ورلڈ اسلامک فورم نے لندن میں ماہانہ فکری نشست کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں پہلی نشست ۲۰ جولائی ۹۳ء کو ختم نبوت سنٹر، ۳۵ سٹاک ویل گرین، لندن میں فورم کے سرپرست مولانا مفتی عبد الباقی کی زیر صدارت منعقد ہوئی، جس میں آل انڈیا مجلس تحفظ ختم نبوت کے سیکرٹری جنرل اور دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث مولانا سعید احمد پالن پوری بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ جبکہ لندن کے مختلف علاقوں سے علماء اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی۔
مولانا حافظ ممتاز الحق کی تلاوت کلام پاک کے بعد فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے معزز مہمان اور دیگر مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور فورم کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم کے قیام کے تین بڑے مقاصد ہیں:
- ایک یہ کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغربی میڈیا کی یکطرفہ منفی مہم کا ادراک حاصل کیا جائے اور اس کے جواب کے لیے سائنٹیفک طریق کار اختیار کیا جائے۔
- دوسرا یہ کہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی نئی پود کے لیے اس کی ذہنی سطح اور نفسیات کے مطابق دینی تعلیم اور لٹریچر کا اہتمام کیا جائے۔
- اور تیسرا یہ کہ عالم اسلام میں کام کرنے والی دینی تحریکات کے درمیان رابطہ و مشاورت کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
ان مقاصد کے لیے ۱۵ اگست کو بین الاقوامی سیمینار کے انعقاد کے علاوہ لندن میں ایک ماہانہ فکری نشست کا سلسلہ بھی شروع کیا جا رہا ہے اور ہماری کوشش ہوگی کہ ہر نشست میں کسی ممتاز دانشور اور صاحبِ فکر کو اظہارِ خیال کی دعوت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہماری پہلی فکری نشست ہے اور یہ بات باعثِ سعادت ہے کہ مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری اس نشست میں ہمارے مہمان خصوصی ہیں۔
مولانا سعید احمد پالن پوری نے خطاب کرتے ہوئے مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی تعلیمی اور دینی ضروریات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اور اس بات پر بطور خاص زور دیا کہ دنیا کے چار براعظموں امریکہ، یورپ، افریقہ اور آسٹریلیا میں مقیم مسلمانوں کے بچوں کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کے لیے ان خطوں کے معاشرتی ماحول، نفسیات اور ذہنی سطح کو سامنے رکھنا ضروری ہے، ورنہ دینی تعلیم کے مقاصد پورے نہیں ہو سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے اکابر و اسلاف نے ہر دور میں دین کی دعوت و تعلیم کے لیے اس دور کی زبان اختیار کی ہے:
- ایک دور وہ تھا جب دعوت و تعلیم میں سادگی تھی اور سادہ زبان میں بات ہو جاتی تھی،
- لیکن پھر دور بدلا اور یونانی فلسفہ کے مسلمانوں میں آ جانے سے فلسفہ و منطق اور عقلیات کی زبان کا رواج ہوا، چنانچہ اس دور کے اہل علم و دانش نے فلسفہ و منطق کی زبان میں مہارت حاصل کی اور اس میں اسلام کی تعلیمات و احکام کو دنیا کے سامنے پیش کیا، حتیٰ کہ ایک دور ایسا بھی آیا کہ ہمارے دینی مدارس کے نصابِ تعلیم میں تین چوتھائی حصہ منطق و فلسفہ کی کتابوں پر مشتمل تھا۔ یہ اس دور کی ضرورت تھی، کیونکہ اس کے بغیر اس دور کی زبان میں اسلام کی تعلیم و دعوت کو پیش نہیں کیا جا سکتا تھا،
- لیکن اب یہ دور بھی باقی نہیں رہا اور اب عقلیات کے بجائے مشاہدات و محسوسات نے انسانی ذہن پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ اور یہ بات تو آج سے تین سو سال پہلے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے فرما دی تھی کہ آئندہ اسلامی احکام و تعلیمات کو دلائل و براہین کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ جیسی بے مثال کتاب بھی تصنیف کی۔ آج وہ دور آگیا ہے، بلکہ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے تبدیلی کا یہ عمل شروع ہے، اور اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ علمائے کرام محسوسات کی زبان میں مہارت حاصل کریں اور اس زبان میں اسلام کی دعوت و تعلیم کا سلسلہ منظم کریں۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک بچوں کی تعلیم و تربیت کا تعلق ہے، یہ بات تجربہ کے ساتھ سامنے آچکی ہے کہ دنیا کے باقی بر اعظموں میں ایشیائی طرز تعلیم کامیاب نہیں ہے کیونکہ امریکہ، یورپ، افریقہ اور آسٹریلیا میں بچوں کی ذہنی سطح مختلف ہے، وہ ہر بات کو سمجھ کر پڑھنا چاہتے ہیں۔ آپ ان کے سامنے کوئی بات بھی کریں، ان کا پہلا سوال ہو گا ’’کیسے؟‘‘ اس کیسے کا جواب دیے بغیر آپ ان سے کوئی بات قبول نہیں کرا سکتے۔ لیکن مجبوری یہ ہے کہ یہاں تعلیم کے لیے اساتذہ ایشیا سے آتے ہیں جنہوں نے ایشیائی طرز تعلیم کے مطابق تربیت پائی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ اسی طرز سے پڑھائیں گے اور اس طرح استاد اور شاگرد کے درمیان ذہنی بُعد اور خلا باقی رہ جاتا ہے، جس کی وجہ سے تعلیمی مقاصد حاصل نہیں ہو رہے۔ ہمیں اس فرق کا اچھی طرح ادراک کرنا ہوگا اور اس کو دور کرنے کے لیے منظم اور مسلسل محنت کرنا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اس کا یہ حل پیش کیا جاتا ہے کہ ایشیا کے دینی مدارس اپنا نصاب و نظام تبدیل کریں، لیکن یہ حل درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ ایشیا کے دینی مدارس بنیادی طور پر وہاں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور وہاں سے دوسرے براعظموں میں جانے والے فضلاء کا تناسب ایک فیصد بھی نہیں ہے، اس لیے ایک فیصد کی خاطر باقی نظام تو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہ ایک فیصد بھی کسی منظم پروگرام کے تحت دوسرے براعظموں میں نہیں جاتے، مختلف حوالوں سے جس کا جہاں کام بن جاتا ہے، وہ وہاں پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے ان کے لیے الگ تعلیمی شعبوں کا اہتمام بھی قابل عمل نہیں ہے۔ اور مسئلہ کا حل ایک ہی نظر آتا ہے کہ جو علماء، قراء، حفاظ اور ائمہ مساجد مختلف ذرائع سے ان ممالک میں پہنچ گئے ہیں یا پہنچ رہے ہیں، ان کے لیے انہی ممالک میں ایسے کورسز کا اہتمام کیا جائے جن میں انہیں انگلش زبان پڑھائی جائے، مقامی معاشرے کے تقاضوں سے روشناس کرایا جائے، اور تعلیمی ضروریات سے آگاہ کیا جائے، تاکہ وہ یہاں کی ضروریات اور ماحول کے مطابق دینی و تعلیمی خدمات سرانجام دے سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم کے مقاصد سے آگاہی حاصل کر کے انہیں خوشی ہوئی ہے اور اگر فورم اس قسم کے کورسز کا لندن میں اہتمام کر سکے تو یہ بڑی دینی خدمت ہو گی۔ انہوں نے علماء پر زور دیا کہ وہ زمانہ کی تبدیلیوں کا احساس کریں اور ان کے مطابق اپنے طرز عمل میں بھی تبدیلی پیدا کریں، ورنہ وہ زمانے کا ساتھ نہیں دے سکیں گے اور نہ اپنے فرائض سے پوری طرح عہدہ برآ ہو سکیں گے۔
نشست کے اختتام پر ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے مہمان خصوصی اور دیگر مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور فورم کی پہلی ماہانہ فکری نشست کی کامیابی پر مسرت کا اظہار کیا۔