دین کی دعوت و اقامت کا فریضہ

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ضرورت اقامتِ دین کی ہے۔ آج دنیا کی پانچ ارب کی آبادی میں سے چار ارب مخلوق ایمان کی پیاسی ہے مگر ان تک ایمان پہنچانے والا کوئی نہیں۔ نہ کوئی مال خرچ کرتا ہے اور نہ محنت کرتا ہے۔ اگر مسلمان کے مال و دولت کا رخ ایمان کے متلاشیوں کی آبیاری کی طرف ہو جائے تو یہ مال کا بڑا اعلیٰ مصرف ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے یہ مال ذاتی عیش و عشرت اور رسومِ باطلہ کے فروغ کے لیے تو نہیں دیا بلکہ اعلائے کلمۃ الحق کے لیے عنایت کیا ہے۔ غیر مسلم اقوام میں تبلیغِ دین کی سخت ضرورت ہے جس کے لیے مال اور وقت درکار ہے۔ تبلیغی جماعت والے جو کچھ کر رہے ہیں یہ تو کُل ضرورت کا ایک فیصد بھی نہیں، اگرچہ یہ بھی غنیمت ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ باقی ۹۹ فیصد کام کون کرے گا؟ آپ ذرا حساب لگا کر دیکھیں کہ کُل دولت کا کتنے فیصد اقامتِ دین کے لیے خرچ ہو رہا ہے۔ جواب صفر آئے گا۔

یہ دین تو بالکل برحق ہے اور اللہ تعالیٰ اسے قائم بھی رکھے گا، مگر ہم اپنی ذمہ داری کس حد تک پوری کر رہے ہیں؟ کچھ غریب غرباء لوگ اور علماء حق ہر دور میں موجود رہے ہیں جو حتی الامکان کام کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے، مگر اس معاملہ میں اجتماعیت بالکل ختم ہو کر رہ گئی ہے۔

پوری دنیا کے مسلمان روبہ زوال ہیں اور ذلت کے کام انجام دے رہے ہیں۔ مسلمان حکمران بھی عیش و عشرت میں پڑے ہوئے ہیں یا جنگ و جدال میں مصروف ہیں۔ دین کی تقویت کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے جاہ و مال دونوں چیزیں عطا فرمائیں، ذرا بتاؤ تو سہی ان کو دین کے لیے کس حد تک استعمال کیا جا رہا ہے؟

دین اور معاشرہ

(اگست ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter