اسلام دین فطرت ہے اور نسل انسانی کے لیے ان تعلیمات و ہدایات کی نمائندگی کرتا ہے جو خالق کائنات نے حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کے ذریعے نازل فرمائی ہیں۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس امر کی صراحت موجود ہے کہ قرآنی تعلیمات نئی نہیں بلکہ حضرات انبیاء کرامؑ پر نازل ہونے والی سابقہ وحی کی مصدق و موید اور اس کی مکمل ترین شکل ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ انبیاء کرامؑ پر نازل ہونے والی کتابوں اور ان کی تعلیمات کا کوئی ذخیرہ اگر آج تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ترین صورت میں موجود ہے تو وہ صرف قرآن کریم اور جناب رسول اکرمؐ کی سنت و سیرت ہے، اس لیے اس وقت دنیا میں آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی نمائندگی کا حق صرف اور صرف قرآن و سنت کو ہے۔ اور انسانی معاشرہ کی قیادت اور راہنمائی کے لیے وحی اور عقل کے درمیان جو معرکہ آخری اور فیصلہ کن دور میں داخل ہو چکا ہے اس میں عقلِ انسانی کی بنیاد پر تشکیل پانے والی سولائزیشن اور نظام ہائے حیات کا اصل مقابلہ قرآن و سنت سے ہی ہے۔
انسانی معاشرہ کی راہنمائی کے لیے عقل اور خواہشات کا ہمیشہ سے گٹھ جوڑ رہا ہے۔ خواہشات انسانی سوسائٹی میں باہمی ٹکراؤ کا باعث بنتی ہیں، فساد اور بد اَمنی کو جنم دیتی ہیں اور خرابیاں پیدا کرتی ہیں۔ جبکہ عقل ان خواہشات کی نگرانی اور کنٹرول کی دعویدار ہے، لیکن یہ ایسا کمزور نگران ہے جو خود کو خواہشات کے منہ زور گھوڑے کی پشت پر بے بس پا کر اکثر اوقات اپنے آپ کو بھی اسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے اور یوں معاشرہ خواہشات کے خوفناک عفریت کے ہاتھوں فتنہ و فساد کی آماجگاہ بن کر رہ جاتا ہے۔ نسلِ انسانی کی تاریخ گواہ ہے کہ عقل کی کمزور لگام خواہشات کے منہ زور گھوڑے کو کسی دور میں بھی کنٹرول نہیں کر سکی اور انسانی خواہشات نے صرف اس وقت فطرت کے دائرے میں رہنا قبول کیا جب ان پر وحی الٰہی کی حکمرانی قائم ہوئی۔
وحی، عقل اور خواہشات کی طویل کشمکش کی پوری تاریخ پر نظر ڈال لیجئے، عقل کو انسانی خواہشات پر کنٹرول میں اسی وقت کامیابی ہوئی ہے جب اس نے وحی کی راہنمائی کو قبول کر کے اس کے معاون کے طور پر خواہشات کا مقابلہ کیا ہے۔ اور جب بھی عقل نے وحی الٰہی سے بے نیاز ہو کر انسانی خواہشات کا سامنا کرنے کی کوشش کی ہے اسے شکست اور رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ آج کا انسانی معاشرہ اس کی مکمل تصویر پیش کر رہا ہے۔ عقل نے آزادی، مساوات اور سولائزیشن کے نام پر انسانی خواہشات کو قواعد و ضوابط کے ایک دائرے کا پابند کرنا چاہا اور آسمانی تعلیمات اور وحی کو ذاتی عقیدہ، عبادت اور اخلاق کے حصار میں بند کر کے زندگی کے اجتماعی شعبوں میں اس کی عملداری کو مسترد کر دیا، لیکن عقل کی اس تین صدیوں پر محیط جدوجہد کا نتیجہ کیا سامنے آیا؟ آج پوری دنیا میں انسانی معاشرے پر خواہشات کی حکمرانی ہے اور جس قوم، طبقہ، گروہ یا فرد کی رسائی طاقت اور عقل کے ہتھیاروں تک ہو جاتی ہے قاعدے، ضابطے، اصول، نظریات اور اخلاق اس کے نزدیک بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔
عقل کا اس کے سوا کوئی کردار باقی نہیں رہ گیا کہ وہ خواہشات کی حکمرانی کے لیے جواز کے دلائل پیش کرتی رہے اور وحشیانہ خواہشات کا شکار ہونے والے مظلوم انسانوں کو یہ کہہ کر تسلی دیتی رہے کہ چونکہ انسان کی ہر خواہش کا پورا ہونا اس کا حق ہے اور جس خواہش پر سوسائٹی کی اکثریت کا اتفاق ہو جائے اسے قانون کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے، اس لیے ۴۹ فیصد کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ۵۱ فیصد کی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنیں اور خاموشی کے ساتھ انہیں پورا کرتے رہیں۔ قتل و غارت، لوٹ مار، بھوک، جہالت، نسل، زبان اور علاقہ کی بنیاد پر منافرت، کنواری ماؤں اور ناجائز بچوں میں مسلسل اضافہ، خاندانی زندگی کی تباہی، رشتوں کے تقدس کی پامالی اور عزت و عفت کی بے حرمتی کے جو مظاہر آج انسانی معاشرہ میں ہر طرف دکھائی دے رہے ہیں وہ کس کے پیدا کردہ ہیں؟ انہیں خواہشات نے جنم دیا ہے اور عقل انہیں جواز کے دلائل فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکی۔
عقل اور خواہشات کے گٹھ جوڑ نے وحی کو انسانی زندگی سے بے دخل کرنے کا جو ڈرامہ تین صدیاں قبل شروع کیا تھا وہ تکمیل کو پہنچ گیا ہے اور اس کا ڈراپ سین انسانی سوسائٹی کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔ قرآن کریم نے اس کشمکش کا ذکر چودہ سو برس قبل ان الفاظ سے کر دیا تھا ان یتبعون الی الظن وما تھوی الانفس ولقد جاءھم من ربھم الھدٰی (النجم) ’’یہ لوگ صرف ظن (انتہائے عقل) اور خواہشات کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے‘‘۔
اسلام عقل کے کردار اور ضرورت سے انکار نہیں کرتا بلکہ قرآن کریم نے بار بار غور و فکر اور تدبر کی دعوت دی ہے اور عقل کے استعمال کی تلقین کی ہے۔ اسلام حکمت و دانش کا دین ہے اور فقہ و اجتہاد اس کے بنیادی اصولوں میں شامل ہیں لیکن عقل کو حکمران کی نہیں بلکہ معاون کی حیثیت دی ہے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ عقل کو کبھی حکمران کا درجہ حاصل نہیں رہا، وہ اگر وحی کی معاون نہیں بنی تو اسے طاقت یا خواہشات کی چاکری کرنا پڑی ہے۔ قدرت نے اسے معاونت کے لیے پیدا کیا ہے اور وہ ہمیشہ وحی، طاقت یا خواہشات میں سے کسی کی معاون رہی ہے۔ اس لیے عقل کا صحیح کردار یہی ہے کہ وحی کے دائرے میں پابند ہو اور اس کے احکام کی تعمیل کے لیے معاونت کرے۔
اسلام خواہشات سے بھی انکار نہیں کرتا بلکہ وہ ترکِ خواہشات اور رہبانیت کو عبادت کا درجہ دینے کا روادار نہیں ہوا۔ اسلام نے انسان کی ہر فطری خواہش کو تسلیم کیا ہے اور اس کی تکمیل کا حق دیا ہے لیکن خواہشات کی بے لگامی کو اسلام قبول نہیں کرتا اور خواہشات کو آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی ہدایات کا پابند دیکھنا چاہتا ہے۔ کیونکہ اس پابندی کے بغیر خواہشات کو کنٹرول کرنے کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے اور خواہشات کو کنٹرول کے دائرے میں رکھے بغیر معاشرہ میں امن و سلامتی کا قیام نہیں ہو سکتا۔ اسلام انسان پر خواہشات کی حکمرانی کا نہیں بلکہ خواہشات پر انسان کی حکمرانی کا قائل ہے۔ اور اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جو انسان اپنی خواہشات پر کنٹرول نہیں کر سکتا وہ انسانی فطرت پر قائم نہیں رہا۔ اور خواہشات پر حکمرانی عقلِ محض کے ذریعے نہیں بلکہ وحی و عقل کے امتزاج اور توفیق الٰہی سے ہی قائم ہو سکتی ہے۔
آج انسانی معاشرہ کا سب سے بڑا مسئلہ بے لگام اور روز افزوں خواہشات پر کنٹرول حاصل کرنا ہے کیونکہ اس کے بغیر امن، خوشحالی، سلامتی اور سکون کا حصول ممکن نہیں ہے۔ گزشتہ تین صدیوں کے تلخ تجربہ نے یہ بات ایک بار پھر ثابت کر دی ہے کہ انسانی خواہشات کو کنٹرول کرنا عقلِ محض کے بس کی بات نہیں ہے۔ عقل کو زود یا بدیر وحی کے سائے میں آنا پڑے گا اور آسمانی تعلیمات کی بالادستی قبول کرنا ہوگی۔ اور انسانی تاریخ کے ریکارڈ پر یہ آسمانی تعلیمات صرف اور صرف قرآن و سنت کی تعلیمات کی صورت میں موجود ہیں جو وحی، عقل اور خواہشات کے خوبصورت امتزاج اور توازن کی علمبردار ہیں۔ عقلِ انسانی اس حقیقت کا جس دن ادراک کر لے گی وہ انسانی معاشرہ میں ایک صحت مند، خوشگوار اور فطری انقلاب کا یومِ آغاز ہوگا۔