حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ ۔ شخصیت اور خدمات

مولانا محمد عیسٰی منصوری

مفکرِ اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا خاندانی تعلق سادات کے مشہور حسنی سلسلہ سے ہے جو نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ ہندوستان میں اس خاندان کی علمی و ادبی اور دینی و ملی خدمات کا دائرہ صدیوں کو محیط ہے۔ آپ کے مورثِ اعلیٰ حضرت شاہ علم اللہؒ، پھر جدِ امجد حضرت سید احمد شہیدؒ، آپ کے نامور والد گرامی مولانا عبد الحئی لکھنوئیؒ جن کی مشہورِ زمانہ تالیف ’’نزہت الخواطر‘‘ پورے اسلامی کتب خانہ میں اپنی مثال آپ ہے جس میں برصغیر کے آٹھ سو سالہ دور کے ساڑھے چار ہزار سے زیادہ علماء، مشائخ، بزرگانِ دین اور مصنفین کا جامع تذکرہ ہے۔

آپ کا بچپن ایسے گھرانہ میں گزرا جہاں علم و فضل، زہد و تقوٰی، عبادت و ریاضت، سادگی و قناعت کی حکمرانی تھی۔ غرض آپ کو بچپن سے علمی، ادبی، دینی و روحانی اور مجاہدانہ ماحول نصیب ہوا۔ عربی آپ نے چوٹی کے عرب علماء اور انشا پرداز مولانا خلیل عربؒ اور مولانا تقی الدین ہلالیؒ مراکش سے پڑھی۔ حدیث شیخ الحدیث مولانا حیدر حسن ٹونکیؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے، تفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے، اور انگریزی لکھنؤ یونیورسٹی میں ایک انگریز سے سیکھی۔ آپ کی اصل تربیت گاہ آپ کا اپنا گھر تھا جہاں بچپن سے ہی دعوت و عزیمت اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جانیں قربان کر دینے کی خاندانی روایات اور سینکڑوں داستانیں سنیں۔ جس زمانہ میں بچے طوطا مینا کی کہانیاں سنتے ہیں، آپ کے گھرانہ میں دورِ صدیقیؓ و فاروقیؓ کے جہاد کے کارناموں پر مشتمل واقدی کی ’’فتوح الشام‘‘ پڑھی جاتی تھی۔

آپ نے ایسے زمانہ میں آنکھیں کھولیں جب برصغیر پر انگریز کی حکمرانی پورے شباب پر تھی اور پورا عالمِ اسلام یورپ کی سیاسی، عسکری، تہذیبی، تعلیمی اور فکری غلامی میں جکڑا ہوا تھا۔ برصغیر اور عالمِ اسلام کے بیشتر مصنفین، مفکرین اور اہلِ قلم مغربی علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کے سحر میں مبتلا تھے۔ خواہ مصر کے شیخ محمد عبدہ، رفاعہ، طہطاوی، قاسم امین ہوں، یا برصغیر کے سرسید احمد خان، منشی چراغ علی اور محمد علی لاہوری، سب اسی راہ پر چل رہے تھے۔ یہ حضرات مغربی تعلیم و تربیت کے اثرات اور انگریز حکومت کے دبدبہ کی وجہ سے غالباً یہ سمجھتے تھے کہ مغربی تہذیب و تمدن کی عظمت و شوکت ایک بدیہی و دائمی حقیقت ہے، اس میں نقد و نظر کی گنجائش نہیں، یہ انسانی عقل اور انسانی علم کی ترقی کا آخری زینہ ہے۔ ایسے ماحول میں آپ کے گھرانہ کی دینی، علمی، روحانی اور مجاہدانہ روایات و ماحول نے آپ کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:

’’مجھ پر اللہ کی مہربانی تھی اور اس کی حکمت کہ ایسے ماحول میں نشوونما ہوا جو مغربی تہذیب و تمدن کی سحر طرازیوں اور دل فریبیوں سے محفوظ بلکہ اس کا باغی، افراط و تفریط سے دور، صحیح اسلامی عقائد و تعلیمات سے معمور تھا۔ پھر ایسے اساتذہ سے تلمذ کا شرف حاصل ہوا جو علمی مہارت کے ساتھ ذہنی و فکری آزادی، اخلاقی جرأت، نقد و نظر کی صلاحیت و ہمت سے بہرہ ور تھے۔ اس ماحول و تربیت کا نتیجہ تھا کہ ایسی تحریروں کے قبول کرنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہوتی تھی جن میں کمزوری، شرمندگی یا شکست خوردگی کے اثرات ہوں، یا جو صرف دفاع پر مبنی ہوں۔‘‘ (پرانے چراغ حصہ ۳، صفحہ ۲۶ و ۲۷)

تئیس سال کی عمر میں آپ اچھوتوں کے سب سے بڑے لیڈر بابا امیتدکر کو اسلام کی دعوت دینے بمبئی تشریف لے گئے۔ اس کے بعد آپ کا دعوتی سفر اور پیغام نہ صرف برصغیر بلکہ عرب و عجم، مشرق و مغرب، مسلم و غیر مسلم ہر جگہ اور ہر وقت جاری و ساری رہا۔ آپ نے اپنی دعوت و فکر کا موضوع خاص طور پر عربوں کو بنایا۔ جب آپ نے دیکھا کہ مغرب کا جدید الحادی فتنہ اپنے تمدنی، علمی، فکری رنگ میں جدید عرب نسل کو غیر معمولی طور پر متاثر کر رہا ہے تو آپ تڑپ اٹھے۔ آپ نے اپنی خداداد بصیرت سے ابتدائی دور سے ہی مغربی فکر و فلسفہ کو اپنی تحریر و تقریر کا موضوع بنایا۔ جاذب اور دلکش عنوان ’’ردۃ ولا ابابکر لہا‘‘ آپ کی جدوجہد کا عنوان بن گیا۔ اس میں نہ صرف اس فتنہ کی پوری تاریخ کو سمو دیا بلکہ دین کا درد رکھنے والے عرب علماء و مشائخ کو تڑپا کر رکھ دیا۔ عالمِ عربی میں آپ کے اس مقالے کے لاتعداد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور اب بھی مسلسل شائع ہو رہے ہیں۔ یہ عنوان آپ نے اس لیے اختیار کیا کہ عرب اہلِ قلم، ادباء اور مفکرین مغرب کے فکر و فلسفہ اور نظامِ حیات و تمدن سے بے انتہا متاثر ہو چکے تھے، گویا یہ ایک جدید ارتداد تھا۔ چنانچہ آپ لکھتے ہیں:

’’مجھے ایسا لگتا ہے کہ عرب اہلِ قلم کے اسلوبِ تحریر اور طرزِ فکر پر سید جمال الدین افغانی کے اسکول نے بہت اثر ڈالا۔ وہ جب میدانِ سیاست میں آتے تو استعماری طاقتوں پر جرأت و ہمت کے ساتھ تنقید کرتے اور ان پر سخت حملے کرتے۔ نہ سزاؤں اور دھمکیوں سے ڈرتے، نہ قید و بند اور ملک بدر ہونے کو خاطر میں لاتے۔ لیکن وہی لوگ جب مغربی تہذیب و تمدن کو موضوع بناتے یا سیاسی نظام، اقتصادی فلسفوں اور عمرانی علوم پر لکھنے بیٹھتے تو ان کے قلم جیسے تھک جاتے، زبان لڑکھڑانے لگتی، اسلوب کمزور پڑ جاتا۔ ان کی تحریروں سے یہ جھلکنے لگتا کہ مغرب ہی ہر چیز میں مثالی نمونہ ہے، اور ترقی کا اعلیٰ معیار یہ ہے کہ کسی طرح ان کے مقام تک پہنچا جائے اور انہیں کی نقل کی جائے۔‘‘ (پرانے چراغ حصہ ۳ ص ۲۹)

تعلیم سے فراغت کے بعد جب آپ میدانِ عمل میں اترے تو آپ کے سامنے اپنا ملک ہی نہیں پورا عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیائے انسانیت تھی۔ آپ کا پختہ عقیدہ اور یقینِ کامل تھا کہ جس طرح ماضی میں اسلام نے دنیا کی رہبری کر کے اسے کامیابی کی راہ دکھائی ہے، اسی طرح آج بھی صرف اسلام اور قرآن ہی سسکتی دم توڑتی انسانیت کے دکھوں کا مداوا بن سکتا ہے۔ صرف وہی موجودہ دور کی گمراہیوں، بحران و انتشار، انارکی و خودفریبی سے دنیا کو نجات دلا سکتا ہے۔ آپ نے عربوں کو اسی خواہش اور آرزو سے اپنا مخاطب بنایا کہ وہ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کا دامن تھام کر اپنے داعی ہونے کی اصل حیثیت اور مقام کو بحال کرا کے دنیا کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لیں۔

چنانچہ آپ نے اپنی تحریر و تصانیف کی ابتداء عربی زبان سے کی۔ ابتدائی عمر ہی میں آپ کے مضامین پر چوٹی کے عرب علماء و دانشور سر دھنتے۔ ۱۸ سال کی عمر میں آپ کا پہلا مضمون مصر کے مشہور معیاری رسالہ المنار میں نامور و ممتاز عالم و صحافی علامہ سید رشید رضا نے اہتمام سے شائع کیا، پھر آپ سے اجازت لے کر اس مضمون کو کتابچہ کی صورت میں الگ سے شائع کیا۔ آپ کا دوسرا مضمون مشہور عربی ترجمان ’’الضیاء‘‘ میں شائع ہوا تو اسے پڑھ کر عالمِ عرب کے عظیم انشا پرداز و ادیب و مفکر شکیب ارسلان نے بڑے بلند الفاظ میں مضمون کی ستائش و تعریف کی۔ ایک ممتاز عرب ادیب و دانشور ڈاکٹر انور الجندی لکھتے ہیں کہ:

’’سید ابو الحسن علی ندوی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے عربوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کی، انہیں بیدار کیا، انہیں اپنے حقیقی منصب اور ذمہ داری سنبھالنے کی دعوت دی، اور انہیں یاد دلایا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سرفرازی اسلام کی بدولت عطا کی ہے اور قرآن نے انہیں دنیا کی قیادت کے لیے تیار کیا ہے۔‘‘

آپ نے بار بار عرب ممالک جا کر ان کے زعماء و مفکرین، علماء و دانشوروں سے مل کر ان کو جھنجھوڑا اور ریڈیو و ٹیلی ویژن کے ذریعے عوام و خواص، دانشوروں، سلاطین و شہزادگان کو بڑی جرأت و بے باکی سے ان کی کمزوریوں، مغربی تہذیب کے تحت آ جانے، سامراجی طرزِ تجدد و ترقی پسندانہ خیالات و نظریات اور رجحانات کے زیر اثر آ جانے پر سخت الفاظ میں تنقید کی۔ ’’اسمعیات‘‘ کے نام سے ہر ملک کو خطاب کیا۔ اسمعی یا مصر، اے مصر سن، اے سیریا سن، اے لالہ صحرا (کویت) سن، اے ایران سن۔ جزیرۃ العرب کا پیغام دنیا کے نام، دنیا کا پیغام جزیرۃ العرب کے نام۔ آپ نے عرب عوام، علماء، دانشوروں، حکمرانوں اور بادشاہوں تک کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہا کہ تمہارا وجود و پہچان صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کا رہینِ منت ہے۔ اگر ان دو چیزوں سے تعلق ختم ہو جاتا ہے تو پھر عربوں کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا۔ غرض آپ نے نصف صدی تک عربوں کو جو پیغام دیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ   ؎

نہیں وجود حدود و ثغور سے اس کا
محمد ﷺ عربی سے ہے عالمِ عربی

نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عربوں کی کوئی حیثیت تھی اور نہ محمدِ عربیؐ سے بے گانہ ہو کر ان کی کوئی حیثیت رہ سکتی ہے۔

عصرِ حاضر کے ممتاز عالم، عظیم دانشور، نامور خطیب و رہنما علامہ یوسف قرضاوی لکھتے ہیں:

’’ہم نے شیخ ابو الحسن علی ندوی کی کتابوں اور رسالوں میں نئی زبان اور جدید روح محسوس کی، ان کی توجہ ایسے مسائل کی جانب ہوئی جن کی جانب ہماری نظر نہیں پہنچ سکی۔ علامہ ابو الحسن علی ندوی پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہمیں الفاظ و موقف کی اہمیت و قیمت سے روشناس کرایا اور ان سے متاثر ہو کر بعد میں دوسرے مصنفین نے لکھنا شروع کیا۔ عربی ادب میں ان کا نام مسلّم ہے۔ بلا مبالغہ اس وقت آپ کی سطح کا مؤرخ و ادیب عرب و عجم میں نایاب ہے۔ آپ کے علمی و فکری مباحث تو تسلیم شدہ ہیں ہی، آپ کی عربی تحریروں کا حال یہ ہے کہ خود عرب علماء و خطباء آپ کی عبارتوں کو رٹتے اور حفظ یاد کرتے ہیں، اور جمعہ کے خطبوں تک میں نقل کرتے ہیں، حتٰی کہ حرمین شریفین کے ائمہ آپ کی عبارتوں کو جمعہ کے خطبات میں نقل کرتے ہیں۔ آپ کی عربی کتابیں عرب ممالک کی یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں میں داخلِ نصاب ہیں۔ آپ کی تصنیفی زبان شروع ہی سے عربی رہی ہے۔ پھر دنیا کی مختلف زبانوں میں آپ کی کتابوں کے بے شمار ایڈیشن چھپے اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔‘‘

بلاشبہ آپ عالمِ عرب میں اس وقت محبوبیت و مقبولیت کے انتہائی عروج پر تھے۔ غرض آپ کو عالمِ عرب میں وہ مقام حاصل ہو گیا جو اس دور میں کسی غیر عربی کو حاصل نہ ہو سکا۔ یہ امتیاز و انفرادیت آپ کو اخلاص و للّٰہیت، بے لوثی و بے نیازی کے ساتھ عرب مسائل و مشکلات سے گہری واقفیت، ان سے دلی ہمدردی اور انہیں بروقت جدید فتنوں اور خطرات سے خبردار کرنے کی بدولت حاصل ہوئی۔ آپ کی جو کتاب اردو میں دس پندرہ ہزار میں چھپتی، وہ عربی میں لاکھوں کی تعداد میں چھپتی رہی۔ عربوں نے آپ کی حمیتِ دینی، غیرتِ اسلامی، ربانیت و روحانیت کی وجہ سے آپ کی بے انتہا قدردانی کی۔ انہوں نے کھلے دل سے آپ کی عظمت کا اعتراف کیا۔ بقول پروفیسر خورشید احمد صاحب کے، عرب دنیا آپ کی فصاحت و بلاغت کا لوہا مانتی ہے۔ غرض آپ کو عربوں میں ایسی مقبولیت اور ہر دل عزیزی حاصل تھی کہ جب کسی پڑھے لکھے عرب کی کسی ہندی مسلمان سے ملاقات ہوتی تو بسا اوقات اس کا پہلا سوال یہ ہوتا کہ ابو الحسن علی ندوی کیسے ہیں؟

تاریخ و تذکرہ آپ کے مطالعہ کا خصوصی موضوع رہا۔ آپ نے اسلامی تاریخ اور اکابرینِ اسلام کے احوال و سوانح پر اس قدر لکھا کہ اس دور میں پورے عالمِ اسلام میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آپ کی تحریروں میں تاریخ و ادب ایک دوسرے سے ہم آغوش نظر آتے ہیں۔ آپ کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ دینی علمی موضوعات پر بھی نہایت دلکش اور افسانوی انداز میں خامہ فرسائی کی جا سکتی ہے اور دینی تحریروں میں بھی ادبی دلچسپی رکھ سکتی ہیں۔ آپ کے اسلوبِ بیان میں علم و فکر، سنجیدگی و متانت، اعتماد و ٹھہراؤ تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی شعلہ کی سی لپک اور طوفان کا سا دبدبہ بھی محسوس ہوتا ہے۔ آپ کی تحریر سے ولولہ و ابتہاج کی لہریں دوڑ جاتی ہیں۔ آپ کے اسلوب نثر کی کشش انگیز توانائی خود آپ کی شخصیت کی مرہونِ منت ہے۔ آپ کی شخصیت بڑی متنوع اور ہمہ گیر ہے جس نے اپنے اندر گلشنِ دین و ادب کے بہت سارے پھولوں کا عطر کشید کر لیا ہے۔ آپ کی تحریروں اور اسلوب میں آپ کی شخصیت کی طرح مدرسہ و خانقاہ کی طمانیت و سکون بھی ہے، علمو ادب کی جاذبیت و حسن بھی، ساتھ ہی ساتھ تحریک و اجتماعیت کی حرارت و سرگرمی بھی ہے۔ یہی جامعیت آپ کی شخصیت کا خاص امتیاز ہے اور آپ کی تحریر کا بھی۔

آپ نے تاریخ و تذکرہ کو اپنے مطالعہ اور انشاء کا موضوع بنایا تاکہ نئی نسل اسلاف کے کارناموں سے روشنی و حرارت حاصل کر کے دعوت و عزیمت پر سرگرمِ عمل ہو جانے کا حوصلہ حاصل کرے۔ آپ کے طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے یہاں بے جا جوش کہیں نہیں ملتا جبکہ زور ہر جگہ نظر آتا ہے۔ یہ زورِ بیاں درحقیقت آپ کے فکر و نظر کی دین ہے۔ آپ صاحبِ نظر بھی تھے اور صاحبِ دل بھی، جب فکر کے ساتھ ذکر بھی ہو تو کیا کہنا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریروں میں سنجیدہ و حسین انداز میں نہایت گہری باتیں ملتی ہیں۔ ’’از دل خیزد بر دل ریزد‘‘ کی جھلک آپ کی ہر تحریر و تقریر کا خاصہ ہے۔

آپ کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ۱۷۷ ہے۔ بیشتر کتابوں کے ترجمے اردو، فارسی، ترکی، انگریزی اور دیگر زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ جب آپ کی پہلی عربی کتاب ’’ما ذا خسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ منظرِ عام پر آئی تو اس نے عرب دنیا میں ہلچل مچا دی۔ دمشق یونیورسٹی کے کلیہ الشرعیہ کے ممتاز اسکالر و نامور مصنف استاد پروفیسر محمد المبارکؒ نے اسے اس صدی کی بہترین کتاب قرار دیا اور کہا کہ اگر کسی نے یہ کتاب نہیں پڑھی تو اس کا مطالعہ ناقص رہے گا۔ اس کتاب کے متعلق ایسے ہی تاثرات بیشتر عرب زعماء و مفکرین کے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر یوسف موسٰی، استاد محمد قطب شہیدؒ، علامہ الشام شیخ محمد بہجت البیطار، اور اخوان کے مشہور رہنما ڈاکٹر مصطفٰی سباعی، عظیم مفکر و عالم استاد علی طنطاوی وغیرہ وغیرہ۔ پوری عرب دنیا، سعودی عرب، مصر و شام اور فلسطین و عراق کے چوٹی کے زعماء و مفکرین نے اسے اس صدی کی بہترین کتاب قرار دیا۔ اس کتاب نے ۳۵ سال کی عمر میں آپ کی شہرت و ناموری کو عرب دنیا میں گھر گھر پہنچا دیا۔ مشہور و نامور فاضل، لندن یونیورسٹی میں مڈل ایسٹ سیکشن کے چیئرمین ڈاکٹر بکنگھم نے ان الفاظ میں اس کتاب کو خراجِ تحسین پیش کیا کہ

’’اس صدی میں مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ کی جو کوشش بہتر سے بہتر طریقہ پر کی گئی، یہ اس کا نمونہ اور تاریخی دستاویز ہے۔‘‘

مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کا ایک بڑا کارنامہ علامہ اقبال کی شاعری اور فکر سے عربوں کو روشناس کرنا ہے۔ آپ کی منفرد اور وقیع کتاب ‘‘روائع اقبال‘‘ (عربی) اور اس کے اردو ترجمہ ’’نقوشِ اقبال‘‘ کے بغیر سلسلہ اقبالیات کی فہرست مکمل نہیں سمجھی جا سکتی۔ اگرچہ آپ سے پہلے عزام اور عباس محمود نے عالمِ عربی میں اقبال کو متعارف کرنے کی کوشش کی مگر واقعہ یہ ہے کہ دونوں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ روائع اقبال کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ مولانا ندویؒ نے فکرِ اقبال کی بلندی، بلند حوصلگی اور وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل کو اپنی زندگی کا حصہ اور مشن بنا لیا ہے۔ غالباً اسی کے پیشِ نظر جناب ماہر القادری مرحوم نے نقوشِ اقبال پر اپنے ماہنامہ رسالہ فاران میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

’’یہ کتاب اس مجاہدِ عالم کی لکھی ہوئی ہے جو اقبال کے مردِ مومن کا مصداق ہے، اس لیے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ نقوشِ اقبال میں خود اقبال کی فکر و روح اس طرح گھل مل گئی ہے جیسے پھول میں خوشبو اور ستاروں میں روشنی۔ پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے شبلی کا قلم، غزالی کی فکر اور ابن تیمیہؒ کا جوش و اخلاص اس تصنیف میں کارفرما ہے۔‘‘

واقعہ یہ ہے کہ دینی و عصری علوم کے شناور ہونے کے ناطے علامہ ندویؒ کی نگاہِ بصیرت نے علامہ اقبال کی خوبیوں اور کمالات کا صحیح ادراک کیا۔ آپ لکھتے ہیں:

’’میری پسند و توجہ کا مرکز وہ اس لیے ہیں کہ بلند نظری اور محبت و ایمان کے شاعر ہیں۔ ایک عقیدہ، دعوت و پیغام رکھتے ہیں۔ مغرب کی مادی تہذیب کے سب سے بڑے ناقد اور باغی ہیں۔ اسلام کی عظمتِ رفتہ اور مسلمانوں کے اقبالِ گزشتہ کے لیے سب سے زیادہ فکرمند، تنگ نظر قومیت و وطنیت کے سب سے بڑے مخالف، اور انسانیت و اسلامیت کے سب سے بڑے داعی ہیں۔ جو چیز مجھے ان کے فن و کلام کی طرف لے گئی وہ بلند حوصلگی، محبت اور ایمان ہے جس کا حسین امتزاج ان کے شعر و پیغام میں ملتا ہے۔ میں اپنی طبیعت و فطرت میں انہی تینوں کا دخل پاتا ہوں۔ میں ہر اس ادب و پیغام کی طرف بے اختیار بڑھتا ہوں جو بلند حوصلگی اور احیاء اسلام کی دعوت دیتا اور تسخیرِ کائنات اور تعمیر النفس و آفاق کے لیے ابھارتا ہے، جو مہر و وفا کے جذبات کو غذا دیتا اور ایمان و شعور کو بیدار کرتا ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور ان کے پیغام کی آفاقیت و ابدیت پر ایمان لاتا ہے۔‘‘

مارچ ۱۹۹۴ء میں جب یہ ناچیز رائے بریلی حاضر ہوا تو عشاء کی نماز کے بعد آدھی رات تک اقبالیات پر گفتگو فرماتے رہے اور برجستہ اردو فارسی کلام سناتے رہے۔ اندازہ ہوا کہ حضرت مولانا کو اقبال کا تقریباً سارا کلام ازبر ہے۔ مجھے اقبال کی مشہور نظم جس کا پہلا شعر

کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی
سماتی کہاں اس فقیری میں میری

سنا کر نوٹ کروائی، اور فرمایا آپ مغرب میں رہتے ہیں اس پر خوب غور و خوض کیجئے، اقبال نے اس میں پورے مغربی فکر و فلسفہ کو سمو دیا ہے۔

آپ اپنی علمی و فکری اور تصنیفی مشغولیت کے باوصف بھارتی مسلمانوں کی سیاسی و ملی خدمات سے کبھی غافل نہیں ہوئے، خاص طور پر آخری بیس سالوں میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پلیٹ فارم سے بھارتی مسلمانوں کی مؤثر قیادت اور خدمات انجام دیں۔ آپ کو اپنے ہر دلعزیز اوصاف کی بنا پر تمام مکاتبِ فکر کا بھرپور اعتماد حاصل رہا۔ شاہ بانو کیس کی گتھی سلجھانے میں آپ کی رہنمائی نے اہم کردار ادا کیا۔ گزشتہ دنوں جب یوپی حکومت نے اسکولوں میں سرسوتی پوجا کا گیت لازمی قرار دے دیا تو آپ کے ایک جرأتمندانہ بیان نے ملک کے حالات بدل دیے اور حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ آپ صحیح معنی میں ایک ایسا روشن چراغ تھے جس کی لو سے ظلم و طغیان کے ایوانوں میں ہلچل ہی نہیں قیامت برپا ہو جاتی تھی۔

۱۹۸۰ء میں دیوبند کا صد سالہ اجلاس منعقد ہوا، اجلاس کیا تھا انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ اس اجلاس میں سب سے زیاہد برمحل، مؤثر، طاقتور اور مجاہدانہ تقریر، جو بھارتی مسلمانوں کی ترجمان کہی جا سکتی ہے، آپ ہی کی تھی۔ آپ کی یہ تقریر اس اجلاس کی جان اور پیغام سمجھی گئی، آپ نے بھارتی مسلمانوں اور حکومت کو مخاطب کر کے فرمایا:

’’ہم صاف اعلان کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ بھی اعلان کریں کہ ہم ایسے جانوروں کی زندگی گزارنے پر ہرگز راضی نہیں جن کو صرف راتب اور تحفظ (سکیورٹی) چاہیے کہ کوئی ان کو نہ مارے۔ ہم ہزار بار ایسی زندگی گزارنے اور ایسی حیثیت قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ہم اس سرزمین پر اپنی اذانوں، نمازوں کے ساتھ رہیں گے بلکہ تراویح، اشراق، تہجد تک چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ ہم ایک ایک سنت کو سینے سے لگا کر رہیں گے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ طیبہ کے ایک نقطہ سے بھی دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ ہم کسی قومی دھارے سے واقف نہیں، ہم تو صرف اسلامیت کے دھارے کو جانتے ہیں، ہم تو دنیا کی قیادت و امامت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔‘‘

گزشتہ دنوں ۲۸، ۲۹، ۳۰ اکتوبر ۱۹۹۹ء مسلم پرسنل بورڈ کے اجلاس واقع بمبئی میں آپ کی اپنی صدارتی تقریر میں صاف فرمایا:

’’ہم اس کی بالکل اجازت نہیں دے سکتے کہ ہمارے اوپر کوئی اور نظامِ معاشرت، نظامِ تمدن اور عائلی قانون مسلط کیا جائے۔ ہم اس کو دعوتِ ارتداد سمجھتے ہیں اور ہم اس کا اسی طرح مقابلہ کریں گے جیسے دعوتِ ارتداد کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ یہ ہمارا شہری، جمہوری اور دینی حق ہے۔‘‘

آپ عالمِ اسلام اور خاص طور سے بھارتی مسلمانوں کو اکثر فاتحِ مصر حضرت عمرو بن عاصؓ کا انتباہ و آگہی یاد دلاتے ’’انتم فی رباط دائم‘‘ (تم مسلسل محاذِ جنگ پر ہو) تمہیں ہر وقت چوکنا اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ برصغیر کے طبقہ علماء میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن صاحبؒ کے بعد علامہ ابو الحسن علی ندویؒ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے ملکی حدود سے ماورا ہو کر پوری ملتِ اسلامیہ اور پوری انسانیت کی فکر کی۔

۱۹۸۰ء میں ایک رات پے در پے دو بار سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی جس میں سرور دو عالمؐ نے فرمایا میری حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟ اس وقت آپ نے جنرل ضیاء الحق صاحب کو سرور دو عالمؐ کا پیغام پہنچا کر فرمایا کل قیامت کے روز دربارِ رسالتؐ میں آپ کا دامن ہو گا اور میرے ہاتھ کہ میں نے پیغام پہنچا کر اپنی ذمہ داری ادا کر دی تھی۔ آپ خلیج کی جنگ کے بعد سے سرزمینِ عرب پر امریکی فوجوں کی موجودگی پر سخت پریشان تھے، وفات سے چند ہفتہ پہلے جب یہ ناچیز حاضرِ خدمت ہوا اس وقت فالج کے حملہ کے بعد سے مسلسل نقاہت کے عالم میں تھے۔ کسی صاحب نے پاکستان کے فوجی سربراہ پرویز مشرف صاحب کا اخباری بیان سنا دیا جس میں انہوں نے ترکی کے مصطفٰی کمال اتاترک کو اپنا آئیڈیل و ہیرو بتا کر ان کے نقشِ قدم پر چلنے کا عندیہ ظاہر کیا تھا۔ اس پر آپ تڑپ اٹھے اور فرمایا:

’’اس صدی میں اسلام کو سب سے زیادہ نقصان جس شخص نے پہنچایا وہ اتاترک ہیں۔ کاش کوئی میری کتاب ’’اسلام و مغربیت کی کشمکش‘‘ کا انگریزی ایڈیشن ان تک پہنچا دے (جس میں اتاترک کے متعلق تفصیلی معلومات ہیں)‘‘۔

اس پر میں نے عرض کیا، پرسوں میرا پاکستان کا سفر ہے، ان شاء اللہ کتاب پہنچ جائے گی۔ اس پر خوش ہو کر فرمایا، میں صبح سے دعا کر رہا تھا اے اللہ! میرے اس کام کے انجام دینے کے لیے کسی شخص کو بھیج دے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیج دیا۔ اور فرمایا، ان شاء اللہ یہ کام آخرت میں آپ کی نجات کے لیے کافی ہو گا۔  اس کام کی انجام دہی کی اطلاع پر انتہائی مسرت اور بلند الفاظ میں گرامی نامہ تحریر فرمایا جو میرے پاس حضرت کا آخری گرامی نامہ ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ اس دور میں آپ کی ہستی پوری ملتِ اسلامیہ کے لیے ایک سایہ دار شجر اور اس شعر کی صحیح مصداق تھی ؎

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

جب بھی آپ نے ضرورت محسوس کی، نہ صرف بھارت کے حکمرانوں بلکہ عالمِ عرب اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کو کلمۂ حق جرأت کے ساتھ کہا۔ یہ اس دور میں صرف آپ کا امتیاز تھا، ورنہ اس زمانہ کے طبقۂ علماء و مشائخ میں یہ چیز ناپید ہو چکی ہے۔

علامہ ندویؒ کا سب سے نمایاں وصف آپ کا فکری کام ہے۔ آپ کی تحریروں میں مغرب کے گمراہ کن الحادی فکر و فلسفہ کا مسکت جواب اور مدلل رد موجود ہے۔ اس وقت دنیا اور خاص طور پر ملتِ اسلامیہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ اقوامِ عالم اور پوری انسانیت بدقسمتی سے مغرب کے ان افکار و نظریات کی اسیر بن چکی ہے۔ جس نے علم و فکر، تہذیب و تمدن اور ترقی و خوشحالی کے نام پر پوری انسانیت کو وحئ آسمانی سے ہٹا کر خواہشِ نفسانی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ برصغیر کے طبقۂ علماء میں جس چیز نے آپ کی شخصیت کو ممتاز کیا، وہ آپ کا یہی کارنامہ ہے۔ مغربی فکر و فلسفہ اور افکار و نظریات کے غلبہ نے عالمِ اسلام کے لیے بے شمار مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ اور جب تک مغرب کا فکری غلبہ موجود ہے، عالمِ اسلام کبھی سربلندی، عزت اور غلبہ نہیں پا سکتا۔ آپ ندوۃ العلماء کے طلبا کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اس وقت جس طبقہ کے ہاتھ میں زمامِ کار ہے، وہ مغربی تہذیب کو مثالی اور انسانی تجربات کی آخری منزل اور حرفِ آخر سمجھتا ہے۔ وہ اس کو زندگی کی تنظیم کی آخری کوشش سمجھتا ہے اور انسانی مسائل کے حل کا آخری کامیاب تجربہ سمجھتا ہے، اور اس کو اسلام کے نظام کے قائم مقام خیال کرتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسلام کا نظام اپنی ساری افادیت کھو چکا ہے، اب اس کو دوبارہ کارگاہِ حیات میں لانے کی زحمت دینا صحیح نہیں۔

یہ ہے وہ زندہ سوال جو اس وقت ایک شعلہ کی طرح، ایک بھڑکی ہوئی آگ کی طرح تمام اسلامی ممالک میں پھیل چکا ہے۔ اور جس کے اثر سے کوئی طبقہ اور کوئی پڑھا لکھا انسان پورے طور پر محفوظ نہیں ہے۔ یہ ایک سازش چلی آ رہی ہے، فکری طور پر بھی، سیاسی و انتظامی طور پر بھی۔ ہمیں اسی طور پر اس کا مقابلہ کرنا ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ کو مطمئن کرنا اور اسلام پر اس کا یقین واپس لانا، دوبارہ یقین پیدا کرنا ہے کہ اسلام اس زمانہ کا ساتھ دے سکتا ہے، قیادت کر سکتا ہے۔ یہ ہے آج کا اصل فتنہ کہ اسلام اس زمانہ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ آپ کو ثابت کرنا ہو گا کہ اسلام اس زمانہ کو راہ پر لگا سکتا ہے، اس کے لیے آپ کو تیاری کرنی ہے۔۔۔

آج انڈونیشیا، مشرقِ وسطٰی سے مراکش تک امریکہ و یورپ کی سازش سے اسلام پر اعتماد متزلزل کر دیا گیا ہے۔ اسلام پر عمل کرنے کو فرسودگی، رجعت پسندی، فینڈامینٹل ازم سے تعبیر کیا جاتا ہے تاکہ ایک پڑھے لکھے آدمی کو شرم آنے لگے کہ حاشا و کلا وہ فنڈامینٹلسٹ نہیں۔ آپ کو وہ کام کرنا ہے کہ لوگ سینہ تان کر اور آنکھیں ملا کر یہ کہیں کہ ہاں ہم فنڈامینٹلسٹ ہیں، ہمارے نزدیک فنڈا مینٹل ازم ہی دنیا کو بچا سکتا ہے۔ ساری خرابی اور سارا فساد فنڈا مینٹل ازم نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ کوئی اصول نہیں، کوئی معیار نہیں، کوئی حدود نہیں، صرف نفس پرستی ہے، صرف خواہش پرستی ہے، صرف اقتدار پرستی ہے۔ اس لیے آپ کو تیاری کرنی ہے۔‘‘

اس کے بعد آپ مزید وضاحت سے عصرِ حاضر کی سب سے اہم ضرورت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے طلباء سے فرماتے ہیں:

’’اسلام کا مجدد کہلانے کا وہی مستحق ہو گا جو اسلامی شریعت کی برتری ثابت کرے، زندگی سے اس کا پیوند لگائے، اور ثابت کرے کہ اسلامی قانون وضعی قانون اور انسانوں کے تمام خودساختہ قوانین سے آگے ہے۔ زمانہ سے آگے کی چیز ہے، زمانہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اور دنیا نے خواہ کتنی ہی ترقی کی ہو لیکن اسلامی قوانین اس کی رہنمائی کی اب بھی صلاحیت رکھتے ہیں، اس کے تمام سوالات کے جوابات دینے اور انسانی زندگی کے پیدا ہونے والے مسائل کا حل ان کے اندر موجود ہے، اس میں ایک بالغ معاشرہ کی تنظیم کی بہترین صلاحیت ہے۔‘‘

مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی شخصیت کوئی معمولی شخصیت نہیں تھی۔ ایسی شخصیتیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں اور ملت بلکہ پوری انسانیت کے لیے رحمت ثابت ہوتی ہیں۔ علی میاںؒ ایک فرد اور ایک ذات کا نام نہیں، ایک مشن، ایک تحریک اور ایک دعوت اور ایک انقلاب کا نام ہے۔ آپ کے انتقال سے علم و حکمت کا آفتاب غروب ہو گیا، وہ آفتاب جس کی روشنی سے عرب و عجم مستفید ہو رہے تھے۔ آپ ایک عظیم مفکر، مؤرخ، عالمِ دین، عربی زبان و ادب کے ماہر، اعلیٰ درجہ کے انشا پرداز، سوانح نگار تھے۔ مغرب کی جدید تہذیب و تمدن اور اس کے گمراہ کن افکار و نظریات پر گہری اور بسیط نظر رکھتے تھے۔ برصغیر کے واحد عالمِ دین تھے جن تحریروں میں مغربی فلسفہ و فکر کا رد، اس کے زہر کا تریاق بکثرت موجود ہے۔ مغرب کے برپا کیے ہوئے فساد اور گمراہ کن نظریات کے خلاف آپ کا بے باک، مدلل اور مؤثر قلم جراحت و مرہم دونوں کا کام کرتا تھا۔

عالمی مسائل و امور پر آپ کی نظر گہری اور عمیق، اور ملت کے اجتماعی مسائل سے دلی تعلق تھا۔ ملکی و عالمی، سیاسی و سماجی حالات و مسائل سے آپ کو وسیع و عمیق واقفیت تھی۔ علمی و فکری ہر موضوع پر آپ نے قلم اٹھایا۔ اور جس موضوع پر آپ نے جو لکھا وہ اس فن کے لیے اتھارٹی مانا گیا۔

برصغیر کے اس صدی کے اکابر علماء و اہل اللہ جیسے حضرت مولانا محمد الیاسؒ، مولانا احمد علی لاہوریؒ، مولانا حسین احمد مدنیؒ، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ، و دیگر علماء و اہل اللہ کے آپ ہمیشہ محبوب و منظورِ نظر رہے۔ آپ کے شیخ حضرت شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کا مقولہ مشہور ہے کہ اگر خدا نے پوچھا کہ دنیا سے کیا لایا تو ’’علی میاں‘‘ کو پیش کر دوں گا۔ آپ کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ برصغیر کے اس صدی کے بیشتر اکابر علماء اور اہل اللہ کا تعارف آپ کے قلم سے ہوا۔

اس کے ساتھ ہی ’’تاریخِ دعوت و عزیمت‘‘ کی سات جلدیں لکھ کر اسلام کے چودہ سو سالہ مشاہیر اور اکابرینِ امت کا تذکرہ ایسے مؤثر، دلکش اور تعمیری انداز میں لکھا جس سے نئی نسل بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ آپ کی شخصیت جس طرح علماء و مدارس، صوفیاء کرام اور خانقاہوں میں مسلّم تھی، اسی طرح عصری طبقات، عصری تعلیم گاہوں، علی گڑھ، قاہرہ، مکہ، جنیوا، لندن اور نیویارک میں بھی مقبولیت رکھتی تھی۔ دنیا بھر کے علماء و زعماء، مفکرین و دانشور حتٰی کہ حکمران آپ کو عقیدت و عظمت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اپنے اخلاقِ عالیہ کی بدولت آپ ہر طبقہ میں مقبولیت رکھتے تھے۔

ندوۃ العلماء (لکھنؤ) کے ناظمِ اعلیٰ ہونے کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ شورٰی کے رکن، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر، آل انڈیا ملی کونسل کے سرپرست، رابطہ ادبِ اسلامی (مکہ مکرمہ) کے سربراہ، مدینہ یونیورسٹی کی مجلسِ مشاورت کے رکن، آکسفرڈ یونیورسٹی کے اسلامی سنٹر کے سربراہ، جامعہ الہدٰی (نوٹنگھم)، کے سرپرست، دعوتِ اسلامی کی عالمی مجلسِ اعلیٰ (قاہرہ) کے ممبر، دارالمصنفین و شبلی اکیڈمی (اعظم گڑھ) کے صدر، عالمی یونیورسٹیوں کی انجمن واقع رباط (مراکش)، کے ممبر، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) کی ایڈوائزری کونسل کے ممبر۔ قاہرہ، دمشق اور اردن کی عربی اکیڈمی کے ممبر۔ اس کے علاوہ سینکڑوں علمی و دینی اداروں اور تنظیموں کے سرپرست تھے۔

آپ برصغیر کی واحد شخصیت تھے جنہیں دو بار خانہ کعبہ کی کنجی حوالے کی گئی۔ اسی طرح شاہ فیصل ایوارڈ، دبئی (امارات) کا عالمی شخصیت ایوارڈ، اور سلطان برونائی ایوارڈ سے نوازے گئے۔ آپ کے زہد اور دنیا سے بے نیازی کا یہ عالم کہ ان ایوارڈز کے کروڑوں روپیوں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا بلکہ اسی وقت ساری رقم افغان مجاہدین، مساجد و مدارس اور دینی و تعلیمی اداروں میں تقسیم فرما دی۔

۱۹۹۶ء میں حکومتِ ترکیہ نے آپ کے اعزاز میں اور آپ کی شخصیت اور علمی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد کی جس میں دنیا بھر کے علماء کرام، دانشوروں اور چوٹی کے اسکالروں نے آپ کی علمی فکری و دینی خدمات پر مقالے پڑھے۔ دنیا بھر کی بیشتر دینی تحریکیں اور عالمی اسلامی تنظیمیں آپ کو اپنا سرپرست و مربی سمجھتی ہیں اور آپ کے قیمتی مشوروں اور رہنمائی کی طالب رہتی ہیں۔ جیسے برصغیر کی مشہور تبلیغی جماعت، عرب دنیا کی سب سے بڑی دینی تحریک اخوان المسلمین، انڈونیشیا کی ماشوی پارٹی اور جماعتِ اسلامی وغیرہ وغیرہ۔ دیوبند کے علاوہ دیگر تمام مکاتبِ فکر کے علماء مشاہیر بھی آپ سے محبت و عقیدت کا تعلق رکھتے تھے۔

۲۸ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس واقع بمبئی میں جب آپ نے اپنی علالت کے سبب استعفا پیش فرمایا تو اس ناچیز نے دیکھا کہ پورے اجلاس پر سناٹا چھا گیا اور کوئی بھی اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھا۔ سب سے پہلے ملی کونسل کے سربراہ مولانا مجاہد الاسلام قاسمی نے کہا، جب کشتی طوفان اور منجدھار میں ہوتی ہے تو ملاح نہیں بدلا جاتا۔ شیعہ رہنما علماء کلب صادق نے کہا پرسنل لاء بورڈ کی صدارت حضرت مولانا کے لیے کوئی وجۂ عزت و افتخار نہیں بلکہ بورڈ کے لیے یہ اعزاز و فخر کی بات ہے کہ حضرت مولانا اس کے صدر ہیں۔ جماعتِ اسلامی کے امیر مولانا سراج الحسن صاحب نے کہا آج یہاں پورے ہندوستان کے مختلف مکاتبِ فکر کے رہنما موجود ہیں، اگر پوری دنیائے اسلام سعودی عرب، ترکی، پاکستان، انڈونیشیا، سوڈان وغیرہ وغیرہ کے زعماء و رہنما یہاں ہوتے تب بھی صدارت کے لیے سب کی زبان پر ایک ہی نام ہوتا اور وہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی کا ہوتا۔ اس کے بعد تمام مکاتبِ فکر کے رہنماؤں نے بیک زبان کہا، حضرت مولانا ہی بورڈ کے تاحیات صدر ہیں۔

اسی طرح بھارت کی تمام سیاسی پارٹیاں آپ کا احترام کرتیں، بھارت کے وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ آپ کے در دولت پر حاضری دیتے، بھارت کی حکومت نے دو بار آپ کو بھارت کا سب سے بڑا قومی ایوارڈ پرم بھوش اور بھرت رتن دینا چاہا مگر آپ نے قبول کرنے سے سختی سے انکار کیا۔

مسلم پرسنل لاء کی جدوجہد کے دوران شاہ بانو کیس کے موقع پر بھارتی حکومت نے اسلامی پرسنل لاء میں تبدیلی کرنے کا ذہن بنا لیا تھا۔ جب ایک نازک موقع پر مسلم وفد سے گفتگو کے دوران بھارتی پرائم منسٹر راجیو گاندھی نے اس دلیل کے ساتھ مسلم پرسنل لاء میں ترمیم کا ارادہ ظاہر کیا کہ متعدد عرب ممالک نے اسلامی پرسنل لاء میں ترمیم کی ہے، تو آپ نے فرمایا الحمد للہ ہم بھارتی مسلمان اسلام کے متعلق خودکفیل ہیں، کسی عرب ملک کے محتاج نہیں۔ جب راجیو صاحب نے اس مسئلہ میں جامع ازہر (مصر) کے علماء سے رجوع کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تو حضرت مولانا نے فرمایا الحمد للہ یہاں ایسے علماء موجود ہیں کہ اگر ان کا نام جامع ازہر میں لیا جائے تو احترام میں ازہر کے چوٹی کے علماء کی گردنیں جھک جائیں۔ آپ نے مزید فرمایا بارہا ایسا ہوا ہے کہ دنیا بھر کے مسلم علماء کی سب سے بڑی تنظیم رابطہ عالمِ اسلامی (مکہ مکرمہ) میں پوری دنیا کے مسلم اسکالرز کی رائے ایک جانب اور آپ کے ملک کے ایک اسکالر کی دوسری جانب ہوتی تب آپ کے ملک کے اسی ایک شخص کی رائے پر فیصلہ کیا گیا اور ساری دنیا کے اسلامی اسکالرز نے آپ کے ملک کے اسکالر کی رائے کے سامنے سر جھکا دیا۔ یہ سن کر راجیو صاحب خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد جب انہیں پتہ چلا کہ وہ شخصیت انہیں کے حلقہ انتخاب (رائے بریلی) کی ہے تو انہوں نے اس پر کئی بار فخر کا اظہار کیا۔

حضرت مولانا کی گفتگو کے بعد راجیو صاحب نے اسلامی شریعت کی روشنی میں (مطلقہ کے نفقہ کے) مسئلہ کو معلوم کرنا چاہا، جب انہیں تشفی بخش جواب ملا تو انہوں نے بھارتی پارلیمنٹ میں اس مسئلہ پر بحث کے دوران کہا کہ میں نے امریکہ و یورپ سمیت دنیا بھر کے قوانین کا مطالعہ کیا ہے مگر ۱۴ سو سال پہلے قرآن اور اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ہیں وہ اب تک دنیا کا کوئی قانون نہیں دے پایا۔ بالآخر انہوں نے کانگریس کے ممبران کے نام حکم (لازمی حکم) جاری کر کے بھارتی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے مطالبہ کے مطابق بل پاس کروایا۔ اس طرح حضرت مولانا کی شخصیت کی بدولت مسلمان پارلیمنٹ میں پرسنل لاء بورڈ کی جنگ جیت گئے، غرض اس دور میں ایسی مقبولیت اور محبوبیت کی کوئی دوسرا نظیر نہیں ہیں۔

آپ کے سانحۂ ارتحال پر پوری ملتِ اسلامیہ نے جس طرح رنج و غم کا اظہار کیا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ دنیا بھر کے اخبارات و رسائل و مجلدات کے اداریوں، اور جو مضامین و مقالات آپ کی شخصیت پر چھپ چکے ہیں، اگر صرف انہیں یکجا کیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہو سکتی ہیں۔ آپ کی زندگی، تالیفات اور علمی کاموں پر سیمیناروں، یادگاری جلسوں کا لامنتہی سلسلہ برابر جاری ہے۔ عربی اردو میں آپ کی متعدد سوانح آ چکی ہیں۔ دنیا بھر کی بیالیس یونیورسٹیوں میں آپ کی شخصیت اور آپ کے کام پر پی ایچ ڈی ہوا ہے۔ یہ آپ کی عند اللہ مقبولیت کی علامت ہے کہ جمعہ کی نماز سے پہلے انتقال فرمایا۔ اسی رائے رائے بریلی کے چھوٹے سے قصبہ میں تدفین عمل میں آئی مگر ڈیڑھ دو لاکھ افراد پروانہ وار پہنچ گئے۔ حرمین شریفین میں ۲۷ رمضان المبارک کو شبِ قدر میں، جبکہ حرم اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ بھرا ہوتا ہے، غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ اسی طرح جدہ، ریاض اور سعودی عرب کے دیگر شہروں، جامع ازہر (مصر)، استنبول (ترکی)، بغداد، کویت، متحدہ امارات، یورپ و امریکہ غرض دنیا کے کونے کونے میں کروڑوں مسلمانوں نے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ ریڈیو اور ٹی وی پر وفات کی خبر نشر ہوتے ہی برصغیر اور عالمِ اسلام میں غم کے بادل چھا گئے۔ یہ سب آپ کی عند اللہ مقبولیت کی علامت ہے ورنہ محض کسی مفکر اسکالر انشا پرداز کسی تحریک کے لیڈر کے لیے ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ یہاں لندن سے شائع ہونے والے عربی روزناموں الحیاۃ اور الشرق الاوسط میں آپ کی شخصیت پر اس قدر لکھا گیا کہ شاید ہی کبھی کسی شخصیت پر لکھا گیا ہو۔ سعودی عرب کی مجلسِ شورٰی کے رکن ڈاکٹر احمد عثمانی تویجری نے لندن کے معروف روزنامہ الشرق الاوسط سے گفتگو کرتے ہوئے کہ:

’’علامہ ابو الحسن علی ندویؒ دعوت و اصلاح کے اماموں میں سے ایک امام تھے، ان کے اندر بیک وقت زہد و ورع، جہاد و سرمستی اور فکر و ادب کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا۔‘‘

علامہ ابو الحسن علی ندویؒ گوناگوں تصنیفی، علمی و فکری، ملی و سیاسی مشاغل کے باوصف عصرِ حاضر کے مفکرین و رہنماؤں کی طرح کبھی اپنی باطنی اصلاح سے غافل نہیں ہوئے۔ آپ کی شخصیت تصوف و روحانیت میں بھی مسلّم تھی۔ آپ حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری کے خلیفۂ اجل تھے۔ دنیا بھر کے ہزارہا افراد آپ سے بیعت اور روحانی تربیت کا تعلق رکھتے تھے۔ آپ اس دور میں ؏

در کفے جام شریعت در کفے سندانِ عشق 

کا کامل نمونہ تھے۔ آپ کی وفات بھی زندگی کی طرح قابلِ رشک طریقہ پر ہوئی۔ رمضان المبارک کا مہینہ، جمعہ کا دن، عجلت کے ساتھ غسل کر کے نیا لباس پہن کر جمعہ کی تیاری فرمائی اور حسبِ معمول سورہ کہف پڑھنے لگے۔ درمیان میں ہی سورہ یاسین کی تلاوت شروع فرما دی اور روح خالقِ حقیقی سے جا ملی۔ آپ کے متعلق حضرت ابوبکر صدیقؓ کا وہ فقرہ جو انہوں نے سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر فرمایا تھا ’’طاب حیا و میتا‘‘ (زندگی و موت دونوں مبارک) پوری طرح صادق آتا ہے۔ آپ کی وفات عیسوی کیلنڈر کی صدی بلکہ ہزار سالہ تاریخ کے آخری دن، اور تدفین اس صدی اور ہزارویں سال کی آخری رات میں ہونا، یہ معنی خیز اشارہ ہے کہ یہ صدی علامہ ابو الحسن علی ندویؒ کی صدی تھی۔

علامہ ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے علماء کرام اور نئی نسل کے لیے بہت کچھ چھوڑا۔ ۸۰ کے قریب تصانیف، سینکڑوں مقالات و مضامین، لا تعداد تقاریر۔ آپ نے کام کی طلب رکھنے والوں کے لیے کئی راہیں بنائیں اور روشن کیں۔ ان راہوں پر پیش قدمی ضروری ہے۔ علامہ ندویؒ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے۔


شخصیات

(مئی ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter