اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ، اسلامی نظام کے نفاذ، قومی خودمختاری کے تحفظ اور مغرب کی نظریاتی و ثقافتی یلغار کے مقابلہ کے لیے رائے عامہ کو بیدار و منظم کرنے کی غرض سے ’’پاکستان شریعت کونسل‘‘ کے قیام کا اعلان سامنے آیا تو مختلف حلقوں کی طرف سے اس سوال کا اٹھایا جانا ایک فطری امر تھا کہ آخر ان مقاصد کے لیے ایک نئی جماعت کے قیام کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ بعض دوستوں کا خیال ہے کہ پہلے سے موجود بیسیوں جماعتوں میں ایک نئی جماعت کا اضافہ کوئی ضروری امر نہیں تھا اور انہی جماعتوں میں سے کسی کے ساتھ مل کر ان مقاصد کے لیے جدوجہد کی جا سکتی تھی۔
اسی طرح یہ سوال بھی سامنے آیا کہ پاکستان شریعت کونسل کا قیام ان لوگوں کی طرف سے کیا جا رہا ہے جو جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ساتھ وابستہ رہے ہیں اور جمعیۃ کا نام تاریخی اہمیت کا حامل ہے، اس کے ساتھ ایک اچھا ماضی وابستہ ہے اور وہ ایک بڑے حلقے کی عقیدت کا مرکز ہے، اس لیے اس نام کو چھوڑ کر نیا نام اختیار کرنے سے جہاں ماضی سے انحراف کی بو آتی ہے وہاں جمعیۃ کے ہزاروں متعلقین کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی دینی حلقوں میں زیربحث ہے کہ پاکستان شریعت کونسل نے انتخابی سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے تو اس کے پاس سیاسی نظام کی تبدیلی اور اسلام کے نفاذ و غلبہ کے لیے کون سا متبادل پروگرام ہے؟ اور کیا یہ اکابر کے طریق کار سے انحراف نہیں ہے؟
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان سوالات کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لیا جائے تاکہ جو دوست ان سوالات کے حوالہ سے ابھی تک تذبذب کا شکار ہیں انہیں فیصلہ کرنے میں آسانی ہو اور جو حضرات پاکستان شریعت کونسل کے ساتھ تعاون یا عدمِ تعاون کا فیصلہ کرنے کے مرحلے میں ہیں وہ پوری بصیرت اور شرح صدر کے ساتھ کسی نتیجہ تک پہنچ سکیں۔
جہاں تک پاکستان شریعت کونسل کے نام سے ایک نئے فورم کی تشکیل کی ضرورت و اہمیت کا تعلق ہے، اس سوال کا جائزہ لینے کے لیے مذکورہ بالا مقاصد کے حوالہ سے ملک کی عمومی صورتحال پر ایک نظر ڈالنا ہوگی تاکہ ہم یہ فیصلہ کر سکیں کہ اس صورتحال کے عملی تقاضے کیا ہیں؟ اور ملک میں پہلے سے موجود جماعتیں ان تقاضوں کو کہاں تک پورا کر پا رہی ہیں؟ آئیے ذرا ایک نظر دیکھ لیں کہ (۱) نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ (۲) اسلامی نظام کے نفاذ (۳) قومی خودمختاری کے تحفظ (۴) اور مغرب کی نظریاتی و ثقافتی یلغار کے مقابلہ جیسے اہم قومی تقاضوں کے پس منظر میں ملک کا عمومی تناظر کیا ہے۔
- پاکستان کے قیام کو نصف صدی ہونے والی ہے اور گولڈن جوبلی تقریبات کی ہر طرف تیاریاں ہو رہی ہیں۔ لیکن آزادی اور اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں سیاسی، معاشی، عدالتی، انتظامی اور تعلیمی نظام بدستور وہی چلا آرہا ہے جو غیر ملکی آقاؤں نے اپنے نوآبادیاتی مقاصد کے لیے ہم پر مسلط کیا تھا اور اس کے ڈھانچے میں آزادی یا اسلام کے حوالہ سے کوئی تبدیلی عملاً سامنے نہیں آئی۔
- وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سالمیت اور وحدت کے خلاف اندرونی و بیرونی سازشوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن کو تبدیل کرنے کے منصوبے عالمی سطح پر آگے بڑھ رہے ہیں۔
- اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جو چند اقدامات جزوی طور پر اب تک ہوئے ہیں ان کا راستہ بھی روک دیا گیا ہے اور اب پیشرفت کی بجائے اسلامائزیشن کا عمل پسپائی کی طرف گامزن ہے۔ قراردادِ مقاصد نے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت مطلقہ کے عنوان سے پاکستان کی نظریاتی حیثیت کا تعین کیا تھا لیکن عدالتِ عظمیٰ کے ایک فیصلہ کی رو سے قرارداد مقاصد کی بالاتر حیثیت کی نفی کر دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے شریعت بینچ سے دو علماء کو واپس بلا کر اس کا کورم ختم کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ عملاً معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ اقلیتوں کو دوہرے ووٹ کا حق دینے کا فیصلہ کر کے جداگانہ انتخابات کو بے مقصد بنا دیا گیا ہے۔ تعزیرات میں کوڑوں کی سزا ختم کر دی گئی ہے۔ عورتوں کے لیے سزائے موت ختم کرنے کا فیصلہ کر کے قصاص اور رجم سمیت ہر اس قانون کو ادھورا کر دیا گیا ہے جس میں موت کی سزا کا ذکر ہے۔ پارلیمنٹ کے منظور کردہ ایک بل کے ذریعے سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچے کو قرآن و سنت کی بالادستی سے مستثنیٰ قرار دے کر سیکولر ازم کو اسٹیٹ پالیسی کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور توہین رسالت پر موت کی سزا کے قانون کے خلاف مغربی ملکوں کے دباؤ کے جواب میں سرکاری طور پر یہ کہہ کر مغرب کے موقف کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ چونکہ ہمارے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت نہیں ہے اس لیے ہم ان میں ترمیم نہیں کر سکتے۔ عدالتی فیصلوں کی صورت میں خلع کو عورت کا مساوی حقِ طلاق قرار دے کر اور بالغہ لڑکی کو ماں باپ کی مرضی کے خلاف اپنی مرضی سے شادی کرنے کا مطلق حق دے کر اسلام کے خاندانی نظام کی بنیادیں کھوکھلی کی جا رہی ہیں۔ اخبارات، ویڈیو اور ٹی وی عریانی اور فحاشی کے فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکے ہیں اور ثقافت کے نام پر ان کی بھرپور سرکاری سرپرستی کی جا رہی ہے۔
- قومی خودمختاری کی صورتحال یہ ہے کہ ہمارے سیاسی و معاشی معاملات کھلم کھلا امریکہ اور عالمی اداروں کی مداخلت کے سائے میں طے پا رہے ہیں اور قومی معاملات میں جو مداخلت اب تک درپردہ ہوتی تھی اب اعلانیہ ہونے لگی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی بڑی سیاسی پارٹیاں قومی مفادات اور رائے عامہ کے اعتماد کی بجائے اقتدار کے تحفظ یا حصول کے لیے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ حتیٰ کہ امریکہ اور مغربی حکومتیں اور ادارے اب قادیانیت، تحفظِ ناموسِ رسالتؐ اور اسلامی قوانین کے حوالہ سے ہمارے مذہبی معاملات میں بھی کھلم کھلا مداخلت کرنے لگے ہیں اور حالات اس رخ پر آگئے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان عملاً امریکہ کی ایک ایسی غیر اعلان شدہ ریاست کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے جسے واجبات اور پابندیاں تو سب قبول کرنا پڑ رہی ہیں لیکن امریکی ریاست ہونے کے فوائد و ثمرات کا دروازہ اس پر بند ہے۔
- مغرب کی ثقافتی یلغار کا سب سے بڑا ہدف عریانی و فحاشی کا فروغ اور اسلام کے خاندانی نظام کی تباہی ہے اور اس کے لیے عالمی ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ پاکستان ریڈیو اور ٹی وی اور ان کے علاوہ مغربی اور مقامی لابیاں پوری طرح سرگرم عمل ہیں۔
- انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والی بے شمار غیر سرکاری تنظیمیں غیر ملکی سرمائے کے بل بوتے پر اسلامی عقائد و احکام اور روایات و اقدار کے خلاف کام کر رہی ہیں اور ان کی سرگرمیوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
- سنی شیعہ کشمکش نے رفتہ رفتہ سیاسی نوعیت اختیار کر لی ہے اور بیرونی امداد اور پشت پناہی کے باعث بعض خالص شیعہ جماعتیں قومی سیاست میں فعال عنصر کی حیثیت سے متحرک ہوگئی ہیں۔ جبکہ سپاہ صحابہ پاکستان جیسی قربانی پیشہ مذہبی قوت کو اس کی قیادت کی بعض غلطیوں کی آڑ میں بے سہارا کر کے مکمل طور پر ریاستی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو سنی شیعہ کشمکش کے پس منظر میں سنی جدوجہد کے تقاضوں کے خلاف ہے اور دینی حمیت کے بھی منافی ہے۔
- افغانستان میں پندرہ صوبوں پر کنٹرول حاصل کرنے والی طالبان کی انقلابی قوت کو پاکستان کے دینی حلقوں کی طرف سے جو حمایت اور پشت پناہی حاصل ہونی چاہیے اس کا دسواں حصہ بھی موجود نہیں ہے اور ہماری روایتی بے عملی اور بے حسی کے باعث یہ عظیم انقلابی قوت دنیا بھر میں بے سہارا ہو کر رہ گئی ہے۔
- قادیانیت کی تبلیغ اب سیٹلائیٹ چینل کے ذریعے ہر گھر کے بیڈروم میں داخل ہوگئی ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں خالی الذہن مسلمانوں کے قادیانی ہو جانے کی مسلسل خبریں آرہی ہیں، جبکہ قادیانیوں کو اس مہم میں امریکہ سمیت مغربی ملکوں اور اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
- عیسائی مشنری ادارے سماجی خدمت، تعلیم اور دعوت کے ذریعے اپنے مذہب کے فروغ میں مسلسل مصروف ہیں اور بین الاقوامی رپورٹوں کے مطابق ایشیا میں انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کے بعد عیسائی مشنری اداروں کا سب سے بڑا میدان پاکستان ہے۔ مذہبی لٹریچر کی تقسیم اور بائبل کی تعلیم کے بیسیوں خط و کتابت کورسز کے علاوہ مستقل ریڈیو اسٹیشن موجود ہے جو پاکستان میں روزانہ صبح سات بجے سے رات نو بجے تک اردو، انگریزی، پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو اور بلوچی میں تبلیغی پروگرام نشر کر رہا ہے۔
- عیسائی مشنری ادارے اور مذہبی راہنما اپنے مذہب کی دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اسلامی تشخص اور نافذ شدہ اسلامی قوانین کے خلاف بھی مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ چنانچہ جداگانہ انتخابات، توہین رسالت کی سزا کے قانون اور آٹھویں آئینی ترمیم کے حوالہ سے دیگر اسلامی قوانین کے خلاف رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی سب سے منظم تحریک مسیحی پادریوں کی نگرانی میں چل رہی ہے اور ملک کے مختلف حصوں سے شائع ہونے والے متعدد مسیحی جریدے اسلامی قوانین کے خلاف مسلسل زہر اگل رہے ہیں۔
- بین الاقوامی لابیاں اور ان کے زیر اثر ملکی ادارے اسلام، دیندار مسلمانوں، اسلامی تحریکات اور دینی مدارس کی انتہائی مکروہ انداز میں کردارکشی کر رہے ہیں اور بنیاد پرست اور دہشت گردی کا عنوان دے کر پاکستان کے دینی اداروں کے کردار کو ختم کرنے یا غیر مؤثر بنا دینے کی منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔
یہ وہ حالات و حقائق ہیں جن کا ہمیں روزمرہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کی تعداد اور رفتار میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں ہماری مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے کردار کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دین کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کی تمام تر تگ و دو چند سیٹوں کے حصول اور ان کے تحفظ کے لیے وقف ہو کر رہ گئی ہے، اور غیر سیاسی مذہبی تنظیموں کی جدوجہد اپنے فرقہ وارانہ تشخص اور گروہی امتیاز کو اجاگر کرنے کے گرد گھوم کر رہ جاتی ہے۔ جبکہ مذکورہ بالا سنگین مسائل اور خطرات کے لیے ان دینی و سیاسی جماعتوں کے پاس وقتاً فوقتاً ایک آدھ اخباری بیان اور دو چار قراردادوں کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے کسی سنجیدہ محنت کی توقع تو رہی ایک طرف، ان مسائل و خطرات سے واقفیت اور ان کی سنگینی کے ادراک کا بھی کوئی اہتمام نہیں ہے۔ اور اس وقت تو اپنی حالت پر باقاعدہ ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جب کسی دینی یا سیاسی جماعت کے ذمہ دار حضرات سے ان مسائل پر گفتگو ہوتی ہے تو انتہائی قدآور شخصیات تک انتہائی سادگی کے ساتھ یہ کہہ دیتی ہیں کہ ’’اچھا! ملک میں یہ بھی ہو رہا ہے؟‘‘ اگر آپ کو ہماری اس گزارش پر یقین نہ آرہا ہو تو کسی بھی دینی یا سیاسی جماعت کی مذکورہ بالا مسائل کے حوالہ سے گزشتہ ۵ سال کی کارگزاری چیک کر لیں یا کسی ذمہ دار دینی یا سیاسی لیڈر سے ان امور پر گفتگو کر کے دیکھ لیں چودہ طبق روشن ہونے میں چند منٹ سے زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں پاکستان شریعت کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور اس کا بنیادی ہدف یہ قرار پایا ہے کہ (۱) اسلامی نظام کے نفاذ (۲) قومی خودمختاری کے تحفظ (۳) اور مغرب کی نظریاتی و ثقافتی یلغار کے حوالہ سے مسائل کی نشاندہی اور ان سے متعلقہ حضرات کی واقفیت، ذہن سازی اور بریفنگ کا اہتمام کیا جائے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے سنجیدہ حضرات کو منظم کر کے ان مقاصد کے لیے رائے عامہ کو بیدار کرنے کی محنت کی جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ارکان اسمبلی، اسلام دوست افسران، دیندار جج صاحبان، وکلاء، اساتذہ، خطباء، دانشور، صحافی اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے اسلام دوست اور محب وطن افراد کے ساتھ رابطہ کا اہتمام ہو جائے اور انہیں مسائل سے آگاہ کرنے اور اسلامی نقطۂ نظر سے ان کی بریفنگ اور ذہن سازی کی کوئی مربوط اور منظم صورت بنائی جا سکے تو الحاد اور مغربیت کے اس سیلاب کے سامنے آج بھی بند باندھا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کام کے لیے ضروری ہے کہ یہ جدوجہد سیاسی ہونے کے باوجود انتخابی اور گروہی سیاست سے بے نیاز بلکہ بالاتر ہو اور خالصتاً علمی اور نظریاتی بنیاد پر ہو تاکہ تمام طبقات کے ساتھ یکساں رابطہ قائم کیا جا سکے۔
طریق کار کی یہ تبدیلی وقت کی اہم ضرورت اور جدوجہد کا منطقی تقاضا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ طریق کار کو کبھی حتمی حیثیت حاصل نہیں رہی اور وہ ہمیشہ حالات و ضروریات کے تابع رہا ہے۔ تحریک آزادی میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کو بنیادی شخصیت کی حیثیت حاصل ہے، وہ ساری زندگی آزادیٔ ہند کے لیے مسلح تحریکات کی سرپرستی کرتے رہے اور خود بھی ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کے نام سے مسلح انقلابی جدوجہد کے تانے بانے بنے جس کی پاداش میں مالٹا میں انہیں تین سال سے زائد عرصہ نظربند رہنا پڑا۔ لیکن آخر عمر میں خود انہوں نے اس طریق کار کو ترک کر کے اپنا پورا وزن ’’جمعیۃ علماء ہند‘‘ کے پلڑے میں ڈال دیا جس نے ان کے جانشین حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کی قیادت میں آزادی کے لیے عدم تشدد کا راستہ اپنایا اور اسی راستے پر آخر وقت تک چلتے رہے۔ اس لیے طریق کار کوئی حتمی چیز نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب ہمارے بزرگوں نے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے انتخابی سیاست کا راستہ اپنایا اور اس راستے میں متعدد نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ قادیانیت کا مسئلہ حل ہوا، آئین میں اسلامی دفعات شامل ہوئیں اور دیگر متعدد امور میں پیشرفت ہوئی لیکن اس ضمن میں سب لوگوں کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان کامیابیوں کے کچھ اسباب تھے جنہوں نے علماء کی محدود انتخابی قوت کو بڑی سیاسی کامیابیوں کا ذریعہ بنا دیا:
- پہلا سبب یہ تھا کہ منتخب افراد میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ، حضرت مولانا عبد الحقؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور ان کے دیگر رفقاء جیسی متحرک اور مشنری شخصیات تھیں جن کی بات کو ان سے واضح اختلاف رکھنے والے بھی توجہ اور احترام کے ساتھ سنتے تھے۔
- دوسری وجہ یہ تھی کہ سیاسی مفادات سے لاتعلق اور بے نیاز رہنے کے باعث انہیں پورے ایوان پر اخلاقی برتری حاصل تھی۔
- جبکہ تیسری وجہ یہ تھی کہ ان کی پشت پر ملک بھر کی رائے عامہ کی قوت اور اسٹریٹ پاور تھی۔ ہم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے کہ ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور میں نصف کالم کا ایک اعلان چھپتا تھا اور کسی مزید اہتمام کے بغیر ملک کے اکثر بڑے شہروں اور قصبات میں احتجاجی مظاہرے ہو جایا کرتے تھے۔
مجھے معاف رکھا جائے کہ آج ان تینوں میں سے کوئی ایک بات بھی ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ بلکہ جمعیۃ کے دو دھڑوں کی باہمی محاذ آرائی اور سیاست کے معروضی تقاضوں کے پیچھے بھاگتے چلے جانے سے بھرم کی فضا ختم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ہماری انتخابی قوت نہ صرف یہ کہ دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے بلکہ کسی حد تک بے وزن ہو کر رہ گئی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہر لیڈر اور کارکن کی زبان پر ایک بات تسلسل کے ساتھ آرہی ہے کہ انتخابی سیاست کے ذریعے ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ ممکن نہیں رہا۔ اور بہت سی جماعتیں اب انتخابی سیاست کی بجائے انقلابی سیاست کا نعرہ لگانے کی بات سوچ رہی ہیں۔ لیکن یہاں بھی ایک بات عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ انقلابی سیاست سے مراد اگر نظام کی تبدیلی کے لیے مسلح جدوجہد ہے تو موجودہ حالات میں پاکستان میں اس کا کوئی امکان اور گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی فقہائے کرام ان حالات میں اس کی اجازت دیتے ہیں۔ اور اگر انقلابی سیاست کا مطلب رائے عامہ کو منظم کرنا اور عوامی قوت کے ذریعے نظام کی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا ہے تو یہ ایک صحیح اور قابل عمل راستہ ہے لیکن اس کے لیے بھی وہی تین اسباب درکار ہوں گے جن کا ذکر انتخابی سیاست کے حوالہ سے ہم کر چکے ہیں۔ اور اگر ان اسباب کو نظرانداز کر کے محض نعرہ بازی کا شوق پورا کرنے کی کوشش کی گئی تو دیندار عوام اور دینی کارکنوں کی مایوسی میں ایک اور مرحلہ کے اضافے کے سوا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہو سکے گا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان شریعت کونسل نے روایتی لیڈرشپ سے ہٹ کر ان اہل علم و دانش کے ساتھ مشاورت کا راستہ اختیار کیا ہے جو علم و عمل اور دیانت و اخلاق میں امتیاز رکھتے ہیں اور ملک میں نظام کی تبدیلی اور نفاذ اسلام کی دلی خواہش رکھنے کے باوجود حالات کی ناہمواری اور نامساعدت کے ہاتھوں مجبور ہو کر گھروں میں بیٹھے جل کڑھ رہے ہیں۔ ہماری انتہائی کوشش ہے کہ ۱۳ و ۱۴ اگست کو بھوربن مری میں مرکزی مجلس شورٰی کے عنوان سے ممتاز اہل علم و دانش اور سنجیدہ جماعتی راہنماؤں کی ایک منتخب تعداد کو جمع کر کے اپنی تمام تجاویز ان کے سامنے رکھ دیں اور ان کی مشاورت اور راہنمائی کے ساتھ عملی پروگرام کی تفصیلات طے کریں۔
طریق کار کے ساتھ ساتھ نام کا مسئلہ بھی ہمارے بعض دوستوں کے لیے اعتراض کا باعث بنا ہے لیکن یہاں بھی صورتحال وہی ہے۔ مثال کے طور پر حضرت شیخ الہندؒ ہی کا نام لوں گا کہ انہوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز ’’جمعیۃ الانصار‘‘ کے نام سے کیا لیکن آخری خطبہ صدارت ’’جمعیۃ علماء ہند‘‘ کے پلیٹ فارم پر ارشاد فرمایا۔ پھر قیام پاکستان کے بعد جمعیۃ علماء ہند سے وابستہ حضرات نے نام کا تسلسل باقی رکھنے کے لیے ’’جمعیۃ علماء پاکستان‘‘ قائم کی جس میں حضرت مولانا گل بادشاہؒ، حضرت مولانا محمد صادق آف کھڈہ کراچی، حضرت مولانا عبد الحنانؒ، حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ اور حضرت مولانا مفتی ضیاء الحسنؒ آف ساہیوال پیش پیش تھے لیکن وہ اس نام کے ساتھ زیادہ دیر نہ چل سکے اور بالآخر ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ کے پلیٹ فارم کو اختیار کرنا پڑا۔ اور اگر مجلس احرار اسلام کے موجودہ قائدین اس جسارت پر مجھے پیشگی معافی دے دیں تو اس حقیقت کا اظہار بھی شاید بے موقع نہ ہو کہ قیام پاکستان کے بعد مجلس احرار اسلام جیسی عظیم دینی و عوامی قوت کے کچھ دوست مسلم لیگ میں چلے گئے اور بیشتر حضرات جمعیۃ علماء اسلام میں شامل ہوگئے جبکہ کچھ احباب نے مجلس احرار اسلام کے نام کے تسلسل کو باقی رکھنے کی کوشش کی۔ مجھے احرار کے ماضی اور تاریخ کے ساتھ ان دوستوں کی عقیدت و محبت اور ان کے جذبات کا پورا احترام ہے لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قومی سیاست اور دینی جدوجہد میں وہی لوگ زیادہ مؤثر اور فعال ثابت ہوئے جنہوں نے نام پر اصرار کرنے کی بجائے کام کے تقاضوں کو سامنے رکھا۔ اس لیے نام اور طریق کار ہمیشہ حالات کے تابع رہے اور آج بھی انہیں حالات اور کام کی ضروریات کے پس منظر میں ہی دیکھنا ہوگا۔
پھر ہم جمعیۃ علماء اسلام کے پلیٹ فارم اور کام کی نفی نہیں کر رہے بلکہ یہ عرض کر رہے ہیں کہ اگر جمعیۃ کے احباب کو انتخابی سیاست میں کوئی افادیت نظر آرہی ہے تو وہ اسے ضرور اختیار کیے رکھیں اور ہم بھی انہیں مسلسل سپورٹ کرتے رہیں گے، البتہ ایسی صورت میں ہماری مؤدبانہ درخواست ہوگی کہ دونوں دھڑوں کی محاذ آرائی کی صورت میں انتخابی قوت کو ضائع کرنے کی بجائے جتنی کچھ انتخابی قوت ان کے امکان میں باقی رہ گئی ہے اسے بچانے کی کوشش کریں، ہو سکتا ہے کسی دینی جدوجہد میں کام آجائے۔ لیکن ہمیں انتخابی سیاست کے کولہو کے گرد گھومتے رہنے میں اب کوئی افادیت نظر نہیں آرہی اس لیے ہم نے اسے ترک کر کے رائے عامہ کو منظم کرنے اور تحریکی قوت کو بیدار کرنے کے لیے عملی جدوجہد کا فیصلہ کیا ہے اور ملک کے ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے ان دوستوں سے جو ملک میں نظام کی تبدیلی، اسلام کے نفاذ، قومی خودمختاری کے تحفظ اور اسلام کے معاشرتی و خاندانی نظام کو بچانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، ہماری درخواست ہے کہ وہ ہمارے ساتھ آئیں اور اس پروگرام میں شریک ہوں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نیت کا خلوص، عمل کی توفیق اور کامیابی سے ہمکنار فرمائے، آمین یا رب العالمین۔