انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ

ترجمہ: ابو صباحت

تمہید

ہر گاہ کہ نوع انسانی کے جملہ افراد کی فطری تکریم اور ان کے مساوی اور ناقابلِ انتقال حقوق دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد ہیں۔ 

ہر گاہ کہ انسانی حقوق کو نظر انداز کرنے اور ان کے خلاف ورزی کرنے کا نتیجہ ایسے وحشیانہ اعمال کی صورت میں نکلا ہے، جنہوں نے انسانیت کے ضمیر کو روند ڈالا، اور یہ کہ اب باقاعدہ طور پر اس امر کا اعلان کر دیا گیا ہے کہ ایک عام آدمی کی سب سے بڑی تمنا ایک ایسی دنیا کی تخلیق ہے جس میں تمام انسان آزادئ رائے و عقیدہ سے اور خوف اور محتاجی سے آزاد زندگی سے لطف اندوز ہوں۔ 

ہر گاہ کہ اگر آخری چارۂ کار کے طور پر جبر اور استبداد کے خلاف انسان کو بغاوت پر اترنے کے لیے مجبور نہیں کرنا ہے، تو یہ ضروری ہے کہ قانون کی حکومت کے ذریعے انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ 

ہر گاہ کہ یہ ضروری ہے کہ قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ دیا جائے۔ 

ہر گاہ کہ اقوام متحدہ کی اقوام نے منشور میں بنیادی انسانی حقوق پر، انسان کی تکریم و قدر و قیمت پر، اور مردوں و عورتوں کے مساوی حقوق پر اپنے ایمان کی توثیق کی ہے۔ اور تہیہ کیا ہے کہ سماجی ترقی اور بہتر معیارِ زندگی کو وسیع تر آزادی کے ساتھ فروغ دیا جائے۔ 

ہر گاہ کہ رکن ریاستوں نے باہم عہد کیا ہے کہ اقوام متحدہ سے تعاون کرتے ہوئے  انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا عالمگیر طور پر احترام اور ان کی پابندی کے عمل کو فروغ دیں گی۔

ہر گاہ کہ ان حقوق اور آزادیوں کے بارے میں عام مفاہمت انتہائی اہم ہے تاکہ اس عہد کو مکمل طور پر پورا کیا جائے۔ 

لہٰذا اب جنرل اسمبلی تمام اقوام کے لیے حصول کے عام معیار کے طور پر انسانی حقوق کے اس عالمگیر اعلامیہ کا اعلان کرتی ہے کہ ان حقوق اور آزادیوں کے لیے احترام کو فروغ دینے کے لیے بتدریج اقدامات کے ذریعے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہر فرد اور معاشرے کا ہر عضو، اس اعلامیہ کو ہمیشہ ذہن میں رکھتے ہوئے، تعلیم و تعلم کے ذریعے جدوجہد کرے گا۔ تا کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے مابین اور ان کے زیر تسلط علاقوں میں بھی، ان کو عالمگیر طور پر اور مؤثر طریقے سے تسلیم کیا جائے اور ان کی پابندی کی جائے۔

مساواتِ انسانی

ا۔ تمام انسان آزاد اور تکریم و حقوق کے لحاظ سے برابر ہوتے ہیں، انہیں پیدائشی طور پر عقل اور ضمیر عطا کیا جاتا ہے، اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ سلوک کرنا چاہئے۔

عدمِ امتیاز

۲۔ ہر شخص کسی بھی قسم کے امتیاز جیسے نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب، سیاسی یا دیگر رائے، قومی یا معاشرتی اصل، جائیداد، پیدائشی یا کسی دیگر حیثیت کے بغیر، اس اعلامیہ میں مذکور تمام حقوق اور آزادیوں کا مستحق ہے۔ 

مزید برآں اگر کوئی ملک یا علاقہ حاکمانہ اختیار رکھتا ہو، یا کسی اور بین الاقوامی حیثیت کا مالک ہو، خواہ یہ ملک یا علاقہ آزاد ہو، یا اقوام متحدہ کے زیر انتداب ہو، یا غیر حکومت خود اختیاری میں ہو، یا محدوداً‌ خودمختار ہو، تو ان سب سے تعلق رکھنے والوں میں سے کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔

ذات اور آزادی کا تحفظ

۳۔ ہر شخص زندگی، آزادی اور اپنی ذات کے تحفظ کا حق رکھتا ہے۔

انسدادِ غلامی

۴۔ کسی شخص کو غلام کی حیثیت سے یا غلامی میں نہیں رکھا جائے گا، غلامی اور غلامی کی تجارت اپنی تمام صورتوں میں ممنوع ہوگی۔

تشدد کا خاتمہ 

۵۔ کسی شخص کو تشدد اور ظلم کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ اور کسی شخص کے ساتھ غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک نہیں کیا جائے گا، یا ایسی سزا نہیں دی جائے گی۔ 

فرد کی حیثیت سے شناخت

۶۔ ہر شخص ہر جگہ قانون کے سامنے ایک فرد کی حیثیت سے پہچانے جانے کا حق رکھتا ہے۔

قانونی مساوات

۷۔ قانون کی نظر میں سب مساوی حیثیت رکھتے ہیں اور کسی امتیاز کے بغیر مساوی قانونی تحفظ کا حق رکھتے ہیں، ان کو اس اعلامیہ کی خلاف ورزی کی صورت میں کسی امتیاز کے بغیر تحفظ حاصل ہے اور اس امتیاز پر اشتعال پیدا کرنے کی صورت میں بھی۔

مؤثر دادرسی

۸۔ دستور یا قانون نے جو بنیادی حقوق عطا کیے ہوں، ان کی خلاف ورزی کرنے پر متازه شخص کو مجاز قومی عدالتوں سے مؤثر دادرسی حاصل کرنے کا حق ہے۔

ناجائز جبس و جلا وطنی

۹۔ کسی شخص کو من مانے طور پر محبوس یا جلا وطن نہیں کیا جائے گا۔

منصفانہ سماعت

۱۰۔ ہر شخص مکمل مساوات کے ساتھ اس امر کا مستحق ہے کہ آزاد اور غیر جانبدار عدالت میں اس کے حقوق اور فرائض کے تعین میں اور اس کے خلاف فوجداری جرم میں منصفانہ اور کھلے بندوں سماعت کی جائے۔

دفاع کے لیے ضروری سہولتیں

۱۱۔ (۱) ہر شخص، جس پر کسی تعزیری جرم کا الزام لگایا جائے، اس امر کا حق رکھتا ہے کہ اسے اس وقت تک بے گناہ سمجھا جائے، جب تک کھلی عدالت میں قانون کے مطابق وہ قصور وار ثابت نہ ہو جائے، جب کہ اس عدالت میں دفاع کے لیے اسے ضروری سہولتوں  کی ضمانت میسر ہو۔ 

(۲) کسی شخص کو ایسے فعل یا ترکِ فعل کی وجہ سے تعزیری جرم کا مجرم قرار نہیں دیا جائے گا، جو ایسے جرم کے ارتکاب کے وقت کسی قومی یا بین الاقوامی قانون کی رو سے تعزیری جرم کی حیثیت نہیں رکھتا تھا، نہ ہی اس سے شدید سزا دی جائے گی جو ارتکابِ جرم کے وقت اطلاق پذیر تھی۔

خلوت میں مداخلت

۱۲۔ من مانے طور پر کسی شخص کی خلوت، خاندان، گھر یا خط و کتابت میں مداخلت نہیں کی جائے گی، اور نہ ہی اس کی عزت اور شہرت پر کوئی حملہ کیا جائے گا۔ ہر شخص کو ایسی مداخلت یا حملے کے خلاف قانون کے تحفظ کا حق حاصل ہو گا۔ 

نقل و حرکت و رہائش کی آزادی

۱۳۔ (۱) ہر شخص کو اس کے ملک کے حدود میں نقل و حرکت اور رہائش کی آزادی کا

حق ہو گا۔

(۲) ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ بشمول اپنے ملک کے کسی ملک کو چھوڑ سکتا ہے

اور اپنے ملک میں واپس آ سکتا ہے۔

پناہ کا حق

۱۴۔ (۱) ہر شخص ایذا رسانی سے بچنے کے لیے دوسرے ملکوں میں پناہ لے سکتا ہے اور اس پناہ سے مستفید ہو سکتا ہے۔ 

(۲) یہ حق اس صورت میں استعمال نہیں ہو سکے گا جب غیر سیاسی جرائم کے نتیجے میں دی جانے والی اذیت جائز طور پر دی جائے، یا اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کے خلاف افعال کے ارتکاب کے نتیجے میں دی جانے والی اذیت جائز طور پر دی جائے۔

قومیت

۱۵۔ (۱) ہر شخص کو کوئی قومیت اختیار کرنے کا حق حاصل ہے۔ 

(۲) کسی شخص کو اس کی قومیت سے من مانے طور پر محروم نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس کے قومیت تبدیل کرنے کے حق سے انکار کیا جائے گا۔ 

آزاد مرضی سے شادی

۱۶۔ (۱) پوری عمر کے مردوں اور عورتوں کو نسل، قومیت یا مذہب کی کسی تحدید کے بغیر باہم شادی کرنے اور خاندان کی بنیاد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ شادی، دورانِ شادی اور اس کی تنسیخ کے سلسلے میں وہ مساوی حقوق رکھتے ہیں۔

(۲) شادی کے خواہش مند جوڑوں کی آزاد اور پوری مرضی سے ہی شادی کی جا سکے گی۔

(۳) خاندان معاشرے کا قدرتی اور بنیادی اکائی گروپ ہے اور معاشرے اور ریاست کی طرف سے تحفظ کا حق رکھتا ہے۔

جائیداد کا حصول 

۱۷۔ (۱) ہر شخص کو خود اپنے لیے اور دوسرے کی شرکت کے ساتھ جائیداد حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ 

(۲) کسی شخص کو من مانے طور پر اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جائے گا۔

آزادئ ضمیر و آزادئ عقیدہ

۱۸۔ ہر شخص کو آزادئ خیال، آزادئ ضمیر اور آزادئ مذہب کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں اپنا مذہب یا عقیدہ تبدیل کرنے، اور انفرادی اور اجتماعی طور پر علیحدگی میں یا سب کے سامنے، اپنے مذہب یا عقیدے کی تعلیم، اس پر عمل، اس کے مطابق عبادت کرنے اور اس کی پابندی کرنے کی آزادی کا حق شامل ہے۔ 

آزادئ رائے و آزادئ اظہار

۱۹۔ ہر شخص کو آزادئ رائے اور آزادئ اظہار کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں بلا مداخلت رائے رکھنے کی آزادی اور بلا لحاظ علاقائی حدود کسی بھی ذریعے سے اطلاعات اور نظریات تلاش کرنے، حاصل کرنے، اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کی آزادی شامل ہے۔

اجتماع و جماعت سازی

۲۰۔ (۱) ہر شخص کو پر امن اجتماع اور جماعت سازی کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ 

(۲) کسی شخص کو کسی جماعت سے ملحق ہونے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔

حکومت اور ملازمت میں حصہ

۲۱- (۱) ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ براہ راست یا آزادی سے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنے ملک کی حکومت میں حصہ لے۔

(۲) ہر شخص کو اپنے ملک کی سرکاری ملازمتوں میں مساوی رسائی کا حق حاصل ہے۔ 

(۳) عوام کی مرضی حکومت کے اقتدار کی بنیاد ہوگی۔ یہ مرضی وقفے وقفے سے اور ایسے صحیح انتخابات کے ذریعے ظاہر کی جائے گی جو عالمگیر اور مساوی رائے دہندگی پر مبنی ہوں اور خفیہ یکساں آزاد رائے دہی کے طریقے پر عمل میں آئے گی۔

معاشرتی حقوق

۲۲۔ معاشرے کے رکن کی حیثیت سے ہر شخص کو معاشرتی تحفظ کا حق حاصل ہے۔ اور قومی کوششوں اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے اور ہر ریاست کی تنظیم اور ذرائع کے مطابق ایسے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق، جو اس کی شخصیت کی تکریم اور آزاد نشوونما کے لیے ضروری ہوں، حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے۔

روزگار

۲۳۔ (۱) ہر شخص کو کام، ملازمت کا آزادانہ انتخاب، کام کے منصفانہ اور موافق حالات اور بے روزگاری کے خلاف تحفظ کا حق حاصل ہے۔

(۲) ہر شخص کو بلا امتیاز مساوی تنخواہ اور مساوی کام کا حق حاصل ہے۔

(۳) ہر شخص جو کام کرتا ہے، ایسے منصفانہ اور موافق معاوضے کا حق رکھتا ہے جو اس کو اور اس کے خاندان کو زندہ رکھے، اسے انسانی تکریم کے قابل بنائے، اور اگر ضروری ہو، معاشرتی تحفظ کے دیگر ذرائع سے اس میں اضافہ کرے۔ 

(۲) ہر شخص اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ٹریڈ یونین بنانے اور اس میں شامل ہونے کا حق رکھتا ہے۔

آرام و تفریح

۲۴۔ ہر شخص آرام و تفریح کا حق رکھتا ہے، اس حق میں اوقات کار اور باتنخواہ موقت  تعطیل کے بارے میں تحدید کا حق شامل ہے۔ 

بہتر معیارِ زندگی اور ماں و بچے کے حقوق

۲۵۔ (۱) ہر شخص کو ایسے معیارِ زندگی کا حق حاصل ہے جو اس کی اور اس کے خاندان کی صحت اور بہودی، بشمول غذا، لباس، رہائش، طبی دیکھ بھال، اور ضروری سماجی خدمات کے حصول کے لیے کافی ہو۔ اور وہ بے روزگاری، بیماری، معذوری، بیوگی پیرانہ سالی، یا اس کے اختیار سے باہر کے حالات میں واقع ہونے والی عدمِ روزگار کی دیگر صورت حال میں تحفظ کا حق رکھتا ہے۔ 

(۲) ماں اور بچے کو خصوصی توجہ اور مدد کا حق حاصل ہے۔ تمام بچے، خواہ وہ شادی کے نتیجے میں پیدا ہوں یا بغیر شادی کے پیدا ہوں، یکساں سماجی تحفظ سے بہرہ ور ہونے کا حق رکھتے ہیں۔

تعلیم

۳۶۔ (۱) ہر شخص کو تعلیم کے حصول کا حق حاصل ہے۔ تعلیم مفت ہوگی، کم از کم ابتدائی اور بنیادی سطح پر۔ ابتدائی تعلیم لازمی ہوگی، تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم عمومی طور پر میسر کی جائے گی، اور اعلیٰ تعلیم تک اہمیت کے مطابق یکساں طور پر ہر شخص کی رسائی ہوگی۔ 

(۲) تعلیم کا مقصد انسانی شخصیت کی مکمل نشوونما اور انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام کی پختگی کا حصول ہو گا۔ تعلیم تمام اقوام، نسلی اور مذہبی گروہوں میں مفاہمت، رواداری اور دوستی کو فروغ دے گی، اور قیامِ امن کے لیے اقوام متحدہ کی سرگرمیوں کو آگے بڑھائے گی۔

(۳) والدین کو اپنے بچوں کو دی جانے والی تعلیم کے انتخاب کا ترجیجی حق حاصل ہو گا۔

ثقافتی و تخلیقی حقوق

۲۷۔ (۱) ہر شخص کو آزادنہ طور پر معاشرے کی ثقافتی زندگی میں حصہ لینے، فنونِ لطیفہ سے حظ اٹھانے، اور سائنسی ترقی اور اس کے فوائد سے مستفید ہونے کا حق حاصل ہے۔ 

(۲) ہر شخص سائنسی، ادبی اور فنونِ لطیفہ کی تخلیقات، جس کا کہ وہ شخص خالق ہو، کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے اخلاقی اور مادی فوائد کے تحفظ کا حق رکھتا ہے۔ 

حقوق کے حصول کے لیے سازگار حالات

۲۸۔ هر شخص ایسے معاشرتی اور بین الاقوامی نظم کا حق رکھتا ہے جس میں اس اعلامیہ میں مندرج حقوق اور آزادیوں کو پورے طور پر حاصل کیا جا سکے۔

حقوق کے سلسلے میں فرد کی ذمہ داری

۲۹۔ (۱) ہر شخص ایسے معاشرے کے قیام کا ذمہ دار ہے جس میں اس کی شخصیت کی آزاد اور مکمل نشوونما ممکن ہو۔ 

(۲) اپنے حقوق اور آزادیوں سے استفادہ کرتے ہوئے ہر شخص صرف ایسی پابندیوں کی متابعت کرے گا جو قانون کے ذریعے مقرر کی جائیں گی۔ اور ان قوانین کا صرف یہ مقصد ہوگا کہ دوسروں کے حقوق اور آزادیوں کے احترام کو تسلیم کرایا جائے، اور ایک جمہوری معاشرے میں اخلاق، نظمِ عامہ اور بہبودئ عامہ کے منصفانہ تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ 

(۳) ان حقوق اور آزادیوں کو اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کے خلاف کاموں میں استعمال نہیں کیا جائے گا۔

اعلامیہ ہذا کی تعبیر

۳۰۔ اس اعلامیہ میں کسی امر کی ایسی تعبیر نہیں کی جائے گی جس سے کسی ریاست، گروہ یا فرد کو یہ حق ملے کہ وہ اس میں شامل حقوق اور آزادیوں کو تباہ کرنے کے مقصد سے کوئی سرگرمی یا فعل انجام دے سکے۔

(بشکریہ ماہنامہ نوائے قانون اسلام آباد) 


انسانی حقوق

(جنوری ۱۹۹۶ء)

جنوری ۱۹۹۶ء

جلد ۷ ۔ شمارہ ۱

بلبلاتا ہوا انسانی معاشرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسانی اخلاق کی چار بنیادیں
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

انسانی حقوق کا اسلامی تصور
مولانا مفتی فضیل الرحمٰن ہلال عثمانی

انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ
ابو صباحت

اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا چارٹر اور اسلامی تعلیمات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ پر ایک نظر
مولانا مفتی عبد الشکور ترمذی

انسانی حقوق کے چارٹر کی بعض متنازعہ شقیں
مولانا مشتاق احمد

انسانی حقوق اور سیرتِ نبویؐ
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مغربی میڈیا، انسانی حقوق، اسلامی بنیاد پرستی اور ہم
ڈاکٹر صفدر محمود

حقوقِ نسواں اور خواتین کی عالمی کانفرنسیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حاجی عبد المتین چوہان مرحوم
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

معدے کی تیزابیت دور کرنے کے لیے موسمی کا ناشتہ
حکیم عبد الرشید شاہد

’’الشریعہ‘‘ کا نیا دور
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دنیا و آخرت کی فلاح حضرت شاہ ولی اللہؒ کی نظر میں
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

Flag Counter