ایک دفعہ سوویت رہنما جوزف اسٹالین نے رومن پوپ کا مذاق اڑاتے ہوئے سوال اٹھایا تھا ’’اس پوپ نے کتنوں کو ایک دوسرے سے جدا کر کے ان میں تفرقہ ڈلوا دیا ہے!‘‘۔ بعد میں جب مشرقی یورپ کی کمیونسٹ ریاستوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہوئیں تو کہا جانے لگا کہ ’’رومن پوپ نے ان ریاستوں کے حصے بخرے کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے‘‘۔
کہا جا سکتا ہے کہ اسٹالین کے قول کی مذاق کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں۔ اسی طرح مشرقی یورپ کے حصے بخرے کرنے کا الزام رومن پوپ پر تھوپ دینا کسی حد تک اپنے اندر مبالغے کا پہلو سموئے ہوئے ہے۔ لیکن اگر مذاق اور مبالغے کی سرحدوں کے درمیان کھڑے ہو کر جائزہ لیا جائے تو یہ کہنے سے باز نہیں رہا جا سکتا کہ رومن پوپ اور وٹیکن کا بیسویں صدی کے بعض بڑے بڑے واقعات کے وقوع پذیر ہونے میں بنیادی کردار رہا ہے۔ اس لیے سوال یہ نہیں کہ رومن پوپ نے ان بڑے واقعات کے وقوع پذیر ہونے میں کوئی کردار ادا کیا ہے یا نہیں! بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ان واقعات کے وجود میں لائے جانے میں رومن پوپ کا کردار کس حد تک اور کس نوعیت کا رہا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ رومن پوپ کے فلسطین کے دورے کی خبر کے گردش میں آتے ہی غزہ میں موجود فلسطین کے تحقیقی ادارے نے ’’وٹیکن اور عرب اسرائیل مخاصمت‘‘ کے عنوان سے ایک طویل تجزیاتی رپورٹ پیش کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق انقلابِ فرانس کو کلیسا کے روحانی تسلط میں سیاسی تسلط کا اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کلیسا کی حیثیت کو محض روحانی قرار دیا جانا اب ایک زبانی کلامی نظریے کے سوا کچھ نہیں رہا۔ نئے واقعات نے ثابت کر دیا کہ وٹیکن کو مسیحیت کے پیروکاروں میں غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل ہے۔ اس اثر و رسوخ کے سیاسی استعمال کے بہت سے شواہد روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ خصوصاً عرب اسرائیل جنگ میں اس کے سیاسی عمل دخل کے بارے میں دو آراء کی گنجائش ممکن نہیں۔
وٹیکن کی منظم سیاسی سرگرمیاں
مذکورہ رپورٹ میں پہلی عالمی جنگ کے بعد کلیسا کے بے جان جسد میں محسوس کی جانے والی پھرتی کا تذکرہ کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ کلیسا عالمی بساطِ سیاست کی تشکیل میں ایک اہم کردار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اپنی اس حیثیت کو محسوس کرنے کے بعد وہ بدلتے حالات کے مطابق اپنے رویے میں واضح تبدیلیاں پیدا کرنے تک کا خواہاں ہے۔
۱۱ فروری ۱۹۲۹ء کو روم کے تاریخی شہر میں ایٹالین رہنما مسولین اور پوپ کے خصوصی پرائیویٹ سیکرٹری بیوس الیونتھ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے میں روم اور وٹیکن کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا تھا، نیز پوپ کے تسلط کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والی ۴۴ ایکڑ اراضی کو وٹیکن ریاست کی تشکیل کے لیے وقف کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔
اس معاہدے کو وٹیکن کے لیے یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات اور معاہدوں کا نیا دور قرار دیا جا سکتا ہے، جس کے ذریعہ وہ کیتھولک اثر و رسوخ کا تحفظ بھی کر پایا اور اس کی مسلسل نگرانی کو اپنے مفادات کے لیے بھی استعمال میں لا سکا۔ بیوس الیونتھ چیکو سلاویہ، یوگو سلاویہ، روم، پرتگال وغیرہ کے ساتھ بھی اس نوعیت کے معاہدے کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ نئے عالمی حالات کے مطابق کیتھولک کلیسا کے اندر ضروری تبدیلیاں لانے کے لیے بھی کوششیں کرنے لگا۔
اس وقت پوپ کی سرگرمیوں کا کامیاب عنصر پوپ اور بعض مغربی ممالک کے درمیان میل ملاپ کی خصوصی کوششوں کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اپنی ان ملاقاتوں کے دوران پوپ نے روس اور سوویت یونین کی دیگر ریاستوں میں سر اٹھانے والے نئے نظریات کے خطرے کی طرف مغربی دنیا کی توجہ مبذول کرائی۔ ۱۹۳۱ء کو پوپ نے تمام کیتھولک کلیساؤں اور دیگر عام کلیساؤں کے نام ایک خط لکھا جس میں کسی حد تک سرمایہ دارانہ نظام کی گوشمالی بھی کی گئی تھی۔
فلسطین کے تحقیقی ادارے کی رپورٹ کے مطابق سیاسی اثر و رسوخ کا حصول وٹیکن کی سرگرمیوں کا بنیادی ہدف رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس چھوٹی سی ریاست نے سفارت کاروں کی تیاری کے لیے ایک اہم ادارہ تشکیل دیا۔ اس ادارے سے تیار ہو کر نکلنے والے عام ڈپلومیٹس نہیں ہوتے، انہیں ’’کہانت‘‘ کی خصوصی تعلیم دی جاتی ہے۔ چار سال تک اس خصوصی تعلیم کے مرحلے میں زیر تربیت رہنے کے بعد آخری دو سال انہیں ڈپلومیسی کی تاریخ، اقسام اور ریاستی قانون وغیرہ کی تعلیم دلائی جاتی ہے۔
وٹیکن اور عرب اسرائیل جنگ
زیر بحث رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عرب اسرائیل جنگ میں وٹیکن کا موقف اس کی سیاسی قلابازیوں کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ اس موقف کے ذریعہ یہود، عرب، اسلام اور بڑی طاقتوں کے ساتھ پوپ کے سیاسی رویے کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ نیز عرب اسرائیل چپقلش کو امن و امان میں تبدیل کرنے کے لیے کی جانے والی سرگرمیوں کو سمجھنے میں بھی خاصی مدد ملتی ہے۔
رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ اس چپقلش کے آغاز سے لے کر اب تک مشرقِ وسطٰی میں وٹیکن کی سیاست دو متوازی رخ اختیار کیے ہوئے ہے:
- اس کا پہلا اقدام کیتھولک کلیسا اور عالمِ عرب کے درمیان تعلقات میں خیر سگالی کی فضا کا پیدا کرنا ہے اور اس کا بنیادی مقصد مشرقِ وسطٰی میں موجود عیسائی کمیونٹی کی حمایت کا حصول ہے۔ اس کے لیے مسلمانوں کے ساتھ مل کر کفر، الحاد اور بے دینی کے خلاف (جس سے ان کی مراد کمیونزم ہے) متحدہ پلیٹ فارم تشکیل دینا ہے۔
- دوسرا اقدام، جو پہلے اقدام کے متوازی ہے، وہ یہودیت اور عیسائیت کے درمیان افہام و تفہیم کے تعلقات پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ حالانکہ مسیح علیہ السلام کو سولی چڑھانے کی پاداش میں روزِ اول سے ہی عیسائی یہودیوں کو اپنا دشمن گردانتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیلی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی باہمی سمجھوتے کے لیے عیسائی اقدامات ظہور میں آنا شروع ہو گئے۔ اس کی خاطر صدیوں سے تسلیم شدہ عیسائی مذہبی تصورات تک کو داؤ پر لگا دینے میں عار نہ سمجھا گیا۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد کیتھولک مفادات کے تحفظ کی خاطر اسرائیلی حکومت کے ساتھ غیر رسمی مذاکرات تک کی پیشکش کی گئی۔
دشمنی سے حلیفانہ تعلقات کی طرف پیشرفت کا آغاز
۱۵۱۸ء میں پوپ گریگوری کی جانب سے یہودیوں کے خلاف ایک مذہبی فرمان جاری ہوا جس میں مسیح علیہ السلام کا انکار کرنے والے اور انہیں سولی پر چڑھانے، انہیں اذیت دینے والے گروہ (مراد یہودی) کا گناہ ہر آنے والی نسل تک منتقل ہو کر شدید تر ہو جانے کی صراحت کی گئی تھی۔ اس کے بعد پوپ کے تمام جانشین اپنے اس موقف پر قائم رہے۔
۱۹۱۷ء میں پہلی صہیونی کانفرنس کے بعد وٹیکن کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا:
’’نبوتِ مسیح علیہ السلام کو ایک ہزار آٹھ سو ستائیس برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کی رو سے قدس کی تباہی مقدر تھی۔ جہاں تک قدس کی تعمیرِ نو اور اس کا اسرائیلی ریاست کا مرکز ہونے کی بات ہے تو ہم یہ واضح کیے دیتے ہیں کہ یہ مسیح کی پیشین گوئی کے صریحاً منافی بات ہے۔‘‘
ہرٹزل نے جب اپنے ایک خط کے ذریعہ وٹیکن سے تعاون کی اپیل کی تو بیوس، پوپ کے دسویں جانشین، نے جواباً کہا کہ ہمارے لیے ناممکن ہے کہ ہم اس تحریک کے لیے اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ رکھیں، بے شک ہم یہودیوں کو قدس کی طرف متوجہ ہونے سے باز نہیں رکھ سکتے، تاہم یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ہم ان کی کوششوں کی تائید کریں۔ کلیسا کے نگران کی حیثیت سے تم مجھ سے کسی اور جواب کی توقع نہ رکھو کیونکہ یہودیوں نے ہمارے پیشوا کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے لیے بھی یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ہم یہودی قوم کی حیثیت کو قبول کریں۔ تم لوگوں نے اگر فلسطین کی طرف پیش قدمی کی اور تمہاری قوم نے وہاں سکونت اختیار کی تو تمام عیسائی، چاہے وہ عام باشندے ہوں یا مذہبی رہنما، تمہارے رستے کی دیوار بن جائیں گے۔ بیوس نے اپنے جواب میں فلسطین کے اندر یہودی وطن کے قیام کی صریح مخالفت کرتے ہوئے اسے مسیحی عقائد کے منافی قرار دیا۔
۱۹۱۷ء میں بند کیت پوپ کے پندرہویں جانشین نے ’’مقدس سرزمین میں یہودیوں کی کوئی گنجائش نہیں‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ اس موقع پر وٹیکن نے بیلفور معاہدے کو تسلیم کرنے سے بھی صاف انکار کر دیا۔ ۱۹۲۱ء میں وٹیکن کا دورہ کرنے والے عربی وفد کا پوپ نے والہانہ استقبال کیا اور یہودیوں کو فلسطین کے اندر کسی قسم کے حقوق دینے سے صاف انکار کیا۔ ۱۵ مئی ۱۹۲۲ء کو جاری ہونے والے کارڈینال کے ایک خط میں اس صورتحال کی پوری وضاحت سے تحریری شکل دی گئی۔
اس دوران وٹیکن کا طرز عمل عرب عیسائیوں سے تعاون، اور عالمِ عرب میں صہیونی تحریک کے خلاف اٹھنے والی بغاوت کی پشت پناہی کے حوالے سے ممیز ہے۔ ۱۹۱۸ء میں تعاون اور پشت پناہی کی یہ کیفیت اپنے جوبن پر تھی۔ عربوں کی سیاسی تنظیموں میں مسیحی برادری نے بھرپور شرکت کر کے یہودی اقدامات کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
۱۹۴۶ء میں وٹیکن نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نام پیغام پہنچایا کہ فلسطین کو یہودیوں کے سپرد کرنے یا ان کے تسلط میں دینے کی صورت میں کیتھولک چرچ کی دینی حیثیت مجروح ہو کر رہے گی۔ وٹیکن اور دیگر کیتھولک ریاستوں کو اپنا موقف تبدیل کرنے کے لیے شدید تر دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، خصوصاً امریکہ کی طرف سے اس ضمن میں خصوصی دباؤ ڈالا گیا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ وٹیکن اور کیتھولک چرچ اپنے موقف سے دستبردار ہوتے چلے گئے۔
اس وقت جب ان کی طرف سے اسرائیل کا انکار سامنے آ چکا تھا، اور تقسیمِ فلسطین کی قرارداد کا انہوں نے سراسر انکار بھی کر دیا تھا، وٹیکن اور کیتھولک نے اپنے موقف میں اچانک واضح تبدیلی پیدا کر لی۔ تقسیم کی قرارداد کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس کے نفاذ کے لیے کوششوں کا آغاز کر دیا۔ خصوصاً القدس کو تینوں مذاہب کے لیے قابلِ قبول بنانے کی کوشش کو خوب سراہا۔
’’اسرائیلی ریاست‘‘ کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی وٹیکن کی طرف سے بیان جاری ہوا:
’’صہیونیت کو اسرائیل کی مجسم شکل قرار نہیں دیا جا سکتا (جیسا کہ تورات میں لکھا گیا ہے) صہیونیت تو ایک عصری تحریک ہے جو موجودہ دور کی پیداوار اور ایک جدید ریاست کی بنیاد بنی ہے۔ یہ نظریاتی اور سیاسی اعتبار سے مکمل سیکولر تحریک ہے۔ سر زمینِ مقدس اور مقدس مقامات کو مسیحی دنیا اپنا ہی علاقہ شمار کرتی ہے۔‘‘
اس پس منظر میں صہیونی ریاست کا قیام، جو در حقیقت وٹیکن کے لیے ایک چیلنج سے کم نہ تھا، کے عمل میں آتے ہی سرزمینِ مقدس سے عیسائیوں نے نقل مکانی شروع کر دی۔ وٹیکن نے ان کو سرزمینِ مقدس ہی میں سکونت رکھنے کی خصوصی ہدایت کی اور اس کے لیے خصوصی اقدامات بھی کیے۔ ۱۹۴۹ء میں ایک بڑی تعداد کی نقل مکانی کے دوران وٹیکن نے انہیں ہر طرح کی امداد فراہم کی خصوصاً پناہ گزینوں کی تعلیمی، ثقافتی اور دینی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے۔ ’’بیت الحم‘‘ یونیورسٹی کا قیام اس کی انہی کوششوں کا حصہ ہے۔
یہ سارے اقدامات واشنگٹن اور اسرائیل کو ناراض کرنے کے لیے کافی تھے۔ خصوصاً عرب اور صہیونیت کی چپقلش کے دوران وٹیکن کا طرزِ عمل اس کے جرم کا جواز بننے کے لیے کافی تھا۔ نازیوں کی حمایت کی وجہ سے بھی پوپ کی گدی بہت سے الزامات کا باعث بنی ہوئی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پوپ یوحنا نے صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے مذہبی رواداری، درگزر اور تمام مذاہب کے ساتھ رواداری کے بیانات دینے شروع کر دیے۔
۱۹۶۰ء میں صہیونی تنظیموں نے وٹیکن سے مطالبہ کیا کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے خون کے الزام سے یہودیوں کو بری الذمہ قرار دے۔ چنانچہ وٹیکن نے بیان جاری کیا:
’’مسیح علیہ السلام کو سولی چڑھانے کے جرم کو اس زمانے کے تمام یہودیوں یا آنے والی نسلوں تک منتقل کر دینا زیادتی ہے۔‘‘
اسی طرح کیتھولک مراسم عبودیت کے دوران تلاوت کیے جانے والے ایک قطعے کو بھی حذف کر دیا گیا جس میں یہودیوں کو ملعون قرار دیا گیا تھا۔ دیگر دینی نصوص میں سے بھی ان حصوں کو حذف کر دیا گیا جن میں یہودیوں کے دھتکارے جانے اور رب کی نظرِ رحمت سے محروم ہو جانے کا تذکرہ موجود تھا۔
اس بیان کے جاری کیے جانے کے فورًا بعد کیتھولک عرب کلیسا اور مغربی کلیسا کے درمیان خوفناک تصادم کی کیفیت دیکھنے میں آئی۔ اس لیے کہ بیان جاری کیے جانے کا مطلب نہ صرف یہودیوں کی دینی حیثیت کو تسلیم کیا جانا تھا بلکہ ’’اسرائیلی ریاست‘‘ کے قیام کو تسلیم کرنا، مسیحی عقائد کا کھلم کھلا انکار کرنا، اور اپنے طرزِ عمل کو سیاسی اتار چڑھاؤ کے مطابق تشکیل دے کر نئے حالات سے سمجھوتہ کرنا اس میں شامل تھا۔ اسی دوران پوپ نے القدس کی زیارت کے لیے رختِ سفر باندھا، اپنے سفر کو خالص مذہبی نوعیت کا سفر قرار دیتے ہوئے سیاسی رنگ دینے سے انکار کر دیا، لیکن طرزِ عمل کی تبدیلی کے واضح اشارات سامنے آ چکے تھے لہٰذا صہیونی اور یہودی تنظیموں نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی کوششوں کو تیز تر کر دیا۔
۱۹۶۷ء کی جنگ اور پورے القدس کے یہودیوں کے قبضے میں چلے جانے کے واقعہ نے وٹیکن کو اپنی سیاست کو نئے رخ پر ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت سے القدس کی حیثیت کو تینوں مذاہب کے لیے قابلِ قبول بنانے پر وٹیکن نے اپنی کوششیں مرکوز کر دیں۔ پوپ پولس کی تقاریر میں ہمیں اس کے واضح اشارات ملتے ہیں۔ ۱۹۷۵ء میں پوپ نے ایک بیان میں کہا:
’’اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق تسلیم کرتے ہوئے ان کا احترام کریں۔‘‘
اس دوران کے پوپ کے بیانات میں ’’یہودی قوم‘‘ کی اصطلاحات کا جابجا تذکرہ ملتا ہے، علاوہ ازیں اس نے اپنے بیانات میں یہودیوں کو پیش آئند مشکلات کا بھی جابجا تذکرہ کیا ہے۔ ۱۹۷۲ء میں اپنے ایک خط میں پوپ نے لکھا کہ مقدس سرزمین کے رہائشیوں کو ان تمام حقوق کا تحفظ حاصل ہونا چاہیے جو کسی سرزمین کے باشندوں کو اپنے وطن میں حاصل ہوتے ہیں۔ اس وقت تمام فلسطینی جن میں ایک بڑی تعداد مسیحیوں کی ہے، آزمائش کے مرحلے سے دوچار ہیں۔
اس دوران کے وٹیکن کے اخبارات بھی اسرائیل آبادکاری کی مہم کے خلاف سراپا احتجاج بنے نظر آتے ہیں۔ پوپ پولس کے القدس کو سیاسی اہمیت دینے کے رویے کو وٹیکن اسرائیل تعلقات کی بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے۔ ۱۹۶۷ء میں اپنی ایک تقریر کے دوران پوپ نے مسئلہ کے سیاسی پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے تین نکات پر خصوصی توجہ دی:
(۱) مقدس سر زمین اور اس کے تاریخی اور دینی تشخص کی حفاظت۔
(۲) مقدس سر زمین اور القدس میں نافذ شدہ قانون کی حیثیت۔
(۳) فلسطین میں آباد گروہوں کے مدنی اور دینی حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات۔
فلسطین کے تحقیقی ادارے کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے وٹیکن کے طرزِ عمل کی بہت سی توجیہات کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً پوپ کے مذہبی جانشین ایسے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں محتاط طرزِ عمل رکھنے میں اپنے تحفظات دیکھتے ہیں جن کی سرحدیں متنازعہ حیثیت کی حامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب دنیامیں موجد مسیحی کلیسا (مارونی، قبطی) اسی طرزِ عمل کے حقدار سمجھے گئے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دباؤ کے زیرِ اثر یہودی اور صہیونی کمیونٹی کے ساتھ تعلقات کو نیا رخ دینا وٹیکن کی مجبوری بن گیا۔ اسی دباؤ کے زیرِ اثر ۱۹۸۱ء سے یہ تعلقات دوستانہ اور حلیفانہ نوعیت کے بن چکے ہیں۔ ۱۹۹۴ء میں ببانگِ دہل ان کی حلیفانہ حیثیت کا اعتراف بھی کر لیا گیا۔
اعتراف کے بعد کا مرحلہ
۹ فروری ۱۹۸۱ء کو پہلی دفعہ پوپ نے یہودی ربی سے دوستانہ مصافحہ کیا جسے صہیونی اور یہودی دنیا نے غیر معمولی تاریخی اہمیت دی۔ کیتھولک کلیسا اور یہود کے درمیان اس مصافحے کو دوستی کی دائمی شکل میں تبدیل کرنے کے لیے یہودی اور صہیونی تنظیموں نے اپنے اقدامات تیز تر کر دیے۔ اس سلسلے میں دباؤ کی پالیسی اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا اور وقتاً فوقتاً نازیوں کے حوالے سے وٹیکن کے موقف کی یاددہانی کرائی جاتی رہی۔
۱۹۸۵ء میں اس دباؤ کے زیرِ اثر وٹیکن کی طرف سے ایک اور بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا کہ اسرائیل دراصل مذہب کے پیروکار یہودیوں اور اسرائیلی کمیونٹی کی مشترکہ ریاست ہے۔ صہیونی اور یہودی تنظیمیں جلد اس نتیجے پر پہنچ گئیں کہ ان کی جارحانہ پالیسیاں پھل لا رہی ہیں، چنانچہ انہوں نے ازسرنو دباؤ ڈالنا شروع کر دیا اور مطالبہ کیا گیا کہ مذکورہ بالا بیان میں اسرائیلی ریاست اور یہودی قوم کے درمیان تاریخی تعلق کو واضح نہیں کیا گیا۔ گویا مسیحیوں کے اسرائیلی ریاست کے ساتھ یہودیوں کے دینی تعلق کو تسلیم کر چکنے کے باوجود اصل مطالبہ یہ تھا کہ اس حیثیت کو محض دینی تسلیم کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اسے عالمی برادری کے تسلیم شدہ اصولوں کے عین مطابق قرار دیا جائے۔
اب یہودی رہنماؤں کے ساتھ پوپ کی ملاقاتیں معمول کا حصہ بن چکی تھیں۔ ان کی گفتگو کا مرکزی مضمون کیتھولک کی طرف سے اسرائیلی ریاست اور یہودیوں کے جائز تعلق کا اعتراف ہوتا تھا۔ تاہم ان میں پوپ کے بعض روایتی بیانات جن میں القدس کی دینی متنازعہ حیثیت، اسرائیل کے ساتھ تعلقات، امن معاہدے کی تائید وغیرہ بھی شامل ہوئے۔ علاوہ ازیں ان فلسطینیوں کے حقوق کا تذکرہ بھی ہوتا جن کی ایک بڑی تعداد وطن کے ہوتے ہوئے بے وطنی اور پناہ گزینی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔
یہودی رہنماؤں کے ساتھ روز بروز بڑھتے ہوئے ان تعلقات کے دوران پہلی مرتبہ القدس کی مشہور مسیحی عرب شخصیت میثال صباح نے تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ یاد رہے کہ ۱۰۹۹ء کے بعد یہ پہلا مسیحی عرب ہے جس کی القدس کے معاملات میں ذمہ دارانہ حیثیت تسلیم شدہ ہے۔
القدس کے حوالے سے وٹیکن اپنے موقف پر قائم رہا اور اسے تینوں توحیدی مذاہب یہودیت، نصرانیت اور اسلام کے لیے قابلِ قبول حیثیت دلانے کی طرف توجہ دلاتا رہا۔ اس کے لیے اس نے ایسا قانون تشکیل دینے کا مطالبہ بھی کیا:
- جس میں کسی ایک مذہب کی اجارہ داری نہ ہو اور تینوں مذاہب کے لیے یکساں رواداری برتی گئی ہو۔
- القدس کے باشندے ہونے کی حیثیت سے تینوں گروہوں کے پیرووں کو مکمل شہری اور دینی حقوق کا تحفظ حاصل ہو۔
- مسیحیوں اور مسلمانوں کے ساتھ یکساں برتاؤ روا رکھا جائے
مسلمانوں کے لیے یہ طرزِ عمل ایک نئی تبدیلی کا حامل تھا۔ ۱۹۸۷ء میں فلسطینی انتفاضہ کے نام سے بپا ہونے والی اسلامی تحریک کو پوپ نے اخلاقی پشت پناہی فراہم کی۔ تاہم اس دوران وٹیکن اپنی حیثیت کے متضاد پہلوؤں کو چھپا نہ سکا۔ چنانچہ جب کہا گیا کہ مغربی علاقے اور غزہ کی پٹی کے باشندے شدید ترین حالات کا شکار ہیں تو وٹیکن نے بیان جاری کیا کہ
’’اسرائیل ان باشندوں کو امن فراہم کرنے کے لیے بے چین ہے۔‘‘
ایک اور بیان کے الفاظ اس طرح ہیں:
’’فلسطین کے تمام باشندے آج آزمائش کے دور سے گزر رہے ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ اپنی ہی طرح مقدس سر زمین کے ساتھ تاریخ اور عقیدے کا تعلق رکھنے والی قوم کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں۔‘‘
بیانات میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی گہرائی کو بخوبی ناپا جا سکتا ہے۔ ۹ نومبر ۱۹۹۱ء کو امریکی صدر بش کے ساتھ پوپ کی ملاقات کے فورًا بعد بیان جاری ہوا:
’’مڈریڈ میں امن کانفرنس کے انعقاد کی روشنی میں وٹیکن کا یہ طرزِ عمل امریکہ کے اشاروں کے مرہونِ منت ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ وٹیکن نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کبھی بھی مذہبی عقائد کو حائل نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وٹیکن نے ایک مرتبہ امریکہ کے بعض یہودی رہنماؤں کے سامنے کھڑے ہو کر اقرار کیا تھا: مسیحی تعلیمات کی رو سے ہمیں کہیں بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے باز نہیں کیا گیا۔‘‘
وٹیکن کے طرزِ عمل کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز تجزیہ نگار محمد السماک رقمطراز ہیں:
’’اسرائیل اور وٹیکن کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے میں چار اہم عوامل کارفرما ہیں:
- معاملے دینی پہلو سے قطع نظر موجودہ عالمی حالات کے مطابق وٹیکن کے لیے عالمی سیاست کے نئے تقاضوں کو نظرانداز کر کے تنہا رہ جانا نقصان دہ تھا۔
- خصوصاً عرب اسرائیل مذاکرات کے مختلف ادوار کے بعد اسے اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم کر لینے میں عافیت نظر آئی۔
- مشرق میں مسیحی دنیا کے حالات نے بھی وٹیکن کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا۔
- تاہم اس سلسلے میں سب سے اہم عنصر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جانب سے وٹیکن پر تعلقات استوار کرنے کے لیے ڈالا جانے والا دباؤ ہے۔‘‘
امریکی دباؤ
امریکی دباؤ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ یہاں دباؤ سے مراد محض حکومتِ امریکہ کا دباؤ نہیں بلکہ اس میں وہ تمام امریکی کلیسا اور امریکی ادارے بھی شامل ہیں جن میں سے اکثر صہیونی مسیحیت کے علمبردار ہیں۔ ان میں سے اکثر اداروں اور کلیساؤں کو امریکہ کے سابق صدر ریگن کی خصوصی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ ان کلیساؤں کی عربوں اور مسلمانوں سے دشمنی صہیونیت اور یہودیت کو بھی مات ہے۔ یہ کلیسا صہیونی کمیونٹی کے ایک بہت بڑے عنصر کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو گئے، اگرچہ ان میں اکثریت Protestants اور انجیلی فرقوں کی ہے، تاہم یہ اپنے ساتھ بہت سے کیتھولک کو شامل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ’’مسیحی وطن کانگریس‘‘ کی تشکیل کو ان کی کوششوں کا اہم باب قرار دیا جا سکتا ہے۔ ۱۹۸۰ء میں اس کانگریس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے تاسیسی اجتماع میں کیتھولک راہبوں اور کلیسا کے اہم مذہبی رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ کانگریس کا بنیادی ہدف یہودی وطن کے حصول کی خاطر تمام مسیحی گروہوں اور تنظیموں کو متحدہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا تھا۔
یہ تنظیمیں اور گروہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے امریکہ پر دباؤ ڈالتے ہیں، اور امریکہ وٹیکن پر دباؤ ڈال کر اپنا کام نکلواتا ہے۔ دباؤ کا مقصد چاہے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنا ہو یا کچھ اور، وٹیکن ابھی تک اس حقیقت سے تجاہلِ عارفانہ اختیار کیے ہوئے ہے کہ یہ مسیحی تنظیمیں خود مسیحیت کے لیے خطرہ بن چکی ہیں، اور انہوں نے یہودیوں کو مسیحیوں سے زیادہ مسیحیت اور مسیحی تعلیمات کا نام لیوا بنا کر مسیحیوں کے حقوق کا استحصال کیا ہے۔
حالات کی تمام تر پیشرفت کے ساتھ فلسطین کی تحریکِ آزادی اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے اوسلو معاہدے کے چند ہی ماہ بعد اسرائیل اور وٹیکن کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس میں القدس کے مسئلے کو قطعی طور پر نظر انداز کیا گیا تھا۔ معاہدے کی شقوں میں مختلف گروہوں کے درمیان تعصب کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اقدامات، مذہبی رواداری، وٹیکن سے تمام وقتی تنازعوں میں غیر جانبدارانہ رویے کی اپیل، خواہ ان تنازعوں کا تعلق مقبوضہ اراضی اور ان کی حدود کے تعین سے ہو یا کسی دیگر مسئلہ سے ہو، جیسے امور شامل تھے۔ یہودیوں اور صہیونیوں نے اس معاہدے کو یہودی قوم اور اسرائیلی ریاست کے لیے شاندار کامیابی قرار دیا۔ وٹیکن نے اس معاہدے کو مشرقِ وسطیٰ میں امن کی بحالی کی کوششوں کا اہم عنصر قرار دیا۔
۵ جون ۱۹۹۴ء کو مذکورہ معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ دونوں فریقوں کے درمیان ڈپلومیٹک تعلقات کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ خیر سگالانہ وفود کے تبادلے کی یقین دہانیاں کرائی گئیں۔ مذکورہ معاہدے کے بعد بھی قابلِ توجہ امور بدستور قائم رہے۔ القدس کی متنازعہ حیثیت قائم رہی اور اس حوالے سے وٹیکن اپنے سابقہ بیانات دہراتا رہا: ’’القدس کی تینوں مذاہب کے پیروکاروں کے لیے یکساں مقدس حیثیت ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف صہیونی بھی اپنے سابقہ بیان دہراتے رہے: ’’القدس اسرائیل کا جزوِ لاینفک ہے‘‘۔
معاہدے میں صراحت کی گئی کہ اس کا اطلاق وہاں تک ہو گا جہاں تک اسرائیلی قانون نافذ ہے۔ یعنی القدس کا مشرقی حصہ اس میں شامل ہے۔ مگر اس معاہدے کے دو ہی سال بعد ان تمام یقین دہانیوں کی حقیقت زمین بوس ہو گئی۔ استقرارِ امن، عدل، توازن کے الفاظ اپنے معنی کھو بیٹھے۔ اگرچہ اسرائیل کو مسیحیوں کا حامی اور ان کے حقوق کا محافظ ظاہر کیا گیا تھا لیکن ۱۹۹۹ء میں اس وقت اس دعوے کی قلعی کھل گئی جب فلسطین کے شہر ناصرہ پر یہودیوں کی یلغار نے ظلم و ستم کے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور وہاں پر موجود بشارہ نامی چرچ کے ساتھ بھی کسی قسم کی کوئی رعایت ملحوظ نہیں رکھی گئی۔
اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ اس میں کبھی بھی کسی گروہ کے لیے کسی رعایت کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مسیحیوں کو درپیش تمام تر جارحانہ رویوں کی خصوصی ذمہ داری اسرائیلی ریاست کے کارپردازوں ہی پر عائد ہوتی ہے۔ القدس کے پچاس ہزار عیسائیوں کی تعداد آج گھٹ کر صرف پانچ ہزار رہ گئی ہے۔ قابض قوتوں کی طرف سے مساجد اور گرجاگھروں کی یکساں بے حرمتی کے واقعات آئے روز منظرِ عام پر آ رہے ہیں۔ عیسائیوں میں پھوٹ ڈلوانے کے لیے قابض قوتوں کی طرف سے خصوصی منصوبہ بندی کی جاتی رہی ہے اور ناصرہ میں ہونے والے فسادات میں مذہبی تعصبات کی ہوا کو بھڑکانے میں سرکاری سرپرستی کو خصوصی عمل دخل حاصل ہے۔ مگر وٹیکن نے ان کھلے حقائق اور چشم دید واقعات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا اور گزشتہ دنوں اسرائیل سے ناصرہ میں زیر تعمیر مسجد کی تعمیر روکنے کی اپیل کی، اس کے عوض پوپ نے سر زمینِ مقدس کے دورے کو ملتوی کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
کیا وٹیکن کے رویے کو صرف اسرائیل کے ساتھ ڈپلومیٹک تعلقات کے استوار کرنے کی کوششوں کا نام دیا جاتا ہے، جس کے لیے وٹیکن القدس سے متعلق اپنے روایتی موقف سے دستبرداری تک اختیار کر سکتا ہے؟ تاہم یاد رہے کہ ڈپلومیٹک تعلقات آزمانے کے لیے کوئی صحیح انتخاب نہیں، خصوصاً ناصرہ میں کھیلی جانے والی آگ اور خون کی ہولی میں گرجاگھر کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک اس رویے کی تبدیلی کا متقاضی ہے۔ اس موقع پر وٹیکن کو علاقے میں موجود اس قوم کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے سوچنے کا مشورہ دیا جا سکتا ہے جس نے صدیوں مسجد اور گرجاگھروں کو یکساں احترام کا مقام دیا، اور مسجد اور کلیسا صدیوں ایک دوسرے کے پڑوس میں امن و آشتی کی فضا دیکھتے رہے۔ ہو سکتا ہے رویے میں یہ تبدیلی مسئلے کے حل کے لیے کوئی قابلِ قبول صورت فراہم کر سکے۔
(بہ شکریہ پندرہ روزہ بیت المقدس اسلام آباد)