انسانی اخلاق کی چار بنیادیں

حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

ہمارے نزدیک شاہ ولی اللہؒ حکیم و صدیق ہیں جنہوں نے سارے ادیان، مذاہب اور شریعتوں کا اصلاً‌ ایک ہونا ثابت کیا اور پھر ان بنیادی اصولوں کا تعین بھی کیا جو ہر دین کا مقصودِ حقیقی تھے اور ہر مذہب اور شریعت ان کو پورا کرنا اپنا فرض سمجھتی رہی۔ شاہ صاحب ’’ہمعات‘‘ میں لکھتے ہیں: اس فقیر پر یہ بات روشن کی گئی ہے کہ تہذیبِ نفس کے سلسلے میں جو چیز شریعت میں مطلوب ہے، وہ چار خصلتیں ہیں۔ حق تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو انہی چار خصلتوں کے لیے بھیجا۔ تمام ملل حقہ میں انہی چار خصلتوں کا ارشاد اور ان کے حاصل کرنے کی ترغیب و تحریص ہے۔ ’’بر‘‘ یعنی بھلائی انہی چار خصلتوں کا حاصل ہے اور گناہ سے مراد وہ عقائد و اعمال اور اخلاق ہیں جو انہی چار خصلتوں کی ضد ہیں۔

ان چار خصلتوں میں سے ایک طہارت ہے۔ اس کی حقیقت اور اس کی طرف میلان ہر سلیم الفطرت انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ یہ گمان نہ کر لینا کہ یہاں طہارت سے مراد محض وضو اور غسل ہے، بلکہ طہارت کا اصل مقصود وضو اور غسل کی روح اور ان کا نور ہے۔ جب آدمی نجاستوں میں آلودہ ہو اور میل کچیل اور بال اس کے بدن پر جمع ہوں، بول و براز اور ریح نے اس کے معدے میں گرانی پیدا کی ہو، تو ضروری اور لازمی بات ہے کہ وہ انقباض، تنگی اور حزن اپنے اندر پائے گا۔ اور جب وہ غسل کرے گا اور زائد بالوں کو دور کرے گا اور صاف لباس زیب تن کرے گا اور خوشبو لگائے گا تو اسے اپنے نفس میں انشراح، سرور اور انبساط کا احساس ہوگا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ طہارت یہی وجدانی کیفیت ہے جو انس اور نور سے تعبیر کی جا سکتی ہے۔

دوسری خصلت اخبات (خدا تعالیٰ کے لیے خضوع) یعنی نهایت درجے کی عجز و نیاز مندی ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ایک سلیم الفطرت شخص جب طبعی اور خارجی تشویشوں سے فراغت کے بعد صفاتِ الہٰی، اس کے جلال اور اس کی کبریائی میں غور کرتا ہے تو اس پر ایک حیرت اور دہشت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ یہی حیرت اور دہشت خشوع و خضوع یعنی نیاز مندی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک سوچنے والا انسان جب کائنات کی اس گتھی کو حل کرنے سے عاجز آ جاتا ہے، اور اس عجز اور افتادگی کی حالت میں وہ کسی اور قوت کے سامنے اپنے آپ کو بے دست و پا پاتا ہے، تو اس کی یہ بے دست و پائی اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے سے بلند تر کسی اور قوت کو مانے۔ ایک سائنس دان نے اسے مادے سے تعبیر کیا ہے، فلسفی نے اسے عقلِ کُل مانا، اور مذہبی اسے خدا کہتا ہے۔ بہر حال انسان کہیں نہ کہیں اس کائنات کے سامنے اپنے آپ کو ضرور مجبور پاتا ہے اور یہی مجبوری اسے خضوع کی طرف لے جاتی ہے۔

تیسری خصلت سماحت (فیاضی) ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نفس طلبِ لذت، حبِ انتقام، بخل اور حرص وغیرہ سے مغلوب نہ ہو۔ اس کے ذیل میں عفت، جدوجہد، صبر و عفو، سخاوت، قناعت اور تقویٰ تمام آ جاتے ہیں۔ شکاور فرج (شرمگاہ) کی خواہش کے قبول نہ کرنے کا نام عفت ہے۔ آسائش اور ترکِ عمل کی خواہش کو قبول نہ کرنے کا نام جدوج ہے، اور جزع و فزع (رونا پیٹنا) کو روکنا صبر ہے، اور انتقام کی خواہش کو دبانا عفو، اور خواہش بخل کو چھوڑ دینے کا نام سخاوت، اور حرص کو قبول نہ کرنا قناعت ہے، شریعت کی بنائی ہوئی حدوں سے تجاوز نہ کرنا تقویٰ ہے۔ 

چوتھی فصلت عدالت ہے۔ سیاسی اور اجتماعی نظاموں کی روح رواں یہی خصلت ہے۔ ادب، کفایت، حریت، سیاستِ مدنیہ اور حسنِ معاشرت وغیرہ سب عدالت کی شاخیں ہیں۔ اپنی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھنا، عمدہ اور بہتر وضع اختیار کرنا اور دل کو ہمیشہ اس کی طرف متوجہ رکھنا ادب ہے۔ جمع اور خرچ، خرید و فروخت اور تمام معاملات میں عقل و تدبر سے کام لینا کفایت ہے۔ خانہ داری کے کاموں کو بخوبی انجام دینا حریت ہے اور شہروں اور لشکروں کا اچھا انتظام کرنا سیاستِ مدنیہ ہے۔ بھائیوں میں نیک زندگی بسر کرنا، ہر ایک کے حق کو پہچاننا اور ان سے الفت و بشاشت سے پیش آنا حسنِ معاشرت ہے۔ 

یہی چار اخلاق ہیں جن کی تکمیل سے انسانیت کو ترقی ملتی ہے اور ان کے چھوڑنے سے انسان قعرِ مذلت (ذلت کے گڑھے) میں گرتا ہے۔ اس دنیا میں جتنے بھی تمدن بنے، اور جس قدر بھی فکری ادارے قائم ہوئے، اور جو بھی شریعتیں معرضِ وجود میں آئیں، اگر ان کے پیشِ نظر انسانوں کو اٹھانا اور ان کی حالت کو درست کرنا تھا تو انہوں نے انہی چار اخلاق کو سنوارنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں اسلام، عیسائیت اور یہودیت کا معاملہ تو بالکل ظاہر ہے، لیکن اگر چینی فلسفۂ اخلاق، ہندوؤں کے مذہبی فکر، ایرانیوں کے نظامِ حیات، یونانیوں کی حکمت، اور قدیم مصریوں کے مذہب کا بغور مطالعہ کریں تو آپ کو کسی نہ کسی صورت میں ان چار اخلاق کی درستی اور ان کی ضدوں سے بچنے کی تاکید ملے گی۔ 

ایرانی حکم بزر جمهر اقوال، افلاطون کا اپنی کتاب ’’ریاست‘‘ میں عدالت کو زندگی کی بنیاد ثابت کرنا، قدیم مصریوں کا مذہبی صحیفہ ’’کتاب الموتی‘‘ کے ارشادات، ہندوؤں کے ویدوں اور گیتا کا پُرحکمت کلام، اور چینیوں کے اخلاقی فلسفے ’’کنفوشس‘‘ کی تعلیمات، ان سب کا حاصل کم و بیش یہی تھا کہ انسانیت کے ان چار بنیادی اخلاق کو ترقی دی جائے، اور تمام رسول اس لیے مبعوث ہوئے اور تمام حق شناس حکیم اور صدیق اپنی اپنی قوموں کو یہی پیغام سناتے رہے۔

لہٰذا اگر ہم اس حقیقت کو سمجھ جائیں تو پھر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے نظریہ اخلاق میں اصولی نزاع نہ رہے گا اور ہم میں فراخ دلی اور رواداری بھی پیدا ہو جائے گی۔ بے شک سماج کے چھوٹے طبقوں میں تو چپقلش موجود رہے گی، لیکن ایسے ہی جیسا کہ ایک ہی ملت کے مختلف فرقوں میں مخصوص رجحانات اور استعدادوں کی بنا پر ذہنی اور مذہبی اختلافات ہوتے ہیں، لیکن جہاں تک اصحابِ عقل و رُشد کا تعلق ہے، ان کو آفتابِ نبوت سے پھوٹی ہوئی شعاؤں اور حکیم کے دماغ سے نکلے ہوئے اخلاقی نظام میں فرقِ مراتب تو ضرور نظر آئے گا لیکن وہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضد نہ سمجھیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صالح غیرمسلم اور صالح مسلمان ایک دوسرے کی خوبیوں کو بحیثیت انسان کے نظرِ انصاف سے جانچنے کے قابل ہوں گے۔ 

ہمارے خیال میں یہ تصور کُل بنی نوع انسان کو موجوہ خلفشار سے نکال سکتا ہے۔ ہر قوم کے عقل مند طبقوں کا رجحان اب اس طرف ہو رہا ہے اور وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے اپنے فکری نظاموں کو عالم گیر انسانیت کا ترجمان بنا کر پیش کریں۔ لیکن کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ وہ دین جو صحیح معنوں میں ساری انسانیت کا دین تھا، اور وہ کتاب جو کُل نوعِ انسانی کی ہدایت کی علمبردار تھی، اور وہ ملّت جس نے سب قوموں کو ایک بنایا اور جس کا تمدن ساری انسانیت کی ’’باقیات صالحات‘‘ کا مرقع تھا۔ وہ دین، وہ کتاب اور وہ ملّت اور اس کا تمدن ایک فرقے کی جاگیر بن گیا ہے، اور وہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اس وسعت پذیر دور میں جس میں کہ کرہ زمین کی سب دوریاں سکڑ گئی ہیں، ملکوں، قوموں اور براعظموں کی سرحدیں سمٹتی جا رہی ہیں، ریل، جہاز، طیاروں اور ریڈیو نے سب انسانوں کو اپنی کہنے اور دوسروں کی سننے کے لیے ایک انسانی برادری میں بدل دیا ہے، اس زمانے میں ایسی تعلیم کو جو صحیح معنوں میں عالم گیر اور انسانی تھی، ایک گروہ اور جماعت میں محدود کر دینا کتنا بڑا ظلم ہے۔ معلوم نہیں مسلمان اسلام کو کب سمجھیں گے اور قرآن کے اصل پیغام کو کب اپنائیں گے؟ 

دین و حکمت

(جنوری ۱۹۹۶ء)

جنوری ۱۹۹۶ء

جلد ۷ ۔ شمارہ ۱

بلبلاتا ہوا انسانی معاشرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسانی اخلاق کی چار بنیادیں
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

انسانی حقوق کا اسلامی تصور
مولانا مفتی فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی

انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ
ابو صباحت

اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اسلامی تعلیمات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ پر ایک نظر
مولانا مفتی عبد الشکور ترمذی

انسانی حقوق کے چارٹر کی بعض متنازعہ شقیں
مولانا مشتاق احمد

انسانی حقوق اور سیرتِ نبویؐ
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مغربی میڈیا، انسانی حقوق، اسلامی بنیاد پرستی اور ہم
ڈاکٹر صفدر محمود

حقوقِ نسواں اور خواتین کی عالمی کانفرنسیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حاجی عبد المتین چوہان مرحوم
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

معدے کی تیزابیت دور کرنے کے لیے موسمی کا ناشتہ
حکیم عبد الرشید شاہد

’’الشریعہ‘‘ کا نیا دور
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دنیا و آخرت کی فلاح حضرت شاہ ولی اللہؒ کی نظر میں
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

Flag Counter