محترم نعیم صدیقی صاحب کا مکتوب گرامی

نعیم صدیقی

(نعیم صدیقی صاحب ہمارے ملک کے بزرگ دانش ور ہیں جو مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے قریبی ساتھیوں اور جماعتِ اسلامی کے فکری مربیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایک مکتوب میں محترم جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کے شاگردوں کے ساتھ گزشتہ دنوں ہونے والی مدیر الشریعہ کی تحریری گفتگو کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ ضروری نہیں کہ ان کے سارے ارشادات سے ہمیں بھی اتفاق ہو، مگر ایک صاحبِ فکر و نظر اور بزرگ دانش ور کے خیالات و تاثرات سے قارئین کو محروم کرنا مناسب خیال نہ کرتے ہوئے یہ مکتوب شائع کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)


مکرمی مولانا زاہد الراشدی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

’’اشراق‘‘ میں جناب جاوید احمد غامدی جو گل کتر کر گلشنِ اسلام کی شان دکھا رہے ہیں، میں ان سے بلاتعصب مستفید ہوتا ہوں، مگر ان میں اور ان کے تیار کردہ ہم سفرانِ فکر و دانش میں بعض جھول ایسے ہیں کہ دل مسوس کر رہ جاتا ہوں۔ 

ایک تو ان میں بے شمار حلقہ ہائے فکر و نظرِ اسلامی میں سے ذرا ابھر کر کچھ نئی راہیں نکالنے کا معاملہ ہے، وہ ان کی خاص ضرورت ہے۔ وہ تمام نصوص اور معاملات اور نقطہ ہائے نظر سے خوردبینی نگاہ کے ساتھ ایسے پہلو یا گوشے نکالتے ہیں کہ ایک متوسط قاری یہ تاثر لے سکتا ہے کہ وقت کا کوئی بڑا مجتہد پیدا ہوا ہے جو عام سی باتوں میں سے ایسے ایسے لطیف نکتے نکالتا ہے کہ سر پھر جاتا ہے۔ مگر اہلِ علم و تحقیق اگر بغور تجزیہ کریں تو بس ایک طرح کا ہپناٹزم ہے۔ اسی کو آپ نے تفرد کہا ہے اور اس تفرد کے بغیر کوئی نوخیز آدمی جگہ بنا ہی نہیں سکتا۔ زور ہمیشہ کسی مروّج و معروف مسئلے میں اختلافی دراڑ پیدا کرنے کا ہے۔ مشکل یہ کہ اس تفرد کو کسی طرف سے مسلّمہ علمی شخص یا ادارے کی سند ملنی چاہئے۔ اس سند کے لیے وہ فورًا اصلاحی صاحب کی طرف لپکتے ہیں۔ ایک متعین مرکزِ استفادہ، چند مسائلِ تفرد، یہ وہ سرمایہ ہے جس سے ایک نئے مرکزِ علم و فکر کا قیام عمل میں آتا ہے۔

میں نے آپ کی جرأت مندی کو سراہا کہ اکیلے میدان میں اترے اور دوسری طرف سے تین چار نوجوانوں کا جتھا آپ کے پیچھے لگ گیا، مگر کہیں خم آپ نے بھی نہیں کھایا۔ بے اختیار میرا جی چاہا کہ میں آپ کی مدد کو نکلوں، مگر کم علمی الگ، میری صحت کی کشتی عرصہ سے گرداب میں ہے۔

جہاد کے موضوع پر مجھے بالکل اپنے طرز پر کچھ کہنا ہے مگر بے بس ہوں، اسی طرح دوسرے مسئلے۔ مثلاً اس وقت کہیں بھی اسلامی قانون، اسلامی عدالتیں اور ان پر اسلامی حکومت کا انضباط موجود نہیں ہے۔ کتنے ہی فیصلے شریعت کے خلاف آتے ہیں۔ پبلک کے پاس جوابی دباؤ کا کوئی راستہ نہیں بجز دارالافتا کے۔ آپ نے اسے بھی پابند کر دیا کہ کسی بد راہ قانون و عدالت کی مکھی پر مکھی مارنے کے سوا تم کچھ نہیں کر سکتے۔ پھر کئی علاقوں میں بعض مدتوں میں سرکاری قانون کو فیل کرنے اور شرعی قانون کو نافذ کرنے کے انتظامات کیے گئے اور عجیب عجیب کامیابیاں حاصل ہوئیں۔

جاوید صاحب میرے لیے بمنزلہ عزیز کے ہیں، میں ان کی صلاحیتوں کا متعرف بھی ہوں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ ذہانت و صلاحیت ایسا خزانہ ہوتی ہے کہ شیطان اس کے گرد منڈلاتا رہتا ہے۔ یہ بات اپنے لکھنے پڑھنے کے زمانے میں میرے سامنے رہتی تھی۔ شیطان کی یہ دل چسپی ویسی ہی ہے جیسی حسن و شباب کا خزانہ کہیں پائے تو وہاں شیاطین ہر لحظہ چکر لگائیں گے۔ اسی طرح دولت اور اقتدار کے لیے ان کی دل چسپیاں ہیں۔

اس بارے میں غفلت کی وجہ سے وہ بعض بڑی غلطیوں کے مرتکب ہوئے ہیں: ایک یہ کہ دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت، اور سیاست کاری کے تینوں کام ایک سلسلے میں جمع نہیں ہو سکتے۔ ان کے لیے الگ الگ تنظیمیں ہوں جو ایک دوسرے کے تسلط سے آزاد ہوں۔ دوسری بڑی غلطی یہ کہ اقیمو الدین کی تشریح انہوں نے ایسے انداز سے کی کہ مساعئ اقامتِ دین کے جذبے کو ختم کرنے کی صورت پیدا ہو گئی۔ اس سلسلے میں دلائل سے مسلح ہوں، مگر وہی نہ وقت، نہ ہمت۔ لہٰذا جو کچھ ہوتا ہے، دیکھتا ہوں۔

’’اشراق‘‘ کے حاشیے پر پنسل سے بہت ہی رف سے اشارات لکھتا ہوں کہ شاید ان کی بنیاد پر کچھ لکھنا ممکن ہو۔ مگر نئے شمارے نئے مباحث لے کے آجاتے ہیں، لہٰذا مسلک یہ بنا کہ ؏

صورتِ آئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ

آپ سے زندگی بھر نہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا، نہ مراسلت کا تعلق، بس آپ جیسے معروف آدمی پر نگاہ ضرور رہی اور کبھی آپ کی تحریریں پڑھیں بھی۔ دعا کرتا ہوں کہ خدا آپ سے دین کی خدمت مزید لے۔

نیاز کش

نعیم صدیقی

۲۹ جون (شب) ۲۰۰۱ء

پسِ نوشت

یہ حضرات بغداد والے ان علاماؤں کی روش پر بحثوں میں پڑے، وقت کی آفات سے ایسے غافل ہیں کہ ان کو پتہ ہی نہیں کہ تاتاری مسلمانوں اور ان کی حکومتوں کو برباد کرتے ہوئے بغداد کی طرف آ رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ کوئی تدبیر آنے والی تباہی کے تدارک کے لیے کرتے، انہیں اپنی بحثوں سے فرصت نہ تھی، یہاں تک کہ سب صفایا ہو گیا، نہ عِلم باقی رہا نہ عَلم۔

یہ لوگ آیات و روایات کے تجزیے میں محو ہیں اور اس سے بالکل بے خبر کہ بالکل غیر متوقع طور پر کیا حالات پیدا ہو گئے ہیں جن میں جہاد کی نئی  شکلوں کی ضرورت ہے۔ اشراقیوں کا اساسی علم تو حضرت عثمانؓ کے دور ہی کے معاشرے پر بڑی مشکل سے لاگو ہوتا ہے۔ حضرت علیؓ کے دور میں تو شرائطِ جہاد کا معیاری اطلاق ممکن ہی نہیں رہتا۔ اور آج ۔۔۔ آج یہ صورت نہیں کہ ایک مرکزی اسلامی حکومت قائم ہو اور اس کے احکام یا اشاروں سے حملہ آوروں یا اسلام دشمن فاتحین کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اور ایسا کوئی مرکز ہوتا بھی تو آج کے دور میں اندر ہی اندر اس کے معدے اور اس کی رگِ جاں کو ہک لگا کر دشمن قوتیں باندھ چکی ہوتیں۔ پھر مسلمان کیا کرتے؟

جب مغربی امپریلسٹ طاقتیں نوآبادیات سازی کے لیے مسلم اور ایشیائی و افریقی حکومتوں کا شکار کرنے نکلیں تو یہ مجنونانہ مسابقتی یورش ہر طرف سے جابجا شروع ہو گئی۔ کون سی قوم کہاں ہجرت کر کے جاتی اور کون سی حکومت کس کی مدد کو پہنچتی؟ بیرونی حملہ، جبر اور اچانک اس کا سامنا، اس میں جاسوسیوں، غداریوں اور ضمیروں کی خریداری کے ایسے ایسے عوامل کا ہونا کہ ایک حکومت کے سالم یا جزوی طور پر بچ نکلنے کی امیدیں ہوتیں؟ اور عوام کے لیے کوئی منظم جدوجہد کی رہنمائی نہ ہونے کی صورت میں ان کی خوں ریزی اور سلب و نہب اور غلام سازی و بیگار کا ایک ایسا سلسلہ چلتا کہ کوئی راہِ فرار نہ تھی۔ ان سے یہ کہنا کہ صبر کرو، گویا کسی جماعتِ نبوی کے پابندِ نظم لوگوں کا سابقہ کسی خلیفہ غیر راشد یا حاکمِ مطلق کے مظالم سے تھا۔

دین کی نئی تعبیریں کرنے والے نوجوانو! تم تو بدلتے ہوئے سوشل، حکومتی اور بین الاقوامی سسٹم اور اس میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھتے۔ اور معیاری جہاد نہ سہی، کسی کم تر درجے کے جہاد کے لیے اجتہاد کرتے۔ میں مثالیں دینے کا نہ وقت رکھتا ہوں نہ قوت، مگر میں توجہ دلاؤں گا کہ جو کام بغداد یا کوئی اور مقام نہ کر سکا، اسے مصر میں سلطان ۔۔۔ نے آغاز کر کے ۔۔۔  تاتاریوں کو ایسی شکست دی کہ وہ پھر دم دبا کر بھاگے اور پیچھے پلٹ کے نہ دیکھا، سارا خطۂ اسلامی ظالموں سے پاک ہو گیا۔

میں کہتا ہوں کہ آپ اسے شبہ جہاد کہہ سکتے ہیں، اضطراری جہاد کہہ سکتے ہیں، مجددانہ جہاد کہہ سکتے ہیں، اس کی نئی تعریفیں وضع کر سکتے ہیں، لیکن اگر آپ کو یہ کام نہیں کرنا ہے بلکہ قرونِ اولیٰ کے معاشرے کو برقرار فرض کر کے سارے احکام کا اجرا اسی کے مطابق کرنا ہے تو پھر زیادہ بحثوں کی کیا ضرورت؟ کرتے رہیے۔ دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش نہ کیجئے۔ آپ کا سرچشمۂ علم جب ایک خاص شخصیت ہے، ہر تان اسی پر توڑتے ہیں، تو پھر آپ اسی کنویں میں گھومتے رہیے۔ مولانا زاہد الراشدی یا کسی اور کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس نیک کام میں دخل دیں۔

ہماری مشترک دل چسپیوں کا کام تو یہ ہے کہ آج کی حکومت کے اندرونی اور بین الاقوامی اطراف سے ہونے والے مستبدانہ اقدامات کو روکنے کے لیے جو تدبیریں ایجاد ہوئی ہیں، ان کو کچھ ترمیم کر کے یا بلاترمیم اختیار کیا جا سکتا ہے۔ مطلوب یہ ہے کہ ایسی مساعی فساد کی تعریف میں آنے سے بچیں اور اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ جہاد کی کوئی قسم قرار پائیں۔ 

اب مثلاً کشمیر والے کیا کرتے؟ ان کو جبری سازشی طور پر بھارت سے نتھی کیا گیا۔ اس سازش میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن، نہرو، پٹیل، ریڈکلف، مہاراجا کشمیر سب شامل ہوئے۔ اس پر سخت ردعمل ہوا، کشمیری بھی اٹھ کھڑے ہوئے، مذہبی اور قواعدِ تقسیم کے رشتے سے پاکستانی بھی اٹھ کھڑے ہوئے، مرنے مارنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، فوجیں بھی متحرک ہونے والی تھیں، بھارت نے قراردادِ استصواب پاس کرا کے جلتی آگ کو ٹھنڈا تو کر دیا لیکن متواتر ۵۳ سال تک اس کے نفاذ کو ٹالا گیا اور اس ملیامیٹ کرنے کے لیے نت نئے معاہدات کیے گئے۔ کشمیری مقامتی و مزاحمتی جہاد بڑھ گیا، آج جبکہ پاکستان سے جہادی قوتیں جا ملی ہیں، ان میں نظم ہے، ان کی امارت ہے، نوجوان سچے جذبے سے قربانیاں دے رہے ہیں، اس صورتحال نے بھارت کو ہلا دیا ہے۔ ادھر ہمارے علما نوجوان یہ اشغلہ لے کے میدان میں آ گئے ہیں کہ یہ تو جہاد ہی نہیں۔ جہاد کے لیے تو فلاں فلاں شرائط ضروری ہیں۔ یعنی نوجوانوں کے دل بھی توڑ دو، بھارت کو بھی تسلی دلا دو کہ ہم تمہاری گردن چھڑوا دیتے ہیں، اور امریکی کی خوشنودی بھی ہو جائے کہ جہادی رجحانات کا مٹھ مارا گیا۔

میرا ایک اور استدلال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں جو جان بچانے کے لیے مرے، جو مال کے لیے مرے، جو عزت کے لیے مرے، وہ شہید ہے۔ یعنی شخصی یا خاندانی سطح پر یہ ایک چھوٹا جہاد ہے۔ اس کے مطابق کسی مسلم قوم، یا شہر، یا آبادی کو بھی یہی حدیث اختیار دیتی ہے کہ وہ جانوں، مالوں، عزتوں، آزادی، حقوق، اور مظالم سے تحفظ کے لیے لڑیں اور قربان ہو کر شہید ہوں۔ یعنی یہ Standing فرمانِ رسول ہے، کسی نئے امیر کی اجازت کی ضرورت نہیں۔

راشدی صاحب! میں کیا بتاؤں کہ کیا طوفان میرے اندر ہیں، مگر مجھ میں نہ کام کرنے کی طاقت ہے نہ معاونین کی ٹیم میرے پاس ہے (بلکہ ایک چپراسی بھی نہیں) گھنٹوں کے لیے بیماری دبا لیتی ہے۔ اس کے خلاف دواؤں اور دعاؤں سے جہاد کرتا ہوں۔ ہوش آتی ہے تو کچھ چیزیں پڑھتا ہوں، جن میں سے پڑھ کر کچھ پر ہنسی آتی ہے، کچھ پر رونا۔

ہزار رحمتیں مولانا مودودی کی تعلیم و تربیت پر، جو نہ تو شریعت کے دائرۂ نصوص و اجماع سے نکلنے دیتی ہے، نہ نئی نئی صورتیں احوال کی نظر انداز کر کے کنویں کا مینڈک بننے دیتی ہے۔ بغاوت سے انہوں نے سختی سے طبائع کو روک دیا، لیکن حالات نے اگر اجتہادی طرزِ فکر سے کام لینے کا مطالبہ کیا تو تفردًا نہیں بلکہ ائمہ و علما کے علوم و اخبار کی روشنی میں نئی راہیں نکالیں، اور نکال سکتے ہیں۔ یہی فرق ہے مولانا مودودیؒ اور مولانا اصلاحیؒ میں۔

نعیم صدیقی

۲ جولائی


مکاتیب

(اگست ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter