سقوطِ حد کے بعد مجرم کو تعزیری سزا (۲)

قاضی محمد رویس خان ایوبی

قرائن پر اعتماد کرنے کے فقہی نظائر

(۱) غیر متزوجہ اور متوفی عنہا زوجہا اور مطلقہ کو بعد از انقضاءِ عدت حمل ظاہر ہو جائے تو یہ بدکاری کا قرینہ ہو گا۔ یہ الگ بحث ہے کہ حمل حرام اکراہ سے ہوا ہو یا رضا سے، لیکن حمل قرینہ زنا ضرور ہے۔ سو اگر عورت اقرار نہ بھی کرے اور اکراہ کا ثبوت بھی پیش نہ کرے تو حد تو ساقط ہو جائے گی مگر اسے تعزیری سزا ضرور دی جائے گی۔

(۲) یہی صورتحال قسامہ میں ہے۔ اگر کسی بستی میں کسی مقتول کی لاش ملے مگر قاتل کا پتہ نہ چل سکے تو اہلِ محلہ کے پچاس بالغ مردوں سے قسم لی جائے گی کہ نہ انہیں قاتل کا علم ہے اور نہ ان میں سے کوئی قاتل ہی ہے۔ اگر وہ قسم اٹھا لیں تو مقتول کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے گی۔ اور اگر وہ قسم اٹھانے سے انکار کر دیں تو انہیں مقتول کی دیت ادا کرنا ہو گی۔ یعنی قسموں سے انکار اس امر کا قرینہ ہے کہ قاتل اہلِ محلہ میں سے ہی کوئی ہے۔

(۳) شرابی کے منہ سے شراب کی بو بھی شراب نوشی کا قرینہ سمجھا گیا ہے اور یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اس نے ارتکابِ جرم کیا ہے۔

(۴) مالِ مسروقہ کا چور کے گھر سے برآمد ہونا اس کے ارتکابِ سرقہ کا قرینہ ہے۔

(۵) اسی طرح نشانیاں معلوم کر کے لقطہ واپس کر دینا اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص نشانیاں بتا رہا ہے، یہ اسی کی ملکیت ہے۔

مندرجہ بالا قرائین میں سزائے تعزیر ہو گی، حد ساقط ہو جائے گی، لیکن مجرم کو بری نہیں کیا جائے گا۔(۱)

لہٰذا شرعی وسیلہ اثبات یعنی نصابِ شہادت پورا نہ ہونے کی صورت میں دیگر ذرائع معلومات، جن میں مختلف قرائن شامل ہیں، اگر دستیاب ہوں تو حد ساقط ہو گی مگر تعزیری سزا دی جائے گی کیونکہ حد صرف قطعی یقینی عینی شہادت کی بنیاد پر ہی نافذ کی جا سکتی ہے، لیکن تعزیر قرائن کی بنیاد پر بھی نافذ کی جا سکتی ہے۔

علامہ ابن نجیمؒ فرماتے ہیں:

واجمعت الامۃ علی وجوبہ فی کبیرۃ لا توجب الحد او جنایۃ لا توجب الحد۔

’’امت کا اس پر اجماع ہے کہ تعزیر ہر ایسے کبیرہ گناہ پر ہو گی جہاں حد واجب نہ ہو، یا ایسا ضرر اور تعدی جہاں حد واجب نہ ہو۔‘‘(۲)

علامہ شامیؒ فرماتے ہیں:

فینبغی ان یبلغ غایۃ التعزیر فی الکبیرۃ کما اذا اصاب من الاجنبیہ کل محرم سوی الجماع او جمع السارق المتاع فی الدار ولم یخرجہ۔

’’ہر اس جرم میں سخت ترین تعزیر ہے جو کہ کبیرہ کے زمرے میں آتا ہو، جیسے کوئی شخص کسی عورت سے ہم بستری کے سوا ہر طرح کا جنسی تلذذ حاصل کرے، یا چور مالک کے گھر سے سامان اکٹھا کرے مگر گھر سے باہر نہ نکال سکے۔‘‘(۳)

علامہ ابن نجیمؒ فرماتے ہیں:

کل من ارتکب معصیۃ لیس فیھا حد مقدر ثبت علیہ عند الحاکم فانہ یوجب التعزیر من نظر محرم ومس محرم و خلوۃ محرمۃ۔

’’جو شخص کسی ایسے گناہ کا ارتکاب کرے جس میں حد مقرر نہ ہو اور جرم عدالت میں ثابت ہو جائے تو اس کو سزائے تعزیر دی جائے گی۔ جیسے نظربازی، چھیڑچھاڑ اور اجنبیہ کے ساتھ خلوت گزینی۔‘‘(۴)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

والاصل فی وجوب التعزیر ان کل من ارتکب منکرا او اذی مسلما بغیر حق بقولہ او بفعلہ وجب علیہ التعزیر۔

’’بنیادی طور پر تعزیر کی سزا ہر اس شخص کے لیے واجب ہے جو کسی بھی منکر کا ارتکاب کرے، یا کسی مسلمان کو بلاوجہ ستائے، خواہ یہ ستانا زبان سے ہو یا عملی طور پر، اسے سزا کے طور پر تعزیر دی جائے گی۔‘‘(۵)

معلوم ہوا کہ ہر وہ کام جسے شریعتِ اسلامیہ نے معصیت قرار دیا ہے، اگر وہ مستوجبِ حد نہ ہو تو اس میں سزائے تعزیر ہے، اور سزائے تعزیر میں اثبات کے لیے قرینہ قویہ کافی ہے۔ قرائن کی چند اور مثالیں پیش کر چکا ہوں۔ عصر حاضر میں آواز کی ریکارڈنگ، ویڈیو فلم، میڈیکل رپورٹ، اغتصاب، لڑکی کو اٹھا کر لے جانا یا بہلا پھسلا کر لے جانا، اور اسے خلوت میں اپنے ساتھ رکھنا، ہوٹل میں کمرہ لے کر رہنا، رجسٹر میں دونوں کا اندراج وغیرہ، یہ سب قرائن ہیں اور ان کی بنیاد پر سزائے تعزیر دی جا سکتی ہے۔

علامہ عبد الرحمٰنؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:

اتفق الائمۃ علی ان من وطی امراۃ اجنبیۃ فی ما دون الفرج بان اولج ذکرہ فی مغبن بطنھا ونحوہ بعیدا عن القبل والدبر لا یقام علیہ الحد و لکنہ یعزر لانہ اتی منکرا یحرمہ الشرع وقد حکم الامام علی علی من وجد مع امراۃ اجنبیۃ مختلیا بھا ولم یقع علیھا بان یضرب مائۃ جلدۃ تعزیرا لہ۔

’’تمام ائمہ کا اتفاق ہے کہ جس شخص نے اجنبیہ کے ساتھ دخول کے سوا ہر طرح سے جنسی تلذذ حاصل کیا مثلاً‌ پیٹ سے یا کسی اور مقام سے، لیکن قبل اور دبر سے مجتنب رہا، اس پر حد قائم نہ ہو گی۔ تاہم اسے تعزیری سزا دی جائے گی کیونکہ اس نے شریعت کے ممنوع کردہ کام کا ارتکاب کیا ہے۔ حضرت علیؓ نے ایک شخص کو، جو کسی اجنبیہ کے ساتھ خلوت میں تھا لیکن اس نے وطی نہیں کی تھی، تعزیر کے طور پر سو کوڑے مارنے کا حکم صادر فرمایا۔‘‘(۶)

مشہور مصری محقق امام محمد ابو زہرہؒ فرماتے ہیں:

ویتحقق حق اللہ تعالیٰ فی کل حد سقط بالشبہۃ فاذا تزوج شخص مطلقتہ طلقۃ مکملۃ للثلاث و دخل بھا یقع الزواج باطلا ویکون الدخول حراما ولکن یسقط الحد بالشبہۃ ولیس معنی سقوط الحد الا تکون ثمۃ عقوبۃ قط بل یکون بالتعزیر ویکون ذلک حقا للہ تعالیٰ۔

’’ہر اس حد میں حق اللہ ثابت ہوتا ہے جو کسی شبہ کی وجہ سے ساقط ہو گئی ہو۔ پس اگر کسی شخص نے اپنی مطلقہ مغلظہ سے نکاح کر لیا اور اس سے ہم بستری کر ڈالی تو یہ نکاح باطل قرار پائے گا اور ہم بستری حرام، لیکن شبہ کی وجہ سے حد ساقط ہو گی۔ تاہم سقوطِ حد کا یہ مطلب نہیں کہ اسے بالکل سزا نہیں دی جائے گی بلکہ اسے حق اللہ کی خلاف ورزی میں سزائے تعزیر دی جائے گی۔‘‘(۷)

یعنی یہ سزا حقوق اللہ سے متعلق ہے، حقوق العباد سے نہیں۔ لہٰذا جہاں جہاں تعزیری سزا حقوق اللہ کی خلاف ورزی پر ہو گی وہاں حاکمِ مجاز کو اس سزا میں تخفیف یا معافی کا اختیار ہو گا، جبکہ حقوق العباد میں حاکمِ وقت کو کسی قسم کی معافی کا حق حاصل نہیں ہے۔

درجِ بالا اقتباس سے معلوم ہوا کہ اگر حدِ شرعی کسی معقول وجہ شرعی کے سبب ساقط ہو جائے تو مجرم کو جرم سے براءت کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا جائے گا۔ بلکہ دوسرے وسائل اثبات کی بنا پر اسے سزائے تعزیر دی جائے گی۔

سقوطِ حد کے باوجود سزائے تعزیر کے وجوب کی متعدد مثالیں فقہ اسلامی میں موجود ہیں۔

علامہ شہاب الدین شلبی حاشیہ تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں رقم طراز ہیں:

ومن تزوج امراۃ لا یحل نکاحھا قال الکمال بان کانت ذوات محارمہ بنسب کامہ و بنتہ فوطیھا لم یجب علیہ الحد عند ابی حنیفۃ و سفیان الثوری و زفر وان قال علمت انھا علی حرام ولکن یجب علیہ المھر ویعاقب عقوبۃ ھی اشد ما یکون من التعزیر سیاسۃ لا حدا مقدرا شرعا اذا کان عالما بذالک وان لم یکن عالما بذلک لا حد علیہ ولا یعقوبۃ تعزیر۔

’’اگر کسی شخص نے کسی ایسی خاتون سے نکاح کیا جس سے نکاح حرام تھا، کمال ابن ہمام فرماتے ہیں مثلاً‌ اپنی محرمات، ماں یا بیٹی سے، اور پھر ہم بستری کی تو اس شخص پر حد واجب نہ ہو گی۔ یہ موقف ابو حنیفہؒ، سفیان ثوری اور زفر کا ہے۔ اگرچہ وہ یہ اعتراف کرے کہ مجھے حرمتِ نکاح کا علم تھا۔ ایسے شخص پر موطوءہ کے لیے مہر واجب ہو گا اور مجرم کو تعزیرً‌ا سخت ترین سزا دی جائے گی۔ یہ سزا حد نہیں ہو گی بلکہ سیاستاً‌ تعزیر شدید ہو گی جبکہ وہ حرمتِ نکاح کا علم رکھتا ہو۔ اور اگر اسے حرمت کا علم نہ ہو تو نہ حد ہو گی اور نہ تعزیر۔‘‘(۸)

اہلِ سنت کے مشہور امام مجاہدِ وقت علامہ ابن تیمیہؒ دمشقی اپنی شہرہ آفاق تصنیف السیاسۃ الشرعیۃ میں فرماتے ہیں:

اما المعاصی التی لیس فیھا حد مقدر ولا کفارۃ کالذی یقبل الصبی والمراۃ الاجنبیۃ او یباشر بلا جماع او یاکل ما لا یحل کالدم والمیتۃ او یقذف الناس بغیر الزنا او یسرق من غیر حرز او شیئا یسیرا او یخون امانۃ کولاۃ اموال بیت المال او الموقوف او یطفف المکیال والمیزان او یشھد بالزور او یلقن بالزور او یرتشی فی حکمہ او یحکم بغیر ما انزل اللہ۔

’’اور ایسے تمام جرائم میں جن میں نہ حدِ شرعی ہے اور نہ کفارہ، جیسے کسی بچے یا اجنبیہ کو (شہوت سے) بوسہ دینا، یا اس سے جماع کے سوا جنسی تلذذ حاصل کرنا، یا خون اور مردار جیسی حرام اشیاء کا کھانا، یا لوگوں پر زنا کے سوا تہمت لگانا، یا حرز کے بغیر چوری کا ارتکاب، یا چھوٹی موٹی چیز کی چوری، یا امانت میں خیانت، جیسے سرکاری فنڈز میں اہل کاروں کا خورد برد کرنا، یا اوقاف میں بددیانتی، یا اوزان و پیمائش میں بے ایمانی، یا جھوٹی گواہی دینا اور گواہوں کو جھوٹ بولنے کی تلقین کرنا، یا حکام کا رشوت لینا، یا شریعت کے سوا کسی اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا۔‘‘ (۹)

یہ تمام جرائم قابلِ تعزیر ہیں، مجرم پر حد نافذ نہیں ہو گی کیونکہ ان کے بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی سزا متعین نہیں کی گئی۔ ایسے تمام جرائم کی سزا کی تعیین کا اختیار اسلامی حکومت کو ہے جو اپنے مقامی حالات کے مطابق قانون سازی کرے گی اور جس جرم کے لیے جو سزا متعین کرے گی وہ شرعاً درست ہو گی کیونکہ تعزیری سزاؤں کا مکمل اختیار اسلامی حکومت کو دیا گیا ہے۔

فقہ حنبلی کی مشہور کتاب الروض المربع میں موجبات سزائے تعزیر بیان کرتے ہوئے علامہ منصور تحریر فرماتے ہیں:

(والتعزیر) واجب فی کل معصیۃ لا حد فیھا ولا کفارۃ کاستمتاع لا حد فیہ و اتیان المراۃ المراۃ۔

’’تعزیر ہر اس جرم کی سزا ہے جس میں نہ حد ہو نہ کفارہ، جیسے ایسا جنسی تلذذ جس میں حد نہ ہو (یعنی دخول ثابت نہ ہو) اور عورت کا عورت سے استلذاذ۔‘‘(۱۰)

فقہاء اسلام نے جرائم کی بیخ کنی کے لیے صبی ممیّز کو بھی مستحقِ سزا قرار دیا ہے۔ یعنی اگر ایسا بچہ جو نابالغ ہو مگر سمجھ والا ہو، مثلاً دس بارہ سال کا ہو، اگر وہ فاحشہ کا ارتکاب کرے تو اسے سزا دی جائے گی۔ نابالغ ہونے کی وجہ سے اسے صرف یہ رعایت ملے گی کہ اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی، اور سزائے تعزیر بالغ کی نسبت ہلکی ہو گی۔ لیکن بوجوہ عدمِ بلوغ اسے بری نہیں کیا جائے گا۔

فقہ حنبلی کی معروف کتاب منتہی الارادات کے مصنف فرماتے ہیں:

لا نزاع بین العلماء ان غیر المکلف کالصبی الممیز یعاقب علی الفاحشۃ تعزیرا بلیغا۔

’’تمام علماء کا اتفاق ہے کہ نابالغ مگر سمجھدار بچہ اگر بدکاری کا ارتکاب کرے گا تو اسے سخت سزا دی جائے گی۔‘‘(۱۱)

تاہم یہ سختی اس کی عمر کے مطابق ہو گی، بالغ والی سخت سزا مراد نہیں ہے۔

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:

و یجب التعزیر فی کل معصیۃ لا حد فیھا ولا کفارۃ کمباشرۃ دون الفرج وامراہ امراہ و سرقۃ لا قطع فیھا و جنایۃ لا قود فیھا کصفع و وکز ان الدفع و الضرب۔

’’تعزیر ہر اس جرم کے ارتکاب پر واجب ہے جس میں نہ حد ہو نہ کفارہ۔ جیسے شرم گاہ کے سوا جنسی تلذذ کا حصول، عورت کا عورت سے استلذاذ، ایسی چوری کا ارتکاب جس میں حد نہ ہو، ایسی جسمانی زیادتی جس میں قصاص نہ ہو، جیسے تھپڑ مارنا، دھکا دینا، یا مارنا۔‘‘(۱۲)

غور فرمائیے کہ باب التعزیر کتنا وسیع ہے کہ کسی کو دھکا دینا بھی جرم ہے اور تھپڑ مارنا بھی جرم۔ لہٰذا اگر کسی شخص کو جرمِ زنا میں گرفتار کیا گیا، قانونی موشگافیوں اور حدیثِ رسول ’’الدرء والحدود بالشبھات‘‘ پر عمل کرتے ہوئے حد کسی وجہ سے ساقط ہو گئی مگر دیگر قرائن سے اس کا ارتکابِ جرم ثابت ہو گیا، تو باتفاق فقہاء اسلام اسے سقوطِ حج کی وجہ سے بری نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے تعزیری سزا دی جائے گی، کیونکہ سقوطِ حد مجرم کی براءت کی دلیل نہیں اور اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔

(۱) گیراج سے باہر سڑک کے کنارے یا کار پارکنگ سے گاڑی لے بھاگنا موجبِ حد نہیں کیونکہ سڑک اور پارک ایریا حرزِ مثل نہیں ہے۔

(۲) مسجد کے قالین، گھڑیاں یا پنکھے چوری کرنا۔

(۳) کسی اسٹیٹ بینک کی تجوری یا لاکرز سے رقم یا زیور اڑا لینا جبکہ زیور بینک کی ملکیت ہو۔

(۴) سکولوں، کالجوں کی لائبریریوں سے کتب کی چوری۔

(۵) فون کالوں اور بجلی کی چوری۔

(۶) سرکاری دفاتر سے ٹائپ رائٹر، فیکس مشینوں، ایئرکنڈیشنر، ریفریجریٹر یا دیگر سرکاری اشیا کی چوری۔

(۷) ریلوے ٹکٹوں کی چوری اور بغیر ٹکٹ سفر کرنا۔

(۸) اجنبیات کے ساتھ ڈانس کرنا۔

(۹) بیوی کی لونڈی سے جماع کرنا۔

(۱۰) باپ کا اپنے بیٹے کی باندی سے وطی کرنا۔

(۱۱) چوپایوں سے بدفعلی کا ارتکاب کرنا۔

غرضیکہ ایسے بے شمار جرائم ہیں جن میں حد کی سزا نہیں۔ اگر سقوطِ حد کا فائدہ مجرم کو یہ دیا جا رہا ہے کہ وہ بری ہے تو پھر مندرجہ بالا جرائم میں سے کسی میں بھی حد نہیں۔ تو کیا مجرم کو صرف اس لیے چھوڑ دیا جائے گا کہ حد نہیں ثابت ہوتی؟ خدانخواستہ اگر اس قاعدے کو اپنا لیا جائے تو پھر اوباش لڑکوں اور فیشن زدہ لڑکیوں، مسجدوں سے چوریاں کرنے والوں، بد دیانت اور چور افسروں کے مزے ہوں گے۔ اس طرح کی سوچ ہی مِلّی تباہی کا باعث ہے چہ جائیکہ اسے قانون کا سہارا دیا جائے۔

یاد رکھئے! سقوطِ حد کا سبب شبہہ ہوتا ہے، چاہے وہ شبہہ فی الاثبات ہو، یا شبہہ فی الفعل، یا شبہ فی المحل، یا شبہ فی العقد۔ ان شبہاتِ ضعیفہ کی وجہ سے صرف حد ساقط ہو گی، تعزیر بہرحال باقی رہے گی۔ کیونکہ سقوطِ حد کے لیے معمولی شبہ بھی کافی ہے اور تعزیر کے لیے شرعی نصابِ شہادت اگر نہ بھی پورا ہو تو قرائن کی بنیاد پر، یا دو گواہوں، دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی سے بھی تعزیری سزا دی جا سکتی ہے۔

قاعدہ یہ ہے کہ اسقاطِ حد کے لیے شبہہ ضعیفہ کافی ہے، اور اثباتِ تعزیر کے لیے قرینہ قویہ کافی ہے۔ سقوطِ حد سے وصفِ جرم ختم نہیں ہوتا۔ ارتکابِ حرام کا جرم باقی رہتا ہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ سقوطِ حد میں شبہہ ضعیفہ پایا جاتا ہو۔ اگر شبہہ قویہ ہو تو البتہ سقوطِ حد کے ساتھ تعزیر بھی ساقط ہو جائے گی اور مجرم بری ہو جائے گا۔

امام ابو زہرہؓ فرماتے ہیں:

واذا کانت الشبہۃ ضعیفۃ فانھا تسقط الحد و لا تمحو وصف الحریمۃ فالتحریم ثابت واذا کانت عقوبۃ الحد سقطت فوراء ذلک عقوبۃ التعزیر و ینتقل العقاب من عقوبۃ مقدرۃ الی اخری غیر مقدرۃ۔

’’اگر شبہہ ضعیفہ ہو تو اس سے حد تو ساقط ہو گی لیکن وصفِ جرم ختم نہ ہو گا۔ حرمت باقی رہے گی۔ لہٰذا اگر حد ساقط بھی ہو گی تو اس کے بدلے تعزیری سزا باقی ہے، لہٰذا سزا حد سے منتقل ہو کر سزائے تعزیر میں بدل جائے گی۔‘‘(۱۳)

شبہہ ضعیفہ اور شبہہ قویہ اپنے نتائج کے اعتبار سے

ابو زہرہؓ فرماتے ہیں:

الشبھۃ القویۃ تمحو وصف الحریمۃ و یرتب علی ذلک سقوط العقوبۃ حتما والشبہۃ الضعیفۃ لا تمحو وصف الحریمۃ ولکنھا تسقط الحد فقط۔

’’شبہہ قویہ وصفِ جرم کو ختم کر دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں سزا مکمل طور پر ساقط ہو جاتی ہے۔ شبہہ ضعیفہ وصفِ جرم کو ختم نہیں کرتا، صرف سقوطِ حد کا فائدہ دیتا ہے۔‘‘(۱۴)

شبہہ قویہ کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاً بنیادی طور پر اثباتِ دعوٰی میں قانونی سقم موجود ہو، جیسے چوری کا مقدمہ تو قائم کر دیا گیا ہے مگر نہ تو مالِ مسروقہ برآمد ہوا اور نہ شہادتِ شرعیہ ہو۔ صرف ملزم کے مکان کے اندر پائے جانے اور نشاناتِ قدم اور نشاناتِ انگشت کی بنیاد پر چور قرار دیا جائے۔ شہادتوں میں تضاد ہو، کوئی گواہ وقوعہ کا وقت رات بتائے، کوئی صبح اور کوئی بعد ظہر۔ یہ تمام شبہات قویہ ہوں گے جن سے نہ صرف حد ساقط ہو گی بلکہ مجرم صاف بری ہو جائے گا۔

اس کے برعکس شبہہ ضعیفہ کی مثالیں یہ ہیں: مطلقہ ثلاثہ سے نکاح کر کے ہم بستری کرنا، سرکاری ٹائپ رائٹر یا فیکس مشین یا اور کوئی چیز دفتر سے بغرض مستقل قبضہ برائے تملیک اٹھا لے جانا، کسی شخص کا اجنبیہ کے ساتھ ایک بستر میں پایا جانا، یہ تمام جرائم ایسے ہیں کہ ان میں بوجہ شبہ کے حد جاری نہ ہو گی مگر سزائے تعزیر ضرور دی جائے گی، کیونکہ خلوت بالاجنبیہ معصیت ہے، گو زنا کے گواہ دستیاب نہ ہوں۔ ہر معصیت جرم ہے اور ہر معصیت قابلِ تعزیر ہے۔




حواشی


(۱) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: الطرق الحکمیۃ لابن قیم، ص ۵۶۔ طرق الاثبات لمحمد ازحیلی ص ۵۱۸۔ التشریع الجنائی الاسلامی لعبد القادر عودہ ۔ ج ۵ ص ۳۳۹

(۲) بحر الرائق شرح کنز الدقائق ۔ ج ۵ ص ۴۶

(۳) رد المختار ج ۳ ص ۱۹۶ ۔ منحۃ الخالق علی بحر الرائق ۔ ج ۵ ص ۴۴

(۴) بحر الرائق ۔ ج ۵ ص ۴۶

(۵) ایضاً‌

(۶) الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ۔ ج ۵ ص ۱۰۲

(۷) العقوبۃ ۔ ص ۷۸ و ۷۹

(۸) حاشیہ شلبی علی تبیین الحقائق ۔ ج ۳ ص ۱۷۹

(۹) السیاسۃ الشرعیۃ فی اصلاح الراعی والرعیۃ لابن تیمیۃ ۔ ص ۱۱۱ و ۱۱۲

(۱۰) الروض المربع لمنصور یونس، ص ۴۹ ۔ انوار المسالک شرح عمدۃ السالک لاحمد نقیب المعری

(۱۱) منتہی الارادات ۔ ج ۳ ص ۳۶۱

(۱۲) ایضاً

(۱۳) العقوبۃ ۔ ص ۲۴۰

(۱۴) ایضاً


(جاری)


فقہ / اصول فقہ

(اگست ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter