انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ زیر نظر ہے، اس پر تبصرے کے لیے مختصر طور پر یہ گزارش ہے انسانی حقوق کی تفصیل سے پہلے کہ وہ کون کون سے ہیں اور ان میں سے کون سا حق صحیح ہے اور کون سا غلط؟ اصولی طور پر اس کا فیصلہ کرنا اور اس کی تعیین ضروری ہے کہ ان حقوق کی تعیین کا حق کس کو ہے اور ان کی تعیین کا معیار کیا ہے؟
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ انسانی حقوق کی تعیین اور تفصیل عقلِ انسانی کے ذریعے ہو سکتی ہے اور یہی عقل ان انسانی حقوق کی تعیین کا معیار بن سکتی ہے۔ چنانچہ اسی کو معیار بنا کر انسانی حقوق کا ایک اعلامیہ اقوام متحدہ نے بھی جاری کر رکھا ہے، لیکن یہ معیار اور تعیینِ حقوق کا طریقہ خود عقل کے خلاف ہے، اس لیے کہ عقلِ انسانی میں خلقتًا بہت فرق ہے۔ کسی کی عقل کم اور کسی کی درمیانی درجہ کی اور کسی کی کامل درجہ کی ہوتی ہے، اور یہ بات مشاہدے سے بداہتاً معلوم اور ثابت ہے۔ خود اس کا فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ فلاں شخص کی عقل کس درجہ کی ہے؟ ہر شخص دعویٰ کر سکتا ہے کہ میری عقل کامل درجے کی ہے۔ جب عقلِ انسانی کے اندر خلقی اور فطری تفاوت پایا جاتا ہے تو اس کو حقوقِ انسانی کی تعیین کے لیے کیسے معیار بنایا جا سکتا ہے؟
اس لیے اسلامی تعلیمات کے مطابق انسانی حقوق کی تعیین کا حق تمام کائنات اور انسانوں کے خالق صرف اللہ رب العزت کو ہی ہے۔ اور جو حقوق اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے معین اور مقرر کر دیے ہیں انہی حقوق کے وہ جائز طور پر مستحق ہیں۔ اپنی طرف سے عقلِ انسانی کے تجویز کیے ہوئے حقوق، حقوق کہلانے کے ہی مستحق نہیں ہیں۔ اب اس تجویز کی بنیاد پر کسی کے حقوق کا تحفظ کرنا، ایسے حقوق کے تحفظ کا دعویٰ کرنا ہے جو درحقیقت حقوق نہیں ہیں بلکہ کسی عقلِ انسانی کی خود تراشیدہ اور من گھڑت تجویزیں ہیں، جن کو وہ دوسرے انسانوں پر بجبر نافذ کرنا چاہتا ہے، اور ان کو اپنی عقل کا تابع اور غلام بنا کر دوسروں سے اپنی عقل کی خدائی منوانا چاہتا ہے۔
ایسے حقوق جس کو عقلِ انسانی نے تجویز کیا ہو، اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ ان کو تجویز کرنے والی عقل کس درجہ کی ہے، ان کو بغیر چوں و چرا تسلیم کر لینا خود عقل کے خلاف ہے، اور خالقِ کائنات کے بجائے عقلِ انسانی کو خالق کا درجہ دینے کے مترادف ہے۔ مقصد یہ ہے کہ عقلِ انسانی اول تو خود محدود اور ایک حد پر جا کر ختم ہو جاتی ہے۔ دوسرے عقلوں میں باہم اختلاف اور تضاد پایا جاتا ہے، دو انسانوں کی عقل بھی برابر و مساوی نہیں ہوتی اور اس اختلاف کو مٹایا نہیں جا سکتا، یہ فطری اور خلقی ہوتا ہے۔ اس لیے وہ حقوق کے متعین کرنے کے لیے نہ صرف یہ کہ کافی نہیں بلکہ نہایت درجہ مضرت رساں اور باعثِ فساد ہے۔
اب صرف ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ ذاتِ گرامی جس نے پوری کائنات کو پیدا کیا وہی ان کے حقوق بھی متعین کرے۔ وہی بتلائے کہ انسانی حقوق کون سے ہیں، اور ان کے تحفظ کا کیا طریقہ ہے۔ خالقِ کائنات کے بتلائے ہوئے حقوق اور ان کے تحفظ کے طریقے کو بلا چوں و چرا تسلیم کر لینا مخلوق پر اس کا حق ہے، ان کو تسلیم نہ کرنا خالق کی حق تلفی اور اس کی بغاوت ہے۔ اس لیے اللہ کو تسلیم کرنا عقل کا بھی تقاضا ہے۔ اور سطحی نظر سے دیکھنے والوں کو جو ان پر کچھ عقلی اشکالات پیش آتے ہیں وہ ان کی عقل کی کمی اور کج فہمی کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔
یہ اللہ تعالی کا بڑا کرم اور احسانِ عظیم ہے کہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنے حقوق کے ساتھ انسانوں کے بلکہ حیوانات کے بھی حقوق متعین کر دیے۔ خدا اور رسول کے بتلائے ہوئے ان حقوق پر عمل کرنا امنِ عامہ کا ضامن ہے۔
حقوقِ انسانی کے دعوے دار عام طور پر خدا اور رسول کی مقرر کردہ سزاؤں کو سخت بتلاتے ہیں۔ اس اعلامیہ میں بھی اس کو ’’تشدد‘‘ کہا گیا ہے اور ان کو حقوقِ انسانی کے خلاف کہتے ہیں۔ مگر جن جرائم پر یہ سزائیں مقرر کی گئی ہیں ان کے ارتکاب سے اللہ تعالیٰ اور حقوقِ انسانی کی کتنی حق تلفی اور خلاف ورزی ہوتی ہے، اس پر غور نہیں کرتے۔ گویا جرائم پیشہ لوگوں پر رحم کے آنسو بہاتے ہیں، مگر جن لوگوں کی زندگی ان جرائم پیشہ لوگوں کی وجہ سے خطرے میں ہے، نہ ان کی جان محفوظ، نہ ان کا مال محفوظ، نہ ان کی عزت کا پاس۔ ان پر ہمارے ان عقل پرستوں کو رحم نہیں آتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک مجرم پر ترس کھانا اور اس سے رحم کا معاملہ کرنا پوری انسانیت پر ظلم کرنے کے مترادف اور امنِ عامہ کو تباہ کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اسی لیے جب حدودِ شرعیہ کے احکام قرآن کریم میں نازل فرمائے گئے تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ لاتاخذ كم بهما رافة فی دين الله (پ ۱۸) یعنی اللہ کی حدود جاری کرنے میں ان مجرموں پر ہرگز ترس نہ کھانا چاہئے۔ دوسری طرف قصاص کو عالمِ انسانی کے امن کی اساس قرار دیا۔ ولكم فی القصاص حيٰوة یا اولی الالباب (پ ۲)۔
واقعہ بھی یہی ہے کہ ایسی سخت اور عبرتناک سزا، جس کے نفاذ کے بعد اس کی ہیبت لوگوں کے دل و دماغ پر مسلط ہو جائے، اور اس جرم کے پاس جاتے ہوئے بھی بدن پر لرزہ پڑنے لگے، وہی سزا ہمیشہ کے لیے انسدادِ جرائم اور امنِ عامہ کا ذریعہ بنتی ہیں۔
اسلامی حدود کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے، معلوم ہوتا ہے کہ وہ جرائم کا انسداد اور امنِ عامہ کا قیام چاہتے ہی نہیں۔ جن ممالک میں حدودِ شرعیہ نافذ کی جاتی ہیں، ان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آجائے گی کہ وہاں چوری، ڈاکہ، بے حیائی کا نام نظر نہیں آئے گا۔ سعودی عربیہ کے حالات کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔
انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ میں دفعہ ۲۹ شق نمبر ۲ میں لکھا ہے:
’’اپنے حقوق اور آزادیوں سے استفادہ کرتے ہوئے ہر شخص صرف ایسی پابندیوں کی متابعت کرے گا جو قانون کے ذریعے مقرر کی جائیں گی۔ ان قوانین کا صرف یہ مقصد ہوگا کہ دوسروں کے حقوق اور آزادیوں کے احترام کو تسلیم کرایا جائے اور ایک جمہوری معاشرے میں اخلاق، نظمِ عامہ اور بہبودئ عامہ کے منصفانہ تقاضوں کو پورا کیا جائے۔‘‘
جب ان قوانین کا مقصد حقوق اور آزادیوں کے احترام کو تسلیم کرلیا جانا ہے، اور اخلاق، نظمِ عامہ اور بہبودِ عامہ کے منصفانہ تقاضوں کو پورا کیا جانا ہے، تو اسلامی شرعی سزاؤں پر اعتراض کا کیا موقع ہے؟ کیا قتلِ انسانی میں دوسرے کی جان کی حق تلفی، مال کی چوری، اور ڈاکہ میں دوسرے کی مالی حق تلفی، اور زنا میں دوسرے کی بے عزتی اور بے حیائی کا ارتکاب نہیں ہے؟ کیا اس سے معاشرے میں بد اخلاقی نہیں پھیلتی اور نظمِ عامہ میں خلل واقع نہیں ہوتا؟
اسی طرح مذہبِ اسلام سے ارتداد اور عقیدے کی تبدیلی سے کیا حقِ اسلام اور معاشرۂ اسلامی میں خلل اور نظمِ عامہ تباہ نہیں ہوتا؟
ہر شخص کو آزادء مذہب کا حق حاصل ہے، جو مذہب چاہے رکھے، کسی خاص مذہب کے اختیار کرنے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا۔ لا اکراہ فی الدین دین کے معاملے میں زبردستی نہیں کے یہی معنی ہیں۔ لیکن مذہب اسلام کو قبول کر لینے کے بعد پھر اس کو تبدیل کرنا یہ اسلام اور حکومتِ اسلام کی اہانت اور حق تعالیٰ کی بغاوت ہے۔ سرکاری اہانت اور بغاوت اس سزا کے لائق ہے کہ اس کو قتل کر دیا جائے، مگر اسلام کی رحمتِ عامہ نے صنفِ نازک عورت کو اس سزا سے مستثنیٰ کر کے حبسِ دوام کی سزا اس کے لیے تجویز کر دی۔
اعلامیہ میں اگر آزادئ ضمیر اور آزادئ عقیدہ (۱۸) کا یہ مقصد ہے کہ تبدیلئ مذہبِ اسلام اور ارتداد کا بھی حق ہے، تو قطعاً حقِ اسلام کے خلاف اور اس کی پائمالی ہے۔ علمائے اسلام کی اس پر تحقیقات اور ازالہ شبہات تفصیل کے ساتھ شائع ہو چکی ہیں۔
اسی طرح آزاد مرضی سے شادی (۱۶)، شادی میں مذہب کی شرط نہ ہونے سے مراد اگر یہ ہے کہ کافر اور مسلم کا نکاح آپس میں ہو سکتا ہے تو یہ بھی قرآنی حکم کے خلاف ہونے کے ساتھ معاشرتی حقوق کے بھی خلاف ہے۔ اس عنوان کے تحت یہ جو لکھا ہے کہ ’’اس کی تنسیخ کے سلسلہ میں وہ مساوی حقوق رکھتے ہیں‘‘ اس سے مراد اگر یہ ہے کہ طلاق کا اختیار مرد کی طرح عورت کو بھی حاصل ہے تو یہ قطعی طور پر خلافِ اسلام ہے اور معاشرے میں فساد کا سبب ہے اور مرد کے حق پر ڈاکہ ہے۔
خلاصه گزارش یہ ہے کہ حقِ انسانی وہ ہے جسے اللہ تعالٰی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مقرر فرما دیا ہے، کسی کی عقل کا چاہے، وہ شخصِ واحد ہو یا کوئی ادارہ ہو، مقرر کیا ہوا کوئی حق، حق نہیں ہوتا۔ وماذا بعد الحق الا الضلال۔