مغربی ممالک میں مسلمان بچوں کی دینی تعلیم

ادارہ

مغربی ممالک میں مسلمان بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کی ضروریات اور دینی مکاتب کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام دینی مکاتب کے چند سینئر اساتذہ اور دیگر متعلقہ حضرات کے درمیان ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا۔ یہ مذاکرہ ۱۳ اکتوبر ۹۳ء کو مرکز الدعوة والارشاد پلیشٹ گروو ایسٹ ہیم لندن میں منعقد ہوا جس کی صدارت مولانا محمد اسماعیل بوٹا نے کی اور اس میں مولانا مسعود عالم قاضی، مولانا عبد الرشید رحمانی، مولانا فیاض عادل فاروقی، حاجی افتخار احمد، حاجی ولی آدم پٹیل، حافظ حفظ الرحمٰن تاراپوری اور حاجی غلام قادر کے علاوہ ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی اور سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر یہ طے کیا گیا کہ مذاکرہ میں زیربحث آنے والی اہم اور مفید تجاویز پر مشتمل ایک رپورٹ مرتب کر کے اخبارات و جرائد اور دینی مکاتب کے منتظمین و اساتذہ تک پہنچائی جائے، تاکہ زیادہ سے زیادہ حضرات اس سے استفادہ کر سکیں۔

ضروریاتِ دین کا دائرہ 

مذاکرہ میں اس امر کا جائزہ لیا گیا کہ مغربی معاشرہ میں ان ’’ضروریاتِ دین‘‘ کا دائرہ کیا ہے جن کی تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرضِ عین ہے اور جن کے بغیر کوئی شخص اس معاشرہ میں ایک صحیح مسلمان کے طور پر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اور بحث و تمحیص کے بعد والدین، اساتذہ اور خطبا و ائمہ سے یہ گزارش کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں مندرجہ ذیل امور کے حوالہ سے بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دیں: 

  • یورپی معاشرت کی بنیاد مادہ پرستی اور دہریت پر ہے، اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو ابتدا ہی سے اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی قدرت، توحید باری تعالیٰ، کائنات کے نظام کے بارے میں قرآنی عقائد، رسالت، ختم نبوت، قیامت اور قرآن و سنت کی اہمیت کے سلسلہ میں ضروری باتیں ذہن نشین کرائی جائیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلی ذمہ داری ماں باپ کی ہے اور پھر دینی مکاتب کے اساتذہ کی کہ وہ بچوں کی ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ ان کی اعتقادی تعلیم کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی شعوری اور مربوط کوشش کریں۔ 
  • اعتقادات و ایمانیات کے بعد عبادات یعنی نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے ضروری مسائل کی تعلیم ضروری ہے۔ لیکن صرف مسائل کی تعلیم کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ان عبادات کی اہمیت و افادیت کو ذہن نشین کرانا اور ان بچوں کی ذہنی سطح اور نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں ان عبادات کا شعوری طور پر قائل کرنا ضروری ہے، تاکہ وہ بوجھ سمجھ کر نہیں بلکہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے عبادات کی طرف مائل ہوں۔
  • اخلاقیات و معاملات میں بچوں کو اسلامی احکام کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ یورپی معاشرت کی مادہ پرستانہ اخلاقیات کے نقصانات سے آگاہ کرنا، اور ان کے ذہنوں میں اسلامی اخلاق اور یورپی اخلاق کے فرق کو واضح کر کے اسلامی اخلاق کی افادیت اور برتری کو شعوری طور پر واضح کرنا ضروری ہے۔ 
  • روز مرہ کے معمولات اور استعمال میں آنے والی اشیا کے حوالہ سے حلال و حرام کا فرق ذہن نشین کرانا ضروری ہے۔ 
  • حجاب و حیا کے شرعی مسائل سے واقف کرانے کے ساتھ مرد و عورت کے اختلاط کے نقصانات اور اس سے پیدا ہونے والی معاشرتی خرابیوں سے بھی بچوں کو آگاہ کیا جائے۔
  • اس معاشرہ میں رہنے والے نوجوانوں کو عیسائیت، یہودیت، ہندو ازم اور سکھ مذہب کے بنیادی عقائد اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے اعتقادی اور معاشرتی فرق و اختلاف سے بھی آگاہ ہونا چاہیے۔ 
  • اسلام کے حوالہ سے ابھرنے والے اعتقادی فتنوں مثلاً‌ تجدد پسندی، قادیانیت اور انکارِ حدیث کے دینی نقصانات سے بچوں کا واقف ہونا ضروری ہے۔ 

شرکائے مذاکرہ کی رائے یہ ہے کہ اگر والدین اور اساتذہ میں ان امور کی اہمیت کا احساس بیدار ہو جائے اور وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالہ سے اپنے معمولات میں اس کے مطابق ترتیب پیدا کر لیں تو یہ مقاصد بآسانی موجودہ وسائل اور نظام سے بھی کسی حد تک پورے ہو سکتے ہیں۔ اور اس کے لیے مناسب ہو گا کہ وقتاً‌ فوقتاً‌ اساتذہ اور والدین کے اجتماعات کر کے ان سے ان امور پر تبادلہ خیال کیا جائے۔

دینی مکاتب کی کارکردگی

مذاکرہ میں مغربی ممالک میں مساجد میں قائم دینی مکاتب کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا جو ہفتہ کے دوران شام کو دو گھنٹے یا ویک اینڈ پر ہفتہ اور اتوار کی کلاسوں کی صورت میں جاری ہیں۔ اور یہ محسوس کیا گیا کہ ان مکاتب کا وجود بسا غنیمت ہے، جو مسلمان بچوں کو قرآن کریم اور دین سے وابستہ رکھنے کا عالمِ اسباب میں اس وقت واحد ذریعہ ہے، اور اس سلسلہ میں منتظمین اور اساتذہ کی محنت بلاشبہ لائقِ ستائش ہے، لیکن اس ضمن میں مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے:

  • مسلم کمیونٹی کی مجموعی آبادی میں سے مساجد و مکاتب میں آنے والے بچوں کا تناسب دیکھا جائے، اور مسجد و مکتب میں نہ آنے والے بچوں کو مکتب میں لانے یا ان تک متبادل ذرائع سے تعلیم پہنچانے کا مناسب اور قابلِ عمل ذریعہ اختیار کیا جائے۔ 
  • مکاتب میں صرف قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم دی جاتی ہے، بعض میں حفظ قرآن کا اہتمام بھی ہے، اور اس کے ساتھ عبادات کے حوالہ سے مسائل و احکام کی تعلیم ہوتی ہے۔ یہ انتہائی ضروری ہونے کے باوجود ناکافی ہے اور اس کے ساتھ ضروریاتِ دین کے مذکورہ بالا پیکج کو ایڈجسٹ کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر ایک مسلمان نوجوان کی دینی تعلیم مکمل نہیں ہو سکتی۔
  • ان مکاتب میں قرآن کریم ناظرہ مکمل کر لینے اور اس کے ساتھ مروجہ تعلیم حاصل کر لینے کے بعد عام طور پر ایک مسلمان بچہ دینی تعلیم سے فارغ سمجھا جاتا ہے، اور ایسا عام طور پر بارہ تیرہ سال کی عمر میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس بچے کا مسجد و مکتب یا دینی تعلیم کے کسی سسٹم کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہیں رہ جاتا، جو شرکائے مذاکرہ کی رائے میں سب سے زیادہ خطرناک بات ہے۔ کیونکہ ایک نوجوان کی شخصیت و کردار کی تشکیل اور عادات و اخلاق کے رسوخ کی یہی عمر ہوتی ہے۔ اس لئے مناسب ہو گا کہ تعلیمی نصاب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے: پہلے حصہ میں پانچ سال سے بارہ سال تک کی عمر کے بچوں کو قرآن کریم اور ضروریاتِ دین کا مذکورہ بالا نصاب پڑھایا جائے، اور دوسرے حصہ میں بارہ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کو اردو پڑھنا سکھایا جائے، اور گرامر کی ضروری تعلیم کے ساتھ قرآن کریم کا ترجمہ، احادیث کا ایک منتخب کورس، اور فقہ کی کوئی ایک کتاب پڑھا دی جائے۔
  • شرکائے مذاکرہ کی رائے یہ ہے کہ بچوں کو تعلیم اسی زبان میں دی جائے جسے وہ زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ اس معاشرہ میں وہ زبان انگلش ہے اور انگلش نہ جانے والے اساتذہ اس سلسلہ میں تھوڑی سے مشقت گوارا کر کے انگلش زبان کے نائٹ کورسز کے ذریعہ اپنی اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کریں تاکہ وہ تعلیمی ذمہ داری کو زیادہ بہتر طور پر ادا کر سکیں۔ 
  • چونکہ دینی لٹریچر زیادہ تر عربی اور اردو میں ہے، اس لئے غیر عرب بچوں کو اردو بطور زبان سکھانا ضروری ہے۔ تاکہ وہ دینی لٹریچر کے ساتھ وابستہ رہیں اور اس سے استفادہ کر سکیں۔

خط و کتابت کورسز 

مذاکرہ میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام شروع کیے جانے والے خط و کتابت کورسز کے پروگرام کا بھی جائزہ لیا گیا۔ شرکائے مذاکرہ کو بتایا گیا کہ یہ کورسز سولہ سال سے زائد عمر کے مسلم نوجوانوں کے لئے شروع کیے جا رہے ہیں، جن میں بڑی عمر کے حضرات بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ ان کورسز کا اہتمام اسلام آباد انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کے ایک شعبہ انٹرنیشنل الدعوۃ اکیڈیمی کے تعاون سے کیا جا رہا ہے اور یہ کورسز دو زبانوں اردو اور انگلش میں ہوں گے۔ ان میں سے پہلا کورس اردو میں ’’مطالعہ قرآن‘‘ کا کورس ہے جو یکم جنوری ۹۴ء سے شروع کیا جا رہا ہے، جبکہ دوسرا کورس انگلش میں ’’مطالعہ اسلام‘‘ کا کورس ہو گا جس کا آغاز یکم جولائی ۹۴ء سے کیا جائے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ان کورسز کے لیے مدنی مسجد نوٹنگھم برطانیہ میں مستقل سب آفس قائم کر دیا گیا ہے، جو فورم کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا رضاء الحق کی نگرانی میں کام کرے گا۔ سب آفس کا ایڈریس یہ ہے …… ان کورسز کے بارے میں مزید معلومات کے لیے سب آفس سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

تجرباتی مکتب

مذاکرہ کے دوران بتایا گیا کہ ورلڈ اسلامک فورم نے اس مذاکرہ کی روشنی میں مرتب ہونے والی رپورٹ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ مسلم کمیونٹی کو وسیع طور پر ان ضروریات کی طرف توجہ دلائی جا سکے۔ نیز یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ اس رپورٹ کی بنیاد پر ایک تجرباتی مکتب فورم کے زیراہتمام لندن میں قائم کیا جائے گا، جو امید ہے کہ اگست ۹۴ء کے دوران کام شروع کر دے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اور اس کے تفصیلی پروگرام کا اعلان ۷ اگست ۹۴ء کو اسلامک سنٹر ریجنٹ پارک لندن میں منعقد ہونے والے ورلڈ اسلامک فورم کے دوسرے سالانہ بین الاقوامی سیمینار میں کر دیا جائے گا۔

دینی مکاتب کی انتظامی کمیٹیاں

مذاکرہ میں دینی مکاتب کا نظام چلانے والی کمیٹیوں کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا اور اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ مسلم کمیونٹی کے اصحابِ خیر اپنا وقت اور مال صَرف کر کے دینی تعلیم کے نظام کو چلانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، جو لائق تحسین ہے، تاہم تین امور کی طرف ان کمیٹیوں کو بھی بطور خاص توجہ دلانے کا فیصلہ کیا گیا:

  • انتظامی کمیٹیوں کے ارکان کی غالب اکثریت تمام تر خلوص، ایثار اور محنت کے باوجود چونکہ تعلیم کی فنی مہارت اور تجربہ سے بہرہ ور نہیں ہوتی، اس لیے ضروری ہے کہ دینی مکاتب کی انتظامی کمیٹیاں تعلیمی نصاب و نظام کو بہتر طور پر چلانے کے لیے جید علماء اور ماہرین تعلیم (قدیم و جدید) پر مشتمل نگران سب کمیٹیاں تشکیل دیں، اور تمام تر تعلیمی امور ان نگران کمیٹیوں کے ذریعہ کنٹرول کئے جائیں۔
  • ان مکاتب میں تعلیم دینے والے اساتذہ کی تنخواہوں کی مروجہ سطح تسلی بخش نہیں ہے، اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، تاکہ اساتذہ معاشی تفکرات سے آزاد ہو کر دل جمعی کے ساتھ کام کر سکیں۔ 
  • بہت سے مکاتب میں طلبہ کی تعداد اساتذہ کی استعداد کار سے بہت زیادہ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے کام صحیح طور پر نہیں چل سکتا، اس لیے ضروری ہے کہ طلبہ کی تعداد، استاذ کی استعداد کار، اور کلاس کے وقت تینوں امور کے درمیان توازن قائم کیا جائے۔

نصاب اور طرز تعلیم

مذاکرہ میں دینی مکاتب میں مروجہ نصاب ہائے تعلیم اور طرزِ تعلیم کا بھی جائزہ لیا گیا اور ان دونوں پر نظرثانی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ بحث و مباحثہ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ نصاب کے طور پر پڑھائے جانے والے بیشتر رسالے بچوں کی مانوس زبان میں نہیں ہیں۔ جو رسالے انگلش میں ہیں، ان کی زبان کا معیار بچوں کی عمر اور ذہنی سطح سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اور اردو میں پڑھائے جانے والے کتابچے بھی اپنے مضامین و مواد کی قدر و اہمیت کے باوجود زبان کے لحاظ سے بچوں کی ذہنی سطح سے بلند ہیں۔ 

اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی تعلیم کے نصاب اور طرز دونوں کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے اور ایسی زبان اور طریق کار اختیار کیا جائے جس سے بچے زیادہ مانوس ہوں اور ان کے لئے اس میں شوق اور کشش کے اسباب بھی موجود ہوں۔ شرکائے مذاکرہ کی رائے میں اگرچہ اس سلسلہ میں کوئی موثر پیش رفت فوری طور پر ممکن نہیں ہے اور یہ مقاصد ایک تدریجی عمل کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتے ہیں، تاہم اس سلسلہ میں وقتاً‌ فوقتاً‌ اساتذہ کے لئے ریفریشر کورسز اور بریفنگ کا اہتمام کر کے موجودہ صورت حال کو کافی حد تک بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔ 

مزید برآں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے شرکائے مذاکرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم نے گذشتہ سال نومبر میں میڈیا اور تعلیم کے محاذ پر آج کے تقاضوں کا احساس دلانے کے لئے جس مہم کا آغاز کیا تھا، اس میں بحمد اللہ تعالیٰ خاصی پیشرفت ہوئی ہے اور دینی و علمی حلقوں میں یہ احساس منظم ہو رہا ہے۔ تاہم اس سلسلہ میں ابھی بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں جن میں سب سے بڑی رکاوٹ وسائل کی کمی ہے۔ ہم نے فورم کے قیام کے ساتھ ہی بنیادی پالیسی کے طور پر اعلان کر دیا تھا کہ ہم کسی حکومت کی لابی سے وابستہ نہیں ہوں گے اور نہ ہی اجتماعات میں چندہ کا مروجہ طریقہ اختیار کریں گے۔ ہم اس پالیسی پر مستقل طور پر قائم رہنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سنجیدہ اصحابِ خیر اس طرف متوجہ ہوں اور اس مہم کو آگے بڑھانے میں ہمارے شریک کار بنیں۔ 

انہوں نے کہا کہ اگلے سال سمر کے دوران برطانیہ کی سطح پر دینی مکاتب کے اساتذہ، کالج کی سطح کے طلبہ، اور علماء کرام کے لیے ریفریشر کورسز کا پروگرام مرتب کیا جا رہا ہے، جس کی تفصیلات کا اعلان ان شاء اللہ تعالیٰ جلد کر دیا جائے گا۔ انہوں نے علماء کرام، اصحاب دانش، ماہرین تعلیم اور اصحابِ خیر سے اپیل کی ہے کہ وہ ان امور کی طرف توجہ دیں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں فورم کے مقاصد اور پروگرام کے لئے تعاون کا اہتمام کریں۔


ورلڈ اسلامک فورم

(اکتوبر ۱۹۹۶ء)

اکتوبر ۱۹۹۶ء

جلد ۷ ۔ شمارہ ۴

ورلڈ اسلامک فورم کی چار سالہ کارگزاری
مولانا محمد عیسٰی منصوری

فورم کے پہلے باضابطہ اجلاس کا دعوت نامہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ورلڈ اسلامک فورم کا قیام
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

لندن میں ماہانہ فکری نشست کا آغاز: مولانا سعید احمد پالنپوری کا فکر انگیز خطاب
ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کا پہلا سالانہ سیمینار
ادارہ

مغربی ممالک میں مسلمان بچوں کی دینی تعلیم
ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کا دوسرا سالانہ تعلیمی سیمینار
ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کی مرکزی کونسل کا سالانہ اجلاس
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مغربی میڈیا اور عالمِ اسلام
ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کا تیسرا سالانہ سیمینار
ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کا دوسرا سالانہ میڈیا سیمینار
ادارہ

ڈاکٹر سید سلمان ندوی کا دورہ برطانیہ
ادارہ

اقوامِ متحدہ کی قاہرہ کانفرنس اور عالمِ اسلام
ادارہ

آزادیٔ صحافت کے عالمی دن کے موقع پر گوجرانوالہ میں مجلسِ مذاکراہ
ادارہ

مولانا محمد عیسیٰ منصوری کا دورۂ جنوبی افریقہ
ادارہ

انسانی حقوق اور سیرتِ نبویؐ
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

علماء کو مولانا ابو الحسن علی ندوی کی تلقین
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ

ورلڈ اسلامک فورم کے قیام پر مہتمم دارالعلوم دیوبند کی مبارکباد
مولانا مرغوب الرحمٰن بجنوری

پاکستان شریعت کونسل کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلس شورٰی کا تاسیسی اجلاس
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter