شاہِ حبشہ ؓ کا قبولِ اسلام

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

امام نسائیؒ اور امام بیضاویؒ نے حضرت انس ؓ سے روایت بیان کی ہے اور امام ابن جریرؒ نے حضرت جابرؓ سے نقل کیا ہے کہ نجران کے ۴۰ عیسائی ایمان قبول کر چکے تھے، حبشہ میں ۳۲ خوش نصیب ایمان کی دولت سے مالامال ہوئے، مدینے کے یہودیوں میں سے حضرت عبد اللہ بن سلامؓ سرفہرست تھے، اور حبشہ کے بادشاہ نجاشی خود ایمان لے آئے۔

امام نسائیؒ فرماتے ہیں کہ مکہ سے ہجرت کر کے دو قافلے حبشہ پہنچے۔ پہلے قافلہ میں تو مہاجرین کی تعداد کم تھی تاہم دوسرا ۸۰ افراد پر مشتمل تھا جس میں حضرت عثمانؓ بمع اپنی زوجہ اسماءؓ کے ساتھ اسی قافلے کے ہمراہ گئے۔ فرماتے ہیں کہ نجاشی نے حضرت عثمانؓ اور حضرت جعفرؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا، اسے حضور علیہ السلام کی ملاقات کا زیست بھر شوق رہا مگر اس کی یہ حسرت پوری نہ ہو سکی۔

مؤرخین لکھتے ہیں کہ ایک موقع پر نجاشی نے ۳۰ افراد پر مشتمل ایک وفد، جس میں اس کا اپنا بیٹا بھی تھا، حضور علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا تھا، یہ وفد بحری سفر کے دوران سمندری طوفان کی نذر ہو گیا، کشتی ڈوب گئی اور ان میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا، البتہ اس کے علاوہ ایک اور قافلہ وہاں سے مدینہ آیا اور ایمان قبول کیا۔

امام بغویؒ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ نجاشی کی وفات کے وقت وہاں پر ایک بھی مسلمان موجود نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے حضور علیہ السلام کو خبر دی کہ آج نجاشی فوت ہو گیا ہے، وہ صاحبِ ایمان تھا لہٰذا آپ اس کی نمازِ جنازہ ادا کریں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا عام اعلان فرمایا، لوگ باہر عید گاہ میں نکلے، دو بڑی بڑی صفیں بنیں اور نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ امام بغویؒ فرماتے ہیں کہ حقیقت میں یہ جنازہ غائبانہ نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے مدینے اور حبشہ کے درمیان موجود تمام پردے ہٹا دیے اور نجاشی کی میت حضور علیہ السلام کو نظر آنے لگی اور اس طرح یہ جنازہ گویا حاضر میت پر ہی پڑھا گیا۔


سیرت و تاریخ

(مئی ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter