توہینِ رسالت کی سزا کے قانون میں تبدیلی
شہدائے بالا کوٹ کی آزادی اور نفاذِ اسلام کیلئے قربانیاں

ادارہ

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ توہینِ رسالت کی سزا کے قانون کا طریق کار تبدیل کرنے کی سرکاری تجویز قانون و انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے اور اس طریقِ کار کو اس سے قبل ملک کے قانونی حلقے متفقہ طور پر مسترد کر چکے ہیں۔

جامعہ حنفیہ قادریہ باغبانپورہ میں پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام شہدائے بالاکوٹ کی یاد میں منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قتل کے جرم میں ایک عرصہ تک ہمارے ہاں یہ طریقِ کار رائج تھا کہ قتل کا مقدمہ سیشن کورٹ میں باضابطہ پیش ہونے اور ملزم پر فردِ جرم عائد کرنے سے پہلے درجہ اول کا مجسٹریٹ اس کیس کی چھان بین کرتا تھا اور اس کی طرف سے توثیق کے بعد وہ مقدمہ سیشن کورٹ میں پیش ہونے کے قابل سمجھا جاتا تھا۔ مگر ۱۹۷۲ء کی قانونی اصلاحات میں اس طریق کار کو قانون پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا گیا۔ جبکہ حکومت اسی طریق کار کو توہینِ رسالت کی سزا کے قانون میں اختیار کر کے ایف آئی آر کے اندراج کو ڈپٹی کمشنر کی منظوری کے ساتھ مشروط کر رہی ہے جو ۱۹۷۲ء کی قانونی اصلاحات کی رو سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ موت کی سزا صرف توہینِ رسالت کے جرم میں نہیں بلکہ قتل، ڈکیتی، منشیات فروشی اور دیگر کئی جرائم میں بھی موت کی سزا موجود ہے، اس لیے ان میں سے صرف توہینِ رسالت کی سزا کے قانون کا طریقِ کار تبدیل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بین الاقوامی دباؤ اور این جی اوز کے موقف کو قبول کرتے ہوئے اس شرعی قانون کو غیر مؤثر بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب توہینِ رسالت پر سزا کے قانون کو انسانی حقوق کے منافی قرار دے کر اس کی تبدیلی کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو فطری طور پر یہ سوال ذہنوں پر ابھرتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے سچے پیغمبروں کی توہین کرنا بھی انسانی حقوق میں شامل ہو گیا ہے؟ اس لیے مغربی قوتوں اور ناجائز دباؤ ڈالنے والی لابیوں سے ہمارا سوال ہے کہ انہوں نے توہین اور گستاخی کو کب سے انسانی حقوق کی فہرست میں شامل کر لیا ہے؟

مولانا زاہد الراشدی نے اس موقع پر شہدائے بالاکوٹ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ امیر المومنین سید احمد شہیدؒ، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اور ان کے قافلہ نے نہ صرف برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا بلکہ پشاور کے صوبہ میں اقتدار حاصل ہونے پر مکمل اسلامی نظام نافذ کر کے بتا دیا کہ مجاہدینِ آزادی کی جدوجہد اور قربانیوں کا اصل مقصد اس خطہ میں خلافتِ اسلامیہ کا احیا اور اسلامی نظام کا عملی نفاذ ہے۔ اس لیے جب تک پاکستان میں مکمل طور پر اسلامی  نظام کا نفاذ عمل میں نہیں آ جاتا اس وقت تک مجاہدینِ آزادی کی جدوجہد کا تسلسل قائم ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ جہادِ آزادی کی نظریاتی تکمیل تک اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں۔

پاکستان شریعت کونسل صوبہ پنجاب کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمان اختر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علماء حق نے ہر دور میں کفر اور باطل کی قوتوں کو للکارتے ہوئے اسلام کی سربلندی اور حق کی بالادستی کے لیے جدوجہد کی ہے اور آج بھی ان کی یہ جدوجہد جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی جدوجہد شہدائے بالاکوٹ کی عظیم تحریکِ آزادی کا ہی تسلسل ہے اور انہوں نے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی جدوجہد کو تکمیل تک پہنچایا، اس لیے علماء حق طالبان کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

حالات و مشاہدات

(مئی ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter