ہمارا دینی تعلیمی نظام اور وقت کے تقاضے

ادارہ

تعلیم کی ثنویت

ہمارے ہاں تعلیم کو دو خانوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک تعلیم ہے دینی، دوسری ہے دنیوی۔ تعلیم کی یہ ثنویت اصل میں انگریزوں کی برصغیر پر قبضے کے بعد کی پیداوار ہے جب انگریز سامراج نے مقامی تعلیم کو نظرانداز کر کے اپنی زبان، اپنے کلچر، اپنی تہذیب کے مطابق تعلیم ہمارے اوپر تھوپ دی اور مقامی تعلیم کی حوصلہ شکنی کی۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ مقامی لوگوں کو ان کی تہذیب، ثقافت اور کلچر سے بیگانہ کر کے ان کو ٹکے پیسے کا غلام اور نوکر بنایا جائے۔

انگریز کی سرکاری سرپرستی کے ساتھ ہندوستان کے لوگوں کے اوپر تھوپی گئی اس تعلیم کے مقابلے میں تعلیم کا وہ قدیم نظام تھا جو مقامی مدارس و مکاتب میں پڑھایا جاتا تھا، جس کی سرپرستی خاص طور پر انگریز کے باغی، آزادی پسند ہندوستانی علماء حق کر رہے تھے، جنہوں نے انگریز کی طرف سے شروع کی گئی جدید تعلیم کی سخت مزاحمت کی۔ یہ مخالفت کسی سطحی اور جذباتی خیال کے تحت نہ تھی، جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ انہوں نے انگریز دشمنی میں انگریزی تعلیم کی مخالفت کی۔ اصل میں وہ انگریزوں کے ایسے خطرناک وطن دشمن مقاصد کے پیش نظر کی گئی تھی جو انگریزوں نے اپنے نظام میں دانستہ طور پر شامل کیے تھے۔ چنانچہ لارڈ میکالے اور ان کی کمیٹی کی تعلیمی مقاصد اور اسکیم کی رپورٹ میں ہے کہ

’’ہمیں ایک ایسی جماعت بنانی چاہئے جو ہم میں اور ہماری کروڑوں رعایا کے درمیان مترجم ہو، اور یہ ایسی جماعت ہونی چاہئے جو خون اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو مگر مذاق اور رائے اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہو۔‘‘

یا بقول مسز جان کیتھر:

’’انگریزوں نے ہندوستان میں جو تعلیم یافتہ تیار کیے، وہ معمولی ایجاد اور صنعت کی استعداد بھی نہیں رکھتے، سوائے اس کے کہ وہ دفتروں میں کلرکوں کی خدمات سرانجام دے سکیں۔ حالانکہ سوویت روس نے ایسے تعلیم یافتہ لوگ پیدا کیے جنہوں نے نہ صرف جرمنی جیسی ترقی یافتہ اور سائنس دان قوم کو شکست دی بلکہ ان کو اپنے ملک سے بھی باہر نکال دیا۔‘‘

اس صورتحال میں ایک طرف جدید تعلیم تھی جس کا مقصد سامراجی تھا، تو دوسری طرف قدیم تعلیم تھی جو جدید ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتی تھی۔ اس دور میں ہندوستان کے اندر اس صورتحال پر بہت سی تحریکیں اٹھیں جن کے متعلق ہر پڑھا لکھا آدمی معلومات رکھتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو جدید ضرورتوں کو پورا کرنے کی تلاش نے انگریزی تعلیم کے شکنجے میں پھنسایا، تو بہت سوں کو قدیم ورثے کی حفاظت کے شوق اور رجعت پسندانہ ذہنیت نے ماضی کے پاتال میں گم کر دیا۔

اصل میں ضرورت اس بات کی تھی کہ اپنے تہذیبی، ثقافتی، علمی اور تاریخی ورثوں اور جدید دور کے تقاضوں کے امتزاج اور میلاپ سے ایک ایسا نیا تعلیمی نظام ترتیب دیا جاتا جو مقامی تہذیبی، علمی اور اخلاقی قدروں سے مالا مال ہوتا، اور جدید تقاضوں کو بھی پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا، اور تعلیم کی دینی اور دنیوی تقسیم کی ’’بدعت‘‘ سے پاک ہوتا۔ لیکن ایسی کوششیں بہت کم ہوئیں، جو کوششیں ہوئیں وہ بھی زیادہ دیر تک نہ چل سکیں۔ ایسی کوششوں میں سے ایک کوشش یہ بھی تھی کہ مولانا حسین احمد مدنیؒ کے آخری زمانے میں دارالعلوم دیوبند کے نصاب پر نظرثانی کے لیے ایک کمیٹی بنی جس نے نصاب میں ترامیم کیں اور قدیم عقلی علوم کو نکال کر انگریزی اور جدید علوم کو ان میں شامل کرنے کی سفارشات کیں، لیکن ان پر عمل نہیں کیا گیا۔

بہرحال ایسی کوششوں کی ناکامی کے نتیجے میں ایک طرف قدیم تعلیم کا نظام مدارس کی شکل میں جاری رہا، تو دوسری طرف انگریزی تعلیم سرکاری سرپرستی میں جاری رہی۔ جس نے مسلم سماج کو دین دار اور بے دین، مذہبی اور لامذہبی طبقات میں تقسیم کر دیا، اور تعلیم کی دینی اور دنیوی تقسیم ہمارے سروں پر مسلط کر دی، جس کے نقصانات کی تفصیل بڑی طویل ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو قدیم نظام کو مکمل دینی نظام کہا جا سکتا ہے، اور نہ انگریزی تعلیم کو ترقی کے جدید تقاضوں کو پورا کرنے کی تعلیم کہا جا سکتا ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہےکہ تعلیم کی اس ثنویت کو ختم کیا جائے۔

عربی مدارس کا فرقہ وارانہ بنیادوں پر قیام

تعلیم کی ثنویت کے بعد دوسری سب سے بڑی اور بنیادی خرابی عربی  مدارس کے فرقہ وارانہ بنیادوں پر قیام کی ہے۔ ہندوستان میں انگریزوں کی نوآبادیات سےپہلے یہاں کا سارا تعلیمی نظام غیر فرقہ وارانہ تھا، بلکہ مذہبی فرقے تو بالکل نہیں تھے۔ یہ فرقے انگریزوں کی سازش کی پیداوار ہیں۔ لیکن اس مصیبت کی جڑیں تب سے مضبوط ہوئیں جب سے تعلیمی ادارے فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم ہونے لگے۔ بات یہاں تک آ پہنچی ہے کہ تعلیمی اداروں کو غیر فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم کرنا بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں سے فرقہ واریت کو ختم کرنا عین ممکن تھا، لیکن فقرہ وارانہ بنیادوں پر ہزاروں لاکھوں مدارس کا قیام اور نسل در نسل ایسے مدارس سے تیار ہو کر نکلنے والے فرقہ پرستوں کے بعد اب صدیوں تک فرقہ واریت کو ختم کرنے کی کوئی بھی راہ نہیں بچی ہے۔

ہر ایک فرقہ کا یہ دعوٰی ہے کہ وہ حق پر ہے اس لیے اس کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ حق کی تبلیغ کے لیے مضبوط نیٹ ورک قائم کرے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو جب حق پر چلنے والا ایک فرقہ، فرقہ وارانہ بنیادوں پر مدارس کا جواز مہیا کرے گا تو اس کے مقابلے میں ۷۲، ۷۳ گروہ فرقہ وارانہ تعلیم کے ذریعے سے لاکھوں نوجوانوں کو گروہی چشمہ لگا دیں گے، اور نہ جانے کتنے مسلمان ہمیشہ کے لیے سچائی سے محروم ہو جائیں گے۔ تجربہ بھی اس بات کا شاہد ہے کہ فرقہ وارانہ مدارس سے فارغ ایک بھی طالب علم حق اور سچائی کو اکتسابی طور پر سوچ سمجھ کر قبول نہیں کر سکتا۔ جبکہ اس کے برعکس جب تک کسی طالب علم کا ذہن فرقہ وارانہ تربیت نہیں پاتا تب تک اس میں سچائی کو قبول کرنے کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہےکہ مدارس کا فرقہ وارانہ بنیادوں پر قیام ایک بہت بڑی تباہ کاری ہے۔

درسِ نظامی

درسِ نظامی کا تفصیلی جائزہ اس مختصر مضمون میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ تحقیق کے بعد ہم جو کچھ سمجھ سکے ہیں اس کے مطابق حسبِ ذیل خامیاں سامنے آتی ہیں:

درسِ نظامی میں جو فنون پڑھائے جاتے ہیں وہ شروع ہی سے فارسی اور عربی زبان میں پڑھائے جاتے ہیں، جب کہ پڑھنے والے طالب علموں کی مادری زبان نہ عربی ہے نہ فارسی۔

پھر یہ مصیبت کہ درسِ نظامی میں شامل مختلف کتابیں اتنی مختصر اور مشکل عبارات میں لکھی گئی ہیں کہ ان کو سمجھنے کے لیے پھر شرحوں کی ضرورت محسوس کی گئی، حاشیے لگانے پڑ گئے، اور پھر ان حاشیوں کے اوپر حاشیے چڑھائے گئے، اور پھر وہ سب طالب علموں کے دماغوں میں بھی بٹھانا ضروری سمجھا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طلبا اجنبی زبان کے اجنبی الفاظ، جملوں اور ان کی ترکیبوں میں ہی پھنسے رہ جاتے ہیں، اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی نہ عبارتیں حل کرنا سیکھ سکتے ہیں، نہ ان علوم میں سے ہی کچھ حاصل کر پاتے ہیں جو درسِ نظامی میں پڑھائے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ درسِ نظامی میں شامل منطق و فلسفہ آج کے جدید منطق و فلسفہ کے زمانے میں فرسودہ ہو چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان علوم نے جتنی ترقی کی ہے اس کو نظر میں رکھا جائے۔ 

آج کے دور میں جو جدید فقہی مسائل ہیں، مثلاً جدید معاشیات، بینکنگ سسٹم، اور اس طرح کے دیگر مسائل، وہ بھی نصاب میں شامل نہیں ہیں۔ علمِ حدیث خود علمِ حدیث کے تقاضوں کے مطابق نہیں پڑھایا جاتا۔ اصولِ حدیث، اسماء رجال، تحقیق اور تنقید کی تعلیم کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے۔ علمِ تفسیر میں بھی نہایت غیر ذمہ دارانہ طریقہ استعمال ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے فارغ التحصیل اور دستاربند عالمِ دین ہونے کے باوجود کوئی بھی طالب علم اپنے اندر قرآن فہمی کی صلاحیت پیدا نہیں کر پاتا۔

اسی طرح درسِ نظامی کے فارغ التحصیل طلبا معاشرے کے اندر تعمیری، تخلیقی اور پیداواری عمل میں کوئی بھی حصہ نہیں لے رہے ہیں، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورتحال کا تجزیہ کر کے صحت مند راہ تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔

طریقۂ تعلیم

مدارس میں تعلیم کا جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اس میں طالب علم کے سامنے مخصوص کتاب رکھی جاتی ہے۔ شاگرد کتاب کی عبارتیں حل کرتا ہے، ضمیریں اور ان کے مراجع ڈھونڈھتا ہے، یا پھر دوسری صرفی اور نحوی ترکیبیں اور قاعدے ڈھونڈھتا ہے۔ اس طرح ایک تو اصل موضوع سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور دوسرا طالب علم کو کتابوں کی عبارتیں حل کرنے کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جس موضوع سے متعارف کرانے کے لیے کتاب پڑھائی جاتی ہے اس سے تو بالکل واقفیت نہیں ہوتی۔ جبکہ آج کل تعلیم کے بہت سے ایسے طریقے تجویز ہو چکے ہیں جن سے بہت بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

مدارس اور ان کے نصاب و طریقۂ تعلیم کے حوالے سے ہم نے اوپر جو صورت حال بیان کی ہے، اس کی روشنی میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم کو دینی اور دنیوی خانوں میں تقسیم کیے بغیر اس کو غیر فرقہ وارانہ بنیادوں پر دینے کا بندوبست کیا جائے۔ نیز علومِ اصلیہ یعنی قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ جدید علوم کو بھی شامل کیا جائے اور تعلیم کے جدید طریقوں کو استعمال کر کے بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے قدم اٹھایا جائے۔

(سائنٹفک اسلامک ایجوکیشن انسٹیٹیوٹ، حیدرآباد)

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(اگست ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter