعت کے حرام کردہ امور اضطرار کی حالت میں، ضرورت کے مطابق جائز قرار پاتے ہیں۔ اس کا اطلاق حسبِ ذیل صورتوں میں ہوتا ہے:

بینک کی ملازمت

بینک کی بنیاد چونکہ سودی کاروبار پر ہے، اس لیے حدیث کی رو سے اس میں کسی بھی درجے میں شرکت حرام ہے۔ تاہم اگر کسی شخص کے پاس اس کے علاوہ کوئی ایسا ذریعہ معاش نہ ہو جس سے اس کے روز مردہ اخراجات پورے ہو سکتے ہوں تو وہ متبادل ذریعہ معاش میسر ہونے تک بینک کی ملازمت کر سکتا ہے۔

سودی قرض لینا

سود پر قرض دینا اور لینا، اصولی طور پر، دونوں حرام ہیں۔ تاہم اگر کوئی شخص اپنی روز مرہ ضروریات (خوراک اور لباس) پورا کرنے سے بھی عاجز ہو تو وہ ضرورتاً سود پر قرض لے سکتا ہے۔

ٹیکس اور سود میں سود کی ادائیگی

اگر کسی شخص کے پاس سود کسی طریقے سے آجائے تو وہ اسے اپنے کسی استعمال میں نہیں لا سکتا۔ اس کے لیے اس کو اپنی مِلک سے نکال دینا واجب ہے۔ البتہ اگر اس پر کسی ایسے ٹیکس کی ادائیگی واجب ہو جو حکومت نے ناجائز طور پر عائد کیا ہے، یا اس نے مجبورًا سود پر قرض لیا ہو تو وہ سود کی مد میں حاصل ہونے والی رقم کو ٹیکس اور سود کی ادائیگی میں استعمال کر سکتا ہے۔

پوسٹ مارٹم

انسانی جسم کی چیر پھاڑ ناجائز ہے، لیکن علاج یا دیگر ضرورتوں کے تحت اس کی اجازت ہے۔ طبِ جدید میں موت کی وجوہ اور اس طرح کے دیگر معاملات کی تفتیش کے لیے مُردے کے جسم کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے، ضرورت کے اصول کے تحت یہ درست ہو گا۔ 

(۴) المشقۃ تجلب التیسیر

چوتھا اصول یہ ہے کہ شریعت نے بعض احکام میں جو شرائط و قیود لاگو کی ہیں، اگر کسی موقع پر ان کی پابندی کرنے سے حرج لاحق ہوتا ہو تو ان کی رعایت ضروری نہیں رہے گی۔

طویل الاوقات علاقوں میں روزہ

ایسے علاقے جہاں ایک طویل عرصہ تک مسلسل دن اور پھر رات کا سلسلہ رہتا ہے، روزے کے اوقات قریبی علاقوں کے اوقات کے مطابق طے کیے جائیں گے کیونکہ اس قدر طویل عرصہ تک روزہ رکھنا ناممکن ہے۔

ٹرین، ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز

نماز میں قیام کرنا اور قبلہ رخ ہونا لازم ہے۔ تاہم ٹرین، ہوائی جہاز یا بحری جہاز میں سفر کرتے ہوئے اگر قیام کرنے یا قبلہ رخ ہونے کا التزام کرنے میں دِقت ہو تو یہ شرائط ساقط ہو جائیں گی اور بیٹھ کر کسی بھی جانب منہ کر کے نماز پڑھنا جائز ہو گا۔

حالتِ حیض میں بیت اللہ کا طواف

بیت اللہ کے طواف کے لیے حیض و نفاس اور جنابت سے پاک ہونا ضروری ہے۔ اس لیے اگر ایامِ حج میں عورت کو حیض آ جائے تو وہ پاک ہونے کے بعد ہی طوافِ زیارت کر سکتی ہے۔ لیکن آج کل اس پر عمل کرنا ممکن نہیں کیونکہ حکومتِ سعودیہ کی جانب سے حاجیوں کو مخصوص دنوں کا ویزا جاری کیا جاتا ہے اور ان کی واپسی کی تاریخ کئی دن پہلے مقرر ہو چکی ہوتی ہے، اس لیے عورتوں کے لیے حیض سے پاک ہونے کا انتظار کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ اس صورت میں فقہا نے اجازت دی ہے کہ عورت ناپاکی کی حالت میں ہی طوافِ زیارت کر سکتی ہے۔

حالتِ حیض میں تلاوتِ قرآن

حیض کی حالت میں عورت کے لیے قرآن کا پڑھنا ناجائز ہے، لیکن اگر کوئی عورت کسی مکتب میں معلّمہ یا طالبہ ہو تو ظاہر ہے کہ زیادہ دنوں تک چھٹی کرنے سے تعلیمی سرگرمیوں میں حرج واقع ہوتا ہے، لہٰذا ایسی خواتین کے لیے حالتِ حیض میں قرآن کا پڑھنا پڑھانا جائز ہو گا۔

(۵) ما ادی الی المحظور فھو محظور

اس اصول کا دوسرا نام سدِ ذرائع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے امور جو کسی ممنوع کام کا ذریعہ بنتے ہوں، ناجائز ہیں۔

جدید مسائل میں اس کی نظیر مانع حمل ادویہ اور آلات کی عام فراہمی ہے۔ علما نے بجا طور پر یہ کہا ہے کہ معاشرے کو زنا سے محفوظ رکھنے کے لیے داخلی پاکیزگی کی تربیت کے ساتھ ساتھ خارجی موانع بھی برقرار رہنے چاہئیں اور شریعت نے اسی غرض سے پردہ وغیرہ کے احکام دیے ہیں۔ زنا کے بارے میں انسانی جبلت اور معاشرتی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس میں اصل مانع کی حیثیت بدنامی کے خوف کو حاصل ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس مانع کو معاشرے میں برقرار رکھا جائے ورنہ زنا پر کنٹرول ناممکن ہو جائے گا۔ مانع حمل ادویہ اور آلات کی سرعام فراہمی نے خود ہمارے معاشرے میں بھی، جہاں اعتقادی طور پر زنا کو حرام سمجھا جاتا ہے، اس خوف کو ختم کر دیا ہے اور زنا پہلے کی نسبت کہیں زیادہ عام ہو گیا ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ مانع حمل ادویہ اور آلات کی فراہمی کو محدود کیا جائے اور شادی شدہ جوڑوں کے علاوہ دوسروں کو اس کی فراہمی پر پابندی عائد کی جائے۔

(۶) یختار اھون الشرین

اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی صورت حال میں دو غلط راستوں میں سے ایک کو اختیار کرنا پڑے تو کم مفاسد والے راستے کو اختیار کیا جائے۔ اس کی مثالیں حسبِ ذیل ہیں:

ظلم کے نظام میں شرکت

کسی ایسے اسلامی یا غیر اسلامی ملک میں جہاں ظلم کا نظام ہو، کاروبارِ حکومت میں شریک ہونے کی صورت میں، ظاہر ہے آدمی کو بہت سے ناجائز کام کرنے پڑیں گے، چاہے وہ دل سے ان کے کرنے پر آمادہ نہ ہو۔ یہی صورت ہمارے معاشرے میں تجارت کی ہے۔ لیکن اگر ان میدانوں میں شرکت کو نیک لوگوں کے لیے بالکل ممنوع قرار دیا جائے تو یقیناً زیادہ بڑے مفاسد پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ چنانچہ حکمت کا تقاضا ہے کہ ایسے لوگوں کو ان میدانوں میں آنے کی نہ صرف اجازت بلکہ ترغیب دی جائے جو طبعاً برائی کو ناپسند کرتے ہوں، اور اس کو مجبوری کے دائرے میں رکھتے ہوئے باقی امور میں ملک و قوم کی خدمت انجام دے سکیں۔

جڑواں بہنوں کا نکاح

اگر دو عورتیں اس طرح پیدا ہوئی ہوں کہ ان کے اعضا ایک دوسرے کے ساتھ ناقابلِ انفصال طریقے پر جڑے ہوئے ہوں تو ان کے نکاح کا کیا حکم ہے؟ عقلاً اس میں تین احتمال ہیں: یا تو وہ دونوں مجرور رہیں، یا دونوں کا نکاح دو الگ الگ مردوں سے کر دیا جائے، اور یا دونوں کو ایک ہی مرد کے نکاح میں دے دیا جائے۔ ان میں سے تیسری صورت میں پہلی دو صورتوں کی بہ نسبت کم قباحت اور ضرر پایا جاتا ہے، اس لیے ہمارے نزدیک اسی کو اختیار کیا جائے۔

عرف

قانون سازی میں معاشرے کے عرف و رواج کی اہمیت دنیا کے تمام قدیم و جدید قانونوں میں مسلّم ہے اور فقہ اسلامی میں بھی اسے ایک مستقل ماخذِ قانون کی حیثیت دی گئی ہے۔

(۱) عرف کے ضمن میں پہلا ضابطہ یہ ہے کہ اگر وہ نصوصِ شریعت اور اس کے مزاج کے خلاف نہ ہو تو معتبر ہو گا۔ ہر معاشرہ اپنی ضروریات اور حالات کے لحاظ سے افرادِ معاشرہ کے حقوق کی حفاظت اور معاملات کو بسہولت انجام دینے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتا رہتا ہے۔ اس نوعیت کے تمام احکام اسلامی فقہ میں حجت مانے جاتے ہیں، اِلّا یہ کہ وہ شریعت کی طے کردہ حدود و مقاصد سے ٹکراتے ہوں۔

اس کی ایک مثال حقوق کی وہ قسم ہے جسے فقہا حقوقِ عرفیہ کا نام دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے ایسے حقوق جو نص سے ثابت نہیں لیکن کسی خاص عرف یا ماحول میں تسلیم کیے جاتے ہیں۔ چونکہ ان کے ثبوت کا مدار عرف پر ہے، اس لیے زمان و مکان کے اختلاف سے یہ مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ حقوقِ عرفیہ کی چند نئی صورتیں جو ہمارے زمانے میں رائج ہیں اور جنہیں اہلِ علم نے تسلیم کیا ہے، حسبِ ذیل ہیں:

پگڑی

کرایہ داری کے مروّج طریقوں میں جائیداد کا مالک کرایہ دار سے کرایہ کی رقم کے علاوہ ایک متعین رقم پگڑی کے نام سے الگ سے وصول کرتا ہے، جس کا مقصد کرایہ دار کی جانب سے جائیداد کی حفاظت اور بروقت جگہ خالی کرنے کی ضمانت حاصل کرنا ہوتا ہے، علماء نے اس صورت کو درست تسلیم کیا ہے۔

حقِ تالیف و ایجاد و حقِ طباعت

جدید قوانین میں کسی کتاب کے مصنف یا ناشر کا یہ حق تسلیم کیا گیا ہے کہ ان سے اجازت لیے یا ان سے معاہدہ کیے بغیر کوئی دوسرا شخص یا ادارہ اس کتاب کو شائع نہیں کر سکتا۔ اسی طرح بعض مخصوص ایجادات کے موجدین کی اجازت کے بغیر ان کی تیاری اور فروخت نہیں کی جا سکتی۔

رجسٹرڈ نام اور ٹریڈ مارک

کمپنیاں مختلف کاروباری فوائد کی خاطر مخصوص نام اور ٹریڈمارک رجسٹرڈ کرا کر اپنی مصنوعات کی تشریح کرتی ہیں اور اس طرح صارفین میں اس نام کی ایک reputation بن جاتی ہے۔ جدید قوانین کی رو سے کسی دوسری کمپنی کو اس نام یا ٹریڈ مارک کے ساتھ مصنوعات بنانے یا بیچنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس سے اصل کمپنی کو کاروباری لحاظ سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور لوگوں کے ساتھ بھی دھوکا ہوتا ہے۔

(۲) دوسرا ضابطہ یہ ہے کہ عرف اگر نصوصِ شریعت یا اس کے مزاج کے خلاف ہو تو معتبر نہیں ہو گا۔ چنانچہ جدید دور میں سود، جوئے اور دیگر شرعی محرمات کی تمام صورتوں کو اہلِ علم نے بالاتفاق حرام قرار دیا ہے، اگرچہ وہ معاشرے بہت عام ہو گئی ہیں۔

(۳) تیسرا ضابطہ یہ ہے کہ عرف اگر قیاسِ خفی کے معارض ہو تو عرف کو ترجیح ہو گی۔

اس کی ایک مثال تعطیلات کی اجرت ہے۔ قیاس کی رو سے تو آدمی کو صرف ان دنوں کی اجرت لینی چاہئے جن میں اس نے خدمت انجام دی ہے، لیکن چونکہ بالعموم اداروں، محکموں اور کمپنیوں میں یہ طریقہ رائج ہے کہ ملازمین کو تعطیلات کی اجرت بھی دی جاتی ہے، اس لیے یہ طریقہ درست مانا گیا ہے۔

اسی طرح ہمارے ملک میں یہ طریقہ رائج ہے کہ پرنٹنگ پریس چند نسخوں سے لے کر ایک ہزار یا گیارہ سو تک نسخوں کی اشاعت کا ایک ہی معاوضہ وصول کرتا ہے۔ بظاہر دس یا بیس نسخوں اور ایک ہزار نسخوں میں بڑا تفاوت ہے اور از روئے قیاس طباعت کے معاوضے میں بھی فرق ہونا چاہئے، لیکن چونکہ یہ طریقہ عام رائج ہے اور عرفاً اس کو تسلیم کیا جاتا ہے، لہٰذا قیاس ناقابلِ التفات ہو گا۔

(۴) چوتھا ضابطہ یہ ہے کہ عرف کے بدلنے سے احکام بھی بدل جاتے ہیں۔

مثلاً کرنسی نوٹ جب نیا نیا متعارف ہوا تو اس وقت عرف کے لحاظ سے اس کی حیثیت ایک وثیقہ اور ضمانت کی تھی، چنانچہ علما نے اس کے لین دین پر وثیقہ کے فقہی احکام جاری کرتے ہوئے فتوٰی دیا تھا کہ ان سے زکوٰۃ یا قرض وغیرہ اس وقت تک ادا نہیں ہوں گے جب تک کہ صاحبِ حق بینک سے اصل زر وصول نہ کر لے۔ لیکن اب نوٹ کی حیثیت عرفی ثمن کی ہے اور کوئی شخص ان کو وثیقہ یا اصل رقم کی ضمانت نہیں سمجھتا، لہٰذا ان پر اس عرفی ثمن کے احکام جاری ہوں گے اور ان کے ادا کرنے سے قرض، زکوٰۃ اور دوسری ادائیگیاں، حقیقی ادائیگیاں سمجھی جائیں گی۔

انسانی علم کے ارتقا نے جو نئی سہولیات مہیا کی ہیں ان سے استفادہ بھی ہمارے نزدیک اسی ضمن میں آتا ہے۔ چنانچہ رؤیتِ ہلال میں جدید سائنسی آلات سے، جرائم کی تفتیش میں تربیت یافتہ کتوں اور انگلیوں کے نشانات سے، اور قتل و زنا کے مقدمات کی تحقیق میں پوسٹ مارٹم، ڈی این اے ٹیسٹ اور طبی معائنے کی دوسری صورتوں سے مدد لینا اور ان پر اعتماد کرنا بالکل درست ہو گا۔


اس جائزے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی فقہ نئے پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے ایک جامع، مربوط اور منضبط ضابطہ رکھتی ہے۔ اس ضمن میں فقہا کے وضع کردہ قواعد مضبوط علمی و عقلی اساسات پر مبنی ہیں اور، چند جزوی اختلافات سے قطع نظر، فقہا کے مابین ہمیشہ مسلّم رہے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بنیاد خود قرآن مجید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، اور فقہا صحابہؓ کے اجتہادات میں موجود ہے۔ ان قواعد کی جامعیت عقلی استقرا کے لحاظ بھی بالکل قطعی ہے، اور ان چودہ صدیوں میں ان کے عملی استعمال نے بھی واضح کر دیا ہے کہ یہ قیامت تک انسانی زندگی کو پیش آنے والے ہر نشیب و فراز کا سامنا کرنے اور ہر قسم کے مسائل کے حوالے سے دین کا منشا متعین کرنے کے لیے کافی و شافی ہیں۔ ھذا ما عندی واللہ علم بالصواب۔



مراجع

(۱) اصول الفقہ: خضری بک

(۲) الوجیز فی اصول الفقہ: عبد الکریم زیدان

(۳) فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر: مولانا محمد تقی امینی

(۴) عرف و عادت اسلامی قانون میں: ساجد الرحمٰن صدیقی

(۵) فقہ اسلامی میں نظریہ سازی: ڈاکٹر جمال الدین عطیہ، مترجم: مولانا عتیق احمد قاسمی

(۶) اسلامی قانون کے کلیات: ڈاکٹر عبد المالک عرفانی

(۷) جدید فقہی مسائل: خالد سیف اللہ رحمانی

(۸) فقہی مقالات: مولانا محمد تقی عثمانی

(۹) جدید فقہی مباحث: مرتب، مولانا مجاہد الاسلام قاسمی

(۱۰) مقالاتِ سواتی: مولانا صوفی عبد الحمید سواتی

(۱۱) اسلام کیا ہے؟ ڈاکٹر محمد فاروق خان

(۱۲) سیاست و معیشت: جاوید احمد غامدی

فقہ / اصول فقہ

(اگست ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter