ورلڈ اسلامک فورم کی چار سالہ کارگزاری

مولانا محمد عیسٰی منصوری

الحمد للہ ورلڈ اسلامک فورم ساڑھے تین سال سے تعلیم و میڈیا کے محاذ پر سرگرمِ عمل ہے۔ دین کے کئی شعبے ایسے ہیں جن میں قابلِ قدر کام ہو رہا ہے جیسے مکاتب، مساجد، جامعات اور دعوت و تبلیغ لیکن بہت سے شعبے ایسے بھی ہیں جن میں یا تو کام مفقود ہے یا بہت کم ہو رہا ہے اور ان میں کام کی اشد ضرورت بھی ہے۔ دراصل فورم کا ٹارگٹ یہی شعبے ہیں۔ ہر دور میں کسی نئے محاذ پر جن پریشانیوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، قدرتی طور پر وہ فورم کا بھی مقدر بنیں۔ بندہ نے کئی بار حالات سے گھبرا کر اس دور کے ایک بزرگ سے دعا کی استدعا کی تو فرمایا ’’اگر آپ کو ان پریشانیوں کا سامنا نہ ہوتا تو ہمیں اس کام کی حقانیت میں شبہ ہوتا۔‘‘

جس طرح عسکری جنگ کے کئی محاذ و پہلو ہوتے ہیں: بری، ہوائی، بحری، جاسوسی، پروپیگنڈہ وغیرہ وغیرہ، کسی ایک محاذ پر غفلت بھی ہزیمت سے دوچار کر سکتی ہے، اسی طرح قوموں کے وجود و بقا کی جنگ کسی ایک محاذ پر نہیں لڑی جاتی، اس کی بے شمار جہتیں اور محاذ ہوتے ہیں، کسی ایک محاذ پر غفلت ہی ساری محنت اور کوششوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔ 

آج دنیا کے حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور دشمن نئے نئے محاذ اسلام کے خلاف کھولتا جا رہا ہے، ایسے دور میں دین کے خدمت گاروں کے لیے جتنا باخبر اور چوکنا رہنے اور دشمن و حالات پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے، وہ اہلِ نظر سے مخفی نہیں۔ مگر وائے افسوس! مسلمان بالخصوص مذہبی طبقہ جس جمود، بے حسی، شخصیت پرستی، گروہ بندی، علاقائی عصبیت کا شکار ہے، اس کے ساتھ عصری تقاضوں کے شعور کا فقدان اور مغربی فکر اور جدید میڈیا کی زہرناکی سے ناواقفیت نے کام کو دشوار تر بنا دیا ہے۔ 

فورم نے گزشتہ ساڑھے تین سال سے خدائے برتر کے بھروسے پر جن شعبوں میں پیش رفت کی ہے اس کی مختصراً‌ رپورٹ حاضر خدمت ہے، لیکن اس سے پہلے ذرا تفصیل سے موجودہ حالات کا جائزہ لیا ہے تاکہ جو لوگ ہمارے رفیق کار بنیں اور دستِ تعاون بڑھائیں، وہ ہم سے اور ہمارے طریقہ کار سے پوری طرح باخبر ہوں۔ اور علیٰ وجہ البصيرۃ دستِ تعاون بڑھائیں، وما توفیقی الا باللہ۔

بہ آں گروہ کہ از ساغر وفا مستند
سلام ما برسانید ہر کجا ہستند

یہ کائنات ازل سے ہی حق و باطل کی رزم گاہ رہی ہے اور تا قیامت حق و باطل یا اسلام و کفر کی معرکہ آرائی رہے گی۔ دنیا میں انسانوں کی حقیقی تقسیم صرف ایک ہے اور وہ تقسیم ہے ایمان اور کفر کی۔ ہر انسان یا مومن ہے یا کافر۔ خالقِ کائنات کے نزدیک بھی، قرآن حکیم اور تمام کتابوں کے نزدیک بھی، اممِ سابقہ میں بھی، آج بھی، قیامت تک انسانوں کی حقیقی تقسیم صرف یہی ہے اور رہے گی۔ اس کے علاوہ انسانوں کی جتنی تقسیمیں ہیں، خواہ وہ نسلی و قومی ہوں، ملکی و علاقائی ہوں یا لسانی، سب غیر حقیقی اور انسانوں کی خود ساختہ ہیں، یا اس قدر اہمیت نہیں رکھتیں۔ 

جس طرح اسلام کا سب سے بڑا مقصد شرک و کفر کو مٹانا ہے، اسی طرح دنیائے کفر کا سب سے بڑا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرتا ہے۔ اس کے لیے کفر اسلام کے خلاف ہر چیز سے سمجھوتہ کر سکتا ہے۔ جس طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہود و نصاریٰ جو ہمیشہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور جانی دشمن رہے ہیں، اسلام دشمنی میں ایک ہو چکے ہیں۔ اسی طرح کفر کی پوری دنیا خواہ وہ ہندو ہو یا بدھسٹ، کمیونزم ہو یا سرمایہ داری، سب کا اسلام کے خلاف اتحاد ہو چکا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ کفر نے (خواہ وہ کسی قسم کا ہو) اسلام کے ساتھ کبھی انصاف نہیں کیا، اس لیے کہ کفر کے معنی ہی ناشکری و بے انصافی کے ہیں اور اسلام کا اولین مطالبہ عدل و انصاف ہی رہا ہے۔

اسلام اور مغرب کا تعارف ہی میدانِ جنگ میں ہوا۔ عیسائیوں نے دورِ نبوت ہی میں رسولِ خدا کے قاصد کو قتل کر کے مسلمانوں سے عداوت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اس کے بعد اسلام کی روز افزوں ترقی و اشاعت ہمیشہ عیسائی دنیا کی آنکھوں میں کھٹکتی رہی۔ جب مسلمان کچھ کمزور پڑے تو صدیوں تک صلیبی جنگوں کے ذریعہ یورپ اسلام کو ختم کرنے کی جدوجہد کرتا رہا۔ جب اسلام نے یورپ کو عسکری میدان میں ناکوں چنے چبوا دیے تو عیسائی دنیا نے ایک نیا محاذ کھول دیا۔ یورپ صدیوں تک اسلام کی صورت بگاڑنے، اسلامی تعلیمات مسخ کرنے، قرآن و سنت کو غلط معنی پہنانے، اور اسلام کو وحشت و بربریت کا مذہب ثابت کرنے میں مشغول رہا۔ اس عملی (علمی) بددیانتی اور قرآن و سنت کی تحریف کرنے میں ہزارہا یورپی مستشرقین نے اپنی زندگی صَرف کر دی جن کی بڑی تعداد مذہبی پادریوں پر مشتمل تھی۔ 

آج بھی مختلف انداز میں یہ کام جاری ہے۔ آج مغرب سمجھ رہا ہے کہ کمیونزم کے زوال کے بعد مغرب کی عالمی بالادستی کی راہ میں اسلام واحد رکاوٹ ہے۔ مغرب کے نزدیک اسلام کو ختم کرنے کا تاریخ میں اس سے بہتر موقع کبھی نہیں آیا تھا، اس لیے مغرب دنیا کی دیگر اقوام کو ساتھ ملا کر اسلام کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔

یوں تو اسلام کو ہر دور میں بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا رہا ہے مگر آج مغربی فکر کا حملہ اسلامی تاریخ کا سب سے شدید تر اور ہمہ گیر حملہ ہے۔ اسلام کی تاریخ میں اتنا نازک وقت اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ دوسری صدی ہجری میں یونانی فلسفہ کی یلغار اسلام کے نظامِ فکر و عقائد پر زبردست حملہ تھی، مگر اس سے متاثر ہونے والے ایک فی صد بھی نہیں تھے۔ چھٹی صدی ہجری میں تاتاریوں کا حملہ بہت بڑی ابتلا و آزمائش تھی مگر اس کی نوعیت محض عسکری تھی اور وہ عالمِ اسلام کے ایک حصہ تک محدود تھا۔ اِس صدی کے شروع میں کمیونزم کا فکری حملہ اسلامی تاریخ کا بدترین حملہ تھا، تاہم اس کی نوعیت صرف اقتصادی تھی، اس میں مذہب کی مخاصمت بعد میں بتدریج داخل ہوئی، وہ دراصل مغرب کے بے لگام سرمایہ دارانہ نظام کا ردعمل تھا۔ مگر آج مغرب کی طرف سے اسلام کو جو چیلنج درپیش ہے وہ ہمہ جہتی ہے۔ یہ علمی و فکری بھی ہے، معاشرتی و تمدنی بھی، اقتصادی و معاشی بھی، اور سیاسی د عسکری بھی۔ اور یہ کسی خطہ تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا کے چپہ چپہ کو محیط ہے۔ روس کی شکست و ریخت کے بعد مغرب نے سمجھ لیا ہے کہ اسلام کو ختم کر کے ہی وہ دنیا پر ہر طرح کی بالا دستی حاصل کر سکتا ہے، اس لیے آج دنیا میں اصل تصادم مغربی فکر اور اسلامی فکر کے درمیان برپا ہے۔

اس وقت اسلام اور مغرب کے درمیاں جو جنگ جاری ہے، وہ اسلحہ کی نہیں بلکہ علمی، فکری اور تہذیبی ہے۔ مغرب اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اگر دنیا کے کسی حصہ میں اسلام کا تجربہ کامیاب ہو گیا تو کمیونزم کی طرح ویسٹرن سولائزیشن بھی ریت کی دیوار کی طرح ڈھے جائے گی۔ اس لیے وہ پیش بندی کے طور پر اسلام کے خلاف اتنا زہر پھیلانا چاہتا ہے اور اتنی نفرت پیدا کرنا چاہتا ہے کہ کوئی شخص اسلام کے قریب نہ آ سکے اور مسلمان خوفزدہ ہو جائیں۔ اس لیے اس نے طے کر لیا ہے کہ دنیا میں کسی جگہ مسلمانوں کو، اسلام کے معاشرتی، تعلیمی، معاشی، سیاسی نظام پر نہیں آنے دے گا۔ اس مقصد کی خاطر اس نے اسلام کے خلاف ’’میڈیا وار‘‘ شروع کر رکھی ہے جس کے ذریعہ وہ اسلام کو درندگی اور خون بہانے والا مذہب، انسانی حقوق کا دشمن، اور علم و ترقی کا مخالف ثابت کر رہا ہے۔ حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ اسلام و ایمان کے معنی ہی سلامتی و امن کے ہیں، اور دنیا میں اس وقت تک صحیح معنی میں امن قائم رہا جب تک اسلام بالادست طاقت رہا۔ 

آج مغرب دورِ نبوت کی جنگوں (غزوات و سرایا) کی انتہائی بھیانک تصویر پیش کر رہا ہے۔ جبکہ رسولِ خدا کی پوری حیاتِ طیبہ میں کام آنے والے مسلم و غیر مسلم ایک ہزار سے زائد نہیں تھے، جن میں ۲۴۱ مسلمان اور ۷۴۹ غیر مسلم تھے، اور اس کی بدولت ۱۰ لاکھ مربع میل کا علاقہ صحیح معنی میں امن کا گہوارہ بن گیا تھا۔ اس کے برخلاف مغرب نے اپنے ایک ایک نظریہ کے تجربہ کرنے میں کروڑوں انسانوں کا خون بہایا ہے۔ ماضی قریب میں کمیونزم کی خونی تاریخ گواہ ہے، ۲ کروڑ سے زائد انسان اس کی بھینٹ چڑھ گئے مگر مغربی میڈیا میں اس پر کبھی شور و غوغا نہیں سنائی دے گا۔ 

گذشتہ نصف صدی پچاس سال میں دنیا میں جتنا خون بہا ہے اور جتنے لوگ بے وطن ہوئے ہیں، خود مغرب کے مقرر کردہ اداروں کی مصدقہ رپورٹوں کے مطابق ان میں ۸۰ فیصد سے زائد مسلمان ہیں۔ اگر اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو اسلام کی ساڑھے تیرہ صدیوں میں اتنے مسلمان شہید نہیں ہوئے جتنے اس نصف صدی میں مغرب کی گندی سیاست کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ یہ مسئلہ گہرے غور و فکر اور سنجیدہ ریسرچ کا متقاضی ہے۔ اب ہر جگہ مسلم نوجوانوں کو ہوش آنے لگا ہے اور وہ انسانیت کے اصل مجرم کو پہچاننے لگے ہیں۔ مغرب کی اس میڈیا وار کے پس پشت یہی خوف کار فرما ہے کہ اسے اپنے بھیانک جرائم کا یوم الحساب سامنے نظر آ رہا ہے۔ 

آج دنیا میں عسکری، معاشی و تہذیبی طور پر چند نسل پرست گروہوں کا تسلط قائم ہو چکا ہے جن میں صہیونیت، مغرب کے طبقہ اشرافیہ، اور اب بھارت کے برہمن کو شامل کیا جا رہا ہے۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، یو این او جیسے ادارے عرصے سے ان سیاہ نسلی طاقتوں کے جال بن چکے ہیں اور مغرب سمیت دنیا بھر کے حکمران ان کے کارندے۔ اس وقت اس نسلی مثلث کا اصل نشانہ اسلام ہے، اس لیے کہ اسلام ہی اس شیطانی ٹرائینگل کا خاتمہ کر سکتا ہے اور مظلوم انسانیت کا نجات دہندہ بن سکتا ہے۔ 

یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ مغرب کے ۹۹ فی صد عوام ہماری ہی طرح اس دو منہ والے سانپ (صہیونیت و اشرافیہ) کے ڈسے ہوئے اور مظلوم ہیں اور ان کا اسلام سے کوئی جھگڑا نہیں۔ علامہ اقبالؒ نے ۱۹۱۲ء میں فلسطین میں صحیح فرمایا تھا کہ پوری انسانیت کی آخری پناہ گاہ بالآخر اسلام ہی ثابت ہو گا۔ یہ حقیقت مغرب جتنی جلد سمجھ لے مغرب کے لیے بھی بہتر ہو گا اور مشرق کے لیے بھی۔ علامہ اقبالؒ اپنی خداداد بصیرت سے پون صدی پہلے کہہ چکے ہیں کہ فرنگ کی رگِ جان پنجۂ یہود میں پھنس چکی ہے اور کلیسا کے متولی یہودی بن چکے ہیں۔ 

جس طرح کل کا سورج نکلنا یقینی ہے، اس سے زیادہ یقینی حقیقت یہ ہے کہ آنے والا کل اسلام کا ہے کہ اسلام ہی انسانیت کی نگہبانی کر سکتا ہے، اور دنیا کو امن و خوشحالی، مساوات، انسانی حقوق، اور اعلیٰ اخلاقی قدریں اور پاکیزہ معاشرہ عطا کر سکتا ہے۔ وہ وقت … نظر آ رہا ہے کہ خدائے لم یزل کا اسلام کے غلبہ کا وعدہ لیظہرہ علی الدين كلہ اور دنیا کے سب سے سچے انسان کی پیش گوئی ’’اے فاطمہؓ دنیا کے ہر کچے پکے گھر میں تیرے باپ کا کلمہ گونجے گا‘‘ پوری ہو۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جسے قدرت اپنے اس مقدس مشن کی تکمیل کے لیے ذریعہ کے طور پر استعمال کر لے اور وہ دستِ قدرت کے آلہ کے طور پر استعمال ہو جائے، اس کے لیے ہمیں اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔ 

آج کا سب سے بڑا ہتھیار اور طاقت عصری علوم اور سائنس و ٹیکنالوجی ہے۔ مغرب ان علوم کو انسانیت کی تخریب کاری اور تباہی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ آج پوری انسانیت درد سے سسک رہی ہے۔ اگر ان شیطانی طاقتوں کو مزید مہلت دی گئی تو یہ پوری انسانیت پر بہت بڑا ظلم ہوگا۔ ہماری غفلت سے مغرب نے اتنی طاقت حاصل کر لی ہے جس سے پوری دنیا کو کئی بار تباہ کیا جا سکتا ہے اور ہر شہر و بستی کو ہیروشیما بنایا جا سکتا ہے۔ یہ پوری انسانیت کی بدقسمتی ہے۔ ظالم بوچر (قصاب) کے ہاتھ سے تلوار چھیننا وقت کی سب سے بڑی نیکی ہے۔ مسلمان آگے بڑھیں اور ان علوم کو انسانیت کی تعمیر کے لیے دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے استعمال کریں۔ یہی وقت کی پکار ہے۔

معمار حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز

اگرچہ بیشتر مسلم ممالک بظاہر آزاد ہیں مگر ان کی آزادی محض جسمانی آزادی ہے۔ ان کے ذہن و فکر آج بھی غلام ہیں، ان پر مغرب کا مکمل تسلط ہے۔ ذہن و فکر کو غلام بنانے میں سب سے مؤثر کردار تعلیم اور میڈیا کا ہے۔ مغرب کا تعلیمی و فکری نظام خالص مادی خطوط پر استوار ہے۔ یورپ کے عوام صدیوں تک شہنشاہیت اور تھیوکریسی (مذہبی پادریوں) کے مظالم کی چکی میں پستے رہے۔ جب یہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور شروع ہوا اور عوام میں بیداری شروع ہوئی، اس وقت بدقسمتی سے چرچ و مذہب نے عوام کے بجائے بادشاہت کا ساتھ دیا اور علم سے انکار کی راہ اختیار کی۔ مذہبی احتساب کی عدالتیں قائم کی گئیں اور ہزارہا انسانوں کو سائنسی و علمی نظریات جیسے زمین کا گول ہونا (حرکت کرنا، کشش رکھنا) کی بنیاد پر زندہ جلانے، سولی چڑھانے اور طرح طرح کی اذیت ناک سزائیں دی گئیں۔ 

مشیتِ الٰہی سے سائنس و صنعت ترقی کرتی گئی۔ غرض جس رفتار سے سائنس کے انکشافات اور صنعت کی ایجادات بڑھتی گئیں اور انسان کائنات کی مخفی قوتوں کی تسخیر کر کے اس سے استفادہ کرتا گیا، اسی رفتار سے مذہب سے بیزاری و فساد بڑھتا گیا۔ مذہب و سائنس کی کشمکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس طرح یورپ سے شہنشاہیت و جاگیرداری نظام کا بستر لپیٹ دیا گیا، اسی طرح مذہب کو اجتماعی مسائل و معاملات سے بے دخل کر دیا گیا اور اسے چرچ کے اندر محدود کر دیا گیا۔ اور بائبل کے صرف وہ احکامات قابلِ توجہ قرار پائے جو عقائد، عبادات اور شخصی اخلاق سے تعلق رکھتے تھے۔ یوں اجتماعی معاملات (جیسے سیاست، معیشت، معاشرت، نظم و نسق و قانون) سے مذہب کو خارج کر دیا گیا۔ 

یہ ہے مغربی فکر کا خلاصہ۔ مذہب بیزاری اس کے ضمیر میں داخل ہے۔ مذہب محض ایک نجی پرائیویٹ معاملہ ہے جو عقائد اور عبادات کی چند رسموں تک محدود ہے، اس کو اجتماعی معاملات میں دخل دینے کی اجازت نہیں۔ غرض پادری اور مذہب کو چرچ کے اندر بند کر کے اجتماعی مسائل اور کارگاہِ حیات سے اس کا رشتہ کاٹ دیا گیا۔ یہ تعلیمی اور فکری نظام اسلام کی ابدیت و افادیت اور ہر دور میں قابل عملِ ہونے اور ہر دور کے مسائل کے حل کرنے کی صلاحیت کے متعلق نئی نسل کے ذہنوں میں تذبذب و شکوک کے کانٹے بو دیتا ہے۔ غرض آج مغرب کا تعلیمی نظام ہو یا فکری نظام، دونوں سے انسان کو خدا و مذہب سے کاٹنے اور دور کرنے کا کام لیا جا رہا ہے۔ یہ ہے مغربی فکر جس کا سیاسی نام سیکولرازم ہے۔ مغرب سیکولر ازم سے مسلم دنیا میں اسلام کا راستہ روکنے کا کام لے رہا ہے۔

مسلم دنیا کے حکمران اسی تعلیمی و فکری نظام کے پروردہ ہیں جس میں مذہب تاریک و پسماندہ دور کی فرسودہ روایات کا نام ہے، وہ آج کے ترقی یافتہ ماڈرن دور کی رہنمائی نہیں کر سکتا۔ یہ مسلم حکمران مذہب کو اجتماعی زندگی سے خارج کرنے میں مغرب کے ہم خیال و شریک کار ہیں۔ 

رہ گئے مذہبی افراد و جماعتیں، وہ شکست خوردہ اور منتشر، اور نئے دور کے سائنسی و صنعتی علوم سے بے بہرہ، اور عصری تقاضوں کو سمجھنے کی بصیرت و شعور سے اور عصری چیلنجوں کے مقابلہ کی صلاحیت سے دن بدن دور ہوتی جا رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی طبقہ ہندوستان میں ۱۸۵۷ء کی شکست کے بعد اب تک سنبھل نہیں پایا۔ ۱۸۵۷ء کے انقلاب میں علماء کی بڑی تعداد شہید کر دی گئی تھی۔ شاملی کے میدان میں شکست کے بعد حاجی امداد اللہؒ مکہ ہجرت کر گئے اور مولانا نانوتویؒ و گنگوہیؒ روپوش ہو گئے۔ اس وقت علماء نے محسوس کر لیا تھا کہ اب انگریز کا عسکری میدان میں مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر مزید میدان میں ٹھہرے تو انگریز کچل کر ختم کر دے گا۔ انہوں نے وقتی حکمتِ عملی کے طور پر تعلیم و تربیت کا میدان اختیار کیا تاکہ تیاری کر کے اور افراد سازی کر کے دوبارہ غلبہ حاصل کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے دیوبند اور گنگوہ جیسے چھوٹے قصبات میں دینی مراکز قائم کیے۔ 

حضرت شیخ الہندؒ فرمایا کرتے تھے کہ یہ مدرسہ (دیوبند) حضرت الاستاد (مولانا قاسم نانوتویؒ) نے درس و تدریس کے لیے قائم کیا تھا؟ نہیں! بلکہ دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے علم کی چادر ڈال دی تاکہ تیاری کرنے اور افراد سازی کا موقع مل جائے۔ میدان سے ہٹنے پر جہاں یہ فائدہ ہوا کہ ہندوستاں دوسرا اسپین بننے سے بچ گیا اور برصغیرِ میں دین، علمِ دین اور مسلم معاشرہ کی حفاظت ہو گئی، وہیں نقصان بھی بہت عظیم ہوا۔ یہ کہ علماء زمانہ سے کٹ ہو گئے، وہ علمی و ذہنی طور پر ۱۸۵۷ء میں رہ گئے۔ گزشتہ صدی میں دنیا نے جو بے مثال علمی فکری ترقی اور سائنسی و صنعتی میدان میں پیش رفت کی ہے، اس سے بے گانہ رہ گئے۔ علم و فکر کا قافلہ ڈیڑھ دو صدی پہلے جہاں سے گزرا تھا، اب تک اسی بارڈر (سرحد) پر کھڑے ہیں۔ جس کی وجہ سے موجودہ دور کی بصیرت و شعور اور اس کے مسائل کا ادراک و چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت سے دور ہوتے گئے۔ اب جو دینی منصوبے بنائے ہیں، ان کی سوچ آج کے تقاضوں کے بجائے ڈیڑھ صدی قبل کے تقاضوں پر رہتی ہے۔ انہوں نے ۱۸۵۷ء میں دشمن کے مقابلہ کے لیے جو دفاعی حصار (ڈیفنس لائن) دینی مراکز کی شکل میں قائم کی تھی، وقت کے ساتھ ساتھ وہ مضمحل اور غیر مؤثر ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ ڈیفنس شکست کا دوسرا نام ہے، اقدام ہی بہترین ڈیفنس ہے۔ 

اگرچہ آج ان دینی مراکز کی تعداد میں دسیوں نہیں پچاسوں گنا اضافہ ہو گیا، مگر معنوی اوصاف و صفات مسلسل گھٹ رہی ہیں۔ اس کے بنیادی طور پر دو سبب ہیں: 

(۱) علماء علمی و فکری طور پر زمانہ سے کٹ گئے ہیں، اس لیے وقت کے مسائل و تقاضوں کے شعور و ادراک اور صحیح منصوبہ بندی سے بڑی حد تک عاری ہو چکے ہیں۔ 

(۲) ان دینی مراکز کے قیام کے وقت جو دینی حمیت و جذبہ جہاد اور اسپرٹ تھی، اور اس کے ساتھ تعلق باللہ، للٰہیت، زہد و قناعت، تقویٰ و خلوص، بے لوثی و استغنا کے اوصاف میں دن بدن زوال اور کمی آتی جا رہی ہے۔ 

ادھر کچھ عرصہ سے ان کی صفوں میں کالی بھیڑیں داخل ہو گئی ہیں جنہوں نے ان دینی مراکز کو ظاہری کاروبار اور دوکانداری کے انداز میں چلانا شروع کر دیا ہے۔ گویا اسلام کے نام پر ذاتی جائیداد و ریاست بن رہی ہے جس پر نسل در نسل اولاد قابض ہوتی رہے۔ اس ذہنیت نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی جس کی وجہ سے ہمارے دینی مراکز بڑی حد تک بانجھ ہو چکے ہیں۔ اب ان میں افراد سازی کی بجائے افراد شماری ہو رہی ہے۔ دینی طبقہ مغرب کی یلغار کے مقابلہ پر دل چھوڑ بیٹھا ہے اور حوصلہ ہار چکا ہے۔ ذہنوں میں پستی چھا گئی ہے۔ نہ صرف سائنسی، مذہبی، سیاسی، اقتصادی و عسکری محاذ پر، بلکہ علمی و فکری محاذ پر بھی مغرب کے مقابلہ کی سکت نہیں پا رہا ہے۔ یہی نہیں مغربی فکر کے اثرات دوسرے طبقات کی طرح طبقہ علماء پر بھی حاوی ہوتے جا رہے ہیں۔ 

مغرب نے گزشتہ ڈیڑھ دو صدی مسلمانوں کو اسلام سے کاٹنے کے لیے تعلیم اور فکر کے محاذ پر منصوبہ بندی سے جو منظم جدوجہد کی ہے، اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہو گیا ہے۔ اس نے مذہبی طبقہ کو زمانہ سے کٹ دیا، اور ان کے ذہنوں سے جہاد و خلافت کے تصور کو دھندلا دیا، اور ان کا رشتہ اجتماعی مسائل اور کارِ حیات سے کاٹ دیا۔ اب مدارس میں جو دینی علوم پڑھائے جا رہے ہیں، ان میں سارا زور عقائد و عبادات یا زیادہ سے زیادہ شخصی اخلاق پر ہے۔ فقہ ہو یا حدیث پورا زورِ بیان کتاب الطہارت سے کتاب الحج تک ہوتا ہے۔ بہت ہو گیا تو کتاب النکاح اور کتاب الطلاق تک۔ حالانکہ حدیث و فقہ کی انہی کتابوں میں کتاب البیوع بھی ہے، کتاب الاجارہ بھی، کتاب المزارعہ بھی ہے اور کتاب الامارہ بھی۔ ان میں جہاد و سیاست، امورِ مملکت کے ابواب بھی ہیں اور تمام اجتماعی معاملات کی رہنمائی بھی، مگر ان ابواب سے اس طرح گزر جاتے ہیں گویا یہ سب منسوخ ہو چکے ہوں۔ 

مدارس میں دھواں دھار تقریریں ہوتی ہیں، ایک ایک مسئلہ پر چھ چھ دن بحث ہوتی ہے، جن کا حاصل صرف یہ نکلتا ہے کہ یہ اولیٰ ہے یا غیر اولیٰ۔ ایک صدی کے مسلسل طرز عمل کی وجہ سے یہ ذہن پختہ ہو گیا ہے کہ دین محض عقائد و عبادات اور شخصی اخلاق کا نام ہے، باقی چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، اگر حاصل ہو جائیں تو بہتر، نہ ہو سکیں تو اتنی ضروری نہیں۔ مغربی فکر یا ویسٹرن سولائزیشن یہی ہے کہ مذہب کا عمل دخل صرف عقائد، عبادات اور شخصی اخلاق تک محدود رہے، اسے اجتماعی مسائل و معاملات میں دخل دینے کی اجازت نہ ہو۔ ان مدارس میں فکری و نظریاتی بحثیں بھی ہوتی ہیں، اسلام کی ابتدائی تین صدیوں میں جو فکری و نظریاتی حلقے پیدا ہوئے اور دور کے ساتھ ختم ہو گئے جیسے جبریہ، قدریہ، معتزلہ … ان فرقوں کے افکار و نظریات پر طویل بحثیں ہوتی ہیں اور قرآن وسنت سے انہیں رد کیا جاتا ہے، مگر آج کے دور کے باطل نظریات و نظاموں سے بحث نہیں کی جاتی، جیسے کمیونزم اور کیپٹل ازم۔ اسی طرح معاشی و اقتصادی نظریات میں طلباء کو یہ نہیں بتاتے کہ 

  • آج کے سیاسی نظاموں اور اسلام کے سیاسی نظام (خلافت) میں کیا فرق ہے؟ 
  • آج کی جنگوں اور جہاد میں کیا فرق ہے؟ 
  • آج کی تجارت اور اسلامی تجارت میں کیا فرق ہے؟ 
  • آج جو انسانی حقوق کا واویلا کیا جا رہا ہے وہ کیا ہے؟ اور اسلام نے انسانیت کو جو حقوق عطا کیے ہیں، کتنے جامع و ارفع ہیں۔ 
  • آج کے معاشی نظریات کیا ہیں اور اسلام کا معاشی نظام کیا ہے؟ 
  • اسلام کا معاشرتی نظام کتنا پاکیزہ اور مکمل ہے۔ 
  • سود اور مضاربت میں کیا فرق ہے؟ 

تاکہ مدارس کے طلبا خود کو آج کے دور میں محسوس کرتے اور آج کے مسائل و نظریات سے عہدہ برآ ہونے کی بصیرت و اہلیت ان میں پیدا ہوتی۔ اس طرز تعلیم نے عملاً مغرب کی دین و سیاست کی تفریق قبول کر لی ہے۔ علماء نے اجتماعی مسائل و معاملات کی سیادت و رہنمائی سے دست بردار ہو کر اسے لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا ہے۔ اب مذہبی طبقہ کا کام وعظ، عبادات و وظائف، مکتب میں بچوں کی دینی تعلیم، انفرادی و اجتماعی مصائب و حوادیث پر صبر کی تلقین یا دعائیں کرنا رہ گیا ہے، جس کا نتیجہ آنکھوں کے سامنے ہے۔ 

نصف صدی پہلے علماء کرام تعداد میں عشر عشیر بھی نہیں تھے مگر وہ سیاست، آزادئ وطن کی جدوجہد، خدمتِ خلق، ادب و صحافت، تصنیف و تالیف، ریسرچ و تحقیق سمیت زندگی کے بیشتر شعبوں پر حاوی تھے۔ اور آج کل ہر سال دینی جامعات سے اچھی خاصی تعداد فارغ ہونے کے باوجود ان تمام شعبوں میں علماء کی کارکردگی مسلسل جا رہی ہے۔ خود برطانیہ میں تین چار ہزار علماء ہیں جن کی کارکردگی معلوم ہے، ان کا احترام و عزت اور معاشرہ پر گرفت دن بدن کم ہو رہی ہے۔ کہا جاتا ہے اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ علماء بنگلہ دیش میں ہیں جن کی تعداد ۲۰ لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے مگر سیاست و معاشرہ پر ان کی گرفت معلوم ہے۔ اگر یہاں موجود جامعات سے اسی قسم کے چند ہزار علماء اور تیار کر لیے جائیں تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟ 

اس مسئلہ پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جانا چاہیے اور چند برسوں سے کسی منصوبہ بندی کے بغیر فیکٹریوں کے انداز میں جامعات قائم ہو رہے ہیں جو شخصی یا فردِ واحد کے ادارے کہے جا سکتے ہیں۔ ان سے قدیم جامعات کی کارکردگی اور معیار کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ضرورت ہے علماء اس مسئلہ پر اجتماعی طور پر غور و فکر کریں، ان کے معیار و کارکردگی کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ دینی تعلیم کے نظام کو یہاں کے مزاج و نفسیات اور تاریخی پس منظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے ازسرنو مفید اور سائنٹفک طرز پر استوار کیا جائے اور قرونِ وسطیٰ کے فنون اور فرسودہ طرز سے نجات حاصل کی جائے۔ اور ہر عالم کے لیے ضروری قرار دیا جائے کہ وہ وہاں کی زبان و ادب میں دسترس حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے شعبہ کی جدید فنی مہارت بھی حاصل کرے۔ مطالعہ کا ذوق پیدا کیا جائے اور ریسرچ گاہیں قائم کی جائیں۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد دی جائے۔ انہیں سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں آگے بڑھایا جائے۔ صحافت، کمپیوٹر اور دور کے ان تمام جدید ذرائع ابلاغ میں آگے بڑھایا جائے جو انسانی ذہنوں کو متاثر کرتے اور ان کی تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں۔ 

واقعہ یہ ہے کہ علماء کرام اسلام کے سپاہی اور علومِ نبوت اور فکرِ نبوت کے وارث ہیں۔ علماء نے ہر دور میں اسلام پر ہونے والے حملوں کا دفاع کیا اور ہر دور کے حملوں اور چیلنجوں کا مقابلہ کیا۔ وہ حملہ خواہ علمی و فکری ہو، معاشرتی و تمدنی ہو، یا سیاسی و عسکری۔ مغرب کا موجودہ فکری حملہ بڑی حد تک یونانی فلسفہ کے حملہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ دوسری صدی ہجری میں جب یونانی فلسفہ حملہ آور ہوا اور علماء نے دیکھا کہ مسلمانوں کے ذہن و فکر پر اس کے اثرات پڑ رہے ہیں تو انہوں نے وقت کے چیلنج کو قبول کیا۔ یونانی علوم (منطق، فلسفہ، علمِ کلام) پر دسترس حاصل کی، اسے ازسرنو مدون کیا۔ اس سے غیر اسلامی چیزیں خارج کر کے اسے شرعی حدود میں لا کر اسلام کا معاون بنا لیا۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے ان علوم و فنون کو مسلمان بنایا۔ آج یہ علوم و فنون اسلامی علوم سمجھے جا رہے ہیں حالانکہ ان کے نزدیک یہ یونانی علوم غیر اسلامی، سخت ناپسندیدہ بلکہ کفر و حرام کے درجہ میں تھے۔ 

علماء کرام اگر زمانہ سے کٹ نہ ہو گئے ہوتے اور مغربی فکر سے شکست خوردہ نہ ہو گئے ہوتے تو آج مغرب کے نظریات و افکار کا پوسٹ مارٹم کر کے ان سے فاسد اجزاء کو خارج کر کے انہیں اسلام کا معاون و مددگار بنا لیتے۔ انسانی ذہن و فکر کو متاثر کرنے والے اور ان پر غلط اثرات ڈالنے والے آج کے سمعی و بصری ذرائع ابلاغ: صحافت، ریڈیو، ٹی وی، کمپیوٹر، سیٹلائیٹ کو یونانی علوم کی طرح مشرف باسلام کرتے یعنی ان سے اسلام کی اشاعت و دعوت اور تعلیم و تربیت کا مثالی کام لیا جاتا۔ زمانہ میں سائنس و ٹیکنالوجی نے جو وسیع تر ذرائع عطا کر دیے ہیں، ان سے دینِ فطرت کی حقانیت ثابت کرنے، اسلام کے ہر دور کے لیے رہنمائی اور مسائل کے حل کی صلاحیت رکھنے کو ذہنوں میں اتارا جا سکتا تھا۔ 

آج کی سائنسی ترقی نے جو نئے نئے افق کھولے ہیں، اس نے اس قابل بنا دیا ہے کہ کسی کے دروازے پر دستک دیے بغیر آپ ہر گھر میں داخل ہو سکتے ہیں۔ یہ بین حقیقت ہے کہ دنیا میں جو چیز وجود میں آتی ہے اسے دوبارہ دنیا سے آؤٹ (خارج) نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس سے آنکھیں بند کر لینا کوئی عقلمندی ہے، بلکہ صحیح راہ یہی ہے کہ اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ آج کا میڈیا اور ذرائع ابلاغ انسانی ذہنوں کو بدلنے اور ان تک رسائی حاصل کرنے کا سب سے مؤثر ہتھیار اور ذریعہ ہے، اس کی طاقت و قوت ایٹم بم سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ دنیا کا ذہنی و معاشرتی بگاڑ و فساد بھی انہیں کے غلط استعمال کی وجہ سے ہے۔ یہ ذرائع عموماً‌ فحش و منکرات کی اشاعت، ذہنوں کو پراگندہ و منتشر کرنے، شہوات و حیوانیت کے جذبات کو برانگیختہ کرنے، مذہب و اخلاق کی اعلیٰ قدروں کو مسمار کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان پر پورا کنٹرول و قبضہ مغرب کی ان اسلام دشمن طاقتوں کا ہے جن کا دامن کسی صحیح دین و فکر سے خالی ہے، اور ان کے پاس انسانیت کے لیے نہ کوئی تعمیری پروگرام ہے نہ پیغام، نہ انسانیت کی بربادی پر آنسو بہانے والی آنکھیں، نہ تڑپنے والا دل، ان سے انسانیت کے کسی خیر و بہبود کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ 

واقعہ یہ ہے کہ اگر مسلمان علمی اعتبار سے پسماندہ نہ رہ گئے ہوتے تو ان چیزوں کی ایجاد کا سہرا انہی کے سر ہوتا، اور وہ اسے انسانیت کی فلاح و بہبود اور تعمیر کے لیے اور صحیح تعلیم و تربیت کے لیے استعمال کرتے۔ یاد رکھیے، راستے صرف دو ہیں: یا تو ہم ان وسائل و ذرائع پر کنٹرول کریں، یا پھر یہ ہم پر ہمارے ذہنوں پر اور ہماری نسلوں پر کنٹرول کر لیں گے، تیسری کوئی راہ نہیں۔ بدقسمتی سے ہم زمانہ کے فساد و خطرات کو دیکھ کر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپا کر اپنے کو محفوظ سمجھ رہے ہیں، اور ہم نے زندگی کے حقائق سے فرار کی راہ اختیار کی ہوئی ہے، جبکہ اسلام کی تعلیم ہی کائنات کی تسخیر اور آگے بڑھ کر قدرت کے عطا کردہ وسائل پر قبضہ کرنے کی ہے تا کہ اسے انسانیت کی بہبود کے لیے استعمال کیا جائے۔ 

ہر نئی چیز کو اسلام کی تقویت و فائدے کے لیے استعمال کرنا سنتِ نبویؐ ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ نے حضرت زیدؓ کو عبرانی (یہودیوں کی زبان) سیکھنے کا حکم دیا۔ سلمان فارسیؓ کے مشورہ پر خندق کھود کر اہلِ مکہ کو حیران کر دیا۔ جن علاقوں میں عمدہ تلواریں بنائی جاتی تھیں بعض صحابہؓ کو سیکھنے کے لیے وہاں بھیجا۔ غزوہ طائف میں منجنیق (اس دور کا ٹینک) ملاحظہ فرمائی تو حاصل کرنے کا حکم دیا۔ آپؐ نے طاقت و برتری کے حصول اور دور کے وسائل پر دستری و قبضہ کرنے کی مسلسل تاکید فرمائی۔ حضرت عقبہ بن نافعؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا آپؐ نے منبر نبویؐ سے خطبہ میں واعدوا لہم ما استطعتم…الخ آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا الا ان الرمی ہی القوۃ  سن لو رمی (تیر پھینکنا) قوت ہے۔ یہ لسانِ نبوت کا اعجاز ہے کہ آپؐ نے تلوار کے بجائے، جو اس دور کا اصل اسلحہ تھی، رمی فرمایا۔ جو جدید دور کے میزائل، راکٹ، بمبار طیاروں کو بھی شامل ہے۔ اگر ارشادِ نبوت کے مطابق ایک تیر پر تین آدمیوں کو جنت کی بشارت ہے (تیر کا بنانے والا، جلانے والا اور دینے والا) تو کیا یہ حدیث کی بشارت آج کے میزائل کو شامل نہیں؟ اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے اور اس کے غالب کرنے کی جدوجہد مسلمان کا سب سے اہم فریضہ ہے۔ 

آنحضرتؐ کی زندگی میں اسلام ۱۰ لاکھ مربع میل کے علاقہ میں غالب قوت بن چکا تھا اور آپؐ کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک اسلام دنیا کی سپر پاور تھا۔ اس طرح ہزار سال تک مسلمان علوم و فنون کے افق پر چھائے ہوئے تھے۔ اس دور میں عموماً ہر مفید ایجاد مسلمان کرتے اور ساری دنیا اس سے مستفید ہوتی، جس طرح آج جاپان اور مغرب کرتا ہے۔ آج مغرب اعتراف کر رہا ہے کہ مغرب کی موجودہ سائنسی و علمی ترقی کی بنیاد اسپین کی اسلامی درس گاہوں میں رکھی گئی تھی۔ 

۱۴ سو سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو دو نظریات سے ہوا: ایک نظریہ دین و سیاست کی تفریق کا، جو موجودہ مغربی فکر کا خلاصہ ہے۔ اور دوسرا علم میں دینی و دنیادی ہونے کی تفریق سے ہوا۔ اسلام نے علم کو دین اور دنیا کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا۔ انسان کی بقاء و تحفظ، ضرورت و ترقی کا یہ (ہر) علم جو قرآن و سنت کے دائرے میں ہو، دین ہے۔ تقریبا ۵۰۰ آیتیں احکامات و عبادات (نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) کی ہیں تو ہزارہا آیتوں میں غور و فکر و تدبر، تسخیرِ کائنات، قدرت کے ضوابط و نظام بیان کیا گیا ہے ۔ چنانچہ دورِ نبوت میں مسجد نبویؐ میں قرآن و سنت کے ساتھ طب، علم ہیئت، عسکری امور اور تمام ضروری معاشرتی امور کی تعلیم دی جاتی تھی۔ 

حضرت علیؓ کا مقولہ مشہور ہے کہ علوم پانچ ہیں: (۱) فقہ دین کے لیے (۲) طب میڈیکل بدن کے لیے (۳) ہندسہ (انجینئرنگ) تعمیر کے لیے (۴) نجوم ہیئت اوقات معلوم کرنے کے لیے (۵) نحو زبان دانی کے لیے۔ غور کیجئے اس دور کا کون سا علم باہر رہ گیا؟ اسی طرح دورِ خلفائے راشدینؓ میں مزید ترقی و اضافہ ہوا، چنانچہ صدیوں تک کیمسٹری، طب، جغرافیہ و تاریخ، فلکیات و نجوم، ریاضی و ہندسہ کے ماہرین علماء ہی ہوا کرتے تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں میں دین و دنیا کی تفریق تاتاریوں کی یلغار کے بعد سے ہوئی جب شکست و تباہی سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہو گئے۔ 

ہمارے عربی جامعات میں جو یونانی علوم پڑھائے جاتے ہیں، ان کی نسبت حکیم الامت مولانا تھانویؒ فرماتے ہیں: ہم جس طرح قرآن و حدیث، فقہ کو ثواب کی نیت سے پڑھتے پڑھاتے ہیں، اسی طرح منطق فلسفہ کو بھی، کیونکہ دونوں دین کے لیے ہیں۔ جائے غور ہے۔ کیا اسلام کی خاطر یورپی زبانوں کی تحصیل، جدید سائنس و ٹیکنالوجی، علومِ اسلحہ سازی، ذرائع ابلاغ، اجر و ثواب سے خالی ہوں گے؟ 

تقریباً ایک صدی پہلے بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے حج سے واپسی پر جہاز کے انگریز کپتان سے ترجمان کے ذریعہ بات کرنے پر انگریزی زبان سیکھنے کا عزم کیا تھا مگر زندگی نے وفا نہیں کی۔ اور یوں صدی پہلے محدث شہید مولانا انور شاہ کشمیریؒ دین کی امت کی فتنوں اور ارتداد سے حفاظت کے لیے علماء کو اردو اور انگریزی میں مہارت حاصل کرنے کی وصیت فرما چکے، تو یہاں جامعات میں اب تک انگریزی کے بجائے اردو ذریعہ تعلیم کیے جانے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟

اسی طرح آج کے دور میں کمپیوٹر پر دستری کے بغیر کسی کتب خانہ سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا۔ حال ہی میں ورلڈ اسلامک فورم کے سرپرست مولانا عبد اللہ صاحب نے بتایا کہ گزشتہ دنوں کینیڈا میں قیام کے دوران امریکہ کی آٹھ یونیورسٹیوں کی لائبریریوں کے معائنہ کا موقع ملا۔ ایک لائبریری میں کیٹلاگ (فہرست کتب) طلب کرنے پر اس میں کام کرنے والی لڑکی مجھے حیرت سے دیکھ کر کہنے لگی، آپ کسی دور کی بات کر رہے ہیں؟ اب یہاں فہرست نہیں ہوتی، وہ سامنے کمپیوٹر رکھا ہے، جو کتاب درکار ہو، اس سے معلوم کر لیں۔ فرمایا، یونیورسٹی کی اس لائبریری میں اسلامیات پر ساڑے چار لاکھ کتب، اور مخطوطات کے شعبہ میں ساڑھے نو ہزار قلمی مخطوطات ہیں۔ میں نے ہندوستان کے تقریباً تمام اہم کتب خانے دیکھے ہیں لیکن اس سے عشر عشیر بھی مخطوطات یکجا نہیں ہیں۔ چار پانچ صدیوں قبل کے گجرات (انڈیا) کے متعدد بزرگوں جیسے شیخ وجیہ الدین (احمد آباد) کی کتابوں کے قلمی نسخے وہاں پائے۔ اسی طرح حدیث کی کئی نایاب کتابوں کے نسخے ہیں۔ قرآن و تجوید پر ۱۶۵ کتابیں اور قرآن مجید کے رسم الخط پر ڈیڑھ سو کے قریب کتابیں تھیں۔ میں ان کی مائیکرو فلم ساتھ لایا ہوں۔ 

اسی طرح ایک بار پیرس میں مقیم ڈاکٹر حمید اللہ خان (حیدر آبادی) نے بتایا کہ پیرس کے ایک ایک کتب خانہ میں اسلامیات پر تین تین لاکھ کتابیں ہیں۔ یہی حال برطانیہ و جرمنی وغیرہ کا ہے۔ آج کمپیوٹر نے ان سے استفادہ اتنا آسان کر دیا ہے کہ آپ یہاں (لندن) میں بیٹھے معلوم کر سکتے ہیں کہ فلاں کتاب نیویارک، ٹورانٹو، پیرس، برلن کے کتب خانہ میں ہے یا نہیں؟ اور اگر اس کے کسی صفحے کی فوٹو کاپی درکار ہو تو چند منٹ میں فیکس کے ذریعہ حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ انسائیکلو (پیڈیا) آف برٹانیکا کی ۲۵ ضخیم جلدوں کو چند تولے کی ٹیپ بنا کر جیب میں رکھ سکتے ہیں۔ یہی نہیں پورے کتب خانہ کو چند تولے کی ڈبیہ میں مقید کر کے ہر وقت ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ 

غرض علمی کام کرنے والوں کے لیے کمپیوٹر ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ اسی طرح کمپیوٹر نے تعلیمی نظام میں نئے نئے افق کھول دیے ہیں۔ مثلاً‌ ایک بچہ قرآن کا ابتدائی قاعدہ احسن القواعد آٹھ نو ماہ میں پڑھتا ہے۔ وہی اگر اسے کمپیوٹرائزڈ کر کے دیا جائے تو دس بارہ ہفتوں میں پڑھ لے گا۔ جب بچہ لفظوں کو جڑتے ٹوٹتے دیکھتا اور سنتا ہے تو اس کے لیے بہت آسان ہو جاتا ہے۔ وہ کھیل کھیل میں بہت کچھ پڑھ لے گا۔ اسے دین کی بہت سی تعلیم اور جنرل معلومات گیم کے ذریعہ کھیل کھیل میں دی جا سکتی ہیں۔ اس کے برخلاف مروجہ طریقہ تعلیم میں بچہ سات سال میں صرف قرآن مجید ناظرہ اور چند فقہی رسالے و کتب پڑھتا ہے۔ اگر نصابِ تعلیم کو کمپیوٹرائزڈ کر لیا جائے تو ۷ سال میں بچہ کو اتنا علم اور معلومات دی جا سکتی ہیں کہ اس کے پاس یونیورسٹی کا ڈپلومہ اور ڈگری ہو۔ 

اسی طرح موجودہ دور میں سیٹلائٹ نے نظامِ تعلیم میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ جگہ جگہ اوپن یونیورسٹیاں قائم ہو گئی ہیں۔ جہاں تاریخ، جغرافیہ، فلکیات و ہندسہ سے لے کر سرجری (آپریشن) تک کے اسباق ٹیلی کیمونیکیشن کے ذریعہ ہو رہے ہیں۔ ایک طرف طالب علم کے کالج آنے جانے کے اوقات کی بچت، دوسری طرف جس وقت اس کا ذہن حاضر ہو اس وقت وہ اسباق لے سکتا ہے۔ غرض سائنس کی جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اتنے ہمہ گیر و وسیع ممکنات میسر آگئے ہیں کہ چند سال پہلے تک جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اگر دینی علوم کی تعلیم اور اسلام کی اشاعت و ابلاغ میں ان سے فائدہ اٹھایا جائے تو کئی گنا کام بڑھ سکتا ہے۔ 

مولانا ابو الکلام آزادؒ نے ۱۹۴۷ء میں علماء کے مجمع میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ آپ حضرات کو زمانہ کی ناقدری کی شکایت ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اسی نصابِ تعلیم نے فتح اللہ شیرازی پیدا کیا جس نے ہندوستان میں زمین کی پیمائش کا نظام وضع کیا۔ ایسے علماء پیدا کیے جنہوں نے احسن طریقہ پر حکومت کے نظام کو چلایا۔ مگر آپ یہ بھول جاتے ہیں، یہ ۱۹۴۷ء کا زمانہ تین سو سال آگے بڑھ چکا ہے۔ دنیا کا کوئی علم و فن جب تک اس کا زمانہ کے ساتھ پیوند نہ لگایا جائے اور دور کے تقاضوں سے اسے ملحق نہ کیا جائے تو قصور دور کا نہیں، پیچھے رہ جانے والوں کا ہو گا۔ آج کے دور میں قرونِ وسطیٰ کے فنی علوم کا، تعلیمی نصاب اور صَرف کی گردان رٹانے کا طرزِ تعلیم ایسے ہے جیسے ہم سترہویں صدی میں ہوں جب کپڑا چرنے سے کاتا جاتا تھا اور آگ چقماق سے پیدا کی جاتی تھی اور ڈاک گھوڑوں پر بھیجی جاتی تھی۔ اپنے اس طرز سے ہم ذہین و ذکی افراد کو ساتھ نہیں لے سکتے۔ 

گزشتہ سال انڈیا (بھوپال) سے میرے عزیز دوست مولانا حسان ابن مولانا عمران خانؒ سے ملاقات پر میں نے شکایت کی کہ آپ ڈیوزبری کے دینی اجتماع میں شریک ہونے کے بجائے لیسٹر میں طلبا کے سیمینار میں چلے گئے۔ تو فرمایا مجھے جس چیز کی جستجو تھی وہ وہاں تھی۔ دورانِ مباحثہ ضرورت پڑنے پر سوڈان، بوسنیا اور ملیشیا کے مفکرین و سیاست دانوں سے براہ راست ٹیلی کمیونیکیشن کے ذریعہ بات کرائی جاتی۔ ہم نہ صرف زیر بحث مسئلہ پر ان حضرات کی رائے سن سکتے بلکہ سامنے اسکرین پر انہیں دیکھ بھی سکتے تھے۔ میں نے وہاں کی آمد و رفت اور تین روز قیام و طعام کے اخراجات پچاس پاؤنڈ لندن سے قرض لے کر ادا کیے۔ جب کہ آپ مجھے مہمان بنا کر لے جاتے۔ اگر آپ مزید پچاس پاؤنڈ دیتے تب بھی میں معذرت کر دیتا کہ مجھے جن موضوعات پر معلومات درکار تھیں وہ آپ کے ساتھ نہیں مل سکتی تھیں۔ 

ہم یہ شکایت تو کرتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین طبقہ متوجہ نہیں، اس پر غور نہیں کرتے اس میں ہماری کوتاہیوں کا تو دخل نہیں؟ اسی طرح گزشتہ سال اسلام آباد بین الاقوامی یونیورسٹی کے ریکٹر جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی نے بتایا کہ پاکستان کے مشہور سائنس دان ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقیؒ (جو سال گذشتہ انتقال فرما گئے، جو نیوکلیئر کے سائنسدان تھے) نے ایک بار بتایا کہ ان کے پاس امریکہ سے ایک لیٹر (خط) آیا جس میں خود ان کی دو تصویر میں تھیں۔ وہ اپنے گھر میں کھڑکی کے پاس پشت کر کے بیٹھے ہیں اور شیشہ پر پردہ نہ ہو اور کوئی پیچھے سے تصویر بنا لے اور ان کے ہاتھ میں ایک خط تھا۔ کیمرہ قریب کر کے اس طرح تصویر لی جائے کہ خط کا مضمون پڑھا جا سکے۔ یہ تصاویر سیٹلائٹ کے ذریعہ لی گئی تھیں جو زمین سے تقریبا ۳۰ ہزار میل دور ہوتا ہے اور تین سیٹلائٹ پوری دنیا کو کور کر سکتے ہیں۔ ان تصاویر کے ذریعہ یہ میسج دینا تھا کہ آپ اپنے گھر میں ایک پرائیویٹ خط پڑھ رہے ہیں، اس کا مضمون ہمارے پاس ہے، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ نیوکلیئر پر جو آپ کام کر رہے ہیں وہ ہمارے علم میں نہیں؟ 

دو اہم ترین طویل المیعاد منصوبے

اگرچہ دن بدن دینی تعلیم کے جامعات کی بہتات ہے مگر اسلامی علوم پر تحقیقی کتابوں کی شدید قلت ہے۔ اس صدی کے شروع میں گنتی کے چند افراد نے دارالمصنفین (اعظم گڑھ) اور ندوۃ المصنفین (دہلی) نے جس معیار پر علمی و تحقیقی کام کیا ہے، اب اس پیمانہ پر بھی نظر نہیں آتا۔ غور کیا جائے تو اس نصف صدی میں شبلی نعمانیؒ کی الفاروق اور سیرۃ النبیؐ کے معیار کی کتنی کتابیں اردو میں وجود میں آئیں؟ تو شدید مایوسی ہوگی۔ ریسرچ و تحقیق اقوال جمع کرنے کا نام نہیں کہ فلاں نے یہ کہا اور فلاں نے یہ، اور نہ ہی دس بیس کتابوں سے اقتباس جمع کر کے کوئی کتاب مرتب کر دینے کا نام ہے۔ آن کل دینی کتب کے نام پر یہی کچھ ہو رہا ہے۔ کسی موضوع پر یکسو ہو کر پانچ سات سال جان توڑ محنت کر کے کوئی تصنیف سامنے لائی جائے تب ہی موضوع کا حق ادا ہو سکتا ہے۔ 

اسی طرح دینی رسائل و جرائد کا معیار بھی دن بدن کرتا جا رہا ہے کہ ہم محنت کرنے کے لیے تیار نہیں اور کوئی کام بغیر پتہ مارے نہیں ہوتا۔ مغرب میں ٹائم، نیوز ویک اور اکانومک جیسے ہفت روزہ رسالے جو لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں چھپتے ہیں، ان کے پیچھے سینکڑوں افراد کی جانفشانی ہوتی ہے اور ہر ہر شعبہ کے ماہرین کی ٹیم ہوتی ہے۔ اس بنا پر یہ رسالے پوری دنیا کے ذہنوں پر گہری چھاپ اور انہیں مخصوص رخ پر موڑنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ 

ضرورت ہے کہ ہر ملک میں اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے ذہین علماء کو معاشی طور پر فارغ کرے تحقیقی کاموں کی طرف متوجہ کیا جائے جو یکسو ہو کر ریسرچ و تحقیق کریں، کتب خانوں کو کھنگالیں، دقتِ نظر سے مسائل کا جائزہ لیں تاکہ مختلف دینی موضوعات پر تحقیقی و معیاری کتب و مضامین وجود میں آئیں جس سے نئی نسل کو حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے مواد و توانائی اور ذہنی فکری غذا فراہم ہو، ملت کی رگوں میں تازہ خون اور انہیں نیا حوصلہ و اعتماد ملے، ان میں شعور و بصیرت پیدا ہو۔ اس کے لیے ابتدا اس طرح کی جا سکتی ہے کہ برصغیر ہند و پاک و بنگلہ دیش میں فارغ شدہ علماء کرام کے لیے دو تین سالہ کورس تیار کیا جائے جس میں دین کے ہر ہر شعبہ کے لیے ماہرین تیار کیے جائیں۔ تفسیر، فقہ، حدیث، تاریخ، صحافت، ادب اور دیگر فنی علوم۔ اس کام کے لیے فارغ شدہ علماء کا کڑی شرائط کے ساتھ انتخاب کیا جائے مثلاً‌:

(۱) دینی جامعات سے امتیازی حیثیت سے فارغ ہوئے ہوں۔ 

(۲) عربی، انگریزی یا کسی بین الاقوامی زبان پر دسترس ہو۔ 

(۳) دینی علوم میں سے کسی ایک کے ساتھ مناسبت و خصوصی دلچسپی و لگاؤ ہو۔ 

فارغ ہونے والے علماء میں سے بمشکل دو تین فی صد ان شرائط پر پورے اتر سکیں گے۔ 

اسی طرح انہیں پڑھانے والے اساتذہ کا انتخاب کڑی شرائط کے ساتھ ہو۔ انہیں اپنی محنت کا مشاہرہ ہر ملک کی یونیورسٹی کے لیول کا دیا جائے، اور ان طلباء کو بھی معقول وظیفہ دیا جائے جو کم از کم ہر ملک کے پرائمری اسکول کے ٹیچر کے مساوی ہو۔ اسی طرح اگر ہر شعبہ میں چند افراد بھی تیار ہو گئے تو یہ پورے ملک کی علمی و دینی ضرورت کو پورا کریں گے، اور ہر شعبہ جو روبزوال ہے، اس میں ٹھہراؤ پیدا ہو کر ترقی کی طرف گامزن ہو جائے گا، اور یہ علمی و تحقیقی کام طبقۂ علماء کی اہلیت کے اظہار، آبرو و وقار اور سر بلندی کا ذریعہ بنے گا۔ اس کی ایک اچھی ابتدا پاکستان (گوجرانوالہ) میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے نام سے ہو گئی ہے جس کے تعلیمی شعبہ کے سربراہ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب ہیں۔ 

اس کے ساتھ ہی ایک کم از کم شش ماہی کورس درس و تدریس کی ٹریننگ یا تربیت المعلمین کا ہو جس میں پڑھانے والے اساتذہ کے لیے نصاب بنایا جائے۔ جس کے ذریعہ انہیں تدریس اور پڑھانے کی ٹریننگ دی جائے، جس طرح عصری تعلیم گاہوں میں پرائمری تک کو پڑھانے کے لیے ۲ سالہ کورس لازمی ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف ہمارے دینی مدارس میں فضلاء جامعات سے فارغ ہو کر براہ راست پڑھنے پڑھانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی انحطاط کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ نیز ان علماء کرام کو ان کے شعبہ کے متعلق عصری علوم کا بھی مطالعہ کرایا جائے جیسے اس زمانہ میں مفتی کے لیے موجودہ اقتصادی و تجارتی نظام، بینکنگ سسٹم، اور جدید نظریات سے واقفیت ضروری ہے اور لائبریریوں سے استفادہ کے لیے کمپیوٹر سے بھی۔

اقامتی رہائش گاہوں کا قیام 

عالم اسلام کے جو نوجوان مغرب کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں، یہ طبقہ ان ملکوں کی Cream ہوتا ہے۔ یہ نوجوان اپنے ملکوں کے سب سے بااثر، مہذب اور اعلیٰ خاندانوں کے چشم و چراغ ہوتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی اولاد ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں ملک کی انتظامی، سیاسی، اقتصادی و تہذیبی باگ ڈور ہوتی ہے۔ جب یہ اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے لوٹتے ہیں تو اپنے اپنے ملکوں کا نظام سنبھالتے ہیں۔ ملک کے سیاسی، انتظامی، تعلیمی، قانونی، تحقیقی شعبے اور ادارے ان کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ یہ اعلیٰ ترین مناصب پر اور بے پناہ اثر و رسوخ اور اختیارات کے مالک ہوتے ہیں۔ ان میں جتنی دینداری و خیر، یا بے دینی و برائی ہو گی، اس کے اثرات پورے ملک و معاشرہ پر ہوں گے۔ ان کا کردار و عمل سکہ رائج الوقت سمجھا جاتا ہے۔ مغرب ان پر پوری محنت کرتا ہے۔ ذہنی و فکری غذا فراہم کرتا ہے۔ اپنے نظریات کا ہمنوا بناتا ہے۔ انہیں اپنی معاشرت و کلچر میں ڈھالتا ہے تاکہ ان کے دل و دماغ سے اسلام اور مشرق کی اخلاقی قدروں کو کھرچ دیا جائے، اسلام کی افادیت و صلاحیت اور برتری کا نقش ان کے ذہنوں سے محو کر دیا جائے، اور مسلم معاشرے کے بچے کھچے اثرات و عادات سے بے گانہ بنا دیا جائے۔ غرض تعلیم کے دوران ان کے ذہن و فکر کو مغرب کے سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ 

حتیٰ کہ جب یہ مسلم نوجوان تعلیم مکمل کر کے اپنے ملکوں کو لوٹتے ہیں تو ان کی معاشرت، لباس، پسند نا پسند، ترجیحات' سوچنے کا انداز مغرب کا ہوتا ہے۔ وہ مغرب کے دلدادہ بن چکے ہوتے ہیں اور مغرب کی نقالی کو ترقی کی معراج سمجھتے ہیں۔ اسلامی تہذیب و اقدار سے پورے طور پر بے تعلق ہو چکے ہوتے ہیں۔ گویا وہ مغرب کی مشنری کے پرزے، مغرب کے مفادات کے نگہبان، اور مکمل طور پر مغرب کے آلۂ کار بن کر لوٹتے ہیں۔ اگر ان نوجوانوں پر تھوڑی سی کوشش کر کے انہیں اسلامی ماحول، دینی عقائد و نظریات پر پختگی، اسلام کے اعلیٰ اقدار و اساف سے آگاہی، قرآن و حدیث اور سیرت سے باخبر رکھنے کی سعی کر لی جائے تو اس کے بڑے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں۔ 

تجربہ بتاتا ہے کہ بعض ملکوں کے نوجوان مغرب میں تعلیم کے دوران دینی جماعتوں اور تحریکات متاثر ہو کر لوٹے تو انہوں نے پورے ملک کے نظام میں بڑے خوشگوار اسلامی اثرات ڈالے، اور ان کی بدولت اس ملک میں اسلامی ماحول کی جھلک و اثرات نمایاں ہوئے۔ اس قاصد کے لیے دین کا درد و فکر رکھنے والے حضرات تقریباً ایک صدی سے بہت سادہ، قابل عمل اور کم مصارف کا منصوبہ پیش کر رہے ہیں۔ وہ یہ کہ مغربی ممالک میں یونیورسٹیوں کے قریب مسلم ہاسٹل (اقامت گاہیں) بنائی جائیں جہاں ان کو صاف ستھری اور نسبتاً‌ کم خرچ پر رہائش گاہیں مہیا کی جائیں، مثلاً‌ لندن میں ایک کمرے کا ویکلی کرایہ چالیس پاؤنڈ ہے، تو ان سے تیس بتیس پاؤنڈ لیے جائیں۔ وہاں کا ماحول اپنا ہو، ایک بڑا کمرہ (ہال) مسجد کے طور پر مختص ہو۔ نماز، ذکر و تلاوت کے ساتھ کبھی کبھی ثقافتی و ملی پروگرام بھی ہو جایا کریں۔ ہفتہ وار قرآن و حدیث کا درس ہو۔ وقتاً‌ فوقتاً‌ باہر سے آنے والے مسلم اسکالرز، علماء کرام و مفکرین کے پروگرام ہو جایا کریں۔ دینی کتب پر مشتمل لائبریری جس میں اسلامی فکر پر منتخب و معیاری کتب اور اسلامی میگزین (رسالے) رکھے جائیں۔ تو آپ دیکھیں گے اس کے اثرات انتہائی دور رس اور مسلم ممالک کے ماحول کو تدریجاً‌ اسلام کے حق میں تبدیل کرنے والے ہوں گے۔ صرف ایک بار تعمیر کے اخراجات کرنے ہوں گے ، اس کے بعد یہ ہاسٹل خود کفیل ہو کر مالی اعتبار سے دیگر دینی منصوبوں کے معاون بن جائیں گے۔ اور یہ ہاسٹل مغربی ملکوں میں اسلام کی پناہ گاہیں ثابت ہوں گے۔

غیروں میں اسلام کی دعوت و تبلیغ

عرصہ سے پوری دنیا میں مسلمانوں پر جو مصائب آ رہے ہیں اور خدا کا غضب آیا ہوا ہے، اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے خدا کے بندوں کو خدا کا پیغام پہچانا چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں صدیوں تک ایمان و اسلام کی دعوت پہنچانے کے بے انتہا مواقع عطا فرمائے مگر ہم غفلت اور دنیوی لذتوں میں ڈوبے رہے۔ ایک بار بمبئی (بھارت) میں صبح کے وقت ایک ہوٹل میں چائے پینے کے دوران اخبار سے ایک مسلم کش فساد کی خبریں پڑھی جا رہی تھیں جس میں حسب معمول بھارت کی پولیس و انتظامیہ نے فسادیوں کے ساتھ مسلمانوں کے قتل، زندہ جلانے اور عصمت دری میں شریک ہو کر مظالم توڑے تھے۔ 

پاس بیٹھے ہوئے ایک نو مسلم نے کہا: پولیس اور انتظامیہ نے جس درندگی و حیوانیت کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے ہر سلیم الطبع انسان کو دکھ و تکلیف پہنچی ہے مگر آج میں آپ حضرات کو ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ آپ مسلمان تقریباً ایک ہزار سال سے اس ملک میں ہیں اور آپ کی نظروں کے سامنے روزانہ ہزاروں انسان کفر پر مر کر جہنم میں پہنچ رہے ہیں۔ آپ نے ان غریبوں کو جنم سے بچانے کے لیے کیا کوشش کی ہے؟ آپ پر ان کا یہ حق نہیں تھا کہ دلسوزی و دردمندی سے انہیں جہنم سے بچانے کی فکر کرتے؟ مگر آپ مسلمان اپنی دنیا بنانے میں مست رہے۔ آپ نے ان پر رحم نہیں کھایا، اس کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے انہی لوگوں کے ہاتھوں آپ کی دنیا کو جہنم بنا دیا۔ کیا مسلمان اس ملک میں دنیا بنانے اور مزے کرنے کے لیے آئے تھے؟ جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے تکلیف دہ ہونے کے باوجود وہ اس کے حقدار ہیں۔ 

غور کیا جائے تو اس نو مسلم کی بات اگرچہ تلخ ضرور ہے مگر بالکل سچ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ خدا نے ہمیں صدیوں تک اس ملک کا مالک و مختار بنایا تھا۔ یہی نہیں اب بھی خدا کے بندوں تک خدا کا پیغام پہنچانے کے بے شمار مواقع ہیں۔ مگر ہم نے اپنی ذمہ داری سے غفلت برت کر اپنے کو خدا کے غضب کا مستحق بنا لیا ہے۔ یہی حال دنیا کے ہر ملک کا ہے۔ ہمیں صدیوں تک ہر ملک میں اسلام کی دعوت پہنچانے کے مواقع دیے گئے۔ ریسرچ و تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ امریکہ میں کولمبس سے بہت پہلے عرب پہنچ چکے تھے۔ کولمبس کے جہاز کا ملاح بھی ایک عرب تھا۔ کاش کہ اس وقت امریکہ کو ایمان و اسلام کی نعمت پہنچانے کا فریضہ انجام دیا ہوتا تو آج امریکہ پورے عالم اسلام کا خون نہ نچوڑ رہا ہوتا۔ 

اسی طرح یورپ صدیوں تک اسپین کی اسلامی درس گاہوں سے استفادہ کرتا رہا۔ اگر علوم و فنون کے ساتھ ساتھ یورپ کو ایمان پہنچانے کی تھوڑی سی فکر کر لی جاتی تو آج کا یورپ خدا کو پہچاننے والا یورپ ہوتا۔ یورپ جس جنسی انارکی، ذہنی پراگندگی اور جرائم کی دلدل میں ڈوب کر خودکشی اور ہلاکت کی طرف بڑھ رہا ہے، اور یہاں کے دانشور نجات کی کوئی راہ نہیں پا رہے اور مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں، ان کے پاس ان تمام امراض سے شفا یاب ہونے کا یقینی نسخہ قرآن ہوتا۔ جس طرح ٹریفک پولیس کے اپنی جگہ چھوڑ دینے کی وجہ سے ایکسیڈنٹ ہو جائیں تو وہ مجرم قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح مسلمان من حیث القوم مجرم ہیں کہ انسانیت جس زہر سے ہلاک ہو رہی ہے، اس کا تریاق جیب میں ڈالے خاموش بیٹھے ہیں۔

گزشتہ صدی تک سلطنت عثمانیہ نہ صرف یورپ بلکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھی۔ یورپ کا بڑا حصہ اس کے زیر نگین اور باجگزار تھا۔ اگر اس فریضہ کی ادائیگی کی فکر کی ہوتی تو آج یورپ کی صلاحیت و توانائی انسانیت کی تخریب کاری کے بجائے انسانیت کی تعمیر و بہبود پر لگ رہی ہوتی۔ آج بھی خدا نے ہمیں بے شمار مواقع عطا فرمائے ہیں کہ ان غریبوں پر رحم کھا کر ان کو دنیا کے چین و سکون اور جنت کا وارث بنائیں۔ سنت ہے، جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ جب تک ملت کی رگوں میں نیا خون نہیں آئے گا، ملت ضعف اور مختلف امراض کی شکار رہے گی۔ اسلام کی تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں نئی نئی قوموں نے اسلام میں داخل ہو کر اسے توانائی و طاقت نیا حوصلہ و تازگی بخشی۔ ہمیشہ پشتی مسلمانوں کے بجائے نو مسلموں نے اسلام کے پیغام کو دنیا میں پہنچایا۔ اسلام کی تاریخ میں ہلاکو خان کی اولاد (ترکوں) نے سب سے طویل عرصہ تک (۷۰۰ سال) اسلام کی نگہبانی، حفاظت اور علمبرداری کا فریضہ انجام دیا اور اسلام کے جھنڈے کو دنیا میں بلند رکھا۔ جب سے نیا خون آنا رک گیا ہے ملت اسلامیہ دن بہ دن ذلت و پستی، ضعف و انحطاط کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ 

جب تک مسلمان اجتماعی طور پر من حیث الامت اس فریضہ سے غفلت برتیں گے وہ خدا کی رحمتوں اور انعامات کے مستحق نہیں بن سکتے اور نہ موجودہ عذاب و سزا سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ غیروں کو اسلام کی دعوت پہنچانا نماز کی طرح فرض ہے۔ ضرورت ہے کہ دعوت کا ہر ممکن طریقہ اختیار کیا جائے۔ اس کے لیے اولین اور سب سے مؤثر چیز خود ہمارا کردار و عمل ہے کہ ہم خود کو اسلام کا عملی نمونہ بنائیں، نیز اس کے لیے تعلیم و میڈیا کے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔ آج بھی بغیر کسی منظم کوشش کے کثرت کے ساتھ پیاسی روحیں اسلام کی طرف لپک رہی ہیں، اگر ہم اپنے اخلاق اور معاشرہ کو اسلام کے مطابق بنا لیس اور اسلام نے ۱۴ سو سال پہلے انسانوں کو جو حقوق عطا کیے تھے، خاص طور پر عورت اور غلاموں (معاشرہ کے پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات) کو آج کے اسلوب و زبان، سائنٹفک طور پر پیش کیا جا سکے تو آپ دیکھیں گے مغربی لوگ فوج در فوج اسلام کی طرف لپکیں گے اور دوبارہ یدخلون فی دین اللہ افواجا کا منظر نظر آنے لگے گا۔ 

نبوت سے بہت پہلے رسولِ خداؐ کے عین دورِ شباب میں مکہ کے ایک شخص نے مکہ آنے والے ایک مسافر کے ہاتھ اپنا اونٹ فروخت کیا۔ اس سے اونٹ کی قیمت بھی لے لی اور اونٹ بھی حوالے نہیں کیا، تو اس مسافر نے حرمِ کعبہ میں انصاف کی دہائی دی۔ اس پر مکہ مکرمہ کے انصاف پسند اور سلیم الطبع لوگوں نے مظلوم کی حمایت کرنے، ظالم کا ہاتھ روکنے، ہر ضرورتمند کی مدد کرنے، غرض ہر قسم کے فلاحی کاموں کا حلف اٹھایا۔ اسے تاریخ میں حلف الفضول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ رسولِ خداؐ نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب مدینہ منورہ میں اسلام کی فلاحی ریاست قائم ہو گئی، اس وقت بھی آپ اس حلف الفضول کو یاد فرمایا کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے آج بھی اس قسم کا کوئی معاہدہ ہو تو میں اس میں شریک ہونے کے لیے تیار ہوں۔ 

جب آپؐ پر پہلی وحی آئی اور آپ پر گھبراہٹ طاری ہوئی، گھر پہنچ کر آپ نے حضرت خدیجہؓ سے فرمایا زملونی زملونی مجھے چاور اڑھا دو مجھے اپنی جان کا اندیشہ ہے۔ اس وقت ام المومنین حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو ان الفاظ میں تسلی دی کہ آپؐ یتیموں کو سہارا دیتے ہیں، ضرورت مندوں کی حاجت روائی فرماتے ہیں، بے کسوں کے کام آتے ہیں، اللہ آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔ یہ ہے آپؐ کا اولین تعارف۔ کیا دنیا میں کسی جگہ ہم مسلمانوں کا بھی یہ تعارف ہے؟ عام مسلمانوں کو چھوڑیے، جو ورثہ الانبیاء کہلاتے ہیں اور نبیوں والے کام کرنے کے دعویدار ہیں، کس جگہ ان کے بارے میں عام لوگوں میں یہ تاثر ہے؟ کہ یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں، بے کسوں کی دستگیری اور خبر گیری کرتے ہیں؟ 

اسی طرح حضرات صحابہؓ کی عبادات و ریاضات کے قصص بیان کیے جاتے ہیں مگر اس پر روشنی نہیں ڈالی جاتی کہ انہوں نے انسانیت کی بہبود و فلاح کے لیے کیسے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ ایک ایک فرد نے کتنے غلاموں کو غلامی سے خلاصی دلائی، کتنے یتیم بیواؤں کی پرورش کی، کتنے باغات لگائے، کوفہ بصرہ جیسے کتنے شہر آباد کیے ، کتنی نہریں بنائیں۔ نہر سوئز کا پلان فاتح مصر حضرت عمرو بن عاصؓ کا تھا۔ آپ نے امیر المومنین سیدنا عمر بن خطابؓ کو لکھا کہ یہاں (مصر میں) زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے، اگر اسے کاٹ دیا جائے تو دو سمندر مل جائیں گے اور ہمارا یورپ پہنچنا آسان ہو جائے گا۔ مگر حضرت عمر نے اجازت نہیں دی۔ 

افسوس آج کل مسلمان فلاحی کاموں اور خدمت خلق کے کاموں میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ خاص طور پر مذہبی طبقہ نے نوافل و تلاوت، ذکر و فکر، اوراد و وظائف اور ہر سال حج و عمرہ ہی کو دین قرار دے دیا ہے (حالانکہ عبادات دین کا صرف ایک جز ہے) جبکہ اسلامی اخلاق و معاشرت کی بنیاد ہی خلقِ خدا کی خدمت اور انہیں فائدہ پہنچانے پر ہے۔ قرآن عزیز نے قوموں کی بقا و ترقی کا فلسفہ ہی یہ بیان کیا ہے کہ غیر نافع جھاگ کی طرح فنا ہو جاتے ہیں، اور جو انسانیت کے لیے نافع و فائدہ مند ہوتے ہیں انہی کو دنیا میں استقرار و بقا و دوام حاصل ہوتا ہے۔ اور سرور کائناتؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ساری مخلوق خدا کا کنبہ (فیملی) ہے، اس کے نزدیک بہتر وہ ہے جو ان کو نفع پہنچانے والا ہو۔ غرض اسلام کے نزدیک اصلح و انفع کا مدار عبادات و ریاضات نہیں بلکہ انسانیت کے لیے نفع بخش ہونا ہے۔ 

جب تک مسلمان انسانیت کو نفع پہنچاتے رہے لوگوں میں محبوب اور آنکھ کا تارا بن کر رہے۔ جب سے نفع پہنچانا چھوڑ دیا، زمین پر بوجھ اور مبغوض بن کر رہ گئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں اسلام کی اشاعت کا سب سے بڑا ذریعہ اسلام کے اعلیٰ اخلاق، خلقِ خدا کی ہے لوث خدمت، اور انسانوں کے دکھ درد میں ہاتھ بٹانا رہا ہے۔ عیسائی مشنریوں نے اسلام کے اس زریں اصول کو اپنا کر ایشیا، افریقہ میں عیسائیت کا جال بچھا دیا ہے۔ 

ورلڈ اسلامک فورم اسلام کے اس اہم شعبہ کی طرف پیش رفت اپنے تیسرے سالانہ سیمینار میں ایک مستقل فلاحی ادارے کے قیام کے فیصلہ سے کر رہی ہے جس کے ذمہ دار (۱) مولانا مفتی برکت صاحب (۲) مولانا محمد عمران خان جہانگیری صاحب (۳) جناب فیض اللہ خان صاحب (۴) جناب محمد شفیق صاحب (۵) الحاج محمد اشرف خان اور (۶) مولانا قاری عبدالرشید رحمانی ہیں، اور اس سلسلہ میں رابطہ مولانا عمران خان جہانگیری سے درج ذیل پتہ پر کیا جا سکتا ہے۔

……

فلاحی امور میں فورم کی ترجیحات مندرجہ ذیل ہوں گی:

(۱) کالج و یونیورسٹیوں کے ذہین و نادار طلبا کو وظائف دینا۔ 

(۲) علماء کرام کو تحقیقی و علمی کاموں کے لیے وظائف دینا۔ 

(۳) یتیم، بے سہارا اور نادار بچیوں کی شادیوں کا سادگی کے ساتھ انتظام کرنا۔ 

(۴) پسماندہ علاقوں میں دینی ماحول کے ساتھ مختلف ٹیکنیکل شعبے قائم کرنا تاکہ مسلمان بچے کو نئے ہنر سیکھا کر روزی روٹی کمانے کے قابل بنایا جا سکے۔ 

فورم نے ایک اسٹوڈنٹ کا سالانہ وظیفہ مبلغ ۱۰۰ پاؤنڈ اور ایک عالم دین کے لیے ۲۰۰ پاؤنڈ اور ایک نادار بچی کے شادی کے اخراجات مبلغ ۲۰۰ پاؤنڈ تجویز کیے ہیں۔ آپ اس معمولی سی رقم سے ایک اسٹوڈنٹ کا مستقبل روشن کر سکتے ہیں اور ایک عالم دین کی علمی و تحقیقی صلاحیت سے ملت اسلامیہ مستفید ہو سکتی ہے اور ایک غریب بچی کا گھر بس سکتا ہے۔ اسے آپ اپنی بیٹی بنا کر زندگی بھر دعائیں لے سکتے ہیں۔ اسی طرح ایسے پسماندہ علاقوں میں جہاں غربت و ناداری کفر تک پہنچا رہی ہے، پانچ ہزار پاؤنڈ کی رقم سے ایک ٹیکنیکل شعبہ قائم ہو سکتا ہے۔ نہ معلوم اس سے کتنے لوگ مستفید ہوں گے اور کتنے خاندانوں کے رزقِ حلال کا ذریعہ بنے گا اور ان کے دنیا و آخرت کے سنورنے کا سبب ہوگا۔ یہ صدقہ جاریہ حسبِ توفیق ایک فرد، ایک خاندان یا چند خاندان مل کر بھی انجام دے سکتے ہیں۔ آپ چاہیں تو کسی ایک شعبہ کے مستقل نگران بن سکتے ہیں، یا ایک فیملی کی طرف سے ایک رقم وقف کر کے اس کی آمدنی سے چلا سکتے ہیں۔ اس کار خیر میں آگے بڑھ کر للہ زکوٰۃ و صدقات کی وضاحت کے ساتھ آفس سے رابطہ فرمائیں۔

خیرے کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر 
زان پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند 
ترجمہ ’’اس سے پہلے کار خیر انجام دے لو کہ کہا جائے کہ آپ دنیا میں نہیں رہے۔‘‘

مسلمان کی دولت کا صحیح مصرف 

قرآن عزیز نے سینکڑوں جگہ انفاق فی سبیل اللہ، راہِ خدا میں خرچ کی ترغیب و حکم دیا گیا۔ قرآن حکیم کی ابتدا ہی یہ ہے: 

الم o ذالک الكتاب لا ريب فيہ ہدى للمتقين o الذين يؤمنون بالغيب ويقيمون الصلوٰۃ ومما رزقنہم ينفقون o

اسلام کے عناصر ثلاثہ (۱) ایمان بالغیب (۲) اقامتِ صلوٰۃ (تمام جسمانی اعمال)  (۳) انفاق راہِ خدا میں خرچ، خدا کی رضا کے لیے جان مال خرچ کرنا و مٹانا گویا انفاق اسلام کا ایک ثلث ایک تہائی ہے۔ قرآن نے تقویٰ کی جہاں تفسیر کی ہے، وہاں عموماً یہ تین اجزاء بیان کیے ہیں۔ پھر قرآن نے ہر جگہ مال کے انفاق کو جان کے انفاق پر مقدم کیا ہے۔ وجاہدوا فی سبيل اللہ باموالكم وانفسکم اسی طرح قرآن نے جہاں کہیں مال کے مصرف بیان کیے ہیں، وہ جیتے جاگتے انسان ہیں۔ واٰتی المال علیٰ حبہ ذوى القربی والیتمیٰ، انما الصدقات للفقراء رشتہ دار، فقراء، مساکین، یتامی مسافر، اسلامی ریاست کے کارپرداز، اور وہ لوگ جن سے سلوک کر کے یا ان کی ضروریات پوری کر کے اسلام کی طرف راغب کیا جا سکتا ہو۔

نبوت کے ۲۳ سالہ دور میں یہی نظر آتا ہے کہ مال ہمیشہ ضرورت مند انسانوں پر خرچ کیا گیا۔ رسولِ خداؐ نے مسجد یا مدرسہ کے لیے کبھی اس طرح چندہ نہیں فرمایا۔ مسجد نبویؐ انتہائی سادگی سے آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ نے مزدور بن کر اپنے ہاتھوں سے تعمیر کی۔ جب انتہائی ثروت و مالداری آئی تب بھی سادگی کا یہی عالم رہا۔ دورِ نبوت میں سینکڑوں مساجد بن چکی تھیں اور ان میں تعلیم و تربیت کا اعلیٰ درجہ کا نظام قائم ہو چکا تھا۔ مگر آپ کو ان کے لیے مالی ترغیب و اپیل شاذ و نادر ہی ملے گی۔ اس کے برخلاف جہاد یا انسانوں کی ضرورتوں کے لیے مالی ترغیب و اپیل کی سینکڑوں ہزاروں روایات و واقعات بآسانی مل جائیں گے۔ 

مکہ مکرمہ میں ابتدائے اسلام میں بھی اسلام میں داخل ہونے والوں کی ضرورتوں کے لیے ہر وقت مالی ایثار کیا گیا۔ اور مدینہ منورہ میں کبھی شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ آپؐ نے انسانوں کے لیے مسجد نبویؐ میں ترغیب و اعلان نہ فرمایا ہو۔ ہر روز ہی باہر سے آنے والوں کو صحابہ مہمان بنا کر لے جاتے، اور جو بچ رہتے وہ رسولِ خداؐ کے مہمان ہوتے۔ جب کبھی کسی علاقے کے ضرورت مند لوگ مدینہ منورہ آئے آپؐ نے فوراً‌ ان کے کپڑوں کے لیے، ان کے کھانے کے لیے، اور دیگر ضروریات کے لیے ترغیب دی اور چندہ کیا۔ جب کبھی آپؐ کو کسی علاقہ میں قحط یا کسی آفت کی خبر ملی، جو بھی بن پڑا آپؐ نے ان کی امداد کے لیے کوشش کی۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق بھی روا نہیں رکھی۔ فتح مکہ سے پہلے جب مکہ میں قحط پڑا، آپؐ نے کھانے پینے کی چیزوں اور نقد اموال سے مدد فرمائی، باوجودیکہ آپؐ برسوں سے اہلِ مکہ کے ساتھ حالتِ جنگ میں تھے۔ 

غرض اسلام کا مزاج انسانوں پر خرچ کرنے کا ہے نہ کہ عمارتوں پر۔ اس کے برخلاف آج مسلمانوں کے اموال کا بڑا حصہ انسانوں کے بجائے اینٹ پتھر پر لگ رہا ہے۔ یتیموں، بیواؤں، ناداروں، بیماروں اور محتاجوں کا حق مار کر عالی شان مساجد و مدارس بن رہے ہیں، اور ظلم یہ ہے کہ انہیں دین کے قلعے کہا جا رہا ہے۔ مختلف قسم کے حیلے کر کے چندوں کا بڑا حصہ تعمیر میں لگایا جا رہا ہے۔ 

اب تو کمیشن اور دلالی کے ذریعہ چندہ کرنے والے پیشہ ور لوگوں کا ایک نیا طبقہ وجود میں آچکا ہے۔ چندہ کے لیے ایسے ایسے رکیک و ذلیل طریقے ایجاد کیے جا رہے ہیں جس نے علم، علماء اور خود اسلام کو ذلیل کر رکھا ہے۔ یہ وبا زیادہ تر برصغیر کے لوگوں میں ہے جہاں اہل علم گھٹیا بھکاری کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ہماری عمارتیں جتنی بلند و بالا ہوتی جا رہی ہیں اہلِ علم کا احترام، وقار اور عزت اتنی ہی گرتی جا رہی ہے۔ رمضان میں غول کے غول نازل ہوتے ہیں۔ شریف لوگوں نے دوکان پر بیٹھنا چھوڑ دیا ہے۔ یہاں روزانہ ہی مساجد میں کپڑا بچھا کر مانگنے کا جو شرمناک منظر سامنے آتا ہے، ہر غیرت مند انسان شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے۔ پتہ نہیں یہ کون سا اسلام ہے جو اپنے کو، علماء کو، بلکہ خود اسلام کو ذلیل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ 

زکوٰۃ و صدقات جو ضرورت مند انسانوں کا حق تھا، اس کا بھی بڑا حصہ مختلف حیلوں کے ذریعہ عمارتوں میں لگ رہا ہے۔ ہندوستان کے غریب مسلمانوں کا سالانہ نہیں ہفتہ وار کروڑوں ان پر لگایا جاتا ہے۔ جبکہ اسی بھارت میں ایک ایک شہر ایسا ہے جہاں ہزارہا یتیم بے سہارا غریب بچیاں صرف اسی لیے کنواری بیٹھی ہیں کہ ان کی شادی کے لیے چند سو روپیہ نہیں ہے۔ صرف ایک شہر حیدر آباد میں ایک سروے کے مطابق ۳۰ ہزار سے زائد ایسی بچیاں ہیں۔ لاکھوں مسلمان بچیاں گھر کی بنیادی ضرورتوں سے مجبور ہو کر ملازمت محنت و مزدوری کر رہی ہیں جن کی عصمت و آبرو ہر وقت خطرے میں ہے۔ کتنے ہی علماء کرام اور دین کے کام کرنے والے بڑھاپے میں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ نہ علاج کے لیے پیسے ہیں نہ بچوں کی شادی کے لیے۔ 

دنیا میں کروڑوں مسلمانوں کو زندگی کی بنیادی ضرورتیں میسر نہیں ہیں۔ روٹی، دوا دارو اور نکاح انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ گزشتہ سالوں میں صومالیہ، یوگنڈا، سوڈان، حبشہ میں لاکھوں مسلمان بھوک سے مر چکے ہیں مگر ہمارے ہاں اسلام اور دین کے نام پر عالیشان مساجد و مدارس کی تعمیر کی عیاشیوں پر کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ حرص اور بڑھ چکی ہے۔ ہر کوئی اپنے گاؤں میں دین کے نام پر ایک تاج محل بنانے کا متمنی ہے۔ اس طرز عمل پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دینداروں اور علماء کا یہ طرز عمل اسلام سے برگشتہ و بیزار کرنے کا ذریعہ تو نہیں بن رہا؟ ماضی قریب میں بخارا، سمرقند و تاشقند میں الحاد و کمیونزم کا ایک بڑا سبب مالیات کا غلط صَرف بھی تھا۔ نتیجہ: جو نوجوان علماء کرام کے ہاتھ چوما کرتے تھے انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ان کی گردنیں اتاریں۔ بغداد کا زوال ہو یا اسپین کی تباہی، غور کیا جائے تو اس میں مالی بدعنوانیوں کا بھی بڑا دخل تھا۔ وہاں بھی انسانوں کی بنیادی ضرورتوں، علمی و دینی ضرورتوں کے بجائے عمارتوں کی عیاشیوں پر بے تحاشا دولت خرچ کی گئی۔ اس دور کے ایک عارف باللہ کا قول ہے مسلمانوں کے مال کے غلط خرچ پر خدا نے ان پر پوری دنیا میں دو عذاب مسلط کر دیے ہیں یعنی کمیونزم اور کیپیٹل ازم۔ 

حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں



ورلڈ اسلامک فورم

(اکتوبر ۱۹۹۶ء)

اکتوبر ۱۹۹۶ء

جلد ۷ ۔ شمارہ ۴

ورلڈ اسلامک فورم کی چار سالہ کارگزاری
مولانا محمد عیسٰی منصوری

فورم کے پہلے باضابطہ اجلاس کا دعوت نامہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ورلڈ اسلامک فورم کا قیام
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

لندن میں ماہانہ فکری نشست کا آغاز: مولانا سعید احمد پالنپوری کا فکر انگیز خطاب
ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کا پہلا سالانہ سیمینار
ادارہ

مغربی ممالک میں مسلمان بچوں کی دینی تعلیم
ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کا دوسرا سالانہ تعلیمی سیمینار
ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کی مرکزی کونسل کا سالانہ اجلاس
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مغربی میڈیا اور عالمِ اسلام
ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کا تیسرا سالانہ سیمینار
ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کا دوسرا سالانہ میڈیا سیمینار
ادارہ

ڈاکٹر سید سلمان ندوی کا دورہ برطانیہ
ادارہ

اقوامِ متحدہ کی قاہرہ کانفرنس اور عالمِ اسلام
ادارہ

آزادیٔ صحافت کے عالمی دن کے موقع پر گوجرانوالہ میں مجلسِ مذاکراہ
ادارہ

مولانا محمد عیسیٰ منصوری کا دورۂ جنوبی افریقہ
ادارہ

انسانی حقوق اور سیرتِ نبویؐ
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

علماء کو مولانا ابو الحسن علی ندوی کی تلقین
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ

ورلڈ اسلامک فورم کے قیام پر مہتمم دارالعلوم دیوبند کی مبارکباد
مولانا مرغوب الرحمٰن بجنوری

پاکستان شریعت کونسل کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شورٰی کا تاسیسی اجلاس
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter