حق و صداقت کی ہمیشہ کفر و ضلالت سے ٹکر رہی ہے اور رہے گی، مسلمان جب تک دینِ اسلام کے تقاضوں کو سمجھتے اور ان پر عمل کرتے رہے، طاغوتی طاقتوں پر انہیں ہمیشہ غلبہ حاصل رہا، لیکن جیسے ہی مسلمانوں نے قرآن و سنت کو سمجھنا اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور حرص و ہوس میں مبتلا ہو گئے، تب نفسانی خواہشات کی غلامی کے ساتھ ساتھ انہیں اغیار کی غلامی کا طوق بھی گلے میں ڈالنا پڑا۔ سامراجی طاقتوں نے مسلمانوں کو دام ہمرنگ زمیں میں ایسا پھنسایا اور ایسا میٹھا زہر کھلایا کہ مسلمان اسلامی فکر سے ہی محروم یا کمزور پڑتے چلے گئے۔ اس وقت بیشتر مسلم ممالک کے سربراہ سامراجی طاقتوں کے لیے فدویانہ جذبات رکھتے ہیں اور ان کے مفادات کی تکمیل کے لیے کام کرنا باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ؎
مچھلی نے ڈھیل پائی ہے، لقمے پہ شاد ہے صیاد مطمئن ہے کہ کانٹا نگل گئی
افسوس کا مقام ہے کہ مسلم ممالک نے بھی اقوام متحدہ کے اغراض و مقاصد اور چارٹر کو (جو سراسر سامراجی عزائم کی تکمیل کرتے ہیں) تقدس کا درجہ دے رکھا ہے۔ قاہرہ کانفرنس، بیجنگ کانفرنس وغیرہ عالمی کانفرنسوں میں مسلم ممالک کی پرجوش شرکت اور ان کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیوں کی تکمیل کے وعدوں بلکہ ارادوں کو بے حمیتی کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے؟
اقوام متحدہ کے منشور کی بعض شقوں پر تنقید سے کسی کو چیں بچیں نہیں ہونا چاہئے کیونکہ انسانی حقوق کے زیر بحث چارٹر میں یہ لکھا ہے:
’’ان حقوق اور آزادیوں کو اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کے خلاف کاموں کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔‘‘
ہماری گزارش ہے کہ بالکل اسی طرح ہم مسلمانوں کو یہ کہنے کا حق ملنا چاہئے کہ
’’ان حقوق اور آزادیوں کو اسلام کے مقاصد اور اصولوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔‘‘
یہ ہماری دینی حمیت کا تقاضا اور قرآن و سنت کی روح ہے، مسلمانوں کو اس حق سے محروم کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
بنیاد ہی غلط ہے
اس چارٹر کی تمہید میں انسانی حقوق کے مرتب کرنے کی جو وجوہ لکھی ہیں، ان میں سے ایک شق یہ ہے:
’’ہرگاہ کہ اقوام متحدہ کی اقوام نے منشور میں بنیادی انسانی حقوق پر، انسان کی تکریم اور قدر و قیمت پر، اور مردوں و عورتوں کے مساوی حقوق پر، اپنے ایمان کی توثیق کی ہے اور تہیہ کیا ہے کہ سماجی ترقی اور بہتر معیارِ زندگی کو وسیع تر آزادی کے ساتھ فروغ دیا جائے۔‘‘
مردوں اور عورتوں کے مساوی حقوق کا نعرہ سراسر غیر اسلامی ہے اور غیر اسلامی نعرہ کی بنیاد پر ترتیب پانے والا منشور اسلامی کیسے ہو سکتا ہے؟ مرد و زن کے درمیان مساوات جاری کرنے سے یورپ جس جنم میں جل رہا ہے وہ کسی صاحبِ شعور پر مخفی نہیں۔ خاندانی نظامِ حیات تلپٹ ہو چکا ہے۔ زنا، چوری، ڈکیتی، قتل وغیرہ کی وارداتیں روز افزوں ہیں۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ جرائم کے یہ ’’تحفے‘‘ اب یورپ و امریکہ، اقوام متحدہ کی وساطت سے مسلم ممالک کو ارسال کرنا چاہتے ہیں بلکہ تدریجاً ارسال کر رہے ہیں۔
شادی کی آزادی
اس بارے میں دو شقیں ہیں:
’’پوری عمر کے مردوں اور عورتوں کو نسل، قومیت یا مذہب کی کسی تحدید کے بغیر باہم شادی کرنے اور خاندان کی بنیاد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ شادی، دورانِ شادی اور اس کی تنسیخ کے سلسلہ میں وہ مساوی حقوق رکھتے ہیں۔‘‘
’’شادی کے خواہش مند جوڑوں کی آزاد اور پوری مرضی سے ہی شادی کی جا سکے گی۔‘‘
یہ دونوں شقیں سراسر غلط ہیں۔ اس فلسفہ کی بنیاد مرد و زن میں مساوات کے غیر اسلامی نظریہ پر رکھی گئی ہے۔ یہ بناء الفاسد علی الفاسد ہے۔ اسلام مسلمان مرد کو صرف مسلمان عورت یا کتابی عورت سے شادی کی اجازت دیتا ہے۔ اسی طرح مسلمان عورت صرف مسلمان مرد سے نکاح کر سکتی ہے۔ علی الاطلاق مذہب کی قید اٹھا دینا قطعاً درست نہیں ہے۔ کسی مسلمان مرد یا عورت کا مذہبِ اسلام کی قید اٹھا کر شادی کے جواز کا نظریہ رکھنا کفرِ محض اور قرآن مجید کا انکار ہے۔
اسلام شادی میں اگرچہ جبر کا قائل نہیں ہے، زوجین کی مرضی سے نکاح کرنا ضروری ہے، لیکن اس مرضی کو اتنی وسعت دینا کہ مذہب کا خیال ہی نہ رہے، بالکل غلط ہے۔
بدکاری کا تحفظ
اس شق کے الفاظ یہ ہیں:
’’ماں اور بچے کو خصوصی توجہ اور مدد کا حق حاصل ہے، تمام بچے خواہ وہ شادی کے نتیجہ میں پیدا ہوں یا بغیر شادی کے پیدا ہوں، یکساں سماجی تحفظ سے بہرہ ور ہونے کا حق رکھتے ہیں۔‘‘
یہ درست ہے کہ بچہ کو بہرحال سماجی تحفظ ملے گا کیونکہ ولدالحلال یا ولدالحرام ہونے میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ہاں اس کا نسب ضرور مجروح ہو گا، لیکن اسلامی معاشرہ میں کسی عورت کو بغیر شادی کے بچہ پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اور اگر کوئی عورت ایسا کرتی ہے تو اسے اسلامی حدود کے تحت سزا ملے گی، ایسی بدکار عورت کو اسلام کوئی تحفظ فراہم نہیں کر سکتا۔
ثقافتی حقوق
اس کے تحت حسبِ ذیل دو شقیں ہیں:
’’ہر شخص کو آزادانہ طور پر معاشرے کی ثقافتی زندگی میں حصہ لینے، فنونِ لطیفہ سے حظ اٹھانے، اور سائنسی ترقی اور اس کے فوائد سے مستفید ہونے کا حق حاصل ہے۔‘‘
’’ہر شخص سائنسی، ادبی اور فنونِ لطیفہ کی تخلیقات، جس کا وہ خالق ہو، کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والے اخلاقی اور مادی فوائد کے تحفظ کا حق رکھتا ہے۔‘‘
نسیم اللغات ص ۶۸۳ پر فنون لطیفہ کے یہ معانی لکھے ہیں:
’’جمالیات، مصوری، شاعری، رقاصی، موسیقی۔‘‘
اسلام میں مصوری، رقاصی و موسیقی ممنوع ہے۔ ماڈرن اسلام کے دعوے دار اور جدیدیت کے مدعی حضرات کی روش قابلِ توجہ نہیں ہے۔ اس بارے میں صرف متدین علمائے کرام کا فتویٰ قابلِ قبول ہے۔ اسلامی احکامات کی خلاف ورزی اگر ضرور ہی کرنی ہو تو گناہ سمجھ کر ہی کرنی چاہئے۔ انہیں قرآن و حدیث کا لبادہ پہنا کر تحفظ فراہم کرنے سے بچتا چاہئے کیونکہ اس سے ایمان ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔
آزادئ مذہب کا حق
اقوام متحدہ کے چارٹر میں الفاظ یہ ہیں:
’’ہر شخص کو آزادئ خیال، آزادئ ضمیر اور آزادئ مذہب کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں اپنا مذہب اور عقیدہ تبدیل کرنے اور انفرادی و اجتماعی طور پر علیحدگی میں یا سب کے سامنے اپنے مذہب یا عقیدے کی تعلیم، اس پر عمل، اس کے مطابق عبادت کرنے اور اس کی پابندی کرنے کی آزادی کا حق شامل ہے۔‘‘
اسلامی تعلیمات کی رو سے کسی غیر مسلم کو تو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مثلاً عیسائی سے یہودی، یہودی سے کمیونسٹ، ہندو سے سکھ، مجوسی سے دہریہ ہو جائے، یا اللہ تعالٰی اگر توفیق دے تو مسلمان ہو سکتا ہے، لیکن یاد رکھیں کہ مسلمان ہونے کا مطلب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حلفِ وفاداری ہے اور ترکِ اسلام کا مطلب اللہ تعالٰی بغاوت ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی حاکم، اپنے ملازمین کو باغی ہونے اور بغاوت پر جمے رہنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اگر وہ سمجھانے پر بغاوت سے باز نہ آئیں تو ان کے لیے سزائے موت تجویز کی جاتی ہے۔
اسی طرح شریعتِ محمدیہ میں ہر شخص کو یہ آزادی حاصل ہے کہ مسلمان ہو یا نہ ہو، کوئی زبردستی نہیں ہے، لیکن مسلمان ہونے کے بعد جبکہ وہ خدا اور رسول اللہ سے حلف وفا داری اٹھا چکا ہے، اسے دینِ اسلام چھوڑ کر باغی ہونے کی اجازت ہرگز نہیں ہے۔ اگر وہ سمجھانے پر بھی باز نہیں آتا تو ایسے باغی کے لیے فرمانِ نبویؐ ہے من ارتد فاقتلوه جو دینِ اسلام سے پھر جائے اسے قتل کر دو (بخاری و مسلم)۔ اس لیے کسی مسلمان کو تبدیلی مذہب کی اجازت نہیں ہے۔
نیز یہ بھی ملحوظِ خاطر رہنا چاہئے کہ ایک اسلامی سلطنت میں غیر مسلم اقلیتی گروہ کو اپنی مرضی کے مطابق عبادت کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس بارے میں اسلام خاصا فراخ دل ہے، حتیٰ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کو مسجد نبویؐ میں اپنے طریقہ پر نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی (کتب سیرۃ)۔ لیکن کسی غیر مسلم کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ آزادئ رائے اور آزادئ اظہار کے نام پر مسلمانوں کو دعوت و تبلیغ اور مرتد بنانے کا کام شروع کر دے۔ یہ آزادئ اظہار نہیں بلکہ آزادئ اظہار کے نام پر مسلمانوں کے معاملات میں مداخلت ہے جو کسی طرح صحیح نہیں ہے۔
آزادئ رائے اور آزادئ اظہار کا حق
اس شق کے الفاظ یہ ہیں:
’’ہر شخص کو آزادئ رائے اور آزادئ اظہار کا حق حاصل ہے، اس حق میں بلا مداخلت رائے رکھنے کی آزادی اور بلا لحاظ علاقائی حدود کسی بھی ذریعے سے اطلاعات و نظریات تلاش کرنے، حاصل کرنے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کی آزادی شامل ہے۔‘‘
آج کے دور میں اسلام دشمن قوتیں آزادئ رائے، آزادئ اظہار کے نعروں کو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ اس جدید فتنہ کے بارے میں اقبال مرحوم نصف صدی قبل ہی کہہ گئے تھے:
اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ آزادئ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
آزادئ رائے و اظہار کے علمبرداروں سے ایک سوال ہے کہ آپ کی آزادئ رائے و اظہار سے مراد کیا ہے؟ اس آزادئ رائے و اظہار کے لیے کوئی شرائط و قیود بھی ہیں یا نہیں؟ اگر شرائط و قیود ہیں تو کیا ہیں؟ ظاہر ہے کہ کسی کو بھی مادر پدر آزاد قسم کی آزادئ رائے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ کسی بھی مہذب ملک میں آزادئ رائے و اظہار کے لیے حسبِ ذیل شرائط عائد کی جاتی ہیں (یاد رہے آزادئ اظہار میں آزادئ تقریر و تحریر اور تنظیم سازی کی آزادی شامل ہے):
۱۔ آزادئ رائے کو حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے لیے استعمال نہ کرے۔
۲۔ ایسی کارروائیاں نہ کرے جس سے امنِ عامہ کا مسئلہ پیدا ہو۔
۳۔ اس سے لوگوں کا امن و سکون غارت نہ ہونا چاہئے۔
۴۔ کسی کے نجی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔
۵۔ کوئی ایسی تنظیم نہ بنائے جو ملکی قوانین کے خلاف ہو۔
۶۔ ایسی تحریر و تقریر جس سے اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہوں، اجتناب کرے۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں مذکورہ شرائط کے ساتھ رائے و اظہار کی آزادیاں حاصل ہیں اور اسے انسانی حقوق میں شامل کیا جاتا ہے، اور مذکورہ شرائط کی خلاف ورزی کرنے والوں پر تعزیری قوانین نافذ کیے جاتے ہیں۔ لیکن اگر مسلمان ممالک میں سے کوئی ملک اپنی دینی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے شرائطِ مذکورہ کی خلاف ورزی کرنے والے کسی گروہ پر کوئی قدغن لگاتا ہے تو اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے۔
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں ہے
اس پر اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور وائٹ ہاؤس کے ذریعے مسلم ممالک پر دباؤ ڈالا جاتا ہے، ان کی اقتصادی و فوجی مدد بند کی جاتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام کا نام لینا، اسلام کی سرحدوں کا تحفظ کرنا مغرب و امریکہ کی نظر میں بہت بڑا جرم ہے، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات اسی تعصب کا شاخسانہ ہیں۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانوں میں کہ اکبر خدا کا نام لیتا ہے اس زمانے میں
اس سوال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ:
- مقبوضہ کشمیر میں آزادئ رائے و اظہار پر مکمل پابندی ہے، پاکستان پر لگائی جانے والی پابندیاں وہاں کیوں نہیں؟
- الجزائر میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک فوجی انقلاب کی پشت پناہی کیوں کر رہے ہیں؟ وہاں انتخابات کے نتائج کو کیوں ہائی جیک کیا گیا؟ کیا یہ آزادئ رائے و اظہار کے حق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
- مصر میں دینی تنظیموں پر طویل عرصہ سے پابندی ہے اور دینی رہنما پابند سلاسل ہیں جس کی وجہ سے وہ زیر زمین سرگرمیوں میں مشغول ہو گئے ہیں جو کہ بہر حال ناپسندیدہ ہے، اس سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، لیکن سوال یہ ہے کہ ان کو اس انتہا پسندی تک کس نے پہنچایا؟ ۲۰-۳۰ برس سے ان کے انسانی حقوق غصب ہو رہے ہیں لیکن عالمی طاقتیں خاموش تماشائی ہیں، آخر کیوں؟
- امریکہ کا لے پالک اسرائیل فلسطینیوں کے حقوق کئی برسوں سے غصب کیے بیٹھا ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں بلکہ الٹا اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
- بوسنیا اور برما میں ہزاروں مسلمان قتل اور لاکھوں دربدر ہو چکے ہیں، انسانی حقوق کے ٹھیکے دار وہاں کیا کر رہے ہیں؟
- در اصل امریکہ اور اقوام متحدہ کا مسلم ممالک کے لیے اور غیر مسلم ممالک کے لیے جدا جدا معیار ہے، جدا جدا ترازو ہیں۔ ہر مسلمان کو اس پر غور و فکر کرنا چاہئے اور ان کے دلکش نعروں والے پروگراموں کی اصلیت کا پتہ لگاتے رہنا چاہئے۔
حکومت اور ملازمت میں حصہ
اس عنوان کے تحت دو شقیں ہیں:
’’ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ براہ راست یا آزادی سے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنے ملک کی حکومت میں حصہ لے۔‘‘
’’ہر شخص کو اپنے ملک کی سرکاری ملازمتوں میں مساوی رسائی کا حق حاصل ہے۔‘‘
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اسلامی مملکت میں ہر شخص کو انتخاب میں حصہ لینے اور سرکاری ملازمت حاصل کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن وہ عہدے جن سے اسلامی مملکت کے راز معلوم ہوتے ہوں یا دفاعی نوعیت کے حساس معاملات ہوں یا صدر، وزیر اعظم کا منصب ہو، اس پر کسی غیر مسلم کو فائز نہیں کیا جا سکتا۔