حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کا تاریخی فتوٰی

مولانا محمد طیب کشمیری

آزاد کشمیر کے بزرگ اور مجاہد عالمِ دین امیرِ شریعت حضرت مولانا محمد عبد اللہ کفل گڑھیؒ کے لائق فرزند حضرت مولانا قاضی بشیر احمد صاحب نے حضرت مرحوم کے حالاتِ زندگی اور خدمات کو ’’حیاتِ امیرِ شریعت‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے جس میں ان کی علمی و دینی خدمات اور تحریکِ آزادی میں ان کے مجاہدانہ کردار کو مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ چار سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل یہ مجلد کتاب دائرۃ المعارف کراچی نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت ڈیڑھ سو روپے ہے۔ اس کتاب پر ہمارے فاضل دوست اور جامع مسجد سبیل گورو مندر چوک کراچی کے خطیب مولانا محمد طیب کشمیری فاضل نصرۃ العلوم نے کم و بیش ڈیڑھ سو صفحات کا وقیع مقدمہ تحریر کیا ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ سے حضرت مولانا عبد اللہ کفل گڑھیؒ تک کے مجاہدینِ آزادی کی مسلسل جدوجہد کے تاریخ کے مستند مآخذ کے حوالے سے مرحلہ وار تذکرہ پر مشتمل ہے۔ اور اس طرح انہوں نے تحریکِ آزادی میں علماء حق کے کردار کے بارے میں اچھا خاصا مواد یکجا کر دیا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ مقدمہ بجائے خود ایک مستقل کتاب کی حیثیت رکھتا ہے اور اگر اس کی الگ اشاعت کا اہتمام بھی ہو جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ اس مقدمہ کا پہلا حصہ جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے دور سے متعلق ہے، ذیل میں نقل کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)



ہندوستان پر جب انگریزی حکومت نے تغلب کیا تو سب سے پہلے کون تھا جس نے قانونِ اسلام کی پیروی کرتے ہوئے ہندوستان کو دوبارہ دارالاسلام بنانے کی سعی کی؟ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر کے بعد جب ہندوستان کی حکومت کو گھن لگنا شروع ہوا اور اس میں ابتری پیدا ہوئی تو حضرت شاہ ولی اللہ نے نہ صرف یہ کہ اس کو محسوس کیا بلکہ اپنی تصانیف اور تحریرات کے ذریعے شہنشاہیت کے خلاف آواز بلند کی، اور سیاسی نظام کی اصلاح کے لیے پوری فراستِ ایمانی اور سیاست دانی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کے اسباب و علل پر بڑی دیدہ وری اور جامعیت کے ساتھ بحث کی، اور حکومت، امراء وزراء اور سوسائٹی کے دوسرے طبقات کو مخاطب کر کے ایک پروگرام دیا جس کا متن سید سلیمان ندویؒ کے الفاظ میں یہ ہے:

’’ہندوستان پر اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہوئی کہ عین تنزل اور سقوط کے آغاز میں شاہ ولی اللہؒ کے وجود نے مسلمانوں کی اصلاح کی دعوت کا ایک نیا نظام مرتب کر دیا تھا۔‘‘ (مولانا سندھیؒ کے افکار و خیالات پر ایک نظر ۔ ص ۹)

اس متن کی شرح مولانا موصوف ہی سے سننے کے لائق ہے:

’’دلی میں اسلامی حکومت کا آفتاب غروب ہو رہا تھا تو اسی کے مطلع سے ایک اور آفتاب طلوع ہو رہا تھا۔ یہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا خاندان تھا۔ سچ یہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ کی پیشین گوئی کے مطابق اس کے بعد جس کو ملا، اسی دروازہ سے ملا۔ ہندوستان میں ردِ بدعات کا ولولہ، ترجمۂ قرآن پاک کا ذوق، صحاحِ ستہ کا درس، شاہ اسماعیلؒ اور مولانا سید احمد بریلویؒ کا جذبۂ جہاد، فرقِ باطلہ کی تردید کا شوق، دیوبند کی تحریک، ان میں سے کون سی چیز ہے جس کا سررشتہ اس مرکز سے وابستہ نہیں!‘‘ (حیاتِ شبلی ص ۲۹۸)

پھر آپ کے بعد حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے زمانہ میں دہلی کے حالات اور زیادہ بگڑے اور ’’حکومتِ شاہ عالم از دہلی تا پالم‘‘ کی مثل صادق آنے لگی۔ انگریزوں کا اقتدار اور ان کا ظلم و ستم اور اس کے بالمقابل لال قلعہ کے بادشاہ کی طاقت و قوت کا اضمحلال روز افزوں ہو گیا۔

اس صورتحال کے پیشِ نظر انگریز حکمرانوں کے خلاف سب سے پہلے جس شخص نے آواز بلند کی وہ شاہ عبد العزیزؒ تھے۔ جنہوں نے مسلمانوں کو ابھارا، ان کے جبن اور بزدلی کو دور کیا، ان کے اندر جذبۂ جہاد پیدا کیا، انہیں حوصلہ دیا، انہیں دلائل و براہین سے مسلح کیا، ان کی لکنت اور تھوتھلے پن کو دور کیا، بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے انہیں ہمت و جرأت سے آگے بڑھنے اور غصب شدہ حقوق حاصل کرنے کی تلقین کی، انہوں نے عوام کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ وہ اگر تیار ہو جائیں تو سارے مصائب کا علاج ممکن ہے۔

پھر حضرت شاہ صاحبؒ نے اسی ترغیب و تاکید اور تبلیغ پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہندوستان کے ’’دارالحرب‘‘ ہونے کا باضابطہ فتوٰی بھی دیا۔ اصل فتوٰی فارسی زبان میں ہے، اختصار کے پیشِ نظر اس وقت اس کے ترجمہ پر اکتفا کیا جاتا ہے، وہ پیشِ خدمت ہے:

’’یہاں رؤسا نصارٰی (عیسائی افسران) کا حکم بلا دغدغہ اور بے دھڑک جاری ہے۔ اور ان کا حکم جاری اور نافذ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک داری، انتظاماتِ رعیت، خراج، باج عشر و مال گزاری، اموالِ تجارت، ڈاکوؤں اور چوروں کے انتظامات، مقدمات کا تصفیہ، جرائم کی سزاؤں وغیرہ (یعنی سول، فوج، پولیس، دیوانی اور فوجداری معاملات، کسٹم اور ڈیوٹی وغیرہ) میں یہ لوگ بطور خود حاکم اور مختارِ مطلق ہیں، ہندوستانیوں کو ان کے بارے میں کوئی دخل نہیں۔ بے شک نمازِ جمعہ، عیدین، اذان اور ذبیحہ گاؤ جیسے اسلام کے چند احکام میں وہ رکاوٹ نہیں ڈالتے لیکن جو چیز ان سب کی جڑ اور حریت کی بنیاد ہے (یعنی ضمیر اور رائے کی آزادی اور شہری آزادی) وہ قطعاً بے حقیقت اور پامال ہے۔ چنانچہ بے تکلف مسجدوں کو مسمار کر دیتے ہیں۔ عوام کی شہری آزادی ختم ہو چکی ہے۔ انتہا یہ کہ کوئی مسلمان یا غیر مسلم ان کی اجازت کے بغیر اس شہر یا اس کے اطراف و جوانب میں نہیں آ سکتا۔ عام مسافروں یا تاجروں کو شہر میں آنے جانے کی اجازت دینا بھی ملکی مفاد یا عوام کی شہری آزادی کی بنا پر نہیں بلکہ خود اپنے نفع کی خاطر ہے۔ اس کے بالمقابل خاص خاص ممتاز اور نمایاں حضرات مثلاً شجاع الملک اور ولایتی بیگم ان کی اجازت کے بغیر اس ملک میں داخل نہیں ہو سکتے۔ دہلی سے کلکتہ تک انہی کی عملداری ہے۔ بے شک کچھ دائیں بائیں مثلاً حیدر آباد، لکھنؤ، رام پور میں چونکہ وہاں کے فرمانرواؤں نے اطاعت قبول کر لی ہے، براہِ راست نصارٰی کے احکام جاری نہیں ہوتے (مگر اس سے پورے ملک کے دارالحرب ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا)‘‘۔ (فتاوٰی عزیزی فارسی صفحہ ۱۷  بحوالہ علماء ہند کا شاندار ماضی جلد ۲ صفحہ ۸۰ ۔ و ۱۸۵۷ء کا تاریخی روزنامچہ ص ۱۰)

ایک دوسرے فتوٰی میں بھی حضرت شاہ عبد العزیز صاحبؒ نے مخالفوں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ہندوستان کا دارالحرب ہونا ثابت کیا۔ (فتاوٰی عزیزی فارسی ص ۱۰۵ بحوالہ شاندار ماضی ج ۲ ص ۸۰)

کسی ملک کے ’’دارالحرب‘‘ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اب اس ملک کی باگ ڈور اور اقتدار کافروں کے پاس جا چکا ہے، قانون سازی کے اختیارات کافروں کے پاس ہیں، اسلام اور شعائرِ اسلام کا احترام ختم ہو چکا ہے، مسلمانوں کے بنیادی حقوق کا خاتمہ ہو چکا ہے اور ان کی شہری آزادی سلب کر لی گئی ہے، اس لیے ان حالات میں مسلمانوں پر جہاد فرض ہو چکا ہے اور کافر حکمرانوں کا مقابلہ اور ان سے مقاتلہ اب مسلمانوں پر ضروری ہو گیا ہے۔

چنانچہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جتنی تحریکیں چلیں، معرکے ہوئے، جنگیں ہوئیں اور لڑائیاں لڑی گئیں، ان سب کی بنیاد یہی فتوٰی ہے۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی اس تاریخی فتوے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’شاہ عبد العزیزؒ نے ہندوستان کو ’’دارالحرب‘‘ قرار دے کر غیر ملکی اقتدار کے خلاف سب سے پہلا اور سب سے زیادہ مؤثر قدم اٹھایا۔ اس فتوے کی اہمیت کو وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو ’’دارالحرب‘‘ کے صحیح مفہوم کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیاست پر خاندانِ ولی اللہؒ کے اثرات کا بھی صحیح علم رکھتے ہوں۔ سید احمد شہیدؒ، مولانا اسماعیل شہیدؒ نے اپنے سیاسی فکر میں انگریزی اقتدار کو جو درجہ دیا تھا، اس کی بنیاد یہی فتوٰی تھا۔‘‘ (۱۸۵۷ء کا تاریخی روزنامچہ ص ۱۱)

جس طرح شہنشاہیت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے بانی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے شہنشاہیت کے خلاف ہر طبقہ کے لوگوں کو ابھارنے میں بنیادی کردار ادا کیا، اسی طرح ہندوستان کو دارالحرب قرار دینے والے حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ مجاہدِ اول ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس فتوٰی کے ذریعے مسلمانوں میں جذبۂ جہاد پیدا کرنے کی سعئ بلیغ کی۔ وہاں اسی فتوٰی کے ذریعے مسلمانوں کو غلامی اور محکومی کا جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکنے کی تاکیدِ شدید بھی کی۔

مولانا مفتی نسیم احمد قاسمی مظفر پوری رفیق مجمع الفقہ الاسلامی (الہند) حضرت شاہ عبد العزیز صاحبؒ اور ان کے جاری کردہ فتوٰی کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

’’حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ شیخ الاسلام شاہ ولی اللہؒ کے چشم و چراغ اور ان کے علوم و معارف کے وارث و امین ہیں۔ شاہ ولی اللہؒ ہی  کے زمانہ میں خاندانِ مغلیہ زوال سے دوچار ہونے لگا تھا اور شاہ عبد العزیزؒ کے زمانہ میں خاندانِ مغلیہ کا چراغ ہمیشہ کے لیے بے نور ہو گیا اور ہندوستان کی قسمت اور اس کے تاجِ شاہی کی مالک ایک بدیسی قوم انگریز بن گئی تھی۔ جب انگریز پوری طرح ہندوستان پر قابض ہو گئے تو مفکر اسلام شاہ عبد العزیزؒ تڑپ اٹھے اور بلا خوف لومۃ لائم یہ فتوٰی دیا کہ ہندوستان انگریزوں کے تسلط کی وجہ سے دارالحرب بن گیا اور مختلف دلائل و شواہد سے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کو ثابت فرمایا۔ حضرت شاہ صاحب وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا نہایت مفصل فتوٰی صادر کیا۔

شاہ صاحب نے اپنے اس فتوٰی میں ہندوستان کی شرعی حیثیت کے تعین کے ساتھ ساتھ بہت سارے شکوک و شبہات کا ازالہ بھی کیا ہے اور دارالحرب کی تعریف بیان فرما کر واضح کیا کہ محض بعض احکامِ اسلام مثلاً جمعہ و عیدین، تلاوت اور گاؤ کشی پر پابندی عائدنہ کرنے کی وجہ سے دارالحرب دارالاسلام نہیں بنتا۔ جن لوگوں نے انگریزوں کے دورِ اقتدار میں بھی ہندوستان کو دارالاسلام قرار دیا ہے، ان سب نے اسی سے استدلال کیا ہے کہ بعض احکامِ اسلام مثلاً جمعہ و عیدین ہندوستان میں اس وقت بھی باقی اور جاری تھے، اور جب تک کسی ملک میں اسلام کے بعض احکام بھی جاری رہیں گے وہ ملک دارالحرب نہیں بنے گا۔ شاہ صاحبؒ نے اسے رد کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اقتدار اور ملک کی باگ ڈور غیر مسلموں کے ہاتھ میں ہے اور اس میں اس کے احکام جاری ہوتے ہیں تو وہ ملک دارالحرب قرار پائے گا، چاہے اس میں اسلام کے بعض احکام جاری ہوں۔‘‘ (مجلہ فقہ اسلامی سیمینار نمبر ۲ ص ۴۵۱)

اسی مسئلہ کو مزید وضاحت کے ساتھ حضرت مولانا حبیب الرحمٰن خیرآبادی مفتی دارالعلوم دیوبند مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

’’بہرحال کسی شہر یا ملک کے دارالاسلام یا دارالحرب ہونے کا مدار محض غلبہ و شوکت اور نظامِ احکام پر ہے۔ اگر وہاں مسلمانوں کا غلبہ ہے تو وہ دارالاسلام ہے، اور کفار و مشرکین کا غلبہ ہے تو وہ دارالحرب ہے۔ اگر کسی جگہ مسلمان بھی رہتے ہوں لیکن انہیں اقتدارِ اعلیٰ اور غلبہ و شوکت حاصل نہ ہو تو اسے دارالاسلام نہیں کہتے، ورنہ جرمنی، فرانس، روس اور چین کو بھی دارالاسلام کہا جائے گا۔ اسی طرح جمعہ و عیدین کفار و مشرکین کی اجازت سے ادا کیے جانے پر بھی اسے دارالاسلام نہیں کہیں گے۔ جس طرح دارالاسلام میں ذمی کفار اپنی تمام رسوم آزادی سے ادا کریں تو اسے دارالحرب نہیں کہیں گے۔‘‘ (ایضاً ص ۲۴۷)

اسی موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب مدظلہ صدر مفتی دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں:

’’وہ مملکت جہاں مسلمانوں کو اس قسم کا اقتدار (غلبہ و شوکت) حاصل نہ ہو خواہ مسلمان وہاں ہر طرح امن و اطمینان سے رہتے ہوں، وہاں کے سیاسی اور غیر سیاسی کاموں میں حصہ لیتے ہوں، اس کو اپنا وطن سمجھتے ہوں اور باشندہ ملک کی حیثیت سے اس کی حفاظت و ترقی کو بھی اپنا فرض سمجھتے ہوں، اس کے لیے ایثار و قربانی بھی کر دیتے ہوں، مسلمان کی حیثیت سے یا مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کی بنا پر نہیں بلکہ ایک شہری کی حیثیت سے وہ اقتدارِ اعلیٰ میں حصہ لے سکتے ہوں، مثلاً رئیس جمہوریہ یا وزیراعظم بن سکتے ہوں، مگر احکامِ اسلام جاری نہ کر سکتے ہوں، جرم و سزا اور اقتصادی مسائل، کرنسی اور شرح تبادلہ وغیرہ کے سلسلے میں احکامِ اسلام کو قانون نہ بنا سکتے ہوں، بلکہ ان میں (یعنی ان مسائل وغیرہ میں) اس ملک کے قوانین کے پابند ہوں، تو وہ دارالاسلام نہیں ہے۔‘‘ (نظام الفتاوٰی ص ۱۹۹ ج ۲)

غرضیکہ غیر ملکی اقتدار کے خاتمے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے بنیادی کردار اگر کسی نے ادا  کیا ہے تو وہ خاندانِ ولی اللہ کا کردار ہے جس نے ہندوستان پر غیر ملکیوں کے قابض ہونے اور اس کی اسلامی حیثیت کے ختم ہونے پر سب سے پہلے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتوٰی دے کر مسلمانوں کے اندر غیر ملکیوں، غیر مسلموں، ظالموں اور سفاکوں کے خلاف جذبۂ جہاد پیدا کرنے اور عَلمِ بغاوت بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔


عالم اسلام اور مغرب

(مئی ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter