مغربی میڈیا، انسانی حقوق، اسلامی بنیاد پرستی اور ہم

ڈاکٹر صفدر محمود

موجودہ دور میڈیا کا دور ہے۔ غور کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ مغرب محض مؤثر اور طاقتور میڈیا کے ذریعے ہمارے ذہنوں پر حکومت کر رہا ہے۔ یہاں ہم سے مراد صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پاکستان جیسے وہ ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہیں جہاں سیاسی شعور کا فقدان ہے، جہالت عروج پر ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ ہر قسم کی راہنمائی کے لئے مغرب کی جانب دیکھتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک طرح سے ہمارے پڑھے لکھے طبقے کا احساسِ کمتری ہے کہ وہ مغرب کے ایجاد کردہ ہر لفظ، اصطلاح اور محاورے کو یوں قبول کر لیتا ہے جیسے یہ الہامی بات اور مقدس لفظ ہو۔ چنانچہ اس طرح مغربی میڈیا وقتاً فوقتاً نئے نئے شوشے چھوڑتا رہتا ہے جن کا مقصد ہماری سوچ کو متاثر کرنا اور ہماری فکر کو ایک خاص رخ پر ڈالنا ہوتا ہے۔ 

یاد رکھئے کہ یہ دور جسمانی غلامی کا نہیں، ذہنی غلامی کا ہے۔ ماضی میں جب ضعیف قوموں کو غلام اور کمزور ملکوں کو تجارتی مقاصد کے لئے کالونی بنایا جاتا تھا تو مغربی ممالک نے پسماندہ اقوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ اس دور میں انسانی حقوق کا کہیں ذکر نہیں تھا کیونکہ انسانی حقوق کا فلسفہ مغربی استعمار کے مفادات کے منافی تھا بلکہ مغربی استعمار کی نفی کرتا تھا۔ اس طرح مغربی ممالک صدیوں تک پسماندہ ممالک کو اپنی کالونیاں بنا کر ان کے وسائل کو اپنی صنعتی و تجارتی ترقی کے لئے استعمال کرتے رہے۔ اگر آپ لندن، پیرس اور روم جیسے خوبصورت شہروں کی بڑی بڑی شاہراہوں، عمارات اور صنعتی مراکز کی بنیادوں میں جھانکیں تو ان میں سے آپ کو اپنے بزرگوں کے خون اور پسینے کی خوشبو آئے گی۔ 

جب ان استعماری قوتوں کو آزادی کی تحریکوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر غلام ممالک سے رخصت ہونا پڑا تو اس کے ساتھ ہی انہیں جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کا خیال آیا۔ چنانچہ انسانی حقوق کے دفاع کے لئے عالمی سطح پر انجمنیں بنائی گئیں۔ کل تک انسانوں کو حیوانوں سے کم تر سمجھنے والے چند ہی برسوں میں انسانی حقوق کے ٹھیکے دار بن گئے۔ گویا پرانا شکاری نیا جال لے کر آگیا۔ اس وقت بعض ممالک میں یہ انجمنیں بہت مفید کام کر رہی ہیں لیکن لطف یہ ہے کہ جن ممالک میں اولادِ آدم کو مغربی اقوام کی ملی بھگت سے کچلا جا رہا ہے وہاں بھی انسانی حقوق کی انجمنین موجود ہیں جو بے کار ہیں اور غیر موثر ہیں۔ 

گزشتہ چند برسوں سے اولاد آدم کے انسانی حقوق کی حفاظت کی اجارہ داری امریکہ کے پاس  ہے۔ ادھر مغربی میڈیا نے انسانی حقوق کو ایک آئیڈیالوجی بلکہ مذہب کا درجہ دے دیا ہے، جس سے امریکہ کو یہ استحقاق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل دے سکتا ہے بلکہ اسے دہشت گرد قرار دے کر سزا کا حقدار ٹھہرا سکتا ہے، جہاں انسانی حقوق پر زد پڑتی ہو۔ کس ملک میں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں؟ اس کا فیصلہ بھی امریکہ ہی کرے گا۔ چنانچہ امریکہ عراق پر بمباری کر کے سینکڑوں معصوم شہریوں کو موت کی نیند سلا دے تو وہ انسانی حقوق کے حوالے سے درست اقدام قرار دیا جاتا ہے، لیکن بوسنیا میں ہزاروں معصوم مسلمان سربیائی ظلم کی بھینٹ چڑھ جائیں تو امریکہ کے ضمیر میں خلش نہیں ہوتی کیونکہ بوسنیا مسلمان ملک ہے۔ اسی طرح پاکستان اگر کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی اخلاقی مدد کرے تو وہ سزا کا مستحق ہے، لیکن بھارت اگر ہزاروں مسلمانوں کو گولی کا نشانہ بنا دے، اس سے چشم پوشی برتی جائے گی۔ 

انسانی حقوق کے حوالے سے مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آیا۔ جون ۱۹۹۱ء میں ایک بین الاقوامی سیمینار کے ضمن میں مجھے سان فرانسکو جانے کا موقعہ ملا۔ اس سیمینار میں ایشیائی ممالک کے سکالرز کے علاوہ مختلف امریکی یونیورسٹیوں سے بھی ممتاز پرفیسر صاحبان بلائے گئے تھے۔ سیمینار کے آغاز سے ایک روز قبل میں نے ٹیلی ویژن آن کیا تو ایک دلچسپ خبر بمعہ تبصرہ سننے کو ملی۔ کیلی فورنیا کی ریاست میں جنگلات کے وسیع ذخیرے پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ وہاں عمارات کی تعمیر میں لکڑی کا عمل جاری رہتا ہے۔ خبر یہ تھی کہ کٹائی کے دوران ماہرین جنگلات کو اچانک پتہ چلا کہ اس جنگل میں ایک الو صاحب نے اپنا مستقل ’’گھر‘‘ بنا رکھا ہے اور جب سے درختوں کی کٹائی کا سلسلہ شروع ہوا ہے الو صاحب اداس رہنے لگے ہیں۔ الو کی اداسی کی خبر سے اس علاقے میں احتجاج ہوا اور کیلی فورنیا کی حکومت نے جنگل کی کٹائی روک دی جس سے لکڑی کی قیمت میں اضافہ ہو گیا اور گھروں کی تعمیر قدرے مہنگی ہو گئی۔ میں نے یہ ساری خبر اور اس پر تبصرہ ٹیلی ویژین پر سنا اور گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

اگلے دن سیمینار کے دوران چائے کا وقفہ ہوا تو میں نے ممتاز امریکی پروفیسر صاحبان سے اس خبر کا تذکرہ کیا۔ وہ پہلے ہی اس سے آگاہ تھے لیکن جب میں نے ان سے ذکر کیا تو ان کے چہرے خوشی سے گلاب کی مانند کھل گئے۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے یہ سوال داغ دیا کہ آپ نے ایک پرندے کی اداسی کی خاطر جنگل کی کٹائی روک کر لکڑی کی قیمت میں اضافہ برداشت کر لیا لیکن چار پانچ ماہ قیل عراق کے معصوم شہریوں پر بموں کی بارش کی جا رہی تھی تو آپ کیوں خاموش رہے؟ کیا آپ کو ایک جانور مسلمان کی زندگی سے زیادہ عزیز ہے؟ میرے اس سوال سے چہروں کے رنگ اڑ گئے۔ اس ایک واقعے سے آپ امریکہ کی انسانی حقوق سے کمٹ منٹ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

بات یہاں سے چلی تھی کہ آج کا دور میڈیا کا دور ہے۔ میڈیا بد قسمتی سے یہودیوں کے قبضے میں ہے اور یہودیوں کا نشانہ بہر حال اسلام اور مسلمان ہیں۔ اب جب کہ مغربی ممالک غیر ترقی یافتہ ممالک سے بوریا بستر لپیٹ کر رخصت ہو چکے ہیں تو انہوں نے ان ممالک پر حکمرانی کا ایک نیا طریقہ وضع کیا ہے، اور وہ طریقہ ہے میڈیا کے زور پر ذہنوں پر حکومت کرنا۔ نصف صدی قبل جسمانی غلامی کا دور تھا جب کہ موجودہ زمانہ ذہنی غلامی کا زمانہ ہے۔ جسمانی غلامی بھی ہمارا مقدر تھی اور ذہنی غلامی بھی ہماری ہی قسمت کا حصہ ہے۔ سوچئے تو سہی کہ اس کی وجوہ کیا ہیں؟ 

اسی پس منظر میں مغربی میڈیا جب چاہتا ہے کوئی نئی اصطلاح اور کوئی نیا شوشہ چھوڑ دیتا ہے۔ دنیا کے بہترین رسائل جن میں ادبی تحقیقی اور سیاسی پرچے شامل ہیں، مغربی ممالک سے شائع ہو کر ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ ان رسائل میں اکثر اوقات ایک خاص نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے جو مغربی دنیا کے مفادات کے عین مطابق ہوتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عالمی شہرت کے رسالے ٹائم، اکانومسٹ اور نیوزویک پر یہودی لابی غالب ہے۔ یہ رسالے ہر ہفتے بین الاقوامی سیاست پر تبصرے کرتے اور تجزیے شائع کرتے ہیں جنہیں ہم من وعن مقدس تحریر سمجھ کر یوں قبول کر لیتے ہیں کہ ان کے سیاق و سباق پر غور ہی نہیں کرتے۔ پھر ہر محفل میں ان کے حوالے دے کر حاضرین محفل کو متاثر کیا جاتا ہے۔ لطف یہ کہ خود حاضرین بھی ان تبصروں کو ٹائم اور نیوزویک کے حوالے سے حرف آخر سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ 

ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ عراق ہو، ایران ہو یا بوسنیا، یہ رسائل اپنے تجزیوں میں ڈنڈی ضرور ماریں گے اور کسی نہ کسی طرح اسلام اور مسلمان سے اس طرح چنکی ضرور لیں گے کہ قاری کو محسوس بھی نہ ہو اور الفاظ اپنا کام بھی کر جائیں۔ عراق کویت جنگ اور انقلابِ ایران کے دوران ان رسائل نے اپنا بھرپور کردار سر انجام دیا اور عالمی رائے عامہ کو اپنی ضروریات کے سانچے میں ڈھالا۔ 

صرف میڈیا ہی کا کمال ہے کہ کوئی بھی اسلامی ملک اپنے موقف میں کتنا ہی حق بجانب کیوں نہ ہو، عالمی سطح پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اور وہ سربراہانِ حکومت جو مغربی مفادات کے خلاف کام کرتے ہیں انہیں تمسخر کا نشانہ بنادیا جاتا ہے۔ غور کیجئے تو محسوس ہو گا کہ یہ ایک طرح سے ہماری غلامانہ ذہنیت کی علامت ہے۔ 

کبھی کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ جب کسی ناقابلِ قبول حکمران کو بدلنا مقصود ہوتا ہے تو میڈیا سے ہراول دستے کا کام لیا جاتا ہے، وہ اس طرح کہ مغربی میڈیا بڑی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں کی ملی بھگت سے ایسے حکمرانوں کی ذاتی زندگی اور قومی کردار کے بارے میں من گھڑت کہانیاں شائع کرتا ہے، اور آزادئ اظہار کے نام پر ان شخصیات کی اس طرح کردار کشی کی جاتی ہے کہ نہ صرف عالمی سطح پر ان کا امیج خراب ہوتا ہے بلکہ خود ان ممالک کے عوام بھی اپنے حکمرانوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ آپ نے اکثر مشاہدہ کیا ہو گا کہ بڑی طاقتوں کے لئے ’’نا پسندیدہ حکمرانوں‘‘ کے بارے میں عجیب و غریب خفیہ داستانیں پھیلائی جاتی ہیں، جب کہ اپنے حواری اور پسندیدہ حکمرانوں کی ایسی حرکات چھپائی جاتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں میڈیا کا کردار فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گیا ہے، اور جو مقاصد ماضی میں فوجی یلغار سے حاصل کئے جاتے تھے وہ مقاصد اب میڈیا کی یلغار سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

مغربی میڈیا کی مہربانی سے ایک مردہ اصطلاح میں جان ڈالی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک متروکہ اصطلاح پوری دنیا میں مقبول ہو گئی۔ وہ اصطلاح ہے ’’فنڈامینٹلزم‘‘ یعنی ’’بنیاد پرستی‘‘۔ امریکہ اور انگلستان میں شائع شدہ انگریزی لغات کے مطابق فنڈامینٹلزم کا مطلب ہے:

’’عیسائیت کے پرانے اعتقادات پر یقین رکھنا۔‘‘

’’موجودہ عیسائیت جو سائنس سے متاثر ہے، اس کے مقابلے میں پرانی تعلیمات اور بائیل کے اصل الفاظ کو ماننا۔‘‘

عیسائیت میں تو بنیاد پرستی سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ عیسائیت میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خاصی تبدیلی آئی ہے بلکہ خود بائبل بھی اصلی حالت میں موجود نہیں رہی، لیکن جہاں تک اسلام کا تعلق ہے ہمارا ایمان ہے کہ اسلام بدلا ہے نہ قرآن، اور نہ ہی قرآن قیامت تک بدلے گا۔ اسلام کے بنیادی عقائد وہی ہیں جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے تھے۔ اگرچہ اسلام میں مذہبی فرقوں کی کمی نہیں لیکن اختلاف تفصیلات پر ہے نہ کہ بنیادی عقائد پر۔ چنانچہ اسلام میں دراصل بنیاد پرستی کا تصور اس طرح موجود نہیں جس طرح عیسائیت میں ہے۔ لیکن مغربی میڈیا نے اسلام میں بنیاد پرستی کی اصطلاح ایجاد کر کے ان مسلمانوں کو نفرت اور تضحیک کا نشانہ بنایا ہے جو عملاً‌ مسلمان ہیں۔ 

میرے نزدیک اسلام میں بنیاد پرستی کا مطلب اسلام کے بنیادی عقائد پر عمل کرنا ہے، یعنی ہر وہ مسلمان جو نماز پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، اور زکوۃ ادا کرتا ہے، اسے مغربی میڈیا بنیاد پرست مسلمان کہے گا۔ ہمارے ایک بزرگ دوست کے بقول اگر مسلمان نماز پڑھتا ہے تو وہ بنیاد پرست ہے لیکن اگر وہ تہجد پڑھتا ہے تو پھر وہ بہرصورت ’’دہشت گرد‘‘ ہے۔

کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ یہ اصطلاح چند برس قبل افغانستان کی جنگ کے حوالے سے استعمال ہونی شروع ہوئی، اور چند ہی برسوں میں اس نے دنیائے اسلام کو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ مغربی میڈیا نے نہایت ہوشیاری سے بنیاد پرستی کا مطلب جاہل، ترتی دشمن، دہشت گرد، دقیانوی اور کٹر نظریات کے مفہوم کے طور پر پیش کیا۔ بلکہ اس قدر زور و شور سے اس کا شور مچایا کہ ہر مسلمان ہاتھ باندھ کر کہنے لگا کہ حضور میں بنیاد پرست نہیں ہوں۔ حالانکہ بنیاد پرستی کا مطلب فقط اسلام کے بنیادی عقائد پر عمل کرتا ہے اور اس کا مطلب ہرگز دہشت گردی یا دقیانوسی نہیں۔ چنانچہ اب جب بھی کوئی مغربی صحافی اسلامی ممالک میں جاتا ہے اور سربراہان حکومت یا دوسری اہم ملکی شخصیات سے یہ سوال پوچھتا ہے کہ کیا آپ بنیاد پرست ہیں؟ تو جواب ملتا ہے کہ ہم بالکل بنیاد پرست نہیں، ہم اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اسلام کے بنیادی اراکین پر یقین رکھتے ہیں نہ عمل کرتے ہیں۔ 

خود مغربی میڈیا بنیاد پرستی کا لیبل لگانے میں کس قدر انصاف سے کام لیتا ہے، اس کا اندازہ صرف اس ایک مثال سے لگائیے کہ جب تک گلبدین حکمت یار افغانستان میں روی قبضے کے خلاف لڑ رہا تھا جس سے امریکی مفادات حاصل ہوتے تھے، تو وہ جنگِ آزادی کا ہیرو تھا۔ لیکن جب روس کی شکست کے بعد اس نے امریکی لائن پر چلنے سے انکار کیا تو مغربی میڈیا نے اسے بنیاد پرست کمه کر مسترد کر دیا۔ گویا مغربی ممالک اپنے میڈیا کو ایک طرح سے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں جو ایٹم بم سے کم خطرناک نہیں ہے۔

مغربی میڈیا نے اسلامی بنیاد پرستی کے تصور کو جس طرح مسخ کیا ہے اور اس کا مفہوم بدل کر دنیائے اسلام کو معذرت خواہ بنا لیا ہے، اس کی ایک تازہ مثال پاکستان کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی وہ رپورٹ ہے جس کا ایک حصہ بعض اردو اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ مجھے یہ رپورٹ پڑھنے کا موقعہ نہیں ملا لیکن اس کے ایک فقرے نے مجھے چونکا دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اپنی تحقیق کی وضاحت کی ہو اور اپنے نتائج کے حق میں دلائل دیئے ہوں لیکن بہر حال یہ فقره قابلِ غور ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ میڈیا کس طرح اسلامی بنیاد پرستی کا حلیہ بگاڑ رہا ہے۔ اخبارات کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 

’’خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی وجہ اسلامی بنیاد پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔‘‘

اب ذرا اس کا تجزیہ کیجئے کہ اسلامی بنیاد پرستی کے رجحان کا مطلب کیا ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی کا مطلب انسان کا مذہبی ہونا اور شریعت کا پابند ہوتا ہے۔ گویا اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مذہب کا رجحان بڑھ رہا ہے جس کے سبب عورتوں سے زیادتی کے مقدمات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ غور کیجئے کہ کس قدر خطرناک ہے یہ بات۔

اس کے بر عکس ہم سمجھتے ہیں کہ صحیح اور سچا مسلمان، جسے عاقبت کا خوف ہو، جو شریعت کا پابند ہو، اور جسے یومِ حساب کا احساس ہو، وہ ایسا فعل کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، کجا یہ کہ اس میں برائی کا رجحان بڑھے۔ اسی طرح وہ اسلامی ممالک جہاں اسلامی شرعی سزائیں نافذ ہیں اور جنہیں بنیاد پرستی کا طعنہ دیا جاتا ہے، ان معاشروں میں عورت جس قدر محفوظ ہے اس کا تصور بھی مغرب کے آزاد معاشرے میں نہیں کیا جاسکتا ۔ سعودی عرب میں عورتوں سے زیادتی کے واقعات بہت ہی کم ہوتے ہیں، جب کہ نیویارک میں ہر پانچ منٹوں کے بعد عورت سے زیادتی کی واردات رپورٹ ہوتی ہے۔ کیا امریکہ بھی بنیاد پرست ہے کہ وہاں عورتوں سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ایسا نہیں تو مغربی ممالک میں تمام تر مادر پدر آزادی کے باوجود عورتوں سے زیادتی کے واقعات اتنی بڑی تعداد میں کیوں ہوتے ہیں؟

میں اسی پہلو پر مزید لکھ کر رپورٹ کے بارے میں غلط فہمیاں نہیں کرنا چاہتا۔ مقصد فقط یہ ثابت کرنا تھا کہ موجودہ دور میڈیا کا دور ہے، میڈیا کی لگام مغرب کے ہاتھ میں ہے، اور وہ میڈیا کے زور پر ہمارے ذہنوں پر چھایا ہوا ہے۔ بنیاد پرستی کا پراپیگنڈہ اس مہم کا حصہ ہے حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ مغرب اسلام کے احیاء اور اسلامی ممالک میں عوامی سطح پر ابھرتی ہوئی مذہبی لہر سے خوف زدہ ہے، جس کا مقابلہ کرنے کے لئے مغربی میڈیا نے بنیاد پرستی کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ مغرب سے اس قدر متاثر ہے کہ وہ مغربی نظریات، تصورات اور اصطلاحیں آنکھیں بند کر کے قبول کر لیتا ہے۔ گویا ہم نے مغرب سے جسمانی غلامی سے تو نجات کر لی ہے لیکن ذہنی غلامی سے نہیں۔ ذہنی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے بھی اسی طرح تحریکیں چلانے کی ضرورت ہے جس طرح ہم نے آزادی کے حصول کے لئے تحریکیں چلائی تھیں۔

(بشکریہ ’’جنگ‘‘ لاہور ۲۲ جنوری ۱۹۹۳ء)


عالم اسلام اور مغرب

انسانی حقوق

(جنوری ۱۹۹۶ء)

جنوری ۱۹۹۶ء

جلد ۷ ۔ شمارہ ۱

بلبلاتا ہوا انسانی معاشرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسانی اخلاق کی چار بنیادیں
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

انسانی حقوق کا اسلامی تصور
مولانا مفتی فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی

انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ
ابو صباحت

اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اسلامی تعلیمات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ پر ایک نظر
مولانا مفتی عبد الشکور ترمذی

انسانی حقوق کے چارٹر کی بعض متنازعہ شقیں
مولانا مشتاق احمد

انسانی حقوق اور سیرتِ نبویؐ
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مغربی میڈیا، انسانی حقوق، اسلامی بنیاد پرستی اور ہم
ڈاکٹر صفدر محمود

حقوقِ نسواں اور خواتین کی عالمی کانفرنسیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حاجی عبد المتین چوہان مرحوم
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

معدے کی تیزابیت دور کرنے کے لیے موسمی کا ناشتہ
حکیم عبد الرشید شاہد

’’الشریعہ‘‘ کا نیا دور
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دنیا و آخرت کی فلاح حضرت شاہ ولی اللہؒ کی نظر میں
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

Flag Counter