وہ گزشتہ روز اسلامک سنٹر سیلون روڈ اپٹن پارک لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیراہتمام منعقدہ جلسہ سیرت النبیؐ سے ’’انسانی حقوق اور سیرتِ نبویؐ‘‘ کے موضوع پر خطاب کر رہے تھے۔ جلسہ کی صدارت مولانا مفتی عبد الباقی نے کی اور اس سے مولانا زاہد الراشدی، مولانا منظور احمد الحسینی اور مولانا قاری عبد الرشید رحمانی نے بھی خطاب کیا۔
جسٹس عثمانی نے کہا کہ آج مغربی اقوام انسانی حقوق کے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں لیکن ہیروشیما، ناگاساکی، بوسنیا، الجزائر، فلسطین اور دیگر مقامات پر دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ جب مغربی اقوام کے مفادات کی بات سامنے آتی ہے تو انسانی حقوق کے یہ علمبردار نہ بے گناہ آبادی پر ایٹم بم گرانے سے گریز کرتے ہیں، نہ انسانی آبادی کے وحشیانہ قتل عام پر انہیں غصہ آتا ہے، اور نہ ملک کی اکثریت کے فیصلہ کو قوت کے بل پر مسترد کر دینے میں انہیں جمہوریت کے لیے کوئی خطرہ دکھائی دیتا ہے۔ اور مغرب کے اس دوہرے معیار نے اس کے چہرے سے انسانی ہمدردی اور انسانی حقوق کا نقاب نوچ کر رکھ دیا ہے۔ اس کے برعکس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن انسانی حقوق کا اعلان کیا، ان پر عمل کر کے دکھایا، اور انسانی جان و مال اور آبرو کے تحفظ کا وہ معیار پیش کیا جس کی کوئی مثال اس کے بعد سامنے نہیں لائی جا سکی۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے حوالہ سے مغرب کا فلسفہ کھوکھلا ہے کیونکہ اس کی بنیاد انسانی عقل پر ہے، اور انسانی عقل محدود ہے جو پوری انسانی آبادی کی ضروریات اور تقاضوں کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی حقوق کی جو بنیاد فراہم کی ہے، اس کی بنیاد وحی الٰہی پر ہے اور وحی الٰہی کے علاوہ اور کوئی ممکن ذریعہ ایسا نہیں ہے جس سے تمام انسانوں کی ضروریات اور تقاضوں کا یکساں ادراک کیا جا سکے۔ اس لیے دنیا کو بالآخر وحی کی طرف واپس لوٹنا ہو گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنانا ہو گا۔ جسٹس نے اس بات پر زور دیا کہ علماء نبی کریم کی تعلیمات اور سیرت ِطیبہؐ کو آج کی ضروریات کے حوالہ سے سامنے لائیں تاکہ دکھی انسانیت ہدایت کے اس سرچشمہ سے فیض یاب ہو سکے۔
(مطبوعہ روزنامہ جنگ لندن ۳ ستمبر ۱۹۹۳ء)